گیس کی قیمتوں میں اضافہ

ایم آئی خلیل  ہفتہ 5 ستمبر 2015

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں انتہائی معمولی کمی کے ساتھ حکومت نے گیس کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے اور ایسا آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے کیا گیا جس میں گھریلو صارفین کے لیے گیس 13 فی صد مہنگی کردی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرٹیلائزرکمپنیوں کے لیے گیس 63 فی صد مہنگی کردی گئی ہے۔

گیس جوکہ فرٹیلائزرکی تیاری میں دراصل ’’را میٹیریل‘‘ یا ’’خام مال‘‘ کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور فرٹیلائزر کی تیاری میں بڑی مقدار میں گیس کی کھپت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات جب صنعتوں کو گیس کی مکمل بندش ہونے کے بعد گیس کی قلت کے باعث جب یہ ضروری قرار دیا جاتا کہ چند دنوں کے لیے صحیح صنعتوں کو کسی طرح سے گیس فراہم کی جائے تو اس مقصد کے لیے فرٹیلائزرکی تیاری کے لیے گیس کی فراہمی کو معطل کردیا جاتا ہے۔

جب اتنے بڑے پیمانے پر کھاد کی صنعت میں ٹیکس کا استعمال ہو رہا ہو اور اس کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کردیا جائے اور محض یہ کہ حکومتی خزانے روز مرہ کے اخراجات یا دیگر اخراجات کے لیے رقوم جمع کیسے کی جائے تو یہ صورت حال کسی بھی بہتری کی جانب گامزن معیشت کے لیے کبھی بھی بہتر قرار نہیں دی جاسکتی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ گیس کی قیمت میں جب فرٹیلائزرکمپنیوں کے لیے اضافہ کردیا جائے گا تو اس سے کھاد کی تیاری کی لاگت میں اسی حساب سے اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں کھاد کی قیمت میں اضافہ کردیا جائے گا۔ اب مہنگی کھاد خریدنے سے قبل کاشتکار زمیندار کھیتوں میں کھاد کی ضرورت کا اندازہ لگائے گا اس کے ساتھ ہی قیمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنی مقدار میں کم کھاد خرید کر کھیتوں میں ڈالے گا کہ جتنی اب اس کی سکت ہوگی۔

ایک طرف اسے معلوم ہے کہ ٹیوب ویل سے پانی نکالنے کے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔ دوسری طرف زرعی فصلوں کی وہ قیمت بحساب لاگت بھی وصول نہیں ہو رہی ہے۔ لہٰذا مزید نقصانات سے بچنے کے لیے کھاد کا استعمال ہی کم سے کم کردے گا۔ جس کے باعث پاکستان جہاں فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار پہلے ہی کم سے کم ہے اس میں مزید کمی واقع ہوگی۔

بات دراصل یہ ہے کہ چند یوم قبل ہی آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ خسارے میں کمی کے اعداد و شمارکے بارے میں عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا تھا جب کہ اس سے بھی قبل آئی ایم ایف عالمی بینک سمیت دنیا بھر کے مختلف مالیاتی اور معاشی ادوار سے متعلق ادارے پاکستان کی معیشت کو بہتری کی جانب رواں دواں قرار دے رہے تھے لیکن آئی ایم ایف کے شکوک و شبہات کا مطلب 50 کروڑ ڈالر ملنے والے قرضے کے امکانات مخدوش ہوجانا تھا۔

شروع میں بجٹ خسارے کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ یہ اٹھارہ کھرب روپے تک ہوگا پھر بعد میں چند یوم قبل یہ ظاہر کیا گیا کہ معیشت کی بہتری کے ساتھ ساتھ بجٹ خسارے میں بھی پہلے سے کمی ہوگئی ہے اور اب یہ ساڑھے 14 کھرب روپے بتایا گیا ہے۔ لہٰذا ان اعدادوشمار کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں اور حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے لیے گھریلو صارفین پر گیس بم حملہ کردیا اور صنعتی صارفین کے لیے بھی گیس مہنگی کردی گئی ہے۔

جسے صنعتکار بار بار مسترد کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہی بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے اور پانی کی شدید قلت پائی جا رہی ہے۔ کراچی، حیدر آباد اور ملک کے دیگر صنعتی زونز میں جب پانی کی قلت ہوجاتی ہے تو ٹینکروں کے ذریعے پانی خریدنا پڑتا ہے۔کراچی کے ایک صنعتکار کے مطابق جب اسے اپنی صنعت کو چلانے کے لیے کراچی کے ٹینکرز والوں سے پانی خریدنا پڑتا ہے تو اس کی قیمت 300 گنا بڑھ جاتی ہے۔

اس طرح جب صرف پانی کی خرید پر ہی لاکھوں روپے کے اخراجات آئیں گے تو لامحالہ اس شے یا مصنوعہ کی لاگت بڑھے گی۔ پاکستان جہاں کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی نسبت پہلے ہی پاور ٹیرف بہت زیادہ ہے۔ وہاں گیس ٹیرف بھارت کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ تھی اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا زیادہ ہے، اب گیس کی قیمت بڑھنے سے اس میں مزید اضافے سے صنعتکاروں کے لیے زبردست دھچکا ثابت ہوگا۔

پاکستان کی برآمدات جوکہ پہلے ہی کم ہو رہی ہے اس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کی بیرونی تجارت عموماً انھی ممالک کے ساتھ ہے جوکہ پاکستان کے لیے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور اپنے شہریوں تاجروں کو پاکستان کا سفر کرنے سے اجتناب کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان جن ملکوں کو ایکسپورٹ زیادہ تعداد اور بالحاظ مالیت زیادہ کرتا ہے۔

ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، اسپین، اٹلی، نیدرلینڈ، فرانس وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کے تاجر پاکستان کی مصنوعات کا مقابلہ سب سے پہلے چین، بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ، سری لنکا وغیرہ سے کرتے ہیں۔ جی ایس پی پلس ملنے کے باوجود ان یورپی ملکوں کے لیے پاکستانی برآمدات میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوسکا۔ ان میں سے جرمنی، اسپین، کے لیے برآمدات میں قدرے اضافہ ہوا ہے جب کہ برطانیہ، اٹلی، نیدر لینڈ، بیلجیم، فرانس کو کی جانے والی برآمدات میں کمی بھی دیکھی جا رہی ہے۔

کیونکہ ان ہی ملکوں کا کیا مذکورہ ہر ملک برآمد کنندگان کی طرف سے فراہم کردہ قیمتوں کوالٹی اور دیگر باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈرز دیتا ہے۔ اگر خطے کے دیگر ملکوں کی جانب سے اسے سستی مصنوعات فراہم کرنے کی پیش کش ہو رہی ہو تو بھلا کون سا تاجر یا درآمد کنندہ ہے جو کہ مہنگے داموں اشیا یا مصنوعات درآمد کرے۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں برآمد کنندگان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں تک آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لینے کا تعلق ہے تو کئی افریقی ممالک تک اس عمل سے منہ موڑ چکے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کریں۔

پاکستان کو اپنی معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ بجلی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے پرہیز کیا جائے۔ کیونکہ معیشت کو پہلے ہی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر مصنوعات کی لاگت میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ایک طرف مہنگائی اضافہ اور دوسری طرف برآمدات میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔