امن دشمنوں کا صفایا کیا جائے!

ایڈیٹوریل  منگل 17 جولائی 2012
صوبائی حکومت سخت ایکشن لے اور شہر کو مجرمانہ عناصر اور ٹارگٹ کلرز سے پاک کرے, فائل فوٹو

صوبائی حکومت سخت ایکشن لے اور شہر کو مجرمانہ عناصر اور ٹارگٹ کلرز سے پاک کرے, فائل فوٹو

بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کا خونیں سلسلہ منی پاکستان کے وجود سے الگ ہونے کو تیار نہیں‘ مُٹھی بھر امن دشمن حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اگرچہ حکومتی حلقے امن و امان کے حوالے سے خوش گمانی پر مبنی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں تاہم ٹارگٹ کلرز معمول کے مطابق خونریزی میں مصروف ہیں اور شہر اس طرح کا ’’کلنگ فیلڈ‘‘ بنا ہوا ہے کہ اموات کا اندازہ صرف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے کہ گزشتہ روز کتنی ہلاکتیں ہوئیں جب کہ ڈکیتی، اغوا اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کو لگتا ہے پولیس و رینجرز کا کوئی خوف نہیں۔

گزشتہ روز لیاری میں نام نہاد ٹارگٹڈ آپریشن ہوا جسے گینگ وار کے مطلوب ملزمان نے اسی علاقے کی دیگر گلیوں میں نہ صرف چھپ کر دیکھا بلکہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے کافی محظوظ بھی ہوئے۔ کوئی بڑا ملزم ہاتھ نہیں آیا‘ الامان و الحفیظ! اس بدامنی کا دوسرا المناک پہلو حکام کی عدم دلچسپی اور شہر میں ترقیاتی کاموں کی موثر نگرانی کے فقدان کا ہے۔ عوام کو شکایت ہے کہ عدم تحفظ کے باعث سیکڑوں مزدور اور ملازمت پیشہ مرد و خواتین اپنے دفاتر اور کارخانوں میں جانے کو تیار نہیں‘ انھیں مارے جانے کا خوف لاحق ہے جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت سخت ایکشن لے اور شہر کو مجرمانہ عناصر اور ٹارگٹ کلرز سے پاک کرے، ورنہ صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار ٹھوس سیاسی اور مفاہمتی کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قاتلوں کی سرکوبی کریں گے اور منی پاکستان کے عوام کو لاوارثی اور بے بسی کی کیفیت سے نکالنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے سیاسی اتحاد میں شامل سیاسی قوتوں کا نمایندہ اجلاس بلایا جانا چاہیے تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع اور شہر کی بربادی کو روکا جا سکے۔ صدر، وزیر اعظم، گورنر و وزیر اعلیٰ سندھ کو کراچی بچائو کے لیے سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اتحادی جماعتوں کے اجلاس تاحال بے نتیجہ رہے ہیں جب کہ قتل و غارت کے سدباب کے لیے سٹیک ہولڈرز کو فعال کردار ادا کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ امن کے قیام کی ذمے داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انتظامی کاندھوں پر بھی جاتی ہے جن کی کوتاہ اندیشی، ناتدبیری اور قانون کی رٹ قائم کرنے میں ناکامی خود ایک سوال بن گئی ہے۔

گزشتہ اتوار اور پیر کو ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کی زد میں آ کر تقریباً 30 کے لگ بھگ افراد جاں بحق جب کہ متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ شہر کے مختلف حصوں میں بدامنی کا سلسلہ جاری ہے، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں پیپلز پارٹی کے 2کارکنوں اور سی آئی ڈی اہلکار سمیت مزید 13افراد ہلاک جب کہ پولیس اہلکار اور خاتون سمیت 9افراد زخمی ہو گئے، دائود چورنگی پر رینجرز موبائل کے قریب ریموٹ کنٹرول دھماکے سے رینجرز کی موبائل مکمل تباہ ہو گئی جب کہ رینجرز کے 4 اہلکار اور نجی سیکیورٹی کمپنی کا ایک گارڈ زخمی ہو گیا۔ ہفتہ اور اتوار کی شب شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور پُرتشدد واقعات میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اور میاں بیوی سمیت 15افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

وقت آ گیا ہے کہ سندھ حکومت بدامنی روکنے کے لیے مجرموں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرے، ہمارا یقین ہے کہ جن عناصر نے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کو اپنا وتیرہ بنا لیا ہے ان کو نشان عبرت بنائے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ امن دشمنوں سے مفاہمت منی پاکستان کے قطعی مفاد میں نہیں۔ لہٰذا توقع ہے کہ حکمران ’ابھی یا کبھی نہیں‘ کی حکمت عملی اپنا کر امن دشمنوں کا صفایا کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔