ہیموفیلیا؛ جینیاتی  خرابی کے باعث لاحق ہونے والا مرض

نرگس ارشد رضا  جمعرات 10 ستمبر 2015
ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جس میں خون کے جمنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جس میں خون کے جمنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

ہیموفیلیا ایک موروثی مرض ہے، جس میں خون کے جمنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے مریض کے جسم کے کسی بھی حصّے پر معمولی نوعیت کا زخم بھی لگ جائے تو اس سے دیر تک خون بہتا رہتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق بعض مریضوں جسم کے اندر بھی اچانک ہی خون بہنے لگتا ہے۔

اس کی مختلف وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اندرونی طور پر خون بہنے کے باعث جوڑوں اور اعضا میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے اور مریض کو چلنے پھرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ طبی محققین کے مطابق یہ جینیاتی خرابی کے باعث لاحق ہونے والی بیماری ہے۔ والدین سے اولاد کو منتقل ہونے والے اس مرض کی علامات میں جوڑوں کی سوجن، جسم پر نشانات نمودار ہونے کے ساتھ زخم لگنے کی صورت میں دیر تک خون بہتے رہنا شامل ہیں۔ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے جسم کے کسی حصّے پر زخم لگ جائے تو اس سے رسنے والا خون تھوڑی دیر تک نکلنے کے بعد رک جاتا ہے۔

اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ زخم کے منہ پر ایک جِھلی سی بن جاتی ہے جسے عام طور پر کلوٹ کہتے ہیں۔ یہ خون کے بہاؤ کو روکتا ہے یا اسے جمنے میں مدد دیتا ہے۔ صحت مند انسان کے خون میں قدرتی طور پر جسم سے اخراج کے دوران جم جانے کی یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے، لیکن ہیموفیلیا کے مریضوں کے خون میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ خون دراصل سرخ اور سفید خلیات اور پلیٹلیٹس پر مشتمل ہوتا ہے، جن کے ساتھ مل کر جسم میں موجود پروٹین کلوٹنگ کا عمل انجام دیتی ہے، لیکن ہمیوفیلیا کی صورت میں یہ قدرتی نظام ناکارہ ہو جاتا ہے۔

اس بیماری کی وجہ جین میں ہونے والا نقص ہے۔ ایکس (X) کروموسوم کے نقص سے جنم لینے والا ہیموفیلیا کا مرض زیادہ تر مردوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اس بیماری کی دو بڑی اقسام ہیں، جنہیں طبی ماہرین ہیموفیلیا A اور ہیموفیلیا B کے نام سے شناخت کرتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق اس مرض میں اکثریت ہیموفیلیا A کا شکار ہوتی ہے۔ اس کی دوسری قسم کا شکار ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اس مرض سے متعلق آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا شکار ہونے والوں کی اکثریت اپنا مناسب اور باقاعدہ علاج نہیں کرواتی۔ پسماندہ اور علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ملکوں میں ہیموفیلیا سے متعلق عدم آگاہی کے علاوہ علاج نہ کروانے کی بڑی وجہ غربت بھی ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس مرض کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو دانتوں کی صفائی اور شیو کرتے ہوئے خود کو زخم لگنے سے بچانا چاہیے۔ اس کے علاوہ گھر کے کاموں کے علاوہ باہر بھی نارمل انسان کے مقابلے میں چلنے پھرنے، دوڑنے، سڑک پار کرنے اور نوکیلی یا تیز دھار اشیا کے استعمال کے دوران بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ طبی سائنس اس بیماری اور اس کے علاج کے طریقوں پر تحقیق کررہی ہے۔

چند ماہ قبل محققین نے اس سلسلے میں جین تھراپی کا کام یاب تجربہ کیا، جس میں چھے مریضوں کے جسم میں مخصوص مواد داخل کیا گیا جس سے ان کی خون کو منجمد کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک سال تک ان میں خون کے جمنے کی صلاحیت برقرار رہی۔ تاہم خون جمنے کی صلاحیت بڑھانے کے اس طریقے سے دوسری جسمانی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کی سوزش بھی اس چند ضمنی اثرات میں سے ایک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔