حفاظت کیسے کریں؟؟

شیریں حیدر  اتوار 13 ستمبر 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بچپن ہوتا ہی کتنا ہے… چند سنہری سال، بچپن کی یادیں یہی ہوتی ہیں چار پانچ سال کی۔ بے فکری کا وہ دور جسے ہم بڑھاپے میں بھی یاد کر کے مسکرا دیتے ہیں، بچپن کا ہر لمحہ بھرپور گزارنے کے لیے ہر بچے کے کوئی نہ کوئی خواب ہوتے ہیں، جنھیں کبھی ہمارے ماں باپ پورا نہیں کرتے تو کبھی زمانے کی گرم سرد ہوائیں متاثر کر دیتی ہیں اور ہم چپکے سے لڑکپن میں داخل ہو جاتے ہیں ، جہاں پہنچ کر علم ہوتا ہے کہ زندگی مقابلے کی دوڑ ہے اور ہم اس میں شامل ہیں، اسے جیتنا ہے تا کہ دنیا میں کامیاب کہلا سکیں ۔ سب بچے معصوم اور بے خبر ہوتے ہیں، ان کا سارا جہان اور ان کی کل کائنات ان کے والدین اور ان کا گھر ہوتا ہے، والدین نے ہی انھیں پالنا، پوسنا، کھلانا پلانا اور زمانے کے سرد وگرم سے بچا کر رکھنا ہوتا ہے۔

26 اپریل کو، ’’ یہ نازک نازک غنچے ‘‘ کے نام سے لکھا گیا میرا کالم جہاں بہت سے قارئین نے پسند کیا اور اپنی رائے سے آگاہ کیا، وہاں ایک نہیں کئی والدین نے مجھ سے یہ سوال بھی کیا کہ جب ہر طرف بے حیائی کا اس قدر فروغ ہو رہا ہے تو وہ اپنے نازک پھولوں جیسے بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے، ہمارے بچے ہماری دولت ہیں، ہماری کائنات ہیں اور ان کے بارے میں اگر کسی کو فکر ہو سکتی ہے تو وہ خود ہم ہی ہیں۔

اپنا بچپن یاد کریں تو والدین کی طرف سے سختی سے یہ کہا جاتا تھا کہ جہاں وہ جائیں، صرف وہاں ہم جا سکتے ہیں، اکیلے کسی کے ہاں جا کر رہنے کی اجازت نہ ملتی تھی، اس وقت تک ماں باپ کی اس سختی کی سمجھ نہ آئی جب تک خود صاحب اولاد نہ ہوئے اور اپنے بچوںسے کہا کہ وہ ہمارے بغیر کہیں بھی رات کو قیام کے لیے نہیں جاسکتے ، چاہے کوئی کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔

چند بنیادی احتیاطی تدابیر اس دور کے والدین کو بتانا چاہوں گی کہ جن کے بارے میں ہم اور ہمارے والدین سختی کرتے تھے، اگرچہ بچوں کو اس وقت ان کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کو ان سے پیار ہی نہیں ہے، مگر وہ ان کا پیار ہی تو ہوتا ہے جو بچوںکو نازک کلیوں کا سا سمجھتے ہیں اور اس پر کسی کی گرم سانس بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔

بچے کے ماں باپ آپ ہیں، مائیں بالخصوص بچوں کو اپنے وجود میں پالتی ہیں اور پھر تکلیف سے جنم دیتی ہیں، ان کی حفاظت کی زیادہ ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے کہ قدرت نے انھیں بچوں کی پیدائش سے بہت قبل ہی یہ ذمے داری ماں کو تفویض کر دی ہوتی ہے۔ کسی مجبوری کے سوا اپنے بچے کو کسی ملازمہ یا ملازم کے پاس نہ چھوڑیں، بالخصوص اس حالت میں کہ ان کی کوئی نگرانی کرنے والا نہ ہو۔ کبھی مجبوری میں ایسا کرنا پڑے تو اپنے گھر کے بزرگوں کے پاس ملازمین کو بچہ دے کر بٹھا دیں ۔

اگر گھر سے زیادہ دیر کے لیے باہر جانا ہو تو بچے کو ملازم سمیت ساتھ لے جائیں اور ہمہ وقت اپنی نظر کے سامنے رکھیں یا ایسی جگہ پر جہاں ان کو تنہائی میسر نہ ہو، ملازمت پیشہ خواتین کو ایسی مجبوری لاحق ہو سکتی ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ کبھی یہ نہ سوچیں کہ لڑکیاں آسان نشانہ ہوتی ہیں اور لڑکوں کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا، اعداد و شمار کیمطابق دنیا میں جنسی زیادتی کا نشانہ زیادہ تر کم عمر لڑکے بنتے ہیں۔

اگر آپ کا طرز زندگی ایسا ہے کہ آپ کے بچے آیاؤں کے پاس پلتے ہیں تو ان پر خصوصی چیک رکھیں ،آپ کی غیر حاضری میں بچوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہوتا ہے، اس کے لیے خفیہ کیمرے گھر کے مختلف حصوں میں نصب کروائیں اور انھیں چیک کرتے رہیں ۔ جس وقت آپ کو ان کی سرگرمیاں پراسرار لگیں، انھیں مزید شک کا فائدہ قطعی نہ دیں اور ان کا سامنا کریں ، انھیں دھمکی نہ دیں بلکہ ملازمت سے فارغ کردیں۔

آپ کے بچے کا ڈائپر آپ کے علاوہ کسی اور کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے خواہ وہ کوئی سگا رشتہ ہی کیوں نہ ہو، نہ ہی بچے کا ڈائپر سب کے سامنے کھلم کھلا تبدیل کریں ، بچے کو ننگا بھی سب کے سامنے نہ لٹا دیں ، اپنے بچوں کی برہنہ تصاویر خود بنائیں نہ کسی اور کو بنانے دیں ۔

کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ آپ کے بچے کو لپٹائے یا اس کا بوسہ لے، اسے گود میں بٹھائے یا اس کے جسم کے کسی بھی حصے پر اپنے ہاتھوں سے مساج کرے، اپنے پاس لٹائے یا آپ کے بچے کو لباس تبدیل کروائے۔

کسی اجنبی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ آپ کے بچے کو چمکار کر اپنے پاس بلائے یا اسے کوئی ٹافی، چاکلیٹ اور چپس وغیرہ پیش کرے، اجنبیوں کو سختی سے اور اپنے بچوں کو نرمی سے منع کریں۔ اپنے بچوں کو ہر چیز خود فراہم کریں،انھیں سمجھائیں کہ انھیں جو کچھ چاہیے وہ آپ سے مانگیں، کسی اجنبی سے کچھ بھی لے کر مت کھائیں اور اگر خاندان کا کوئی بھی شخص انھیں کچھ کھانے کو یا کھیلنے کو دے۔

ان کے ساتھ کوئی عجیب حرکت کرے اور ساتھ یہ کہے کہ کسی کو بتانا نہیں، تو وہ فوراً آپ کو بتائیں۔کوئی انھیں کسی انداز سے چھوئے یا بوسہ لے اور کہے کہ یہ ان دونوں کے بیچ راز ہے تو بچے کو فوراً بتانے کو کہیں۔ انھیں یہ احساس دلائیں کہ اگر کوئی ان کے ساتھ ذرا سی بھی غلط حرکت کرے تو وہ آپ کو مطلع کرے، بچے کو ڈرائیں نہیں، سادہ زبان میں سمجھائیں کہ کچھ گندے لوگ بچوںکو ہاتھ لگا کر گندا کر دیتے ہیں، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں مگر گندے انکل کو تو سزا ملنی چاہیے،اس عمر میں بچہ صرف اچھے اور گندے میں تمیز کر سکتا ہے۔

بچے کے کسی انکل یا جوان کزنز کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے سامنے بھی آپ کے معصوم بچے کو گود میں لے کر بیٹھیں، ملازمین اور اجنبیوں کو تو ایسی اجازت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کوئی بھی آپ کے بچے کو کچھ دکھانے کے بہانے آپ کی نظر کے سامنے سے کہیں اور نہ لے کرجائے، چاہے بچے کو وہ سب دیکھنے میں کتنی ہی دلچسپی کیوں نہ ہو۔

آج کل بچوں میں sleep over کا رجحان بہت ہوتا جا رہا ہے، اپنے خاندان کے دوسرے بچوں کے ساتھ ان کے گھر میں رات گزارنے کا۔ اول تو اپنے کسی بھی عمر کے بچوں کو اس کی اجازت نہ دیں، اگر بچہ ضد کرے تو آپ خود اس کے ساتھ اس گھر میں جائیں اور اس گھر کے کسی مرد پر بھروسہ نہ کریں، خواہ وہ گھر کے اندر ہو یا باہر کے ملازمین۔ آپ کے گھر میں اگرکسی کے بچے ٹھہرنے آئیں تو ان پر کڑی نظر رکھیں، اپنے گھر کے لڑکوں اور مردوں کو ایسی جگہ بیٹھنے سے منع کریں جہاں آپ کی بیٹیوں کی سہیلیاں بیٹھی ہوں ۔ بچیوں کی بھی نگرانی کریں،ا ن کے کمرے میں سو جائیں اور دیکھیں کہ وہ ٹیلی وژن یا کمپیوٹر پر اخلاق سے گری ہوئی کوئی چیز تو نہیں دیکھ رہیں ۔

بہت بچپن سے اپنے بچوں کو شعور دیں کہ ان کا جسم ان کی ملکیت ہے اور اس ملکیت کو بے لباس چھونے کی بھی کسی ایسے شخص کو اجازت نہیں ہوتی جو ان کے والدین کے علاوہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ایسی باتوں سے بچوں کے ذہن میں الجھن ہو جاتی ہے، اسے سادگی سے بتائیں کہ ہم لباس اس لیے پہنتے ہیں کہ جسم کی حفاظت کی جائے، اس حفاظت کے حصار کو کسی کو توڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اپنے چھوٹی عمر کے بچوں کو اپنے خاندان یا دوستوں کے بڑی عمر کے بچوں کی محفلوں میں بیٹھنے سے منع کریں، مبادا کہ وہ کوئی ایسی بات سن لیں جو ان کی عمرکے لیے نہ ہو مگر اس میں ایسی کشش ہو کہ وہ خود سے کوئی تجربہ کر بیٹھیں۔ یوں تو ہم سب کو ہر وقت ہی محتاط اور صاف ستھری گفتگو کرنی چاہیے مگر بچوں کیسامنے بالخصوص اس کا خیال رکھنا چاہیے، ہماری جوان بچیاں بھی اکٹھے بیٹھ کر گفتگو میں پاکیزگی کے عنصر کا خیال نہیں رکھتیں ۔

مخلوط پارٹیوں اور تقاریب میں اپنے بچوں پر عقابی نظر رکھیں، انھیں ہدایت دیں کہ وہ آپ کے پاس اور آپ کی نظر کے سامنے رہیں اور کسی سے دوستی کریں تو آپ کو علم ہونا چاہیے کہ نئے دوست کہاں اور کیسے بنے۔

چھوٹی عمر سے ہی اپنی بچیوں کو مختصر لباس پہنانے سے گریز کریں، انھیں ڈھیلے ڈھالے اور مکمل لباس میں رکھیں، ان کے نیم برہنہ وجود انھیں دیکھنے میں جاذب بنا دیتے ہیں ، صرف میری اور آپ ہی کی نظر میں نہیں بلکہ ان کی نظروں میں بھی جو ایسے شکار ڈھونڈتے ہیں۔ جوان بچوں اور بچیوں کو بھی ایسے لباس پہنائیں جن سے ان کے جسم کے خدوخال نمایاں نہ ہوں ، انھیں بتائیں کہ انھیں کس طرح اٹھنا اور بیٹھنا چاہیے، کھلے گریبان نہ ہوں، آستین مختصر یا بے آستین نہ ہوں… قمیضوں کے دامن تنگ نہ ہوں۔ سمٹ کر اور سنبھل کر بیٹھنے اور اٹھنے کی تلقین کریں ۔

آج کل بچوں میں مل کر کسی ایک جگہ پر پڑھائی کا رجحان ہوتا جا رہا ہے، میں اور آپ کیا جانیں کہ وہ واقعی پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ کوشش کریں کہ وہ اس طرح جمع نہ ہوں، اس کی حوصلہ افزائی نہ کریں ورنہ بڑوں میں سے کوئی اس گروپ میں بیٹھے اور ان سب بچوں پر نظر رکھے۔ اپنے بچوں کے دوستوں کو چیک کرتے رہیں، اگر وہ ٹیوشن سینٹر جاتے ہیں تو ان کے ٹیوشن ختم ہونے کے اوقات سے پہلے انھیں لینے کے لیے پہنچ جائیں، ممکن ہو تو ٹیوشن کے اوقات کے دوران بھی چیک کریں کہ وہ کلاس میں ہے بھی کہ نہیں ۔

اپنے کم عمر بچوں کے ساتھ کسی ’’ حادثے‘‘ کی صورت میں اسے ذمے دار نہ ٹھہرائیں، اگر آپ نے اس کی صحیح راہنمائی کی تو انشاء اللہ وہ کسی حادثے کی صورت میں آپ کو خود بتائے گا، حادثے کا شکار ہونے کی صورت میں چیخے اورچلائے گا اور مدد کے لیے پکارے گا، اگر ایسا نہ ہو تو بھی اسے پیار سے سمجھائیں۔

اگر آپ کے بچوں میں سے کسی نے غلط کیا ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اس کی غلطی کو تسلیم کریں، اس پر سختی کریں، اس کی غلطی کا احساس دلائیں اور اسے سزا دیں نہ کہ آپ اس بات پر اکڑ جائیں کہ آپ کا بچہ بے قصور ہے۔ اگر آپ اسے protect کریں گے تو وہ اس غلطی کو بار بار دہرائے گا! غلطیوں کی زنجیر اس وقت ٹوٹتی ہے جب اس غلطی کو غلطی سمجھا جائے، غلط کرنیوالے کو سرزنش کی جائے اور اسے سزا دی جائے !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔