پیپلز پارٹی اور ’’ قومی سلامتی پیکیج ڈیل‘‘

طاہر سرور میر  اتوار 21 اکتوبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

وطنِ عزیز میں یہ رواج رہا ہے کہ ہر دوسرے روز ایک ’’تاریخی موڑ‘‘ پر پہنچ جاتاہے۔

اور ہم بحیثیت ایک زندہ قوم اس مقام سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے کراچی کی مشہور ناگن چورنگی کا پورا چکر کاٹ کر ان گنت غریب راہ گیر پھر ان ہی تاریک راہوں پر چل دیتے ہیں جن کے متعلق عزیز میاں قوال یوں نغمہ سرا ہوا کرتے تھے کہ… دبا کے چل دیے قبر میں کوئی دعا نہ سلام… پروردگار کے حضور دعا ہے کہ اس بار ہماری خوشیوں اور امیدوں کی رسم قل، رسم ِچہلم اور برسی نہ ہونے پائے بلکہ اس بار تو کچھ ایسا ہو جائے جس کی امید فیضؔ صاحب نے یوں بندھائی تھی کہ

یہی تاریکی تو ہے غازۂ رُخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر

سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا ہے جسے تاریخی نوعیت کا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 1990ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی، اس وقت کے صدر اسحاق خان نے ایوان صدر میں الیکشن سیل کے ذریعے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اسد درانی کی مدد سے غیر آئینی طریقے سے ایک جماعت (آئی جے آئی) کو فائدہ پہنچا کر سیاسی عمل آلودہ کیا۔ وفاقی حکومت جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کرئے۔ فیصلے میں وفاقی حکومت کے ادارے ایف آئی اے کو کہا گیا ہے جن سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئیں تھیں سود سمیت وصول کی جائیں۔

اس ’’تاریخی وقوعہ‘‘ کی مختصر کہانی کچھ یوں ہے کہ1990ء میں اسٹیبلشمنٹ کے دو بڑوں نے پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں شکست دینے کی منصوبہ بندی کی۔ ان کے نزدیک وہ سیاسی جماعت اور لیڈر ملک کی سالمیت اور وجود کے لیے خطرہ تھی جسے عوام ووٹ دے کر اقتدار میں لانا چاہتے تھے۔ آمریت اور آئین سے انحراف کی اس سے بد ترین مثال کیا ہو گی؟ پیپلز پارٹی کو ایک جعلی سیاسی عمل کے ذریعے کارنر کرنے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کا پلان بنایا گیا اور اس پر ظلم یہ کیا گیا کہ عوام کے خون پسینہ کا کمایا پیسہ ان ہی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ 9 جماعتوں کے رہنماوں میں کروڑوں روپیہ تقسیم کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اس لیڈر شپ کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کیا ہے جسے عوام ووٹ دیتے ہیں، ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد سند ھ میں ان طاقتوں کو گلے لگایا جو پاکستان کو بھارت میں دوبارہ ضم کر نے کا نعرہ بھی لگایا کرتی تھیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے بھی ’’قومی سلامتی‘‘ کے سدا سہاگن راگ بھیرویں یعنی ’’راگ سیکیورٹی رسک‘‘ ہی الاپا۔ مرزا اسلم بیگ نے 88ء اور پھر 1990ء میں دو مرتبہ پیپلز پارٹی اور محترمہ کے خلاف ’’رائٹ ہینڈ ڈرائیو‘‘ سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ بنایا۔ 88ء کے انتخابات جنرل حمید گل نے جب کہ1990ء کے انتخابات میں اسد درانی نے اپنی ’’زیر کمان‘‘ دھاندلی کرائی۔

جنرل اسد درانی سپریم کورٹ میں اپنے اقبالی بیان میں تسلیم کر چکے ہیں کہ 90ء میں انھوں نے صدر اسحاق اور جنرل بیگ کے آرڈر پر 35 کروڑ کی رقم مختلف سیاسی قائدین میں تقسیم کی۔ اس ضمن میں سابق جنرل حمید گل بھی اقرار کر چکے ہیں کہ انھوں نے صدر اسحاق خان اور آرمی چیف کے ساتھ مل کر 88ء اور 1990ء میں دو بار آئی جے آئی بنائی تھیں۔ حمید گل کہتے ہیں کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے فوج کی نوکری کے دوران سیاسی عمل میں حصہ لیتے ہوئے آئی جے آئی بنائی تھیں اور اگر کچھ لو گ سمجھتے ہیں کہ میں نے اپنے آئینی منصب سے انحراف کیا تو مجھے عدالت میں بلایا جائے میں وہاں پر بتاوں گا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ اس وقت گیند حکومت کی کورٹ میں ہے کہ مبینہ ملزمان خواہ وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان ان کے خلاف قانون کی کارروائی کرتی ہے یا کہ افہام تفہیم کے نام پر ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس نظام کو ہی دوام کی دعا دے دی جائے گی؟ ؟

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے پہلے ان کے والد بھٹو صاحب کا بھی قتل کیا گیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے قتل میں شریک مجرمان کو معاف کر کے یہ سمجھا کہ شاید اس طرح نظام چل جائے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو صاحب کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے جن کو بوتل میں بند کر سکتے مگر انھوں نے ایسا کرنے کے بجائے ریاستی اداروں کو اور مضبوط بنانے کی پالیسی اپنائی۔ بے نظیر اور بھٹو صاحب دونوں کے پاس یہ مواقع تھے کہ وہ اپنی، اپنی جان بچا سکتے تھے مگر دونوں اس ملک میں عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ کے اس سفاک باب سے کیا سبق سیکھا؟ کیا بھٹو صاحب کے عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو کے سر عام قتل کی صورت میں دی گئی قربانیوں سے پاکستان کے محکوم طبقات کو راہ نجات مل سکی؟ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگانا حب الوطنی ضرور ہے مگر ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا کسی بھی ڈیزائن کی ’’حب الوطنی‘‘ ہو… قوم کو قبول نہیں…

93 سالہ اصغر خان مطمئن ہیں کہ سپریم کورٹ نے ان کی زندگی میں ان کی پٹیشن پر فیصلہ دے دیا۔ اس کے ساتھ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا افہام و تفہیم کی زنجیروں ، ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑی ہوئی کولیشن گورنمنٹ ذمے داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی ؟ 90کے انتخابات میں صدر اسحاق، اسلم بیگ اور اسد درانی کے ’’جوائنٹ آپریشن‘‘ سے پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی تھی، آئی جے آئی جیت گئی تھی اور اس کے نتیجے میں میاں نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ اس سے قبل 88میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کو محدود مینڈیٹ دے کر اسٹیبلشمنٹ نے صدر کے طور پر اپنی ’’منی بیک گارنٹی‘‘ یعنی اسحاق خان کو صدر قبول کرنے کی شرط پر ہی وزارت عظمیٰ سونپی تھی۔ اسحاق خان کو صدر، آرمی چیف اسلم بیگ کو ’ڈیمو کریسی میڈل‘ اور جنرل اسد درانی کو جرمنی کا ایمبسڈر تعینات کرنا ’’قومی سلامتی پیکیج ڈیل‘‘ کا حصہ تھا۔

لہٰذا پیپلز پارٹی انکار نہیں کر سکتی تھی۔ ایک عرصے سے پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ ’’راگ سیکیورٹی رسک‘‘ کے ساتھ محدود مینڈیٹ کی جگل بندی ( سنگت) کرتے ہوئے اقتدار سے اپنا حصہ وصول کیا ہے۔ یہ حصہ اتنا کم ہوتا ہے ساڑھے چار سال تک وزیراعظم اور ان کے بیٹے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور اس کے ٹریکل ڈائون اثرات عوام تک پہنچنے سے پہلے ملتان واپس چلے جاتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے خیرات میں دیے گئے مشروط اقتدار کے ملنے پر ہی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا کرے گی یا حقیقی معنوں میں ثابت کرے گی کہ… طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔