الحمراء آرٹس کونسل اور ناہید صدیقی

رئیس فاطمہ  اتوار 21 اکتوبر 2012

رات کا وقت تھا۔ الحمراء آرٹس کونسل کے وسیع و عریض، خوبصورت اور دلکش ہال میں مکمل اندھیرا تھا، صرف جگنوئوں کی روشنی جیسی روشنیاں ماحول کو سحر انگیز بنارہی تھیں۔

آہستہ آہستہ روشنی ایک جگہ مرکوز ہوئی۔ سارنگی اور طبلے کی سنگت میں فریحہ پرویز نے جب اپنی دلکش آواز میں غزل شروع کی تو میں تھوڑا سا حیران ہوئی کہ اب تک ان کا یہ روپ مجھ سے پوشیدہ تھا کہ وہ کلاسیکل بھی بہت اچھا گاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی آواز کی دلکشی اور گلے کا لوچ کلاسیکی انداز ہی میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اس غزل کو محسوس کرکے گایا، تلفظ اور ادائیگی دونوں کمال کی تھیں۔ ہال میں ایسا سنّاٹا تھا کہ سوئی گرے تو آواز آجائے۔ پھر اس سمندر کی پری نے سر اٹھایا۔ روشنی کے گولے نے اس کو فوکس کیا۔ وہ تو ہماری اپنی بہت ہی اپنی ناہید صدیقی تھی۔ جو نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔

ضیاء کی ظلمت نے اسے کہیں چھپادیا تھا۔ وہ صرف ہمارے ذہنوں میں اور تصور میں زندہ تھی۔ میں نے ناہید کے گھنگھروئوں کے کمالات بہت پہلے بھی دیکھے تھے۔ بہت برسوں پہلے جب ضیاء محی الدین ان کی زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتے تھے اور کراچی میں جھیل پارک کے پاس ان کا اپارٹمنٹ تھا۔ میں نے ان دونوں کو کئی بار وہاں دیکھا اور طارق روڈ پر واقع یو بی ایل میں بھی کئی بار کیش کائونٹر پہ دیکھا کہ میرا اکائونٹ تو بہت پہلے سے وہیں تھا۔ بینک کے کائونٹر پر برابر میں کھڑی ہوئی زلفیں سنوارتی ہوئی اور چیک پر سائن کرتی ہوئی ناہید صدیقی سے میں نے کبھی بات کرنی ضروری نہیں سمجھی۔ لیکن جب وہ انتہا پسندی کے اندھیروں میں گم ہوگئی تو مجھے بہت یاد آتی تھی۔ یاد تو مجھے عارفہ صدیقی بھی آتی ہے جو کہ خود ایک نہایت باکمال آرٹسٹ ہے، خدا جانے وہ اب کہاں ہے۔

اور پھر اس ناہید صدیقی کو بازیافت کیا الحمرا آرٹس کونسل کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی نے، خدا ان کا وجود سلامت رکھے کہ جن کی وجہ سے الحمرا آرٹس کونسل ایک بے مثال ادارہ بن چکا ہے۔ ایک دن میں تین تین نشستیں ہونے کے باوجود آٹھ بجے ہی سے ہال بھر چکا تھا۔ گلاب کی ڈھیروں پتیاں اسٹیج پر سلیقے سے سجائی گئی تھیں۔ ماحول اس خوشبو میں بسا ہوا تھا۔ ایک طرف دل نواز موسیقی تھی، طبلے اور سارنگی کا سمبندھ تھا اور دوسری طرف بہت بڑے اسٹیج پر ایک پری محوِ رقص تھی، جسے اپنے آس پاس کا کچھ پتا نہ تھا۔

وہ تو جیسے کسی دوسری دنیا ہی کی مخلوق معلوم ہورہی تھی، جو کہیں کسی ایسے ماحول میں گم تھی جہاں محبت تھی، نیکی تھی اور صوفیوں جیسی فراخ دلی تھی۔ لوگ ساکت تھے۔ غزل کے اشعار پر جب وہ نرت بھائو بتاتی تھی جو قدردانوں اور رقص کی باریکیوں کو سمجھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی بے اختیار داد دینے پر مجبور کردیتی تھی۔ کہیں رقص ساکت تھا اور گھنگھرو خاموش تھے اور کہیں گھنگھرو اور طبلے کی سنگت نے ایک ایسے ماحول میں پہنچادیا تھا جو کبھی اسی پاکستان کا عام ماحول تھا۔ جب کراچی اور لاہور میں فنون لطیفہ آزاد تھا، اسے کوڑوں کی سزا نہیں ملی تھی۔

نیلما گھنشیام، ریتا گھنشیام، پروین قاسم، ناہید صدیقی، سحر صدیقی اور نہ جانے کتنی فنکارائیں اپنے اپنے فن میں یکتا تھیں، خاص کر شمیم اور پروین قاسم کے تھالی پر رقص جنھوں نے دیکھے ہیں، وہ انھیں کبھی نہیں بھول سکتے۔ 14 اکتوبر کی شب ناہید صدیقی نے وہ ماحول زندہ کردیا جو کبھی ہمارا سرمایہ تھا اور جسے ہم پوری جاںفشانی سے ختم کرنے کی کامیاب کوششیں کررہے ہیں ۔ جب ملک میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جارہی رہی ہو، فتوے جاری ہورہے ہوں، عورتوں پر تشدد ہماری پہچان بنتا جارہا ہو، ایسے میں الحمرا آرٹس کونسل کی یہ کوشش بے انتہا تعریف کے قابل ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس پروگرام کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کی اکثریت امن پسند اور جمالیاتی ذوق کی حامل ہے۔ ذرا ضیاء کے دور سے پہلے کے دور کو یاد کیجیے۔ ہمارا وطن کتنا پرسکون تھا۔

بے شک سیاسی ہلچل اور سازشیں تو اس ملک کی قسمت ہمیشہ سے رہی ہیں کہ جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، گدی نشینوں نے جو ملک اپنے لیے اور اپنی جاگیروں کے تحفظ کے لیے پسند کیا تھا، وہاں اپنی بادشاہت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے، مزارعوں اور کمی کاریوں کی ایک فوج رکھنی لازمی تھی، تاکہ طبقاتی فرق قائم رہے۔ وہی برہمن اور شودر والا سماج بصورت دیگر آج بھی زندہ ہے۔ شودر تو ہمیشہ سے ہی وہ نہتّے عوام ہیں جو روزی روٹی کے چکر میں کولہو کا بیل بنے ہوئے ہیں، جنھیں پانچ سو روپے کی دیہاڑی پر جلسوں میں بھی شریک ہونا پڑتا ہے اور کچھ زیادہ لے کر ووٹ کی پرچی پہ ٹھپّا بھی لگانا پڑتا ہے۔

کبھی اس ملک میں بھی فنون لطیفہ کی تمام شاخوں کی آبیاری کی جاتی تھی۔ پھر رقص و موسیقی پابندِ سلاسل کردیے گئے۔ بہت سے آرٹسٹ ملک سے باہر چلے گئے، لیکن کچھ نے حوصلہ نہیں ہارا، ناہید صدیقی نے حوصلہ نہیں ہارا، نگہت چوہدری نے حوصلہ نہیں ہارا، شیما کرمانی اپنی جنگ لڑتی رہیں، مدیحہ گوہر تھیٹر میں اپنا کام کرتی رہیں، یگانہ کا ایک شعر ہے۔

خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ ، مگر بنا نہ گیا

اگر کوئی مذہبی عالم ضیاء الحق کو اس شعر کا مطلب کسی ادب کے پروفیسر سے پوچھ کر بتادیتا تو منظرنامہ کچھ مختلف ضرور ہوتا؟ لیکن بعد کے آنے والوں نے کب اس شعر کی حقیقت کو سمجھا؟ جو آتا ہے خدا بننا چاہتا ہے، لیکن اصلی خدا جب دیکھتا ہے کہ مٹی کا پتلا کبھی فرعون بننے لگتا ہے تو کبھی نمرود، تو اسے جلال آجاتا ہے۔ لوگ اب پروردگار کے جلال کے منتظر ہیں کہ جلد ہی منظرنامہ بدلے، انسانوں کو ان کے عقیدوں اور مسلکوں کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے۔ کائنات جو خود رقص میں ہے، اس سے اس کا فطری حق نہ چھینا جائے۔ چاند، سورج اور زمین یہ بھی تو رقص میں رہتے ہیں۔

سمندر کی لہریں ساکت نہیں رہتیں۔ درختوں کے پتّوں میں بھی ہوا کی سرسراہٹ موسیقی پیدا کرتی ہے۔ حضرت بلالؓ کی اذان اتنی مسحور کن کیوں تھی؟ چڑیوں کی چہچہاہٹ، بلبل کا گیت اور کوئل کی کوک کیوں کانوں کو اچھی لگتی ہے اور جی کو بھاتی ہے؟ لحنِ دائودی کیا ہے؟

میں یہی سب سوچ رہی تھی اور ناہید کا رقص دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یہ جلوۂ جاناں، یہ بے خودی کی کیفیت یہ اب کب دیکھنے کو ملے گی، ناہید نے کہا تھا، ہر انسان کے اندر ایک صوفی ہوتا ہے اور بالکل سچ کہا تھا۔ بدقسمتی سے ہم میں سے اکثریت نے اس اندر کے صوفی کو زبردستی سلادیا ہے۔ جب اندر کا صوفی بیدار ہوتا ہے تو وہ خدا کی حمد و ثناء کرتا ہے، وہ صرف انسان سے مخاطب ہوتا ہے نہ کہ ہندو، مسلم، سکھ عیسائی سے۔ صوفی کے علاوہ ہر انسان کے اندر ایک بچہ بھی ہوتاہے اور اس بچّے کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہیے، کیونکہ میرے نزدیک یہی دونوں محبت کی علامت ہیں۔ جب کسی دبائو اور خودغرضی کی وجہ سے ہم صوفی اور بچّے کی آواز کو اپنے اندر دبا دیتے ہیں تو تشدد جنم لیتا ہے اور تشدد صرف اور صرف نفرت اور خونریزی کو پروان چڑھاتا ہے۔

خدا کرے الحمرا آرٹس کونسل کی محفلیں یوں ہی جگمگاتی رہیں۔ ادب، تھیٹر، بچوں کے ادب، میڈیا اور رقص و موسیقی سے سجی شامیں بار بار آئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ الحمرا کی پوری انتظامیہ قابلِ مبارک باد ہے۔ عطا صاحب خود بہت فعال اور اچھے منتظم ہیں لیکن خوش قسمتی سے انھیں ٹیم بھی بہت اچھی نصیب ہوئی ہے۔ جنھوں نے اس کانفرنس کو کامیاب بنایا، لیکن آخر میں یہ ضرور کہوں گی کہ ناہید صدیقی تمہارا فنِ کمال ایک بار دیکھا ہے اور بار بار دیکھنے کی تمنّا ہے۔ کاش آج کوئی حاتم ہوتا اور میری یہ تمنّا پوری کرتا۔ ناہید صدیقی تم تو حسن بانو ہو، تمھی کوئی سوال کرو۔ شاید تمہارے فن کی ضیاء پاشیوں سے کوئی حاتم جنم لے لے، کیونکہ آج کے مفاد پرست زمانے میں کسی حاتم کی بڑی ضرورت ہے کہ آج ظاہردار بیگ ہیں، پیرتسمہ پا ہیں لیکن حاتم نہیں ہے۔ علی بابا چالیس چور بھی افراط سے ہیں لیکن مرجینا نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔