میڈیا لاجک کی بلیک میلنگ۔۔۔۔ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے!!

احسن کامرے  پير 14 ستمبر 2015
مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: وسیم نیاز، شہباز ملک/ایکسپریس

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: وسیم نیاز، شہباز ملک/ایکسپریس

ٹی وی ریٹنگ کمپنی میڈیا لاجک نے سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے ساتھ مل کر ایکسپریس نیوز کو بلیک میل کرنے کی سازش کی جسے ایکسپریس نیوز نے بے نقاب کردیا۔

میڈیا لاجک کے مالک سلمان دانش نے اپنی کمپنی کی ملازمہ شائستہ نامی خاتون کو ایکسپریس نیوز کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے ہراساں کیا لیکن شائستہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا جس پر میڈیا لاجک کی انتظامیہ بپھر گئی اور انہوں نے سی آئی اے لاہور کے انسپکٹر بشیر نیازی کے ساتھ ملکر شائستہ کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کروادی۔ بعدازاں اس خاتون کے گھر والوں کو دھمکیاں دی گئیں جس کی فون کال کا ریکارڈ ایکسپریس نیوز کے پاس موجود ہے۔دھمکیوں سے بات نہ بنی تو میڈیا لاجک کے افسران اور سی آئی اے ماڈل ٹاؤن نے خاتون کے دو بھائیوں کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا اور تمام قواعد اور قانون کو ایک طرف رکھ کر رات چار بجے شائستہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور اس کے بھائیوں ماجد اور واجد کو اغوا کے بعد لاہور لاکر سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے حوالات میں بند کردیا۔ بعدازاں ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن داؤد نے شائستہ کو فون کیا کہ تمہارے بھائیوں پر ڈکیتی کا مقدمہ بنایا جائے گا، اگر انہیں بچانا چاہتی ہو تو اپنی بہن کو لے کر پہنچو۔ جب شائستہ لاہور پہنچی تو اسے تھانے کی بجائے میڈیا لاجک کے دفتر بلوایا گیا جہاںا س سے سادہ کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور اپنی مرضی کی جھوٹی تحریریںحاصل کرکے شائستہ اور اس کے بھائیوں کو چھوڑا گیا۔

شائستہ کے بھائیوں کے اغوا کے پیچھے 45کروڑ تاوان کا لالچ تو موجود تھا لیکن ایکسپریس نیوز کیخلاف ایک گھناؤنی سازش بھی رچائی گئی جس کی کال ریکارڈنک و دیگر ثبوت ایکسپریس نیوز کے پاس موجود ہیں۔ یہ حیران کن بات ہے کہ میڈیا لاجک نے پاکستان میں صرف ہزار کے قریب گھروں میں میٹر لگائے ہوئے ہیں جن سے 18کروڑ عوام کی طرف سے چینلوں کی ریٹنگ دی جاتی ہے۔ اس ریٹنگ کا فائدہ کبھی سرکاری ادارے تو کبھی سیاسی جماعتیں اٹھاتی ہیں۔ میڈیا لاجک اور سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کی ملی بھگت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایکسپریس نیوز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایکسپریس نیوز حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے اس پر فوری نوٹس لیا جائے ، تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ’’میڈیا لاجک کی بلیک میلنگ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خرم نواز گنڈا پور (مرکزی سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک)

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے نظام کی جانب چل رہے ہیں جس میں پولیس اور بیوروکریسی کے ذریعے پورے ملک کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی لئے طاہر القادری بھی نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں نظام نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مسائل سامنے آتے رہتے ہیں اور اب میڈیا لاجک کی ریٹنگ کا معاملہ سامنے آگیا ہے۔میڈیا لاجک کی تو اپنی حقیقت پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ کیاپورے ملک میں صرف ایک ہزار میٹر لگانے سے چینلوں کی ریٹنگ کا فیصلہ ہوسکتا ہے؟ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ 18کروڑ لوگوں کے لیے صرف ایک ہزار لوگوں کا نمونہ لیا جائے۔حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ یہ میٹر صرف شہری علاقوں میں لگائے گئے ہیں اور اس طرح 80فیصد آبادی کی رائے کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ کمپنیوں کوخود سروے کروانے کی قانونی اجازت نہیں ہے، وہ صرف ایک کمپنی کی ریٹنگ پر انحصار کرکے اربوں روپے کے اشتہارات چینلوں کو دے د یتی ہیں اس لیے میرے نزدیک کم از کم چار ریٹنگ کمپنیاں ہونی چاہئیں تاکہ ان کمپنیوں کی ریٹنگ کا موازنہ کرکے چینلوں کو اشتہارات دیئے جائیں۔

اگر اسے ایک کیس تصور کیا جائے تو یہ ایک سول کیس تھا اور ہمارے ملک میںسول نوعیت کے کیسوں کے لیے ایسی عدالتیں موجود نہیں ہیں جو صرف کمرشل کیسوں کا فیصلہ کریں۔ ہمارے ہاں فیملی عدالتیں تو موجود ہیں لیکن کمرشل عدالتیں نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایسا مسئلہ سامنے آیا ہے۔بدقسمتی سے میاں برادران کے ہر دور میں ذاتی مقاصد کے لیے پولیس کا ناجائز استعمال کیا گیاہے اور پولیس کا کوئی احتساب بھی نہیں ہوتا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 14بے گناہ شہید کردیے گئے لیکن کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح قصور واقعہ میں بھی 100سے زائد لوگ ملوث تھے لیکن پولیس نے اس مسئلہ پر بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ دے دی۔ ان سے پوچھا جائے کہ قصور واقعہ کی ویڈیوز کہاں سے آئیںاور ان کے پیچھے کون تھا؟ لیکن اب تو اس پر مکمل خاموشی ہے لہٰذا سوا ل یہ ہے کہ کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قصور واقعے میں کوئی ایک بھی مجرم نہیں تھا؟ ہمارے پاس تو اس شخص کی ویڈیو بھی ہے جس کی حاضری آئی جی کے آفس میں لگی ہوئی تھی لیکن وہ اس دن ماڈل ٹاؤن میں فائرنگ کررہا تھا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/D.jpg

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری پولیس کا نظام غلط ہے، یہاں تفتیش تھانے کی بجائے پرائیویٹ گھروں میں ہوتی ہے جبکہ پولیس نے بغیر ایف آئی آر کے شائستہ کے دو بھائیوں کو اٹھا لیا جو قانوناً جرم ہے۔ میرے نزدیک پولیس نے جان بوجھ کر اسے کریمنل کیس بنایا ہے تاکہ کارروائی کرسکے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر اس طرح کے ناجائز کیس سامنے آتے رہیں گے تو لوگوں کا نہ صرف پولیس بلکہ عدلیہ سے بھی اعتماد اٹھ جائے کیونکہ ہماری عدالتوں میں ضمانت کیسے ملتی ہے اورکیس کس طر ح سنے جاتے ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت ہے وہاں کا سارا نظام لوکل باڈیز پر چلتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میںجب بھی شریف برادران آئے انہوں نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور اب بھی حکومت بلدیاتی انتخابات کو متنازعہ بنا کر ملتوی کروانے کی کوشش کررہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو بلدیاتی انتخابات ہوگئے لیکن پنجاب میں نہیں ہوئے اور یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ سیلاب کے کسی اور حصے میں آیا ہے جبکہ انتخابات کسی دوسرے حصے میں ملتوی کردیے گئے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت معاملات کو صرف اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔

اس حکومت نے اپنے اختیارات کا دائرہ کار وسیع کیاہے جس سے سب سے زیادہ انصاف متاثرہوا ہے جبکہ کچھ معاملات پر ججوںکی معنی خیز خاموشی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عدالت نے صرف چند لوگوں کی جرح کرنی ہے لیکن اس میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آرہی ہے لہٰذا ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ شائع کی جائے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردار بھی سب کے سامنے ہے اور ہم نے پہلے دن سے ہی اسے تسلیم نہیں کیا جبکہ اس کے چاروں ممبران بھی متنازعہ ہیں۔ دنیا میں جب کوئی متنازعہ ہوتا ہے تو وہ رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیتا ہے لیکن یہ لوگ اس لیے استعفے نہیں دے رہے تاکہ جنہوں نے ان کی تقرریاں کروائی ہیں یہ انہیں مزید فائدہ دے سکیں۔

یہ افسوسناک بات ہے کہ ہر سکینڈل کے پیچھے پولیس کا ایس ایچ او کھڑا نظر آتا ہے، میانوالی کے ایس ایچ او کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اب تو ایک متنازعہ شخص کو پنجاب کا آئی جی لگادیا گیاہے۔ میڈیا لاجک میں معاملہ خاتون کی عزت کا ہے اور اس میں حکومت کو کوئی تشہیر نہیں ملنی اس لیے حکومت ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب ابھی تک خاموش ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میںہم نے صرف بیرئیر لگایا تھا جبکہ حمزہ شہباز نے ٹاور بنائے ہوئے ہیں لیکن ماڈ ل ٹاؤن کی انتظامیہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ شریف برادران اس ملک کو جاگیر داروں کی طرح چلانا چاہتے ہیں ا ور یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مخصوص لوگوں پرسوال نہ اٹھایا جائے۔

رمضان چودھری (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)

ہمارے ملک میں آئین موجود ہے لیکن سیاسی عمل دخل، کوتاہیوں اور پریشر کے نتیجے میںاس پر عملدرآمد نہیں ہوتا لہٰذا اگر آئین پر عمل ہوتا تو اس طرح کی خرابیاں پیدا نہ ہوتیں۔ پاکستان کا آئین یہ واضح کرتا ہے کہ پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ ہماری حکومت کے تین ستون ہیں۔ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے لیکن بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں قوانین کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا جاتا اور نہ ہی ان کی خرابیاں دور کی جاتی ہیںبلکہ وہاں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو قانون کو سمجھ سکتے ہیں۔ قوانین پر انتظامیہ نے عملدرآمد کروانا ہوتا ہے لیکن وہاں کوتاہیاں ہوتی ہیں جس کے پیچھے مختلف محرکات ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا کردار عدلیہ کا ہوتا ہے کیونکہ اس نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری عدالتوں میں فیصلے وقت پر نہیں ہوتے جس کی وجہ سے لوگوں کو اور بار کو بھی عدلیہ سے شکایت ہے۔ ان تمام خرابیوں کے باجود ہمارے ملک میں ایک نظام موجود ہے جسے اگر ہم لے کرچلیں تو بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ آئین کے مطابق پریس لگانا، انجمن بنانا اور آزادی اظہار رائے سب کا بنیادی حق ہے اور اسی حق کے مطابق میڈیا کوریاست کے چوتھے ستون کا درجہ ملا ہے۔

میڈیا عوام کو ہر چیز کے دونوں رخ دکھاتا ہے اور ملکی تعمیر میں اس کا کردار بھی مثبت ہے کیونکہ شاید اس کے بغیر باقی تینوں ادارے بہتر کام نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہوتاہے۔ قانون کے مطابق پولیس کی ایجنسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بغیر کسی مقدمے کے کسی شخص کو گرفتار کرے۔ شائستہ کیس میں چاردیواری کا تقدس پامال ہوا ہے لہٰذا سی آئی اے تعزیرات پاکستان کے تحت جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ ضابطہ فوجداری کے مطابق گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اندر متعلقہ عدالت میں پیش کرکے تفتیش کے لیے عدالت سے اجازت نامہ لینا ہوتا ہے، اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا لہٰذا متاثرہ فریق کو پولیس اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف عدالت میں جانا چاہیے۔اس کے علاوہ متاثرہ فریق دل آزاری اور ہتک عزت کی وجہ سے ہرجانے کا دعویٰ بھی کرسکتا ہے لہٰذا قانون کو فوری حرکت میں آنا چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرکے ایک مثال قائم کرنی چاہیے۔ کسی بھی شعبے میں مناپلی آئین کے منافی ہے جبکہ آئین بلیک میلنگ کی بھی نفی کرتا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/D1.jpg

مناپلی کے خلاف کارروائی کے حوالے سے مناپلی کنٹرول اتھارٹی جیسا ٹربیونل موجود ہے لیکن حیرت ہے کہ وہ ابھی تک خاموش کیوں ہے۔ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات سے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، دفعہ 468قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے لہٰذا متاثرہ فریق کو ایف آئی آر کی منسوخی کے لیے درخواست دینی چاہیے۔ اس کیس میں سی آئی اے پہلے آئی لیکن تفتیش بعد میں ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ قانون میں سی آئی اے کا کردار ایسا نہیں ہے۔ وکلاء برادری ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کی انکوائری کے لیے فوری طور پر جے آئی ٹی بنائی جائے، یہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جے آئی ٹی بن جاتی ہے تو اتنے بڑے کیس کے لیے کیوں نہیں بنائی جاسکتی۔

سلمان عابد (دانشور)

میڈیا کے سسٹم کو جانچنے کا طریقہ شفاف ہونا چاہیے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں شفاف حکمرانیت کا بحران ہے اور ہمارے ہاں جو بھی حکمران آتا ہے وہ اس نظام کو طاقت کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے۔ میڈیا لاجک کے ریٹنگ کے طریقے پر مجھے حیرت ہے کیونکہ صرف ایک ہزار خاندانوں کی ریسرچ سے 18کروڑ عوام کی ریٹنگ ممکن نہیںہے۔ اس سسٹم سے دراصل ایک مخصوص طبقے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو آمرانہ مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک ادارہ بنا کر ساری مناپلی اس کے ہاتھ میں دے دی گئی ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران اس نظام کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ ادارے ان کے ہاتھوں میں ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آزاد میڈیا کے اندر کچھ ایساطریقہ کار بنایا جاتا ہے جسے مانیٹر کر کے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ادارے کس حد تک آزادی اور شفافیت کے ساتھ کام کررہے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف ایکسپریس کا بحران ہے۔ میرے نزدیک یہ صرف ایکسپریس کا نہیں بلکہ پورے میڈیا کا بحران ہے ا ور اس نے سب کو متاثر کیا ہے۔

یہ مناپلی آج ایکسپریس کے خلاف ہے تو کل کسی دوسرے چینل کے خلاف ہو سکتی ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کیسے کرنا ہے۔ ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اجتماعی فیصلوں میں اس کی رائے کی عکاسی ہو لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔ ریٹنگ کے لیے صرف چار، پانچ شہروں کے اعداد وشمار کے پیچھے سیاسی ایجنڈا کارفرما ہے کہ کس کا قد بڑھانا ہے اور کس کا کم کرنا ہے اور پھر اشتہارات کا ایک پورا کھیل ہے جس میں یہ ایجنڈا ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایکسپریس نے اس پر بہتر آواز اٹھائی ہے اوراب اس بحث کو مزید بڑھایا جائے تاکہ یہ معاملہ بہتری کی طرف جاسکے۔ اس پورے واقعے میں پولیس نے قانون کی خلاف ورزی کی اور میڈیا لاجک کی ملازمہ کے گھر چھاپہ مارکر اس کے خاندان والوں کو ہراساں کیا اور اس کے بھائیوں کو گرفتار بھی کیا۔ یہ طریقہ خوفناک ہے اور اس طرح خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سکینڈل ہے جس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے اور سازش کی بو آرہی ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/D2.jpg

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے تھا کہ اس پر نوٹس لیتے اور جے آئی ٹی بناتے لیکن حکومت تو اس پر بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے معاملے میں تو حکومت فریق بن گئی تھی لیکن اب حکومت کی خاموشی سے لگتا ہے کہ شاید وہ بھی اس کا حصہ ہے تاہم اگر حکومت اس کا حصہ نہیں ہے تو پھراسے فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔ دنیا میں ریٹنگ کمپنیوں کا بھی آپس میںمقابلہ ہوتا ہے لیکن یہاں صرف ریٹنگ کا ایک ادارہ ہے کیونکہ اس طرح حکومت کے لیے معاملہ کنٹرول کرنا آسان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میڈیا لاجک کے اپنے اندر خرابیاں ہیں توانہیں کس طرح کسی دوسرے ادارے کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے؟ یہ صرف ریٹنگ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک خاص سازش ہے لہٰذامیڈیا کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ اس نظام کو شفاف بنانے کے لیے آواز اٹھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔