شاہی طعام ، چکی کا انتقام (آخری حصہ)

تشنہ بریلوی  ہفتہ 5 ستمبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

یہ تو ماضی کے شاہی کھانے ہوئے۔ اب ہم اپنے وطن کو دیکھیں تو ہر طرف شاہی دسترخون ہی نظر آئینگے۔ کوئی وزیر‘ کوئی‘ مشیر‘ کوئی سفیر‘ کوئی جی حضور یا کوئی نیبو نچوڑ یا ایسا نہیں جو خوش خوراکی میں کسی سے کم ہو۔ وزیروں کی پلٹن‘ اَن گنت مشیر‘ بیشمار سفیر‘ افسروں کی فوج۔ ذرا ان کے کھانوں پر تو غور کریں۔ قارون کا خزانہ بھی کم ہے۔ پھر ملک بدحال کیوں نہ ہو۔ بات بات پہ ڈنر‘ سرکاری میٹنگیں الگ جن کا اختتام نہایت قیمتی کھانوں پر ہوتا ہے۔ ہمارے بھکاری بھی چٹورے ہیں۔

بھوکا ہوں مگر کھاؤں گا بریانی چکن روسٹ
حلوے کے لگیں ڈھیر فٹافٹ مرے آگے

جب غیرملکی سربراہان تشریف لاتے ہیں توعجب عالم ہوتاہے۔ کم ازکم پندرہ سولہ شاندار ڈشز تیار کی جاتی ہیں، میٹھا الگ۔ ملکہ الزبتھ کے اعزاز میں17 کھانے تیار کرائے گئے تھے جب کہ ملکہ نے چند لقمے ہی لیے۔ ہمارے حکمراں اس طرح مہمانوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن:

تو کر نہ آج مدارات میں تکلف کچھ
کہ تیرا حال ترے مہماں سے دور نہیں

غیرملکی مہمانوں کو تو دھوکا مت دو‘ چونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم کیا ہو۔ ہاں اپنی رعایا پر رعب ڈالتے رہو۔ سیرسپاٹے کرو‘ دعوتیں اڑاؤ اور عوام کا پیسہ بیدردی سے لٹاؤ۔ کانفرنسوں میں بھی منرل واٹر کی بوتل سامنے رکھ کر غریبوں کی ہنسی اڑاؤ کہ تمہیں تو ہمارے نظام حکومت میں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ ایسا تو کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا۔

مگر اب ہم تصور اور تخیل کے پر لگا کر اُڑان بھرتے ہیں اور پھر ایک طلسمی منظر ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہشت بریں کے ایک گل کدے میں ایک بزرگ سر جھکائے اداس بیٹھے ہیں۔ بہشت میں یہ اُداسی؟ بزرگ بڑبڑا رہے ہیں کچھ اس طرح:

’’اے پاکستان والو تم نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے کیا ہم نے جیلوں میں اپنی جوانیاں اس لیے کاٹی تھیں کہ پاکستانی حکمراں اس طرح ملک کو لوٹیں اور عوام پر عرصۂ حیات تنگ کریں؟ کیا ہم انگریز آقاؤں سے اس لیے ٹکرائے تھے کہ تم ظلم وستم میں انگریز آقاؤں کو بھی مات کرو۔ کیا میں نے احمد آباد میں ’’مکمل آزادی‘‘ کا نعرہ اس لیے بلند کیا تھاکہ تم نئے ملک کے باشندوں کو ’’مکمل غلامی‘‘ میں باندھ دو۔ قائداعظم نے بھی اپنی صحت تمہارے لیے تباہ کی۔ کیا آزادی کی جدوجہد میں ہم اس لیے بھوکے رہے تھے کہ تمہارے شاہی دسترخوان نعمتوں سے بھرے رہیں اور تھر میں بچے بھوک سے بلکتے رہیں۔

ان کی بیمار ماؤں کی چھاتیاں خشک ہو جائیں۔ انھیں ایک قطرہ دودھ نہ ملے وہ ایک ایک ٹکڑے کو ترسیں اور تمہارے ٹھاٹ باٹ میں کوئی فرق نہ آئے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو دنیا بھر میں گھومنے اور دعوتیں اڑانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ کھانے کا اتنا شوق کہ وہ سب متھرا کے چوبے بنے ہوئے ہیں جن کا دھرم‘ ایمان ہی بسیار خوری ہے۔

نیا ملک تو ہم نے بڑی امیدوں سے بنایا تھا اور پورا یقین تھا کہ ترقی وخوش حالی میں پاکستان یورپ کا مقابلہ کرے گا۔ زمین زرخیز‘ محل وقوع بے مثال‘ پہاڑ دریا اور سمندر بھی۔ ہر قسم کا موسم۔ ہر نوع کا خطۂ ارض‘ زمین کے اندر خزانے ہی خزانے۔ پھر نہایت جفاکش کسان اور مزدور۔ علم وادب کا شاندار پس منظر۔ کیا نہیں تھا تمہارے پاس؟ اگر تم مل جل کر رہتے اور ذرا سی محنت کر لیتے تو کہکشاں تمہارے قدموں تلے ہوتی۔ اب تم ہر جگہ کشکول لیے پھرتے ہو۔ قائداعظم اور اقبال تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے بہت غمزدہ ہیں۔

اب رشوت ودہشت کے سوا تمہارے پاس ہے کیا؟ بھول گئے میری چکّی کی مشقت؟ کس طرح میں نے جیلوں میں منوں آٹا پیسا ہے۔ تمہاری خاطر۔ اس قوم کی خاطر۔ اب وہی آٹا‘ روٹی‘ نان‘ تافتان‘ شیرمال‘ پراٹھے‘ پوری‘ چپاتی وغیرہ کی شکل میں بہت بے دردی سے ضایع کیا جا رہا ہے۔ شرمناک ہوتا ہے وہ منظر جب سیاسی کارکن کھانے پرٹوٹتے ہیں۔ شادی ہالوں کو دیکھو‘ اپنے شاہی دسترخوانوں کو دیکھو۔ اب میں اپنے آپ سے کہتا ہوں:

اے حسرتؔ موہانی‘ انگریز کے زندانی
بیکار گئی تیری چکّی کی مشقت بھی

مگر سن لو میری مشقت ضایع نہیں جائے گی۔ میں بھی سید فضل الحسن نیشا پوری ہوں اور چکّی اب بھی میرے پاس ہے یہاں جنت میں بھی میں اسے عادتاً گھماتا رہتا ہوں اس کی ’’گھوںگھوں‘‘ مجھے اچھی لگتی ہے۔ تم نے چکّی کی مشقت کا بہت ذکر سنا ہے مگر اس سے سبق نہیں لیا‘ لہذٰا اب تیار ہو جاؤ چکی کے انتقام کے لیے۔‘‘

وسیع وعریض سبزہ زار میں ایک نہایت شاندار ضیافت ہو رہی ہے، تمام سرکاری لٹیرے‘ معزز ڈاکو ’ڈالر ارب پتی، ’’پاکستان کنگال خود مالامال‘‘ تمام وطن فروش اور دہشتگردوں کے سرغنہ‘ معصوموں کو روندنے والی تمام بااثر اور فیصلہ ساز شخصیتیں یہاں موجود ہیں، خوب ہلّاگُلّا ہو رہا ہے، قیمتی ڈشوں کے بوجھ سے میزیں ’’کراہ‘‘ رہی ہیں مہمان ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہیں اور شاہی طعام نوش جان فرما رہے ہیں، کسی کو پرواہ نہیں کہ کس طرح خاندانوں کے خاندان غذا کی کمی کے سبب دم توڑ رہے ہیں۔

وہ بچے ہوئے نوالے‘ وہ روٹیوں کے ٹکڑے‘ وہ پلاؤ کی تلچھٹ‘ وہ چبائی ہوئی ہڈیاں بوٹیاں ہی انھیں مل جاتیں تو سانس کی ڈوریاں نہ ٹوٹتیں مگر کسے ہوش۔ جلوؤں اور حلوؤں کے درمیان کون فکر کرے اور خرافات کا ذکر کرے۔

مگر پھر ماحول پر ایک دم سناٹا چھا جائے گا۔ طوفان سے پہلے کا سناٹا۔ مہمان حیران وپریشان اِدھر اُدھر دیکھیں گے۔ آسمان ابرآلود ہو جائے گا۔ سب منہ کھولے اوپرکی طرف نظرجمادیں گے‘ ابر گہرا ہوتا چلا جائے گا پھر پتہ چلے گا کہ یہ ابر نہیں ہے۔ کوئی آفت ہے‘ آسمانی آفت کوئی خلائی قہر۔ ایک زبردست دائرے کی شکل کا یہ ابر نیچے آنا شروع ہو جائے گا اور دھرتی سے چپک کر پلک جھپکتے میں ان سب کو پیس کر رکھ دے گا‘ جیسے چکی کے دو پاٹ گندم کے دانوں کو پیستے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔