ممی ڈیڈی کے نام سوری!

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 7 ستمبر 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

کراچی میں اسکول کے دو نوعمر طلبا کی جانب سے خودکشی کے واقعے نے ہر باحس اور درد دل رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیا، خودکشی کا یہ واقعہ ارباب اختیار کے ضمیر کو کس قدر جھنجھوڑتا ہے اس کا اندازہ بھی چند دنوں میں ہوجائے گا۔ ابھی تک تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے روایتی طور پر اس کی تفصیلات طلب کرلی ہیں اور واقعے کے بعد اسکولوں میں سکیورٹی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے ضمن میں شہر بھر کے نجی اسکولوں کو تعلیمی اداروں کی اندرونی سکیورٹی کے معاملے پر ایک ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔ واقعے کی تفصیلات کے مطابق نوروز اور فاطمہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور والدین کے نہ ماننے کے خوف سے خودکشی کے اقدام پر مجبور ہوئے جس کے لیے طالبہ اپنے اسکول بیگ میں اپنے والد کا پستول رکھ کر لے آئی تھی۔

جائے وقوعہ سے دونوں طلبا کی جانب سے لکھے گئے خطوط بھی ملے ہیں، رومن اردو میں لکھے گئے ان خطوط میں مرحومین نے والدین سے درخواست کی ہے کہ ان دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ بنائی جائیں۔ لڑکی نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ ’’پاپا! سوری میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت لَو کرتے ہو لیکن پاپا! میں نوروز سے بہت لَو کرتی ہوں اس لیے سوسائیڈ کر رہی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں آپ میری شادی کسی اور کے ساتھ کرو گے جو مجھے ایکسیپٹ نہیں، میں صرف نوروز کی ہوں۔ اس جنم میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اس لیے ہم مر کر ایک ہونگے جب میں مر جاؤں تو پاپا! پلیز میری قبر نوروز کی قبر کے ساتھ بنانا۔ پلیز پاپا! یہ میری لاسٹ وش ہے۔ تھینکس گاڈ جی! کہ آپ نے مجھے میرے پیار سے ملادیا۔ گاڈ جی! میری ماما اور پاپا کا خیال رکھنا۔‘‘ نوروز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اس نے کہا کہ ’’ڈیڈی ممی! سوری آپ لوگوں کو میری جان اچھی نہیں لگتی ہے اس لیے آپ میری شادی کسی اور کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، بٹ مام میں صرف فاطمہ کو وائف بنانا چاہتا ہوں جو آپ لوگوں کو منظور نہیں ہے، میں فاطمہ کے ساتھ آج اپنی مرضی سے سوسائیڈ کر رہا ہوں کیونکہ جب تک ہم زندہ ہیں آپ لوگ ہمیں ایک نہیں ہونے دینگے لیکن اللہ کے پاس ہم دونوں ایک ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ گاڈ! میری مام اینڈ ڈیڈ کا خیال رکھنا۔ بائے گاڈ! میں آرہا ہوں آپ کے پاس۔ مرنے کے بعد میری قبر فاطمہ کی قبر کے ساتھ ہی بنانا پلیز! یہ میری لاسٹ وش ہے۔‘‘

واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے سول اسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے، پیار ایک مثبت جذبہ ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو منفی ہوجاتا ہے، انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں خلل پڑجاتا ہے، اسے کوئی درمیانی راستہ نظر نہیں آتا، وہ مارنے مرنے پر تیار ہوجاتا ہے، اس کی بنیادی وجہ والدین کا بچوں کو توجہ نہ دینا ہے جب کہ انٹرنیٹ، ٹی وی اور موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال بھی خودکشی کو فروغ دے رہا ہے۔ جب والدین بچوں سے رابطے میں نہ ہوں، بچوں کے دوست یا کزنز نہ ہوں اور وہ اپنی باتیں کسی سے شیئر نہ کرسکیں، بچے کسی سے ملتے ملاتے اور رشتہ داروں کے ہاں بھی نہ جاتے ہوں اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے سوشل کمیونی کیشن ختم ہوجائے اس پر والدین بھی بچوں کو سمجھانے کے بجائے مار پیٹ کرکے سمجھیں کہ بچے بری چیز ترک کردینگے حالانکہ بچہ وہ چیز ترک نہیں کرتا بلکہ والدین سے دور ہوجاتا ہے۔

خودکشی کے اس افسوس ناک واقعے کو محض ان نوعمروں کا ذاتی اقدام سمجھ کر کسی عام واقعے کی طرح نہیں لینا چاہیے۔ سب سے پہلے تو اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ یہ حقیقتاً خودکشی کا ہی واقعہ ہے یا اس میں کچھ اور حقیقت پنہاں ہے اگر یہ واقعتاً خودکشی کا واقعہ ہے تو پھر اس کے تمام حالات و واقعات کا سماجی، نفسیاتی، مذہبی اور قانونی پہلو سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ واقعے کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں متوفی کمسن تھے، اتنی کم عمری میں ایک دوسرے پر اتنے فریفتہ تھے کہ انھوں نے اپنی جانیں گنوانے میں بھی فخر و کامیابی محسوس کی۔ دونوں نے اپنے والدین کی محبت کا اقرار کیا اور خود بھی ان سے محبت کا اظہار کیا لیکن خود ایک دوسرے کی محبت کو والدین کی محبت اور خود اپنی زندگیوں پر ترجیح دی، دونوں کو اپنے والدین سے اس بات کی ناامیدی تھی کہ وہ ان کی شادی پر رضامند ہوجائینگے۔ یہ لوگ والدین کی عدم توجہی کا تو شکار تھے ہی مگر اساتذہ کی توجہ سے بھی محروم تھے کہ یہ دونوں تعلیمی ادارے میں کیا کچھ کر رہے تھے۔

اسمبلی کے دوران کلاس روم میں کیسے موجود تھے، لڑکی کا خودکشی کرنے کے لیے والد کا پستول اسکول لے آنا ایک طرف تو والد کی بے احتیاطی و لاپرواہی ظاہر کرتا ہے دوسرے اس امکان کو بھی تقویت دیتا ہے کہ وہ مزاجاً سخت گیر رویے کے مالک ہونگے جس کا اظہار متوفین کے خطوط سے بھی ہوتا ہے۔ طلبا کے خطوط سے یہ بات سامنے آتی ہے انھیں اردو آتی تھی نہ انگلش آتی تھی۔ اردو اور انگلش کی بے ساکھیوں سے مزین یہ فلمی مکالموں کے انداز میں تحریر کیے گئے تھے جن میں اس جنم اور اگلے جنم کا ذکر اور گاڈ جی (اللہ) کے حضور کامیابی و کامرانی کے ساتھ جانے کا تاثر نمایاں نظر آتا ہے۔ خودکشی کی موت کے بعد ایک ساتھ قبریں بنوانے کی خواہش کا اظہار بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مذہبی و معاشرتی روایات سے نابلد تھے۔ اگر ان بچوں کی کردار سازی کی گئی ہوتی انھیں بنیادی اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا گیا ہوتا اخلاقی اقدار بتائی گئی ہوتیں تو شاید یہ اقدام نہ کرتے۔

انھیں معلوم ہوتا کہ زندگی اللہ کی امانت ہے اور اپنی زندگی ختم کرنیوالا سیدھا جہنم میں جاتا اور اللہ کے غیظ و غضب کا شکار ہوتا ہے، تو وہ یہ نہ کہتے کہ ’’تھینکس گاڈ جی! آپ نے مجھے میرے پیار سے ملادیا۔ میں آرہا ہوں آپ کے پاس۔‘‘یہ واقعہ اس افسوسناک حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ہم، ہمارا معاشرہ اور ریاست بچوں کی دیکھ بھال اور اخلاقی تربیت میں مجرمانہ قسم کی غفلت میں مبتلا ہیں۔ غیر ملکی فلموں، ڈراموں، انٹرنیٹ، فیس بک، موبائل فونز کے نوجوان پر مثبت سے کہیں زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ پر ویڈیو چیٹ، موبائل فون پر گپ شپ، الصبح اسکول کالجز سے پہلے کھلنے والے آئسکریم پارلر، نیٹ کیفے اور شیشہ نوشی کے مراکز وہ کمائیاں ہیں جن سے آج کے ہر نوجوان کا سابقہ پڑتا ہے، میڈیا کا گلیمر ان کی آنکھیں خیرہ، عقل ماؤف کرکے ہیجان خیزی پیدا کررہا ہے۔ فلم، ڈرامے، مارننگ شوز حتیٰ کہ مذہبی پروگراموں میں بھی زہر ہلاہل شامل ہے۔ فیشن شوز، ورائٹی و ثقافتی شوز کے نام پر نوجوانوں میں بے حیائی پھیلائی اور فحاشی و بے حیائی کو بڑی خوبصورتی اور دل آویزی کے ساتھ تہذیب و روایت کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔

اس مملکت اسلامیہ میں حجاب والی طالبات کو تو تعلیم سے محروم کیا جارہا ہے جب کہ شوبز سے تعلق رکھنے والی خراب شہرت کی مالک ماڈل سے طلبا کو لیکچر دلوا کر ان کا آئیڈیل بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے کہ ’’جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘ رسول اﷲ ﷺ کے بھی فرمان کا مفہوم ہے کہ ’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔ حیا نہیں تو کچھ نہیں۔‘‘ ریاست کی آئینی اور کلیدی ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں فلاحی، اصلاحی اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے عملی اقدامات کرے، اس سلسلے میں سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیموں اور شخصیات کے علاوہ بیوروکریسی، میڈیا، قلمکاروں اور علما کے کاندھوں پر بھی بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

سب سے زیادہ والدین کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی اولاد کو مذہب اور اخلاقیات سے آشنا کریں، ان کی رزق حلال سے پرورش کریں، ان کی اخلاقی تربیت پر سب سے زیادہ دھیان دیں تاکہ وہ ایک اچھے انسان اور کارآمد شہری بن سکیں، بچوں کے ساتھ رابطے میں رہیں ان سے دوری یا محض ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے دوستی و اعتماد کا رشتہ رکھیں، ان پر، ان کے دوستوں عادات اور ماحول پر کڑی نظر رکھیں۔ انٹرنیٹ یا موبائل فون وغیرہ کے صحیح استعمال کو ممکن بنائیں۔ حرص وہوس اور نفس پرستی کے ماحول میں جب یہ تمام ذمے داریاں بحسن و خوبی انجام پائیں گی تب ہی نوجوان اپنی ذمے داریاں اور کردار نبھانے کے قابل ہوں گے۔ جب تک ریاست اور والدین اپنا کردار اور ذمے داریاں نہیں نبھاتے اس وقت تک نوجوان نسل سے توقع اور شکایت کرنا بے جا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔