ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں!

شاہ فیصل نعیم  جمعـء 11 ستمبر 2015
اے حکمرانوں اپنے دفتر میں لٹکتی ہوئی قائداعظمؒ  کی تصویر کو دیکھ کر صرف ایک بار سوچ لیا کریں کہ اس عظیم انسان نے ملک کے لیے کیا کیا اور آپ کیا کر رہے ہیں؟

اے حکمرانوں اپنے دفتر میں لٹکتی ہوئی قائداعظمؒ کی تصویر کو دیکھ کر صرف ایک بار سوچ لیا کریں کہ اس عظیم انسان نے ملک کے لیے کیا کیا اور آپ کیا کر رہے ہیں؟

’’چند شخصیات نے حیران کن انداز میں تاریخ کا رخ موڑدیا، چند نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور بمشکل ہی کوئی ایسا شخص ملتا ہے جس نے ایک ریاست کو جنم دیا ہو۔ محمدعلی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘۔

یہ اسٹینلے والپرٹ کے کہے ہوئے الفاظ ہیں جنہیں تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کرتے ہوئے فخر محسوس کیا۔ یہ الفاظ قائداعظم محمد علی جناح کی عظمت کے آئینہ دار ہیں۔ اپنے تو تعریف کرتے ہی ہیں مگر مزہ تب آتا ہے جب غیر آپ کے عظیم ہونے کی گواہی دیں۔

وجے لکشمی پنڈت نے تقسیم ہند کے زخم چاٹتے ہوئے کہا تھا،

’’اگر مسلم لیگ کے پاس 100 گاندھی، 200 ابوالکلام آزاد اور کانگریس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا‘‘۔

لیڈر کے ہر عمل میں کوئی نا کوئی راز چھپا ہوتا ہے اور اُس کی ہر بات سے دور اندیشی جھلکتی ہے۔ اُس کی زندگی آنے والی نسلوں کیلئے مثال ہے کہ وہ اُس سے رہنمائی پائیں۔ اپنی زندگیوں کو بہتر انداز میں گذارنے کے لیے اُس کی حیات سے فیض طلب کریں۔ جب کوئی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ لوگ اُس کی پیروی کرنے لگیں تو پھر اُس کی زندگی اُس کی نہیں رہتی وہ نسلوں کی امانت بن جاتی ہے۔

ایسے ہی ایک عظیم انسان کو دنیا ’’محمد علی جناح‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ تاریخ اُنہیں قائداعظم اور بیسویں صدی کے عظیم ترین انسان جیسے خطابات سے نواز چکی ہے۔ قائداعظم کتنے بڑے انسان تھے یہ جاننے کے لیے ہم اُن کی زندگی کے کچھ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔

یہ ایک اجلاس کا منظر ہے قائداعظم اور بہت سے افراد ہال میں موجود ہیں۔ وزیراعظم اور کچھ دوسرے افراد ابھی تک نہیں پہنچے۔ قائداعظمؒ حکم دیتے ہیں کہ خالی کرسیاں اُٹھا دی جائیں اور اجلاس کی کارروائی شروع کی جائے۔ اجلاس شروع ہوجاتا ہے اس دوران وزیرِ اعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان تشریف لاتے ہیں تو اُنہیں کوئی کرسی پیش نہیں کی جاتی وہ سارا اجلاس کھڑے ہو کر سنتے ہیں۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عظیم انسان وہ نہیں جو دیئے گئے وقت سے لیٹ پہنچے بلکہ انسان عظیم تب کہلاتا ہے جب وہ وقت کی قدر کوجانتا ہے۔

اس ملک کے سیاستدان جب کہیں سے گزرتے ہیں تو اُن کے ساتھ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے۔ ساری ٹریفک کو روک کر اُنہیں راستہ دیا جاتا ہے۔ کوئی مرتا ہے تو مرجائے اِس کی کسی کو کوئی پروا نہیں، حکمرانوں کے ان رویوں سے لوگوں کا قانون پر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ قانون چند امیر لوگوں نے اس غرض سے بنایا ہے کہ وہ غریبوں کو خود سے دور رکھ سکیں اور اس میں اتنی رعایت بھی رکھی ہے کہ ضرورت پڑنے پر خود کو اس کی پکڑ سے بچا سکیں۔ یہاں قائداعظمؒ کی زندگی کا ایک اور واقعہ پیش کرتا ہوں۔

ریل گاڑی کے گزرنے کا وقت ہے اور پھاٹک بند ہے۔ سڑک پر گاڑیوں کا بہت رش ہے۔ قائداعظم ؒ  کی گاڑی وہاں جا کر رکتی ہے اے ڈی سی گاڑی سے باہر نکلتا ہے اور پھاٹک پر موجود نگران سے کہتا ہے۔

’’ تمہیں معلوم نہیں گاڑی میں قائداعظم بیٹھے ہیں۔ جلدی سے پھاٹک کھول دو‘‘۔

نگراں سنتے ہی پھاٹک کھول دیتا ہے۔ قائداعظم ؒ  کو اس کا علم ہوتا ہے تو وہ اے ڈی سی کو گاڑی میں طلب کرتے ہیں اور اُسے حکم دیتے ہیں کہ اسی وقت جاؤ اور پھاٹک بند کراؤ۔ اے ڈی سی کہتا ہے، سر! ابھی ریل گاڑی کے گذرنے میں کافی وقت ہے ہم آسانی سے گزر جائیں گے۔ قائداعظم ؒ یہ سن کر کہتے ہیں،

’’اگر قانون بنانے والے قانون کا احترام نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟‘‘

پھاٹک بند کروا دیا جاتا ہے۔ ریل گاڑی گذرنے کے بعد پھاٹک کھلتا ہے تو قائداعظم کی گاڑی باقی گاڑیوں کے ساتھ گزرتی ہے۔ میں یہاں حکمرانوں کو نصیحتیں کرکے اپنے الفاظ ضائع نہیں کروں گا، صرف اتنا کہوں گا کہ اپنے دفتر میں لٹکتی ہوئی قائداعظمؒ  کی تصویر کو دیکھ کر صرف ایک بار سوچ لیا کریں کہ اس عظیم انسان نے ملک کے لیے کیا کیا اور میں کیا کر رہا ہوں؟

قائد کی زندگی کے آخری ایام سے ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے۔ آپ کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ کھانا بھی بہت کم کردیا تھا جس کے باعث کمزوری بڑھتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر بہت پریشان تھے اُنہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر قائد کے پسند کے باورچی سے کھانا پکوایا جائے تو آپ کھانا زیادہ پسند کریں گے۔ باورچی کی تلاش شروع ہوگئی کافی تلاش کے بعد وہ باورچی مل گیا جو قائد کے لیے کھانا بنایا کرتا تھا، جب اُس نے کھانا بنایا تو آپ نے بہت پسند کیا اور معمول سے زیادہ کھایا۔ جب آپ نے پوچھا،

’’آج کھانا کس نے بنایا ہے؟‘‘ تو قائد کو بتایا گیا کہ نیا باورچی بلایا گیا ہے۔ یہ سب سن کر بسترِ مرگ پر موجود اُس عظیم انسان نے جو الفاظ کہے وہ آج کے حکمرانوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔  قائداعظمؒ نے کہا،

’’ایک غریب قوم کے گورنر کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے‘‘۔

آپ نے اُسی وقت اپنی چیک بک نکالی اور جتنے پیسے سرکاری خزانے سے خرچ ہوئے تھے واپس کیے۔ 11 ستمبر کو بانیِ پاکستان عوام پاکستان کو یتیم چھوڑ کر ملکِ عدم رخصت ہوگئے۔ آپ کی زبان سے جو آخری لفظ سنا گیا وہ ’’پاکستان‘‘ تھا۔ وطن سے محبت، تعمیر ہی اس عظیم قائد کی زندگی کا مقصد تھا، اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آج بھی ہمارے حکمراں قائداعظم کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیں تو پاکستان ترقی کے سفر پر گامزن ہوسکتا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔