کچھ منٹو فلم کے بارے میں

انتظار حسین  جمعـء 18 ستمبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

فیض صاحب اور راشد صاحب کے سال جب ہم منا چکے تو پھر باری آئی منٹو سال کی۔ وہ سال تو کتنے سال ہوئے اختتام کو پہنچ گیا۔ مگر اس کے تسلسل میں جو منٹو پیریڈ شروع ہوا وہ ہنوز جاری ہے۔ مگر ہم نے عائشہ جلال کی کتاب کے بعد طے کر لیا کہ منٹو صاحب بہت ہو گئے۔ اب مقالے‘ یادداشتیں کتابیں آتی رہیں ہم انھیں کھول کر نہیں دیکھیں گے۔ مگر منٹو صاحب پر اب ایک فلم آ گئی اور پھر اس کی نمائش سے پہلے ہی اتنا چرچا ہو گیا کہ ہم نے سوچا کہ یہ فلم تو دیکھ ہی لینی چاہیے۔

اس سے پہلے ذرا یہ بھی سن لیجیے کہ ان دنوں چاروں طرف بہت چرچا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے تن مردہ میں جان پڑ گئی ہے اور وہ ڈائریکٹر اور اداکار جن کے بوجھ سے یہ کشتی غرق ہوئی تھی اب پیش پیش نہیں ہیں۔ کچھ نئے پڑھے لکھے نوجوان میدان میں اترے ہیں۔ ان کے نوزائیدہ فلمی ویژن سے پاکستان میں ایک نئی فلمی لہر امنڈی ہے۔

یہ جو بڑے ارمانوں کے ساتھ نئی فلمی لہر ابھری ہے اسے دو بڑے سہارے میسر آ گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب ہم نئے الیکٹرونک و نیز پرنٹ میڈیا کے زمانے میں سانس لے رہے ہیں۔ اس فلمی لہر کو میڈیا کی کمک حاصل ہے۔ فلم تو ہم بعد میں دیکھتے ہیں میڈیا پہلے ہی غل مچانا شروع کر دیتا ہے کہ آ گیا آ گیا۔ تھا جس کا انتظار وہ شہکار آ گیا۔

دوسرا سہارا بمبئی کے وہ نامور اداکار اور فلمساز ہیں جن کا تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اس دیار میں ورود ہوتا ہے۔ ان کی دھاک تو پہلے ہی سے ہم پہ بیٹھی ہوئی ہے۔ بلکہ ان کی جس طور آمد ہوتی ہے اس سے ہمیں وہ گزرا زمانہ یاد آتا ہے جب سیربین کا بہت چرچا تھا۔ اور سیربین دکھانے والا اعلان کرتا جاتا تھا کہ تاج بی بی کا روضہ دیکھو کلکتہ کا بازار دیکھو۔ بمبئی کی بارہ من کی دھوبن دیکھو۔ تو بارہ من کا بوجھ پہلے بمبئی کی دھوبن کے ساتھ تھا۔ اب بمبئی کے نامی گرامی اداکار فلمساز بارہ من شہرت کے ساتھ آتے ہیں۔ جب وہ اپنے ان نوخیز فلمسازوں کو شاباشی دیدیتے ہیں تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ واقعی پاکستان میں اب نئی فلم کی نمود ہے۔

اس نئی گہما گہمی میں ایک ڈیڑھ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ یہ فلم بھی دیکھی۔ ہم نے جس ٹولی کے ساتھ مل کر دیکھی اس میں مسعود اشعر بھی تھے۔ جب فلم دیکھ کر باہر نکلے تو دو رد عمل سے پالا پڑا۔ ایک رد عمل تو کچھ اس قسم کا تھا کہ

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو یک قطرہ خوں نہ نکلا

اس ردعمل میں مسعود اشعر کے ساتھ ہم بھی شریک تھے۔ دوسرا ردعمل یہ تھا کہ سبحان اللہ کیا فلم بنائی ہے۔

دوسرے دن مسعود اشعر بہت پریشان نظر آئے۔ کہہ رہے تھے کہ ہمارے گھر کے جو بچے کچے ہیں وہ تو اس فلم پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اس پریشانی سے نجات کی عجب صورت نکالی۔ معروف اینکر پرسن عبدالرؤف صاحب نے ان فلموں کے پورے سلسلہ پر ہی ایک بھرپور تبصرہ کر ڈالا بول‘ مور‘ منٹو سب سے مایوسی کا اظہار کیا۔ مسعود اشعر صاحب نے تبصرہ اس طرح کیا کہ عبدالرؤف نے جو تبصرہ کیا ہے اسے ہی میری طرف سے بھی واحد مضمون تصور کیا جائے۔

یہ طریقہ بھی مناسب تھا۔ مگر اس سے بڑھ کر ہمیں یہ مثال یاد آئی کہ بقر عید کے موقعہ پر قربانی کا فریضہ اس طرح بھی ادا کیا جاتا ہے کہ الگ جانور خرید کر اس کی قربانی دینے کے بجائے کسی بھلے آدمی کے خریدے ہوئے جانور میں اپنا حصہ ڈال دیا جاتا ہے اور قربانی کے ثواب میں شریک ہو جاتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ ارے ہم بھی یہ نسخہ کیوں استعمال نہ کریں۔ عبدالرؤف سے کہیں کہ جو جانور تم نے خریدا ہے اس میں ہمارا حصہ بھی ڈال لو۔ جانور کے گلے پر چھری تو تمہیں ہی پھیرنی ہے۔ مگر اس چھری کو ہم بھی چھولیں گے اور تصور کر لیں گے کہ عبدالرؤف کے ساتھ ہم نے بھی ذبیحہ کے گلے پر چھری چلائی ہے۔

خیر یہ فریضہ تو ہم نے ادا کر دیا مگر کچھ کلبلاہٹ ہو رہی ہے۔ اوپر سے کچھ کلمۂ خیر کہنے کو بھی جی چاہ رہا ہے۔ باقی اعتراضات تو ہم نے سن لیے اور ان پر صاد کیا۔ مگر ہم سچ مچ بد کے اس وقت جب منٹو صاحب کو خون کی قے آئی اور پھر چل سو چل۔ اذیت پسندی کا شوق تو ہمارے ہاں ویسے ہی بہت ہے۔ خود کش حملے کے نتیجہ میں جو لاشیں ٹی وی کے پردے پر دکھائی جاتی ہیں وہ منظر ہر ٹی وی چینل تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دہراتا چلا جاتا ہے اور لوگ کس انہماک سے اسے صبح سے شام تک دیکھتے چلے جاتے ہیں۔

اس فلم میں بھی بیماری کے اذیت بھرے منظر کو اتنا طول دیا گیا‘ اتنا طول دیا گیا کہ سارے اگلے پچھلے مناظر ان کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے۔ یہی منظر پوری فلم پر چھایا نظر آنے لگا۔ اچھے آرٹسٹ اور اچھے لکھنے والے کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اسے کہاں رکنا ہے۔ اس فلم میں اس سین پر آ کر کوشش یہ نظر آتی تھی کہ اذیت کا جتنا مسالہ مہیا ہو سکتا ہے اسے یہاں انڈیل دیا جائے تا کہ اس منظر کا اذیت بھرا تاثر بھرپور ہو۔ مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایسے منظر کو زیادہ طول دیا جائے تو اثر الٹا ہوتا ہے۔ یہ تو ہم نے اصل زندگی میں بھی دیکھا ہے کہ نزع کا عالم اگر طول پکڑ جائے تو اعزا اقربا بھی دعا مانگنے لگتے ہیں کہ یا الٰہی مریض کی مشکل کو آسان کر یعنی طائر روح کب تک پھڑ پھڑائے گا، اب اسے پرواز کر جانا چاہیے۔ مگر یہاں ڈائریکٹر کی ایسی خواہش کی کسی طور غمازی نہیں ہو رہی تھی۔

باہر نکلتے ہوئے ہم نے ایک دو ناظرین کو کہتے سنا کہ فلم کچھ لمبی ہو گئی۔ فلم لمبی نہیں ہوئی تھی۔ انھیں لمبی یوں نظر آئی کہ مریض کی اذیت کا سین لمبا بہت لمبا ہو گیا تھا۔ طوالت ادب اور آرٹ میں معیوب سمجھی جاتی ہے۔ یہ طوالت اس وقت زیادہ معیوب سمجھی جاتی ہے بلکہ ناقابل برداشت حد تک جب سین اذیت بھرا ہو۔ اور پھر ایسی صورت میں کہ بس اذیت کی تکرار ہو‘ اس کا کوئی نیا پہلو سامنے نہ آئے۔

مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ فلم کے کچھ اچھے پہلو بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ثانیہ سعید نے اپنا رول بہت خوبی سے ادا کیا۔ اس خوبی سے کہ ہمیں اس میں منٹو صاحب کی بیگم کی جھلک نظر آنے لگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔