1965 میدان کا رزار میں جرأت ، بہادری ، استقامت ، بے غرضی قربانی اور.....

غلام محی الدین  اتوار 6 ستمبر 2015
اگر بھارت یا پاکستان امریکی ہتھیار کمیونزم کے خطرے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے تو پھر امریکہ پر لازم ہے کہ وہ مداخلت کرے:فوٹو : فائل

اگر بھارت یا پاکستان امریکی ہتھیار کمیونزم کے خطرے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے تو پھر امریکہ پر لازم ہے کہ وہ مداخلت کرے:فوٹو : فائل

جنگ ستمبر کے بارے میں پہلا اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ جنگ میں جارحیت کا ارتکاب کس نے کیا؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ بھارت نے مسلسل ایسے اقدامات کو جاری رکھا جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تنازعہ حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت دو بنیادی فریق ہیں…

اس حوالے سے ان دونوں ملکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کریں۔ لیکن اس سلسلے میں بھارت نے کبھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔

دراصل بھارت نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو مجبور کردیا تھا کہ وہ بھارت کو اپنے مقاصد سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کیلئے آئینی اقدامات کررہا تھا۔

پاکستان کے بارہا کہنے کے باوجود عالمی تنظیم نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ قبل ازیں بھارت نے رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پر حملہ کیا۔ وہاں سے شکست کھانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاقی ڈھانچے میں شامل کرلیا اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنا شروع کردیا۔ حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کرچکا تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا کسی طور منطقی بات نہیں۔

1947-48 کے عرصہ میں کشمیر میں ہونے والے غیر معمولی واقعات اور پاک بھارت سرحدی کشیدگی کے بعد عالمی برادری کی کوششوں سے معاملات کو کسی حد تک کنٹرول کرلیا گیا اور فوری تصادم کا خطرہ کئی برس تک ٹلا رہا۔ اس دوران اقوام متحدہ کی جانب سے استصواب رائے کو ممکن بنانے کی تمام کوششیں بھارتی ہٹ دھرمی کی نذر ہوتی رہیں۔

مسئلے کے حل کے لیے پاکستان جس قدر مضطرب رہا بھارت کی جانب سے اُسی قدر سردمہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا جس سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ بھارت کے جتنے علاقے پر قبضہ کر چکا تھا اس کے لیے یہ توقع سے کہیں بڑھ کر تھا اور اب وہ اس حکمت عملی پر عمل پیرا تھا کہ جتنا معاملے کو طول دیا جائے گا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ حد یہ کہ بھارتی حکومت نے ایک نام نہاد کمیشن بنا کر اُس سے کشمیر کے معاملے پر راے مانگ لی یعنی ایک بین الاقوامی معاملے کو اپنے طور پر حل کرنے کا ڈھونگ رچایا۔ کمیشن نے مسئلے کا حل یہ بتایا کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت کے ساتھ بھارت کا صوبہ بنا دیا جائے۔

یہ وہ غیر معمولی اقدام تھا جس کے بعد پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ قوت کے ذریعے دنیا کو باور کراتا کہ مسئلہ کشمیر کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کا فیصلہ خود بھارت اپنے طور پر کر لینے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کے منصوبہ سازوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ کشمیر میں گوریلا آپریشن کے ذریعے بھارت کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے پر آمادہ ہو جائے۔

عسکری امور کے ممتاز ماہر Russel Brines نے جنگ ستمبر پر “The Indo Pakistan Conflict” نامی کتاب لکھی ہے جسے عسکری حلقوں میں بہت معتبر تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھارت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے ’’مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دینے کا اقدام بالکل ایسا ہی تھا جیسا جنگ ستمبر سے 20 سال پہلے کانگریس نے کیا تھا۔ کانگریس کی منفی سیاست کے باعث قائداعظم جیسا مدبر سیاستدان بھی ڈائریکٹ ایکشن (راست اقدام) پر مجبور ہوگیا۔ اسی کے نتیجے میں کلکتہ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔‘‘

اپنے اس تجزیے کے آخر میں Russel لکھتا ہے ’’بھارت کے اس انتہائی اقدام نے پاکستان کی طرف سے سیاسی مقاصد طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کا معقول جواز پیدا کردیا تھا۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کرکے بھارت نے خود ہی جنگ کو ناگزیر بنا دیا تھا۔‘‘

کسی بھی ملک کا شہری اپنے وطن کا سفیر ہوتا ہے ۔ اُس سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے ملک کی تاریخ اور قومی نوعیت کے معاملات پر درست موقف سے آگاہ ہو۔ آج تک جو بھی جنگ ستمبر کی بات کرتا ہے آپریشن جبرالٹر سے شروع کرتا ہے حالانکہ معاملہ بھارت کے نندا کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد سے شروع ہوتا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیدیا گیا۔

جارحیت میں پہل بھارت نے کی تھی اور پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اس معاملے کو ایک مسئلے کی شکل میں زندہ رکھنے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھاتا۔ بالکل اسی طرح جیسے کارگل کی لڑائی بھی اس مسئلے کو زندہ رکھنے کی ایک کوشش تھی۔ دنیا کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، جنگیں ہوتی رہیں گی۔ سارے پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں اور خود کو ان معلومات سے لیس کریں۔

یہ ایک گوریلا آپریشن تھا جس کا مقصد کشمیری عوام کو بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اس آپریشن میں حصہ لینے والی گوریلا فورس کی تعداد کے بارے میں متضاد باتیں کی جاتی ہیں۔ Russel کے مطابق یہ تعداد 30,000 تھی۔ اس کی تنظیم مری میں 26 مئی 1965ء کو ہوئی اور اسے جبرالٹر فورس کا نام دیا گیا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اس منصوبے کے بڑے حماتیوں میں سے تھے اور انہوں نے اس خیال کو سب سے زیادہ تقویت دی کہ کشمیر میں جنگ بین الاقوامی سرحدوں تک نہیں آئے گی۔

جبرالٹر فورس کے سپریم کمانڈر پاک فوج کے بارویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک تھے جبکہ تربیت یافتہ حریت پسندوں کی قیادت پاک فوج کے افسروں کے ہاتھ میں تھی۔ آپریشن جبرالٹر کی کامیابی کو مکمل کرنے کیلئے ایک اور آپریشن تیار تھا جسے آپریشن گرینڈ سلام کا نام دیا گیا۔ اس میں پاک فوج کے دستوں نے حصہ لینا تھا۔ اس منصوبے کی بنیاد یہ تھی کہ جب مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب ہوجائیں گے اور بھارتی فوج کے وہاں کی آبادی پر ظلم و ستم بڑھ جائیں گے تو پاک فوج کے دستے حملہ آور ہوجائیں۔

بدقسمتی سے مقبوضہ کشمیر کے لوگ آپریشن جبرالٹر کا ساتھ دینے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قوتوں نے اس طرف کوئی خاص توجہ ہی نہ دی تھی۔ Russel کے مطابق ’’آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کشمیر میں عوام کے بھارت کے حامی ہونے کی دلیل نہیں جس کا بھارت دعویدار ہے۔ دراصل سیاسی مسائل ایسے جاندارانہ تھے اور نہ ہی لوگوں کو تیار کیا گیا تھا کہ وہ خطرہ مول لیتے۔‘‘

آپریشن جبرالٹر سے پہلے بھارت نے آزاد کشمیر کی اہم چوکیوں پر قبضہ کرلیا تھا اور مسلسل اپنی سرگرمیوں کو بڑھا رہا تھا۔ اس حوالے سے بھی ضروری تھا کہ بھارت کو سخت سزا دی جاتی۔

میجر جنرل شوکت رضا مرحوم اپنی کتاب ’’THE PAKISTAN ARMY IN 1965 WAR لکھتے ہیں‘‘ اگست کے آخری ہفتے میں اس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو صدر ایوب کا ایک حکم لے کر جی ایچ کیو آئے۔ دراصل یہ حکم آپریشن گرینڈ سلام کے حوالے سے ہی تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چھمب کی طرف سے حملہ کرکے اکھنور پر قبضہ کرلیا جائے۔ حملے کی حکمت عملی یہ تھی کہ اکھنور پر قبضہ کرکے بھارت کو جیتے ہوئے علاقے چھوڑنے پر مجبور کردیا جائے۔ حملے کو جان بوجھ کر کشمیر کے علاقے تک محدود رکھا گیا تھا اور ہم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ بھارت جنگ کیلئے ہمارے طے کردہ اصول و ضوابط کی مکمل پاسداری کرے گا تاکہ ہم اسے شکست سے دوچار کردیں۔

اس وقت پاکستان کے پاس تین راستے تھے۔

-1 فائر بندی کیلئے بات چیت۔
اس صورت میںعلاقے بھی ہاتھ سے جاتے اور ذلت الگ ہوتی۔

-2 سیالکوٹ سے سامبا کی طرف پیش قدمی۔
اس صورت میں کھلی جنگ ناگزیر تھی اور دنیا بھر پاکستان کو جارح قرار دیتی۔

-3 اکھنور پر چھمب کی طرف سے حملہ۔
اگر بھارت کشمیر تک محدود رہے تو اور بات ہے بصورت دیگر لاہور سیالکوٹ پر حملے کی صورت میں ہمیں اس اہم ترین محاذ سے فوجیں الگ کرکے لاہور اور سیالکوٹ کے دفاع پر مامور کرنا پڑتیں۔

آگے چل کر جنرل شوکت رضا کہتے ہیں۔
’’آپریشن گرینڈ سلام ایک جوا تھا جسے دوسرے فریق نے ہماری خواہشات کے مطابق نہیں کھیلا۔ 15 اگست کے بعد تمام انٹیلی جنس رپورٹوں میں بتایا جارہا تھا کہ بھارتی فوج بین الاقوامی سرحد پر جمع ہورہی ہیں۔ اگست کے اختتام پر بھارتی نیت کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا تھا۔‘‘

جنرل گل حسن کا کہنا ہے، جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن DMO تھے، کہ رن آف کچھ کی لڑائی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں گوریلا کارروائی کا منصوبہ زیر بحث آیا تھا۔

پاکستان کے مصدقہ ذرائع کے مطابق جبرالٹر فورس کی تعداد 7000 سے زائد نہ تھی۔ آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے کے باعث کشمیر میں پاکستان کی پوزیشن خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہو چکا تھا اس لیے اب لازم تھا کہ آپریشن جبرالٹر کا آغاز کر دیا جاتا کیونکہ بھارت فائر بندی لائن پر پاکستانی پوسٹوں پر حملہ آور تھا اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ عملی اقدامات نہ کیے گئے تو جبرالٹر فورس میں شامل تھام لوگ بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔

یکم ستمبر کو پاکستان کی 4 کور آرٹلری کے کمانڈر بریگیڈیئر چودھری کے زیر کمان توپ خانے کی گولہ باری سے آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز ہوا۔ ایک گھنٹے کی شدید گولہ باری کے بعد بکتربند دستوں نے حملے کا آغاز کیا۔ حملہ آور فوج نے تیزی سے پیش قدمی کی اور جلد ہی کچھ دستے دریائے توی کے مغربی کنارے پر جا پہنچے۔

پہلے روز سپہر تک پاک فوج بھارت دفاع کو روندتے ہوئے چھمب کے قبضے کو گھیرے میں لے چکی تھی اور اکھنور دو ہاتھ کی دوری پر تھا جس کے بعد دارالحکومت سرینگر پر قبضہ کے ساتھ کشمیر کاسقوط عمل میں آجاتا لیکن یہاں پھر بھارت کو بچانے والی عالمی طاقتیں میدان میں کود پڑیں اور عین وقت پر جنرل اختر ملک سے کمان لے کر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دی گئی اور اس کے ساتھ ہی ہماری پیش قدمی روک دی گئی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت کی مغربی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کے مطابق ’’آپریشن گرینڈ سلام کو عین اس وقت مکمل ناکامی سے دوچار کر دیا گیا جب وہ مکمل کامیابی حاصل کرنے والا تھا۔‘‘ اس موقع پر جنرل اختر ملک کے احساسات کو سمجھنا مشکل نہیں۔

قدرت اللہ شہاب کے مطابق ’’جب جنرل اختر ملک اکھنور پر قبضہ کرکے دارالحکومت سرینگر میں داخل ہونے والے تھے، انہیں ہٹا کر جنرل یحییٰ کو کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کا مقصد پاکستان کو اکھنور پر قبضے سے روکنا تھا اور یحییٰ نے اس مقصد کو پورا کرنے میں ذرا برابر کوتاہی نہیں کی۔‘‘

سابق وزیراعظم اور 1965ء میں ملک کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق ’’اگر جنرل اختر ملک کو چھمب جوڑیاں سیکٹر میں پیش قدمی سے نہ روکا جاتا تو بھارت کو کشمیر میں غیر معمولی پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا لیکن ایوب خان اپنے پسندیدہ جنرل یحییٰ کو ہیرو بنانا چاہتے تھے۔‘‘ ہیرو بنانے والی بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پیش قدمی روکنے کی کیا ضرورت تھی۔

جنگ کے بعد بریگیڈیئر چودھری نے یحییٰ خان سے پوچھا کہ آپ نے اکھنور پر قبضہ کیوں نہیں کیا حالانکہ آپ آسانی سے ایسا کر سکتے تھے تو یحییٰ کا جواب تھا ’’تم نہیں جانتے، مجھے ایسا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔‘‘

کشمیر میں پیش قدمی رک جانے کے باعث بھارت کو اس بات کی مہلت مل گئی کہ وہ بین الاقوامی سرحد پر دھاوا بول کر لڑائی کا توازن اپنے حق میں کر لے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

٭٭٭

4 ستمبر 1965ء کے روز جی ایچ کیو راولپنڈی کے آپریشن روم میں معمولی کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ اپنی کرسی پر بیٹھے آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے۔

اسی دوران ریڈیو پر اعلان ہوا کہ چند لمحوں بعد ایک اہم خبر نشر کی جانے والی ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ مختصر خبر نشر کی گئی ’’پردھان منتری (وزیراعظم) نے لوک سبھا کو بتایا ہے کہ پاک فوج سیالکوٹ سے جموں کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔‘‘ یہ سفید جھوٹ تھا۔ جنرل موسیٰ کمرے سے باہر نکل آئے وہ کچھ دیر تازہ ہوا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ ان کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا اور ممکنہ خطرات صاف نظر آرہے تھے۔ باہر کھڑے کھڑے انہوں نے سوچا کہ یقینا بھارت آپریشن گرینڈ سلام کو ناکام بنانے سے زیادہ بڑے اقدام کرنے والا ہے۔

جب جنرل موسیٰ آپریشن روم میں واپس آئے تو افسر اس خبر کے حوالے سے بحث کررہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سرحدوں پر موجود فوج کو اگلی دفاعی پوزیشنوں پر قبضے کے احکامات جاری کردیئے جانے چاہئیں۔

4 ستمبر کو سرحدوں پر موجود کمانڈروں کو یہ پیغام بھیجا گیا۔

’’تازہ ترین انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق بھارت سرحدوں پر فوج جمع کررہا ہے اور آل انڈیا ریڈیو پاک فوج کی پیش قدمی کی جھوٹی خبریں نشر کررہا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ بھارت کے عزائم جارحانہ ہیں لہٰذا تمام فارمیشنز دفاعی نقطہ نظر سے ضروری اقدام بروئے کار لائیں۔‘‘

5 ستمبر کو آل انڈیا میں بار بار یہ اعلان نشر ہونا شروع ہوا کہ وزیراعظم شاستری اگلے 24 گھنٹوں میں کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ ادھر ریڈیو پاکستان بار بار اکھنور پر جلد قبضے کی نوید سنارہا تھا۔ اخبارات کا بھی یہی حال تھا۔ 5 ستمبر ہی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی جس میں بھارت اور پاکستان سے فائر بندی کا کہا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں قائم انقلابی کونسل نے سلامتی کونسل کی اپیل کو رد کردیا اور کہا کہ حریت پسند اس جنگ کو منطقی نتیجے تک پہنچائیں گے۔

6 ستمبر کو 9 بجے پاکستان کے چیف آف جنرل سٹاف نے تمام ڈائریکٹرز کا اجلاس جی ایچ کیو میں طلب کیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کردیا ہے۔ انہوں نے اپنا خطاب ان الفاظ پر ختم کیا۔

’’جو کچھ ہمارے پاس ہے سب کے سامنے ہے اور ری پلیس منٹس ناممکن ہیں ”GOOD LUCK” اور اجلاس ختم ہوگیا۔ آپریشن گرینڈ سلام کے بارے میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کا مؤقف ہے کہ اگر اسے دو تین دن پہلے شروع کرلیا جاتا تو صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ اُن کے خیال میں اگر گرینڈ سلام کے اہم ترین مرحلے میں پیش قدمی نہ روکی جاتی تو کشمیر کے اہم علاقے پاکستان کے قبضے میں آ جانے کے باعث بھارت بین لااقوامی سرحد پر حملہ نہ کرتا۔

اگر ہم جنگ ستمبر کا تجزیہ کریں تو شاید ہماری مسلح افواج کی شاندار کارکردگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک یہ احساس تھا کہ پوری پاکستانی قوم ایک مضبوط دیوار کی طرح اپنی فوج کی پشت پر کھڑی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جنگ ستمبر کے دوران پورے ملک میں کوئی بڑی مجرمانہ واردات نہیں ہوئی۔ ہر شہری پوری دیانتداری کے ساتھ دشمن کو شکست دینے کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار تھا۔ جس روز میجر عزیز بھٹی نے جام شہادت نوش کیا اس صبح لاہور سے اس محاذ پر برسرپیکار افسروں اور جوانوں کیلئے حلوہ پوری کا ناشتہ پہنچا تھا جوکچھ کسی کے پاس تھا اس نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر وطن کے دفاع کیلئے پیش کردیا۔

رن آف کچھ کی معرکہ آرائی
کشمیر کی طرح رن آف کچھ بھی ایسا علاقہ ہے جہاں پاک بھارت سرحد پر تنازع ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کچھ کے علاقے رن کا کچھ شمالی علاقہ صوبہ سندھ کا حصہ ہے جبکہ بھارت رن کے پورے علاقے کا دعویدار ہے۔ 12 مئی 1964ء کو بھارتی گشتی دستے نے کانجر کوٹ کے ویران قلعے کے قریب سے تین پاکستانیوں کو گرفتار کیا، بھارت کا دعویٰ تھا کہ کانجر کوٹ بھارتی نقشوں میں شامل ہے۔

اس لیے پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا ۔ اس واقعہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور پاکستانی شہری جلد ہی واپس کردیئے گئے اور اسے بھٹک کر سرحد پار کرنے کا اتفاقیہ واقعہ قرار دیا گیا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں آگے چل کر جھڑپوں کا آغاز ہوا۔

جنوری 1965ء میں بھارت کی اسپیشل ریزو فورس (ایس آر پی) نے جو سرحدی گشت پر مامور تھی، اس علاقے میں بھاری گاڑیوں کے ٹائروں کے نشان دیکھے جو بھارت کے خیال میں بھارتی علاقہ تھا۔ ایس آر پی کو بھارتی دعوے کے علاقے میں گشت بڑھانے کے احکامات دے دیئے گئے، جب پاکستان نے اس پر احتجاج کیا تو بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کردیا کہ بھارت کے سپاہی تو ہمیشہ سے اس علاقے میں گشت کرتے رہے ہیں۔

اب بھارت نے پاکستان کے ردعمل کی شدت کو جانچنے کے لیے کانجر کوٹ کے علاقے میں چھیڑ چھاڑ کا آغاز کردیا۔ 5 فروری کو پاکستان کے گشتی دستے نے 4 بھارتی جیپوں کا راستہ روک لیا جن میں سے دو ایس آر پی اور دو ریگولر فوج کی تھیں۔ پاکستانی رینجرز کے کہنے پر چاروں جیپیں واپس اپنی سرحدی چوکی کی طرف چلی گئیں۔ اس واقعہ کے بعد مقامی کمانڈر نے اندازہ لگایا کہ بھارت کانجر کوٹ کے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

اگلے روز ایس آر پی کی گشتی پارٹی کانجر کوٹ کے قلعے کی جانب بڑھ رہی تھی تو پاکستانی رینجرز نے ان کا راستہ روک لیا۔ اس پر بھارت نے شدید احتجاج کیا اور مقامی کمانڈروں کا اجلاس بے نتیجہ رہا۔ 19 فروری کو بھارتی ہائی کمشنر کی وزیر خارجہ بھٹو کے ساتھ ملاقات بھی بے نتیجہ رہی۔

آپریشن کبڈی
21 فروری 1965ء بھارتی جنرل ہیڈکوارٹرز نے کانجر کوٹ کا علاقہ پاکستان سے خالی کرانے کے لیے آپریشن کبڈی کی منظوری دے دی۔ اس آپریشن کی ذمہ داری 31 انفنٹری بریگیڈ گروپ کے کمانڈر بریگیڈیئر ایس ایس ایم پہالاجانی کو سونپی گئی اور ان سے کہا گیا کہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی سرحد کی بھی پرواہ نہ کی جائے۔ بھارت کو علاقائی سطح پر کسی تصادم کی صورت میں خسارے میں ہونے کا احساس تھا اس لیے کوئی جارحانہ کارروائی نہیں ہوئی۔ دوسری جانب پاکستان کو احساس ہوگیا کہ کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔

22 فروری کو 8 انفٹری ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل ٹکا خان نے رینجرز کو کانجر کوٹ قلعہ پر قبضے کا حکم دیا۔

4 مارچ کو بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں رن آف کچھ کو متنازع علاقہ قرار دیا۔ بعدازاں بھارتی حکومت نے اعتراف کیا کہ اس نے قلعہ کا راستہ روکنے کے لیے سردار پوسٹ کے نام سے نئی چوکی 13 مارچ کو قائم کی تھی۔ جواب میں پاکستان نے ڈنگ کے مقام پر نئی چوکی بنالی۔

اس کے جواب میں بھارت نے ویجی کوٹ کے مقام پر ایک اور چوکی قائم کرلی۔ لڑائی کا آغاز انہی بھارتی چوکیوں پر قبضے کے لیے حملے سے ہوا۔ ان چوکیوں کو واپس لینے کے لیے بھارت بار بار حملے کرتا رہا۔ دونوں جانب فوج کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی۔

آپریشن ایروہیڈ

23 اپریل کو کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ نے آپریشن ایروہیڈ کی منظوری دی جس کے تحت پاکستان کے دعویٰ کے علاقے بزور طاقت خالی کرانا تھا۔ 24 اپریل کو سیرابیٹ سے دشمن کو نکال باہر کیا گیاجبکہ 26 اپریل کو بیاربیٹ بھی دشمن کے ہاتھ سے نکل گیا۔

یوں ایروہیڈ میں طے کیے گئے مقاصد حاصل ہوگئے۔ اس سے پہلے 24 اپریل کو بھارت کے کمانڈر ان چیف جنرل جے این چودھری نے دہلی میں امریکی سفارتخانے کے فوجی حکام کو بلایا اور ان سے کہا کہ پاکستان بیار بیٹ پر حملے میں امریکی ٹینک استعمال کررہا ہے۔ میں اگرچاہوں بھی تو اپنے ٹینک طویل فاصلے کے باعث استعمال نہیں کرسکتا۔

اگر بھارت یا پاکستان امریکی ہتھیار کمیونزم کے خطرے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے تو پھر امریکہ پر لازم ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ اس بات کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ پاکستان کو مزید کارروائی سے روکنے کے لیے بھارت نے اپنی فوجیں پنجاب کی سرحد کی طرف روانہ کردیں۔

28 اپریل کو برطانوی وزیراعظم ہیرولڈ ولسن نے معاملے کو مزید خراب ہونے سے روکنے کی کوشش شروع کی اور ان کوششوں کے نتیجے میں 30 اپریل کو صدر ایوب خان اور وزیراعظم شاستری نے برطانوی ثالثی کو قبول کرتے ہوئے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی۔ پاکستان نے رن آف چھ میں مزید پیش قدمی روک دی۔

7 مئی کو پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارتی فوجوں کے اجتماع کی شکایت کی یعنی مئی 1965ء تک بھارت اندرونی علاقوں سے ایک بکتر بند ڈویژن، ایک انڈوپینڈنٹ آرمزڈ بریگیڈ (اس کی قوت بھی کم و بیش ڈویژن کے برابر ہوتی ہے) اور چار انفنٹری اور ماؤنٹین ڈویژن اگلے علاقوں میں لاکر جالندھر میں گیارویں کور کے زیر کمان دے چکا تھا۔ کشمیر میں فائر بندی لائن پر پہلے ہی تین بھارتی ڈویژن 25,19 اور 26 موجود تھے۔

بھارت کی فوجی قوت کے مقابلے میں پاکستان کے ذرائع بہت محدود تھے۔ پاکستان کا فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کھاریاں میں، 15 انفنٹری ڈویژن سیالکوٹ، 10 انفنٹری ڈویژن لاہور اور 12 انفنٹری ڈویژن کشمیر میں تھا۔ 12 ڈویژن میں صرف ایک ریگولر بریگیڈ اور آزاد کشمیر انفنٹری کی 18 بٹالین تھیں۔ جبکہ ریزرو میں صرف 6 آرمرڈ ڈویژن اور 8 انفنٹری ڈویژن کا کچھ حصہ تھا۔

معاہدہ کچھ
یکم جولائی 1965ء کو دو ماہ کی سفارت کاری کے بعد معاہدہ کچھ عمل میں آیا اور دونوں ملکوں کی فوجیں یکم جنوری 1965ء کی پوزیشن پر واپس چلی گئیں۔ اس معاہدے پر صدر ایوب اور وزیر خارجہ بھٹو بہت خوش تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس معاہدے کی روشنی میں کشمیر کا معاملہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔

معاہدہ کچھ کی رو سے سرحد کے تعین کے لیے تین رکنی ٹربیونل قائم ہوا۔ پاکستان نے ایران کے سابق وزیر خارجہ نصراللہ انتظام کو جبکہ بھارت نے یوگوسلاویہ کے ایک جج ایلین بیڈلر کو اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سویڈن کے سینئر جج گونارلیجرگرن کو کچھ پینل کا چیئرمین مقرر کیا۔ 19 فروری 1968ء کو ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق کانجر کوٹ اور چھڈ بیٹ پر مشتمل 828 مربع میل کے علاقے پر پاکستان کا دعویٰ تسلیم کرلیا گیا جبکہ بیار بیٹ اور سردار پوسٹ بھارت کا علاقہ قرار پائے۔

اس تصفیے کے باوجود بھارت یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ پاکستان سے اس ذلت کا بدلہ لے گا، لہٰذا کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دے کر ایک نئی کشمکش کا آغاز کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔