وطن بدر

جاوید قاضی  ہفتہ 12 ستمبر 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اک نوحہ ہے آدمیت کا ، جیسے کوئی بلک بلک کر رو رہا ہے۔ بین کرتی ہوئی نگاہ ہے۔ بس ایک تصویر تھی آویزاں اور طویل سی کہانی تھی جو امڈ پڑی تھی۔ ’’ایلان کردی‘‘ کو نیند آگئی تھی۔ ابدی نیند، ایک ایسی نیند جس سے اسے ابھی اٹھنا نہیں تھا مگر شرم سے ساری انسانیت اشکبار تھی۔ وہ سب قاتل تھے اور ایلان ان سب ہاتھوں سے مقتول تھا، ہاں مگر ان سب میں ایک اعتراف تھا کہ واقعی وہ سب ’’ایلان‘‘ کے قاتل ہیں۔

کتنی بھاری تھی وہ تصویر اور کتنی تیزی سے اس نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دی تھی۔ دنیا کے ہر کونے کو ہلا دیا تھا۔ جاگ اٹھا انسان جیسے۔ یہ آدمی بہرہ ہے۔ ’’ایلان‘‘ سے پہلے کتنی آفتیں نازل ہوئی تھیں ، کیا کیا نہ ہوا تھا۔ شام کے بازاروں میں سب کچھ سرشام لٹ گیا۔ آمریتوں کے طویل ادوار نے، سرمائے کی دھن میں رہتی دنیا کے سامراج نے، عربوں کے اندر فرقوں کے تضادات نے شام کے وجود میں دراڑیں پیوست کردیں، وہ دراڑیں اب شام سے عراق سے بحرین، یمن، لیبیا، تیونس، ہر طرف بڑھ رہی تھیں جس کی بازگشت افغانستان سے لے کر پاکستان، سینٹرل ایشیا، ترکی، کردستان تک پھیل رہی تھیں۔

جب 40لاکھ شامیوں پر یہ صادر ہوا کہ وطن بدر ہوں۔ ہر طرف خیمے تھے۔ کچھ ترکی نے لیے، کچھ اردن، نہیں ہے گر تو باقی پوری امہ نہیں ہے۔ یورپ نے بھی دیواریں کھڑی کردیں، ان شامی مہاجرین کے لیے گلیاں تنگ تھیں۔ دل تنگ اور وسیع النظر غائب تھی، انھیں ایسٹ یورپ سے گزر کے ویسٹ یورپ جانا تھا، ایک ایسی دنیا جو اپنے انسانی احساسات سے، ذمے داریوں سے بہ خوبی واقف تھی کہ انھوں نے اپنے قوانین ایسے بنائے تھے۔

وہ خود ایک طویل ہجرتوں سے گزرے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں سے، تباہیوں و بربادیوں سے اس طرح ہجرت آن پڑی تھی۔ بوچن والڈ اور اوشوز Auschwitz کنسنٹریشن کیمپ پر، اور کتنے یہودی بچے بے گھر، بے وطن، بے یار و مددگار ہوئے تھے، زندہ جلائے گئے، ہر طرف تباہی و بربادی کے منظر تھے۔

تضاد جب مخاصمانہ ہوتے ہیں ریاستیں جب آمریتوں سے جکڑ جاتی ہیں، تو ان کے اندر دیمک جنم لیتا ہے۔ وہ انھیں اندر سے خستہ کردیتا ہے۔ اب عرب دنیا کے عالم پناہ اپنی بادشاہتیں بچانے کے لیے بھی جنگیں بیچتے ہیں۔ کوئی اور نہیں یہ ایک عرب ریاست تھی جس کے ہوٹلوں میں خودکش حملہ آوروں کی نیلامی لگتی تھی جن کو شام کی سرحد پار کر کے جانا تھا۔ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے۔ اس میں اسرائیل ملوث ہو نہ ہو مگر اس بات پر خوش بہت سے تھے کیونکہ بھارت لبنان میں شیخ ملائیشیا کی مدد کر رہا تھا اور شیخ ملائیشیا فلسطین کے جہاد سے منسلک ۔ اسے ایران کی حمایت حاصل تھی۔

مگر جب شام پر شام غارت ہوئی تو کوئی عرب ملک سوائے اردن کے پلٹ کے نہ آیا کہ ان کو خیمے دے، انھیں مہاجرین کا رتبہ دے ، ان کے دکھ بانٹے تاکہ ایک دن وہ اپنے گھر کو واپس لوٹ چلیں گے جب فسادات ختم ہوں گے۔ زندگی سکون کا سانس لے گی۔

ہاں اس بار یورپ وہ یورپ بھی نہ تھا انسانی حقوق کا علمبردار یورپ، دنیا کے لوگوں کو اپنے اندر جذب کرنے والا یورپ۔

شام کی سرحدیں ترکی سے کردستان کی طرف سے ملتی ہیں۔ انھیں ترکی سے یونان پار کرنے کے لیے ایک ایسی سمندری پٹی سے گزر کے جانا تھا جہاں موجوں کی طغیانی میں تارکین وطن کے سفینے ڈول رہے تھے ۔ ڈوب رہے تھے، یونان نے ترکی کے ساتھ لگتی سرحدوں پر تیز دھار کی تاریں لگا دی ہیں۔ یونان سے ان شام کے مہاجرین کو ہنگری اور پھر ہنگری سے آسٹریا بالآخر جرمنی پہنچنا تھا، جرمنی نے بازو پھیلائے ، اسی کے پاس ایسے قوانین تھے کہ کوئی بھی دنیا کا ستایا ہوا ان کی زمین پر پناہ لے سکتا ہے۔

مگر پھر ان کی زمیں پر آئے ہوئے مسلمانوں نے ان کی تہذیب پر حملے کیے، وہ اور بھی انتہا پرست بنے، کئی ان میں سے القاعدہ میں چلے گئے، کئی IS میں چلے گئے مگر ویسٹ یورپ نے اپنا دسترخوان تنگ نہ کیا۔ اسے کشادہ ہی رکھا اور پھر ایسٹ یورپ نے کہا جس میں وہ سارے ممالک آتے ہیں جو سوویت یونین کے بلاک میں تھے کہ شام سے آئے پناہ گزینوں سے ویسٹ کی تہذیب کو خطرہ ہے۔ کرسچن یورپ اقلیت ہی تبدیل ہوجائے گی۔ امریکا نے ان لاکھوں شامی مہاجرین میں سے صرف پندرہ سو اٹھائے۔ کینیڈا نے بھی سستی سے کام لیا۔ ہنگری نے بھی تیز دھار والی باڑھیں نصب کردیں، یوں تھے شام کے مہاجرین اور ان پر آئی ہوئی تنگ زمین۔ جائیں تو جائیں کہاں؟

ہنگری نے کہا صرف شامی کرسچن ان کے ملک میں پناہ لے سکتے ہیں۔ حکومت نے میڈیا کو اندرون خانہ ہدایات دیں کہ شام کے مہاجرین پر آئے رقت آمیز مناظر اسکرینوں پر نہ دکھائیں۔

اور پھر جب ’’ایلان کردی‘‘ کی تصویر نے ، جس میں وہ ساحل کی ٹھنڈی ریت پر بہت سکون کی نیند سو رہا تھا، دنیا کو رلا دیا، دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ دیواریں برلن دیوار کی طرح ٹوٹ گئیں۔ نہیں ٹوٹیں اگر تو عرب کی ریاستوں کی نہیں ٹوٹیں، کرسچن فلسفے میں رہنے والی ایسٹ یورپ کی نہیں ٹوٹیں۔ سنگدلی جیت گئی، انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔

شام میں یا امریکا تھا، یا سعودی عرب تھا جنھوں نے بشارت کے باغیوں کو مسلح کیا تھا۔ تو پھر دنیا نے کہا کہ یہ فریضہ بھی ان پر عائد ہوتا ہے کہ اس بحران سے پیدا ہوئی ہجرت کو از خود یہ سنبھالیں۔

بلاشبہ کتنی طویل تاریخ ہے اور کتنی بھیانک ہوئی ہے ہجرت۔ ایسی نقل مکانی اور درد انگیز ہجرت جو ہمارے ہندوستان و پاکستان کے بٹوارے سے ہوئی تھی۔ 70 لاکھ مہاجرین صرف اس پنجاب سے اس پنجاب، اور اس پنجاب سے اس پنجاب میں آئے اور گئے تھے ۔ ہندو قتل ہوئے، عورتوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں۔

میں آج کل سندھی میں ہندوؤں کی ہجرت پر رقم کی ہوئی حقائق پر مبنی نندیتا بھاؤننی کی چشم کشا کتاب “Making of Exile”پڑھ رہا ہوں۔ سب درد میرے وجود پر زینہ بہ زینہ اتر رہا ہے۔ یہ وہ درد ہے جس نے سعادت منٹو کے قلم میں وہ طاقت بخشی کہ اس نے اس ہجرت پر کھل کر لکھا اور انسانی معیاروں کی اخلاقی پسپائی کو عیاں کیا۔ سندھی ہندوؤں کی ہجرت کے پس منظر میں میرے والد نے دو شاہکار سندھی زبان میں ناول لکھے۔

ہم بھی شاید ایسٹ یورپ کی طرح تنگ نظر سماج بن گئے ہیں لیکن پھر بھی سندھ ویسٹ یورپ کی طرح (اپنے Context میں) کشادہ ہے۔ خیر سگالی کے کتنے رنگ ہیں سندھ میں، کتنی قومیں و نسلیں رہتی ہیں۔ سندھ میں مہاجروں کے لیے جتنے سندھ نے دروازے کھولے اتنے تو کسی نے بھی پاکستان میں نہیں کھولے اور رواداری آج جتنی سندھ میں ہے اتنی کہیں نہیں ہے۔

ایسٹ یورپ کے بیانیےNarrative میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ویسٹ یورپ نے مہاجرین کے لیے اپنے راستے کھول کر اپنے آپ کو برباد کردیا۔ سچ تو یہ ہے ویسٹ یورپ کے ضمیر کو معصوم ایلان کی اس آفاقی تصویر نے ایسا جھنجھوڑا کہ اس نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیے ہیں۔

ایک طرف وحشت ہے، اسی جبلتوں کے مہلک سائے ہیں، اور دوسری طرف انسانیت ہے۔ اس کی وہ اقدار ہیں، وہ ارتقائی مسافتیں ہیں، جنھیں ایک ایلان کردی کی تصویر نے لازوال اور زندہ جاوید کردیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔