دشمن میلی آنکھ سے نہ دیکھے، جذبہ آج بھی 65 جیسا ہے!!

احسن کامرے  پير 7 ستمبر 2015
’’یوم دفاع‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

’’یوم دفاع‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

قوموں کی تاریخ میں ایسے دن بھی آتے ہیں جو بڑی قربانی مانگتے ہیں۔ ایسا ہی دن پاکستانی قوم پر قیام پاکستان کے 18سال بعد 6ستمبر 1965 ء کو آیا جس نے فرزندان وطن سے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کیا، ماؤں سے ان کے لخت جگر مانگے اور بوڑھوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس عظیم قوم نے ملکی سلامتی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔اس دن قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں ، کچھ لوگ جام شہادت نوش کر کے امر ہوگئے اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوگئے۔ افواجِ پاکستان نے وسائل کی کمی کے باوجود اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے۔65ء کی جنگ میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی اور اسی نسبت سے 6ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس برس خاص بات یہ ہے کہ ہماری جیت کو پچاس سال مکمل ہوگئے ہیںاور ہم یوم دفاع کی ’’گولڈن جوبلی‘‘ منا رہے ہیں۔ ’’یوم دفاع‘‘ کے حوالے سے ’’ ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شمشاد احمد خان (سابق سیکرٹری خارجہ)

پاکستانیوں نے جنگ65ء میں اعلیٰ جذبے کا اظہار کیا۔ اس قوم نے اپنے ملک کے لیے جتنی قربانیاں دی ہیں دنیا کے کسی ملک نے نہیں دیں اور آج انہی قربانیوں کی وجہ سے یہ ملک قائم ہے۔ موجودہ حالات میںملک کی آخری امید افواج پاکستان ہیں اور اب ہم اپنی آزادی اور وقار کی آخری جنگ ضرب عضب کی شکل میں لڑ رہے ہیں۔ہمارا شمار دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ہماری خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ ہم دنیا کے بڑے فورمز اقوام متحدہ ، G-77 اوراوآئی سی میں آج بھی کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فیصلے ان فورمز کی بجائے واشنگٹن میں ہوتے ہیں لہٰذا اس میں پاکستان کی ناکامی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے عالمی محرکات ہیں۔ پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے تمام مسائل اور خراب امیج کے باوجود سات مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ممبرمنتخب ہوچکا ہے اور ساتویں مدت ابھی دوسال پہلے پوری ہوئی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم چھٹی ایٹمی طاقت ہیں لہٰذا بھارت کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ میرے نزدیک ہماری اپنی پالیسیاں درست نہیں ہیں اور ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ جنگ ہونے والی ہے۔

بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کی وجہ سے جوتشویش پیدا ہورہی ہے وہ بدقسمتی سے ہمارے اپنے ذہنوں کی کم ظرفی یا لاعلمی ہے اور اس میں میڈیا کا بھی کسی حد تک کردارہے۔ پاکستان میں سب اچھا ہے کبھی نہیں کہا جاسکتا ۔ میں نے پاکستان کو بنتے ، ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت میں نے اور میرے خاندان نے بھارت سے دو گھنٹوں کا سفر تین ماہ میں طے کیا۔ ہم نے امبالہ سے ٹرین پر سواری کی کوشش کی لیکن جگہ نہ ملی ۔ اس ٹرین میں ہزاروں لوگ سوار تھے جنہیں اگلے اسٹیشن پر شہید کرکے خون کے دریا بہائے گئے۔جب ہم یہاں پہنچے تو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ پاکستان زندہ باد اور اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں آج بھی اُس پاکستان کی تلاش میں ہوں جس کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دیں اور اپنی ہزاروں سال کی شناخت چھوڑ کریہاں ہجرت کی۔ بدقسمتی سے ہم نے آزادی کے بعد کے چند سالوں میںزبان کا مسئلہ بنا یا جس نے ایک دوسرے بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر کے پاکستان کودو لخت کردیا۔

یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس کی ذمہ داری فوج پر ڈالتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر 71ء میں ہمارے سیاستدان اس مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرلیتے تو ملک کبھی نہ ٹوٹتا اور دشمن کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔ پاکستان تو کہیں نہیں رہا، وہی تو پاکستان تھا جو ہمارے سے الگ ہوگیا کیونکہ پاکستان کی تحریک تو وہاں سے ہی شروع ہوئی اور مسلم لیگ کا قیام بھی ڈھاکہ میں ہی ہوا تھا۔ ہماری عادت بن گئی ہے کہ ہم ہر چیز کا الزامات امریکہ اور بھارت پر لگاتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم نے خوداپنے ساتھ کیا کیا۔ میں نے مارشل لاء کے ادوار بھی دیکھے ہیں اور آمریت کے خلاف مظاہروں کی قیادت بھی کی ہے لیکن آج جب مڑ کر دیکھتا ہوں تو پاکستان کی تاریخ کا بہترین دورجنرل(ر) ایوب خان کا دور تھا۔ ان کے دور میں پاکستان کا عالمی سطح پر ایک وقار تھا لیکن افسوس ہے کہ اب ہم دنیا کی نظر میں گر چکے ہیں اور اب ہمارے صدر یا وزیراعظم کوخاص عزت نہیں دی جاتی۔ اس کا ذمہ دار امریکہ نہیں ہے کیونکہ عزت اور احترام توانسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d3.jpg

جنرل(ر) پرویز مشرف امریکہ کے اتحادی بننے کے لیے تیار ہو گئے اور پھر امریکہ کی جنگ ہماری جنگ بن گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ مدارس جو برسوں سے اسلام کے محافظ تھے انہیں جہاد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم نے وہ جنگ تو جیت لی لیکن بدقسمتی سے امن ہماری طرف نہیں بلکہ مشرقی یورپ کی طرف چلا گیا، برلن کی دیوار گر گئی اور وہ آزاد اور خوشحال ہوگئے مگرہم ابھی تک کلاشنکوف کلچر اوردہشت گردی کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیںاور آج ہم وہی جنگ ضرب عضب کی شکل میں لڑ رہے ہیں۔افسوس ہے کہ ہم نے ملک کو مذہب، نسل ، فرقہ واریت اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کردیا ہے اور یہی ہماری کمزوریوں کی جڑ ہے لہٰذا جب تک بیماری کی جڑ کو اکھاڑا نہیں جائے گا تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ حکمران نہیں بلکہ ہم عوام ہیں کیونکہ ہم ہی ہمیشہ انہیں منتخب کرتے ہیں اور پھر جب یہ اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے تو مجبوراََ فوج کو ملک بچانے کے لیے آنا پڑتا ہے اور آج بھی فوج آئینی دھارے میں رہ کر ملک بچانے کے لیے کام کررہی ہے بدقسمتی سے ہمارا گورننس کا نظام درست نہیں ہے۔ پاکستان دنیا کاوہ واحد ملک ہے جس کی اتنی بڑی آبادی ہے اور صرف چار صوبے ہیں۔

میرے نزدیک جب تک گورننس کو انتظامی بنیادوں پر نہیں چلایا جائے گاتب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھان کی بنیاد پر تقسیم ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالا باغ ڈیم اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں بھی رکاوٹ آرہی ہے لہٰذا جب تک یہ تقسیم رہے گی تب تک ملک میں خوشحالی نہیں آئے گی ۔ اگر ہم ملک کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں توہمیں ملک کو انتظامی بنیادوں پر زیادہ صوبوں میں تقسیم کرنا ہوگا، یہ بڑی بڑی اسمبلیاں اور سیکرٹریٹ ختم کرنا ہوں گے اور صدارتی نظام حکومت لانا ہوگا لیکن اگر عوام کے مسائل حل نہ ہوئے توپھر یہ تشدد کی فضا کبھی ختم نہیں ہوگی۔آج دشمن ہمارے دروازے پر دستک نہیں دے رہا بلکہ وہ ہمارے اندر موجود ہے لہٰذا ہمیںا سے ہر حال میں ختم کرنا ہے۔ ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے، تمام ممالک پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے اندرونی مسائل کو حل کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔

ہمارے ملک میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو ہر حال میں بھارت کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ امن ہماری اور خود بھارت کی بھی ضرورت ہے لیکن ہم اپنے قومی مفادات اور سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ بھارت یک نکاتی ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور وہ دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان کو دبانا چاہتا ہے۔ اوفا میں صرف دہشت گردی پر بات کی گئی اور بھارت اپنی چال میں کامیاب ہوگیا۔ یہ کیسے مذاکرات ہیں جس میں نہ ہمارا وقار قائم ہے اور نہ ہی ہمارے مسائل پر بات ہورہی ہے۔ ہمیں بھارت پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ ہمارے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے ہیں وہ جب چاہے مذاکرات کی میز پر آجائے لیکن جب مذاکرات ہوں گے توہمارے تمام مسائل پر بات ہوگی۔ہم اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، ان حالات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کابننا اچھی بات ہے لہٰذا اب ہماری ساری توجہ اپنے اندرونی مسائل پر ہونی چاہیے ۔ میرے نزدیک اگر حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہوتیں تو اتنے مسائل نہ ہوتے لہٰذا حکومتوں کو چاہیے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور جب حکومتیں ڈلیور کریں گی تو پھر نہ مارشل لاء آئے گا اور نہ ہی عوام کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت پڑے گی۔ بطور قوم ہم درست سمت میں نہیں ہیں،اس لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔

شاہد ریاض گوندل (مشیر برائے انرجی وزیراعلیٰ پنجاب)

65ء کی جنگ میں فوج نے وسائل کی کمی کے باوجود جس جذبے اور پلاننگ کے ساتھ بھارت کا مقابلہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ پوری قوم اور افواج پاکستان نے بھارت کے عزائم کو خاک میں ملایا دیاا ور اس کی لاہور کے جم خانہ کلب میں کھانا کھانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود قومیں ابھرتی ہیں۔ 65ء کی جنگ میں ہم اللہ کے فضل سے کامیاب رہے لیکن بدقسمتی سے 71ء کی جنگ میں ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے نزدیک یہ شکست صرف عسکری شکست نہیں تھی بلکہ اس میں سٹرٹیجک اور سیاسی محرکات بھی شامل تھے۔ 71ء کی جنگ سے پہلے ہی ہمیں شکست ہوچکی تھی کیونکہ اپنے مسائل کو حل نہ کرسکنا بھی میرے نزدیک شکست ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جو پاکستان ہمارے پاس بچا اس میں ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ ہم ایٹمی طاقت بنے، عوام میں خوشحالی آئی اور ہماری افواج میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔ بدقسمتی سے عالمی حالات ایسے بن گئے کہ ہم فرنٹ رنر کے طور پر سامنے آئے، ایران اور افغانستان میں ایک خاص تبدیلی واقع ہوگئی اور پھر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی مسائل و مصائب کی حالت میں چلے گئے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d11.jpg

پاکستان بننے کے بعد ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ پہلا چیلنج یہ تھا کہ ہماری افواج کے پاس وسائل کی کمی تھی جبکہ معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے ہمارے پاس وسائل بھی نہیں تھے لیکن الحمدللہ ہم ان حالات سے اچھے طریقے سے نبردآزما ہوئی۔دوسرا چیلنج 65ء میںپیش آیا جب بھارت نے ہم پر حملہ کیا لیکن اس میں بھی ہمیںکامیابی حاصل ہوئی۔ تیسرا چیلنج بنگال کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا تھا لیکن ہم اس میں ناکام ہوئے۔ چوتھا چیلنج ہمیں دہشت گردی، فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر تفرقات کی صورت میں پیش آیا جس نے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا کر کمزور کیا اور اتنا نقصان ہمیں بیرونی دشمن بھی نہ دے پاتا جتنا دہشت گردوں نے دیا ۔ ان مسائل کی وجہ سے عالمی سطح پرہماری ساکھ متاثر ہوئی اور پھر عالمی میڈیا میں ایسی خبریں آتی رہیںکہ پاکستان دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکتا اور خدانخواستہ پاکستان ٹوٹ جائے گایا دہشت گردوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ ہمیں فخر ہے کہ عوام، سیاستدانوں، فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں حتیٰ کہ معصوم بچوں کی قربانیوں کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ہم بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ آج ڈر اور خوف ختم ہوچکا ہے جبکہ عالمی میڈیا اب یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ پاکستان نے اپنی تمام تر طاقت لگا کر ملک کو مضبوط کرلیا ہے۔

دہشت گردی کی جنگ بہت مختلف ہوتی ہے، جب ہم اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو پھر بھارت کا خطرہ کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ بھارتی دباؤ ٹیکٹیکل ہے لہٰذابھارت ہم پر جتنا دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا ہم اتنے متحد اور مضبوط ہوتے جائیں گے۔ ہمیں خارجہ پالیسی میں مثالی کا میابی ملی اور نہ ہی مل سکتی ہے۔ ہمارے جیسے ملک کے لیے صرف پالیسی بنانا ہی مشکل نہیں ہے بلکہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم یمن کی جنگ میں نہیں گئے اور ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم آزاد اور خودمختار ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ اب جیسے تعلقات ہیں گزشتہ تیس برسوں میں ایسے نہیں تھے۔9/11کے بعد دنیا نے ہمیں افغانستان کے ساتھ جوڑ دیا لیکن آج عالمی طاقتیں بھی ہمارے ساتھ بات چیت کررہی ہیں اوراب ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر آگئے ہیں جبکہ اسپیکر کانفرنس اور کشمیر کے مسئلے پر بھی ہم اپنے ایجنڈے پرقائم ہیں۔ قوم میں 65ء والا جذبہ تو اب شاید نہ ہو لیکن جب بھی ملکی سلامتی کی بات آتی ہے یا کوئی قومی مسئلہ آتا ہے تو پوری قوم متحد نظر آتی ہے لہٰذا اب اگر بھارت نے للکارا تو پوری قوم اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر متحد ہوجائے گی اور اپنے سارے وسائل ملکی سلامتی کے لیے خرچ کردے گی۔

جنرل (ر) زاہد مبشر (دفاعی تجزیہ نگار)

یوم دفاع کو پچاس سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس سال ہم گولڈن جوبلی منارہے ہیں۔ 65ء کی جنگ میں پاکستانیوں کا جذبہ کمال تھا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ 65ء والا جذبہ قوم میں دوبارہ نظر نہیں آیا اور بدقسمتی سے 71ء کی جنگ میں ہمیں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 65ء کی جنگ ہمارے لیے ایک دفاعی جنگ تھی جبکہ بھارتی فوج طاقت کے نشے میں بلندوبانگ دعوے کررہی تھی کہ وہ لاہور پر قبضہ کر کے جم خانہ کلب میں رات کا کھانا کھائے گی مگر اس کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی۔ اُس وقت ہماری فوج اور ہتھیاروں کی تعداد بھارت کے مقابلے میں کم تھی لیکن پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور یہ ثابت کردیا کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں۔ سیالکوٹ میں جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ ہوئی لیکن اس میں بھی بھارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 65ء کی جنگ میں پوری قوم میں اتحاد کا عالم تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کے بعد تین شہروں لاہور، سیالکوٹ اور سرگودھا کو ہلال استقلال سے نوازا گیا۔

اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو اس وقت ہماری پہلی دفاعی لائن ڈپلومیسی بہت کمزور ہے کیونکہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہے اور نہ ہی کوئی فل ٹائم وزیردفاع ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کے بھی آپس میں اختلافات ہیں، ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں تمام بڑے سیاسی رہنماؤں کو چاہیے تھا کہ اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر بھارت کے خلاف کوئی متفقہ بیان جاری کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ہم نے دیکھا کہ الطاف حسین نے ہندوستان اور نیٹو افواج کو دعوت دی جبکہ چند روز قبل آصف علی زرداری نے بھی سیاسی اعلان جنگ کیا ۔ میرے نزدیک ان حالات میں ان کے پاس خود پر لگے داغ دھونے کا یہ سنہری موقع تھا کہ یہ اعلان کرتے کہ اگر کوئی مشکل وقت آیا تو ہم افوج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔اس وقت اتحاد کا فقدان نظر آرہا ہے، میرے نزدیک ہندوستان کے معاملے پر قومی اسمبلی میںبحث کرنی چاہیے، اس طرح تمام جماعتوں کا موقف واضح ہوجائے گا۔ہمیںیہ سمجھنا چاہیے کہ جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے کیونکہ قوم ہی فوج کو جرات دیتی ہے لہٰذا ہمیں متحد ہوکر سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d21.jpg

اوفا میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا، بعدا زاں سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کے کہنے پر کشمیر کا ذکر نہیں کیا گیا، یہ بہت بڑی نالائقی تھی اور اب نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز کی میٹنگ سے پہلے بھارتی وزیرخارجہ نے اسے دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ پاکستان نے اوفا میں یہ طے کیا تھا کہ صرف دہشت گردی پر بات ہوگی تو پھر اب پاکستان کشمیر پر بات کیوں کررہا ہے لہٰذا اب ہمیں اس محاذپر خود کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی فوج ’’بیٹل ہارڈن فوج‘‘ ہے کیونکہ دنیا میں بہت کم ایسی افواج ہیںجن میں ہر سپاہی کو فائر کرنے اور جنگ میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ہم اس وقت دہشت گردی کی جو جنگ لڑ رہے ہیں ، یہ روایتی جنگ سے بہت مشکل ہے لیکن ہمیںاس میں بھی کامیابی مل رہی ہے۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری فوج اپنا دفاع کرنا جانتی ہے لہٰذا اگر اب بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تو اسے منہ کی کھانا پڑے گی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں اورایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کوئی مذاق نہیں ہوتی اس لیے دنیا میں دونوں ممالک کے درمیان معاملات حل کروانے کے لیے سفارتی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ میرے نزدیک بھارت کے ساتھ جنگ کے امکانات بہت کم ہیں لہٰذا اب ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم نے بھارت کے ساتھ سرحدی علاقوں میں گولہ باری اور سرحدی خلاف ورزی کے معاملے کو کس طرح حل کرنا ہے اور حالات کو کس طرح معمول پر لانا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہ ہو۔ اس وقت دنیا پاکستان کی نیوکلیئرپوزیشن کے بارے میں سازش کررہی ہے، کارنیگی تھنک ٹینک نے خبردی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دنیا میں تیسرے نمبر پر آنے والے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے لیکن یہ لوگ پاکستان کی ایٹمی طاقت کو دنیا کے لیے خطرہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اس لیے ہمیں غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے اور ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ہم ایٹمی جنگ کے حق میں نہیں ہیں ۔

ائیر وائس مارشل (ر) امجد حسین (دفاعی تجزیہ نگار)

تقسیم ہند سے لے کر 57ء تک ہم برطانوی سسٹم پر کام کر رہے تھے جبکہ ہمارے ہتھیار اور اسلحہ بھی برطانوی تھا۔ بعدازاں ہم برطانوی سسٹم سے امریکی سسٹم پر منتقل ہوئے اور منتقلی کا یہ عمل 65ء میں بھی جاری تھا۔ 65ء کی جنگ میں ایئر مارشل اسد خان نے ہماری قیادت کی ۔ اس وقت ہم حجم میں بھارت سے کم تھے جبکہ ہمارے پاس سہولیات بھی زیادہ نہیں تھیں لیکن جب بھارت سے ہماری جنگ ہوئی تو اللہ کے فضل و کرم سے ہماری پلاننگ بہترین تھی اور ہمارے لوگوں میں جذبہ بھی بہت زیادہ تھا۔ ہمارے جذبے کا عالم تو یہ تھا کہ چیف آف ایئر سٹاف خودپائلٹ کے ساتھ ہوائی سفر کرتے تھے اس لیے انہیں مسائل کا بہتر اندازہ تھا۔ ہمارے وسائل کم تھے، ہم امریکہ پر اسلحہ کے لیے انحصار کرتے تھے اور پھر سیاسی محرکات کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے بندشیں بھی آتی تھیں لیکن ہمارے مینٹنس سٹاف کی بہتر پلاننگ کی وجہ سے ہمیں دوران جنگ زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بھارت نے پہلی مرتبہ کشمیر میں ایئر فورس سے حملہ کیا حالانکہ ایئر مارشل اسد خان نے خبردار کیا تھا کہ فضائی حملہ نہ کریں ورنہ مکمل جنگ چھڑ جائے گی لیکن بھارت نے پھر بھی حملہ کردیا۔

بھارتی طیارہ ہنٹر ہمارے جہازوں سے بہتر تھا لیکن پہلے ہی دن انیق شہید نے بھارت کے چار طیارے مار گرائے جس سے ہمارے نوجوانوں کا حوصلہ بلند ہوگیا اور پھر ہمارے جونیئر پائلٹوں میں بھی بھارتی ہنٹر کے ساتھ مقابلے کی خواہش پیدا ہوئی۔ 6ستمبر کی صبح جب بھارت نے راہ والی پر حملہ کیا تو مجھے تحقیقات کے لیے بھیجا گیا۔ جب میں پہنچا تو دیکھا کہ بھارت نے ہمارے علاقے میں بمباری کی ہے۔ اسی دوران بھارتی جہاز وہاں سے گزرے اور ہمارے ایک پائلٹ نے ان کا پیچھا کرکے ایک جہاز مار گرایا۔ ان دنوں ہماے پاس ایک ریڈار تھا، میں نے رپورٹ دی کہ بھارت نے سرحدی خلاف ورزی کی ہے، اس کے جہاز بھی یہاں آئے ہیں اور انہوں نے بمباری بھی کی ہے۔ میرے سے دوبارہ تصدیق کی گئی اور پھر اسی شام صدر پاکستان نے بہت خوبصورت الفاظ میںکہا کہ دشمن کو یہ نہیں پتہ کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ پاک فضائیہ پہلے سے ہی تیار تھی، اس تقریر کے بعد ہمارے بمباروں نے بھارتی اڈوں پر بمباری کی۔ اگلی صبح بھارت نے حملہ کیا۔ میں نے سرگودھا کے پاس ایک جہاز مار گرایا اور دوسرے کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d31.jpg

اس نے کافی مزاحمت کی ، میں نے اپنی سپیڈ تیز رکھی، وہ میرے سامنے آیا اور میں نے فائر کردیا ۔بھارتی جہاز تباہ ہوگیا لیکن اس کے ساتھ ہی میرے جہاز کو بھی نقصان پہنچا اور میں زمین پر گرگیا۔ میں نے ایک شخص کو اپنا تعارف کروایا، اس نے میری مدد کی اور پھر جب میں قریبی گاؤں پہنچا تو وہاں کے لوگوں کا جذبہ دیکھ کر میرا حوصلہ مزید بلند ہوگیا اور وہاں مجھے ایک بڑھیا نے کہا کہ بیٹا جاؤ اوربھارت کوبتاؤ کہ ہم کون لوگ ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا کی بہترین ایئر فورسزمیںجہازوں کی 80فیصد کارکردگی کوبہترین گنا جاتا ہے، 65ء کی جنگ میں ہمارے جہازوں کی کارکردگی نوے فیصد سے پچانوے فیصد رہی جبکہ ہمارے 100جہاز 200 جہازوں کے برابر کام کررہے تھے۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی تھی، اگر دھماکے نتیجے میں کوئی گڑھا بن جاتا ہے تو اس کو بھرنے کے لیے ہمارے پاس ٹریکٹر نہیں تھے۔ زمینداروں نے ہمیں اپنے ٹریکٹر دے دیئے، ملبہ بھی آ گیا اور پھر ان گڑھوں کو بھرنے کیلئے فیصل آباد سے قیدی منگوائے گئے۔

ان قیدیوں کا جذبہ اتنا بلند تھا کہ انہوں نے بمباری کے دوران جاکر گڑھوں کو بھرا اور جب تک جنگ رہی ایک قیدی بھی وہاں سے نہیں بھاگا۔ دوران جنگ فنکاروں نے بھی اپنے نغموں سے فوجی جوانوں اور قوم کا حوصلہ بلند کیا اور ہماری پوری قوم اپنے بلند حوصلے کی وجہ سے بھارت کے سامنے سیسہ پلائی کی دیوار بن گئی۔ پاک فضائیہ نے65ء کی جنگ میں وسائل کی کمی کے باوجود دشمن کے چھکے چھڑادیے تھے۔ آج ہماری فضائیہ بہت بہتر ہوچکی ہے جبکہ تمام خامیاں بھی دور کرلی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہماری فضائیہ دنیا کی بہترین فورسز میں گنی جارہی ہے۔ ہم جہازوں کی تیاری اور سپیئر پارٹس کے حوالے سے بھی خود مختار ہوچکے ہیں جبکہ ہمارا جے ایف 17 بہترین ہے اور ہمارے ہتھیار بھی بہت خطرنات ہیں۔ 65ء کی جنگ ہم نے تین “A’s” اللہ، ایئرفورس اور آرٹلری سے جیتی اورہم اب بھی اس روایت کو قائم رکھیں گے۔ہماری فوج شہادت کے جذبے سے سرشار ہے اور ہم اپنے ملک کیلئے قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں لہٰذا اگر بھارت نے کوئی غلطی کی تواس کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑیگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔