قوم مردہ نہیں ....مکافات عمل ہے

جاوید قاضی  ہفتہ 5 ستمبر 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سنا ہے شہر میں اب مردہ گوشت بکتا ہے، ہر سمت دیو کا سایہ ہے۔ طویل تاریک لاہور کا بسیرا ہے، عوامی حلقوں میں شور برپا ہے ہر شے دو نمبر ہے، جمہوریت، معیار عدل و انصاف، ڈاکٹر، وکیل، استاد، انجینئر دو نمبر، لیڈر دو نمبر، لیڈر کے کارکن دو نمبر، پلاٹ دو نمبر، رہائشی منصوبے دو نمبر، مرغی کا گوشت، بکرے کا گوشت، دال، چائے، آٹا، چینی، مرچیں سب دو نمبر۔ اب تو دیکھنے والے کی بینائی بھی دو نمبر، وہ سنتا بھی دو نمبر ہے۔ دانشور، اینکر سب دو نمبر۔ اب جس سمت کو چل پڑیں ڈر ہے کہ کوئی حکم نہ صادر ہو کفر کا یا پھر وطن بدر نہ ہونا پڑ جائے۔ آج کل جلا وطنی بھی دو نمبر۔ یہاں تک کہ سول سوسائٹی دو نمبر، انسانی حقوق کے لڑنے والے دو نمبر، محب وطن دو نمبر۔

باقی جو ایک نمبری ہے وہ دو نمبری کا بھی استاد ہے۔آنکھوں میں ایسی دھول جھونکی کہ ایک عمر لگی یہ سراغ پانے میں۔ کہ سب سے بڑا کاروبار ہوا ہی بیلٹ باکس پر تو پھر طوفانوں کو کیا دوش دیجیے۔ طوفان تو طوفان ہوتا ہے اس سے کیا بعید ۔

وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا، وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے کے مانند، میرا پچھلا کالم ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘ بہت سے دوستوں کو اچھا نہیں لگا۔ وہ دوست جو جمہوریت کے شیدائی ہیں وہ یہ گمان کر بیٹھے کہ جیسے ہمارے لکھے پر جمہوریت کے ارتقائی سفر پر کوئی آنچ آئی ہو۔ دوست نہیں جانتے کہ جب نرگس اپنی بے نوری پر ہزاروں سال روتی ہے تب جا کے بڑی مشکل سے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔

بالکل اس وقت جو بھی ہے جمہوریت ہے، جیسی بھی ہے آمریت سے بہتر ہے، وہ آمریت چاہے کیوں نہ کسی بھلے جنرل کی لائی ہوئی ہو۔ آمریت آمریت ہی ہوتی ہے۔

وہ Nepotism کو جنم دیتی ہے، سب ماموں بھانجے مل جل کر مال بٹورتے ہیں۔’’عزیز ہم وطنو‘‘ کی جب بازگشت سننے میں آتی ہے، تب سب چوہے باغ پر ڈیرا جماتے ہیں اور بلبلیں اڑ جاتی ہیں۔ علی احمد راشدی جیسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں جو آمر کو بادشاہ ہونے کا فرماں جاری کرنے کو کہتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب گلیاں تنگ ہوجاتی ہیں، آمر کے نکلنے کا کوئی طریقہ مروج نہیں ہوتا خود اپنے اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف سوسائٹی پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔

ہر کوئی قانون توڑنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ کورٹوں میں ایسے منصف بھی آتے ہیں جن کو آمر کے ہر اقدام پر سر خم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

کئی گاندھی، کئی ایدھی، کئی دراب پٹیل پیدا ہونے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ بالکل ان دو معصوم 16 برس کے لڑکے اور لڑکی کی مانند، جن کے انجام سے یہ سب دو نمبر محسوس ہوتا ہے، ہر طرف نیلام دکھائی دیتا ہے انسانی جذبوں کا نیلام، وہ اس سماج ریت و رسم میں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا سنگم نہیں ہو پائے گا، اور لڑکا لڑکی سے رضامندی لے کر پہلے اس کو گولی مارتا ہے اور پھر خود کو ۔ یہ ابھی پرسوں کا واقعہ ہے دو بچوں کی خودکشی کا اور اس سے پہلے 300 کے لگ بھگ بچوں پر قصور میں کیا گزری۔ اس جمہوریت پر آمریت کا سایہ ہے، پھر بھی بہتر ہے ، بیس کروڑ لوگوں پر مبنی اس ملک میں اب بارہ کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ جمہوریت بری شے ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ اس جمہوریت پر آمریت کا سایہ ہے۔ وہی ’’بھوت‘‘ اس کے اندر رہتا ہے۔ آرٹیکل 63 کے مطابق کوئی ارکان اسمبلی اپنی پارٹی قیادت کے برخلاف قانون سازی کے عمل میں ووٹ نہیں دے سکتا، اگر ایسا کرے گا تو وہ اپنی رکنیت سے محروم بھی ہو سکتا ہے تو پھر کیسے ایک ووٹ بھی ان پارٹیوں کی ٹکٹ پر جیتے ہوئے ارکان نے 21 ویں ترمیم کے خلاف کیوں نہیں ڈالا ۔

انگریز سامراج کی طرح ان کو اپنے خاندان کے وفادار چاہئیں اور وفاداری کے ساتھ اپنے علاقے کے مضبوط لوگ بھی ہوں۔ اور ایسی مضبوطی پھر ایسے تو نہیں آتی، مافیا بنانی پڑتی ہے۔ لوگوں کو ڈرا کے دھمکا کے رکھنا پڑتا ہے تاکہ ساری زندگی پولیس تھانوں اور کچہری کے چکر کاٹتے رہیں ۔

عبدالحفیظ پیرزادہ اب ہم میں نہیں رہے۔ مگر ایک بات انھوں نے مجھے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی تھی کہ کورٹ کے آئین پر دیے ہوئے فیصلے رولر کوسٹر کی طرح ہوتے ہیں جب عوام بیدار ہوتے ہیں (جس طرح قانون کی حکمرانی کے زمانے میں تھے) تو کورٹ کے فیصلے بھی اچھے ہوتے ہیں اور جب عوام خود سو رہے ہوں تو پھر کورٹ کے فیصلے بھی برے ہوتے ہیں یا لگتے ہیں۔ لیکن اب کے بار موسم کچھ عجیب سا ہوگیا ہے ۔

ایک طرف آئین کہتا ہے کہ بنیادی ڈھانچہ ہے اور یہ بھی کہ نظریہ ضرورت بھی ہے۔ یہ نظر آیا ہمیں حالیہ 21 ویں ترمیم کے حوالے سے کورٹ کے فیصلے میں۔ تو پھر یوں کہیے کہ یہ قوم مردہ نہیں ہے، اس نیم سرگوشی کے عالم میں اب آمریت نہیں آسکتی جی ہاں ! لیکن نیم آمریت آسکتی ہے اور آئی بھی ہے چپکے چپکے ۔ تو پھر آپ ہی کہیے کیا جمہوریت کے رکھوالوں نے جمہوریت کی رکھوالی کی؟

ہمارے ہاں دو نمبر حکمرانی اگر کوئی نہیں ہے تو وہ سائیں قائم علی شاہ کی نہیں ہے ۔ اس لیے زرداری صاحب نے ان کو ایک نمبر کرسی دی ہے سندھ میں۔ نہ یہ کرسی ٹوٹتی ہے نہ یہ کرسی پر سے گرتے ہیں ، باقی رہی سندھ حکومت وہ بے چاری کب تک قائم علی شاہ صاحب کا بوجھ برداشت کرتی ، آپ نہ گرے مگر سندھ حکومت گر گئی۔

سندھ کی مڈل کلاس کی بنیادیں بھٹو صاحب نے ڈالیں، مصنوعی طریقے سے۔ ڈھیر ساری نوکریاں سندھیوں کو ملیں۔ اور بڑے بڑے اہم سرکاری شعبوں میں ملیں۔

سندھی مڈل کلاس اس سندھی مڈل کلاس سے بالکل الٹ تھی جو 1947 کے زمانوں میں ہندو ہونے کے ناطے ہندوستان ہجرت کرکے چلی گئی اور اب یہ بیوروکریسی والی مڈل کلاس انتہائی کرپٹ ثابت ہوئی ہے۔اک یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی، بیوروکریسی زرداری صاحب کے زمانے میں اب جیالوں کا نعم البدل ایک لحاظ سے ہے۔ اب کیونکہ پارٹی کو تحریک وغیرہ تو چلانی نہیں۔ باقی اگر مال بٹورنا ہے تو یہ بیوروکریسی ہے جس کے کارندے پیپلز پارٹی کے دست و بازو بن جاتے ہیں چنانچہ سندھ شریف افسران کا قبرستان ہے جس میں ان کو OSD لگایا جاتا ہے۔

اچھا نہیں کیا رینجرز نے اس بیوروکریسی کو اس حکومت سے دور کردیا۔ اب یہ بیوروکریسی حکومت کے غلط کام نہیں کرسکتی۔ لیکن کب تک ۔ ایک تو زاویہ یہ ہے کہ یہ ’’نرم شب خوں‘‘ ہے۔ دوسرا زاویہ ہے کہ کیوں یہ نرم شب خوں ہے؟ کیا سول حکومت کو نہ ہٹانا اور ساتھ احتساب کا عمل جاری رکھنا بھی نرم و گرم شب خوں ہے؟ میں نے بھی کچھ ایسا ہی کہا تھا ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘۔ اقربا پروری کی حد ہوگئی تھی، درجنوں افراد ٹارگٹ کلنگ میں مارے جاتے تھے۔

بھتہ لینا کوئی بری بات نہ رہی تھی۔ سیاسی پارٹیاں بغیر مسلح گروپوں کے اس شہر میں وجود نہیں رکھ سکتی تھیں۔ کون سا محکمہ تھا جو صحیح طرح کام کر رہا ہے، چائنا کٹنگ سے لے کر بل بورڈوں کا کاروبار، ندی نالوں پر پلاٹنگ، کراچی کے برابر میں ایک پورا کراچی امیروں کے لیے کھڑا کرنا جس کے لیے پانی کہاں سے فراہم ہوگا کچھ پتہ نہیں ، غریبوں کے لیے وہی کچی آبادیاں، وہی بوسیدہ اسپتال، ان کے بچوں کے لیے وہی گھوسٹ اسکول، کیا یہ بھٹو کی مساوات تھی؟ان کا تحفہ تھا؟

اس کے برعکس اگر ایسا نہ ہوتا، سسٹم فنکشن کر رہا ہوتا، پارٹیاں مافیائیں اور گینگسٹروں کے ٹولے نہ بنتے ، لوگوں کو ویلفیئر دیتے، تو پھر ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ نہ ہوتا۔

میرے خیال میں یہ ’’نرم شب خوں‘‘ شاید نہیں ہے، یہ مکافات عمل ہے اور جمہوریت ایک نئے موڑ پر آکر کھڑی ہوگئی ہے۔ اب ان خاندانوں کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے۔ اب کوئی سیاست سے ارب پتی نہیں بنے گا۔

اور اگر یہ ’’نرم شب خوں ہے‘‘ تو پھر ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘ جس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ہونا چاہیے۔ حقیقتیں آپ کے Value Judgements کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ’’ہونا چاہیے‘‘ اپنے جوہر میں ایک عرض ہے، کوئی دبی دبی سی خواہش ہے، حادثے تو ہوتے رہتے ہیں اور حادثے اچانک جنم نہیں لیتے۔

نرم شب خوں سے ہو یا مکمل شب خوں اس کے لیے آئین میں نہ کوئی جواب ہے نہ کوئی گنجائش۔ لیکن آئین یا قانون کے فلسفے میں اس کا جواب موجود ہے اور جواب یہی ہے ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘ اور یہی کہا تھا مجھے عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنے انٹرویو میں ۔۔۔ جب لوگ تالیاں بجا رہے ہوں کہ یہ سب ایسا ہی ہوتا رہے اور سیاسی قیادت دبئی کو سندھ دارالخلافہ بنالے اور قائم علی شاہ اپنی کرسی سے ٹس سے مس نہ ہوں تو پھر زمین ہل جاتی ہے اور کرسی ٹوٹ جاتی ہے۔

پاکستانی میڈیا میں بہت سے منفی پہلو اپنی جگہ مگر لوگوں کے لیے ’’اچھی حکمرانی‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے وہ سب سے زیادہ کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

آخر میں جاتے جاتے میری ایک یہ عرض بھی ہے سن لو! یہ مردہ قوم نہیں ، یہ اب نیم بیداری کے عمل میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔