منٹو کے سوا افسانہ نگار اور بھی ہیں

محمد عثمان فاروق  منگل 22 ستمبر 2015
منٹو کے سوا افسانہ نگار اور بھی ہیں، ذرا کچھ ان کے بارے میں بھی قوم کو بتادیں۔ فوٹو:فائل

منٹو کے سوا افسانہ نگار اور بھی ہیں، ذرا کچھ ان کے بارے میں بھی قوم کو بتادیں۔ فوٹو:فائل

’’یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے اس کے سینے میں افسانہ نگاری کے سارے رموز دفن ہیں وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا‘‘۔

یہ الفاظ سعادت حسن منٹو کے ہیں جو اس نے ’’کتبہ‘‘ کے عنوان سے کسی کو آٹو گراف میں لکھ کر دیئے تھے اور ان الفاظ نے کافی شہرت پائی۔ منٹو 11 مئی 1912 کو ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور 18 جنوری 1955 کو کثرت شراب نوشی کی وجہ سے لاہور میں انتقال کرگئے۔ منٹو تو 1955 میں جہان فانی سے کوچ کرگئے مگر اپنے پیچھے چند تحریریں اور بے سُرے طبلہ نوازوں کا ایک ایسا ٹولہ چھوڑ گئے جو ہر سال لاکھوں روپے منٹو کے نام پر کروائے گئے سیمینارز اور بے وجہ اجلاسوں میں خرچ کرتے ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں منٹو ’’بہت بڑا‘‘ افسانہ نگار تھا، وہ ٹی بی کے باعث اِس جہاں سے اُس جہاں کی طرف ہجرت کرگئے مگر کسی نے اسکی قدر نہیں کی۔ اس نے معاشرے کے رستے ناسوروں کو بے نقاب کیا۔

لیکن میں کچھ اور سوچتا ہوں اور جو سوچتا ہوں اُس کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے میری پہلی اپیل تو یہ ہے کہ منٹو کو بیچنا اور منٹو کے نام پر لاکھوں روپیہ خرچ کرنا بند کردیجئے، اور اگر واقعی حقیقی معنوں میں آپ کو اردو ادب یا پھر افسانہ نگاری سے کچھ ہمدردی ہے تو پاکستان میں موجود اُن ہزاروں ادیب اور شعراء کی فکر کیجیے جو بہت اعلی پائے کے ادیب اور افسانہ نگار ہیں مگر پھر بھی صرف اِس لیے گمنامی اور غربت میں پگھل رہے ہیں کہ اُن کے پاس وسائل نہیں ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ زندہ ہیں جبکہ ہمارے ہاں صرف مرے ہوئے کی قدر ہوتی ہے۔ اگر پیسہ اڑانا ہی مقصود ہے تو اُن ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی سوسائٹی بنالیں اور بھاری امداد جو آپ منٹو کے نام پر اِدھر اُدھر سے اکٹھی کرکے سیمینارز کے نام پر خرچ کر ڈالتے ہیں اُس سے کسی غریب افسانہ نگار کی بیٹی کا جہیز بن سکتا ہے، کسی کہانی کار کا تعلیمی مستقبل سنور سکتا ہے۔ مگر افسوس آپ لوگوں نے تو زندہ منٹو کو نہیں پوچھا تو پھر ان زندہ ادیبوں کا خیال کیوں کریں گے؟

اب آتے ہیں اگلی بات کی طرف کہ منٹو کی قدر نہیں کی گئی۔ اس بات کا جواب دینے سے پہلے التجا کرنا چاہوں گا کہ میں جو بھی کہوں اُس کو ٹھنڈے دل سے برداشت کیجیے گا کیونکہ آزاد ملک کا آزاد شہری ہونے کے ناطے مجھے اِس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ میں اپنی رائے کا اظہار کرسکوں۔

تو جناب معاملہ یہ ہے کہ میرا یہ نقطہِ نظر ہے کہ منٹو ہرگز بڑے افسانہ نگار نہیں تھے بلکہ وہ ایک سطحی سے افسانہ نگار تھے جنہوں نے سستی شہرت کے لیے اپنی تحریروں کو فحاشی اور کراہیت کا تڑکا لگایا، مگر افسوس وہ بھول گئے کہ وہ زندہ تو شاید ایک لاکھ کے بھی نہیں ہیں لیکن مرنے کے بعد کچھ لوگوں کے لیے سوا لاکھ کے ضرور ہوجائیں گے۔ اب جن لوگوں کو میری بات بُری یا تلخ لگی ہیں وہ ذرا اس پر دلائل بھی سن لیں۔

اردو ادب میں بے شمار عظیم اور منٹو سے کہیں بلند پایہ لوگ موجود ہیں جن میں اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، نسیم حجازی، ابن صفی، عصمت چغتائی اور نجانے کتنے نام ہیں مگر انکے لیے کبھی کوئی سیمینار نہیں ہوا۔ ارے جناب انہوں نے کونسا اپنی تحریروں میں ساگ پکانے کی ترکیبیں لکھی تھیں۔ انہوں نے بھی تو معاشرتی بُرائیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ ان پر کبھی کوئی فلم نہیں بنی اور شاید اس لیے بھی ان پر کوئی اجلاس نہیں بلایا جاتا کیونکہ انہوں نے سستی شہرت کے لیے تحریروں کو ’’ننگے پن‘‘ کا تڑکا نہیں لگایا۔ اوپر سے رونی صورت بنا کر کہیں گے،

’’ارے منٹو کو کسی حکومت نے پوچھا تک نہیں‘‘

بھائی صاحب منٹو کو کسی نے نہیں پوچھا اور باقی ادیبوں کو تو ہم نے جیسے صدرِ پاکستان بنادیا تھا نا؟ میرا اگلا سوال منٹو کے کرم فرماؤں سے یہ ہے کہ کیا اگر منٹو اپنی تحریروں کو فحاشی کا تڑکا نہ لگاتے تو کیا تب بھی وہ اتنے ہی مقبول ہوتے جتنے ابھی ہیں؟ ایک سمجھنے کے لیے بات عرض کروں گا کہ دیکھئے اگر میں کہوں ’’میں آپکے والد صاحب سے ملا تھا وہ بہت اچھے انسان تھے‘‘ آپ کہیں گے جی بہت اچھا بھائی، لیکن اگر میں کہوں میں آپکی والدہ کے شوہر سے ملا تھا تو کیسا لگے گا؟ عجیب لگے گا نا؟ حالانکہ بات تو ایک ہی ہے مگر الفاظ کا چناؤ مختلف ہے۔ الفاظ کس لیے ہوتے ہیں؟ کیا اردو زبان اتنی اپاہج ہے کہ منٹو صاحب کو اپنے دور کی برائیوں کو بیان کرنے کے لیے اردو زبان سے کوئی مناسب الفاظ ہی نہ مل سکے اور انہیں مجبوراً فحاشی کا سہارا لینا پڑا؟ دیکھیں برائی کو ہر کوئی برائی کہتا ہے مگر برائی کو روکنے کے نام پر اسکو مخصوص ننگے انداز میں لوگوں کے سامنے بیان کرنا کیا اسی کا نام افسانہ نگاری ہے؟

پاکستان بنتے وقت 50 لاکھ افراد شہید ہوئے، انہوں نے آزادی، سچائی، ایمان، اسلام اور شرم و حیا والے معاشرے کے لیے قربانیاں دیں، بعد میں ہم نے کیا کیا اسکی بات نہیں کررہا، کیونکہ میں اُس وقت کے لوگوں کی نیت اور اخلاص کی بات کررہا ہوں جنہوں نے قربانیاں دے کر لاشیں دے کر پاکستان لیا تھا، اور انہی دنوں منٹو صاحب ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ اور کبھی ’’گرم گوشت‘‘ جیسے ذومعنی عنوانات والے افسانے لکھ رہے تھے۔ جن میں عورتوں کی شیو کرنے اور لڑکی کی لاش سے زیادتی کرنے کے واقعات ہوتے، جن میں شلواریں اترنے اور جوان لڑکیوں کے آزار بند ٹوٹنے کا ذکر ہوتا، ایسے کھلے ننگے افسانے لکھنے والے شخص کو اور وہ بھی جو کثرت سے شراب نوشی کا عادی تھا، اسکے بارے میں یہ توقع کرنا کہ اس دور کے نظریاتی لوگ جو قربانیاں دے کر آئے وہ ایسے آدمی کو سرآنکھوں پر بٹھاتے تو ایسا سوچنا بھی بیوقوفی ہے۔

بات یہ ہے کوئی معاشرہ مکمل نہیں ہوتا، ہمارے بھی مسائل ہیں جن پر قابو پانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے اور ان مسائل پر لکھنے والے بھی بہت ہیں اس لیے دوستوں سے گزارش ہے بلاوجہ منٹو کو اس قوم کے سر پرتھوپنے کی کوشش مت کریں۔ کیونکہ منٹو کے سوا افسانہ نگار اور بھی ہیں، ذرا کچھ ان کے بارے میں بھی قوم کو بتادیں۔

منٹو کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔