صوبائی خودمختاری کے نام پر وفاق کو معذور کرنے کی سازش

رحمت علی رازی  اتوار 20 ستمبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

قومی اسمبلی سے جب اٹھارہویں ترمیم کا بل پاس ہوا تو اپنے ایک دیرینہ دوست کا عکس بے ساختہ ہمارے لاشعور میں اُبھرا اور مجسم ہو کر ٹی وی لاؤنج کے کاؤچ پر آ بیٹھا، یہ تب کی بات ہے جب وہ اسقاطِ پاکستان کے اصل محرکات پر تحقیق کر رہا تھا اور اسی تناظر میں ایک مختصر سا مقالہ نظرثانی کے لیے ہمارے پاس لایا تھا، موصوف کی ریسرچ کا محور شیخ مجیب الرحمن کے وہ چھ نکات تھے جو 1965 کی پاک بھارت جنگ کے فوراً بعد انڈین پردہ نشینوں نے قراردادِ بغاوت کے طور پر انہیں نذر کیے تھے۔

ان ہی  چھ نکات کو بنیاد بنا کر بنگالی قوم پرستوں نے 1966 میں پاکستانی فیڈریشن کے خلاف بھرپور تحریک چلائی تھی، بعدازاں بنگالیوں کا یہی شش نکاتی حقوق نامہ 70کے انتخابات میں عوامی لیگ کے منشور میں ڈھل گیا اور بالآخر پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجیب الرحمن کے 6 نکات کیا تھے اور ان کے عواقب کیا تھے: (1) ملک کا طرز ِحکومت وفاقی اور پارلیمانی ہو گا اور وفاقی مقننہ میں نمائندگی آبادی کے تناسب پر ہو گی۔ (2) وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور اُمورِ خارجہ کی وزارتیں ہونگی جنہیں بعض نکات کے ساتھ مشروط کیا جائے گا۔

(3) ملک کے دونوں حصوں میں دو الگ الگ کرنسیاں ہونگی۔ (4) صوبے اپنی اقتصادی پالیسی خود تیار کرینگے۔ (5) آئین کے تحت صوبوں کے زرِمبادلہ کے لیے دو علیحدہ حسابات کا نظام قائم کیا جائے گا جو مالیاتی لحاظ سے متعلقہ صوبوں کی حکومتوں کے زیراہتمام ہو گا۔ (6) صوبائی حکومتیں مجاز ہونگی کہ وہ اپنی سالمیت کے لیے اپنی اپنی نیم فوجی فورس بنا سکیں۔ متذکرہ نکات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شیخ مجیب کے چھ کے چھ نکات فیڈریشن آف پاکستان کے خلاف بغاوت اور بنگالیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں، ان میں کوئی بھی ایسا کنایہ نہیں ملتا جو وفاق سے وفاداری کی دلالت کرتا ہو، صوبائی خودمختاری کی یہ مکمل ایک متجاوز شکل تھی جسے آئین پاکستان کا حصہ بنانے کی مانگ مجیب الرحمن نے کی تھی۔

اٹھارہویں ترمیم بھی مجیب کے ان ہی  6 نکات کا تسلسل ہے جسے بڑے فخر سے صوبائی خودمختاری کا نام دیا گیا ہے، یہ ترمیم بھٹو کی اسی صوبائی خودمختاری کی حتمی شکل ہے جسے وہ 1973 کے آئین کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ تاریخ کے کچھ گمشدہ گوشے اشارہ کرتے ہیں کہ مجیب اور بھٹو دراصل ایک ہی منزل کے مسافر تھے، صرف ان کے راستے الگ الگ تھے۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ شاہ نواز بھٹو اور جی ایم سید بھی ایک ہی کشتی کے سوار تھے اور سندھ پیپلز پارٹی بھی ان دونوں ہی کا برین چائلڈ ہے۔

جس خودمختاری کا تحفہ رضا ربانی اور آصف زرداری نے صوبوں کو دیا ہے اسی کے طلبگار باچا خان اینڈ سنز اور بلوچ سردار بھی تھے، اسی سے متاثر ہو کر سردار اختر مینگل نے بھی اپنے ذاتی 6 نکات وضع کیے اور وفاق کو برملا یہ دھمکی دے ڈالی کہ ان کے نکات کو شیخ مجیب کے نکات سے الگ نہ سمجھا جائے حالانکہ ان کے پوائنٹس اور مجیب کے پوائنٹس میں کافی فرق ہے۔ صوبائی خودمختاری ذوالفقار بھٹو کی شدید خواہش تھی جس کی تکمیل انھوں نے 1973کے آئین کے ذریعے بڑی حد تک کر بھی لی اور جو خلا باقی رہ گیا اسے بھی انھوں نے آئندہ پانچ سے دس برسوں میں پورا کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا جن میں سب سے اہم کنکرنٹ لسٹ (متوازی فہرست) کا خاتمہ تھا جو بھٹو کے علاوہ دیگر صوبائی قوم پرست جماعتوں کی بھی خواہش تھی۔

مشرقی پاکستان طرز کی صوبائی خودمختاری ذوالفقار علی بھٹو 73 کے آئین کا حصہ اسلیے نہ بنا سکے کہ ابھی سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کا زخم تازہ تھا اور اس کی مرہم پٹی بھی نہ ہو پائی تھی، ون یونٹ کے بعد صوبوں کی بحالی بھی ابھی نئی نئی بات تھی اور پاکستان توڑنے کا الزام بھی ان کے اعصاب پر بوجھ بنا ہوا تھا، ایسے حالات میں بھٹو اس پوزیشن میں ہرگز نہ تھے کہ وفاق کو مزید کمزور کر کے صوبوں کو آزاد ریاستوں کی حد تک مضبوط کرتے۔ یہ پاکستان کی ہمیشہ بدقسمتی رہی کہ اسے کبھی بھی ایسا آئین میسر نہ آ سکا جو یہاں کے معروضی حالات سے مطابقت رکھتا ہو یا عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہو۔

جب 1973 کا آئین پیش کیا گیا تو پاکستان کے چہار دانگ یہ نقارے پیٹے گئے کہ مسٹر بھٹو نے پاکستان کو ایک جامع آئین دیکر ریاست اور اس کے عوام پر بڑا احسان فرمایا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 73 کا آئین آسٹریلیا کے آئین کا چربہ ہے جسے بھٹو کی نااہل آئینی کمیٹی نے معمولی سے ردوبدل اور کچھ نئی شقوں کے اضافہ کے ساتھ من و عن اختیار کر لیا، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس آئین کا پاکستان کے زمینی حقائق، معروضی حالات اور عوامی ضروریات سے دُور کا بھی واسطہ نہیں، اگر یوں کہا جائے کہ ہم 70  فیصد آسٹریلین آئین کے تحت زندہ ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ہمارے جمہور پسند سیاسی اداکاروں کو ایک بہترین جمہوریت کی تلاش تھی جو اُنکی ایمپائر بن کر ان کے مشن میں معاون ثابت ہو، اسی لیے انھوں نے دُنیا کی ایک بہترین جمہوریت کی آئینی اساس چرا کر اپنا ہتھیار وضع کر لیا۔

’’جمہوریت بہترین انتقام ہے،، اس ضرب المثل کا عقدہ ہم پہ 2010 میں اس وقت کھلا جب پیپلز پارٹی نے اٹھارہویں ترمیم منظور کی۔ اس محاورے کے خالق بھی وہی پردہ نشین تھے جنھوں نے عوامی لیگ کا منشور مرتب کیا تھا۔ آج آصف زرداری نے بھی جمہوریت کے ذریعے اس قوم سے اپنا انتقام لے لیا تھا، سندھ کو علیحدہ کرنے کا نعرہ وہ بینظیر کی شہادت کے وقت بھی لگانا چاہتے تھے مگر اس وقت پرویز مشرف اقتدار میں تھے اور ایک فوجی کے ہوتے سندھودیش کا نعرہ ان کی سیاسی موت کا سبب بن سکتا تھا لہٰذا چند فہمیدہ رازداروں کے ایماء پر انھوں نے ’’پاکستان کھپے،، کا نعرہ لگا کر جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا اور اقتدار سنبھالتے ہی پیپلز پارٹی کے مفکر اور ’’غازیٔ جمہوریت،، سینیٹر رضا ربانی کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ پوری عرق ریزی کے ساتھ صوبوں کی خودمختاری کے لیے آئینی مسودہ تیار کریں جنھوں نے دو سالوں میں اٹھارہویں ترمیم کی دستاویز تیار کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو کسی بھی صورت آئینی ترمیم کا نام نہیں دیا جا سکتا، یہ مکمل ایک متوازی آئین ہے جسے 1973کے آئین میں جابجا ٹھونس دیا گیا ہے، اس کے ذریعے نہ صرف موجودہ آئین کے 100 سے زائد آرٹیکلز میں تبدیلیاں کی گئیں بلکہ کئی شقوں کی جگہ متبادل شقیں متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ کئی ایک نئی اور خودساختہ دفعات بھی بہت سے آرٹیکلز میں داخل کی گئی ہیں جو قانون کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ خوفناک چھیڑچھاڑ کا واضح ثبوت ہے۔ آئین کو نئے زاویوں پر منتقل کرنا اور پھر اسے ایک ترمیم کا نام دے دینا الٹا ایک غیرآئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام ہے۔

سوال یہ ہے کہ آئین پاکستان کے بخیے اُدھیڑنے سے پہلے کیا اس ملک کے عوام سے رائے لے گئی؟ کیا پاکستان کے باشعور شہریوں کو اعتماد میں لیا گیا کہ فیڈریشن کا خاتمہ اور دَرپردہ مقاصد کے لیے دی جانیوالی صوبائی خودمختاری سے وہ کس حد تک متفق ہیں؟ صرف ایک شاہِ جمہور کے اشارے پر ریاست کے آئین کو لہولہان اور فرد ِواحد کی ایک جنبشِ اَبرو پر وطنِ عزیز کی سالمیت کو تار تار کر دیا گیا اور سادہ لوح عوام کو پتہ بھی نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہو چکا ہے، کیا اس وقت ریاست کے خیرخواہ سو رہے تھے؟

یہ قومی گناہ کرنیوالے آج جب اقتدار سے باہر ہیں اور ایک صوبے میں بیٹھ کر اپنے مفادات کے حصول کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں تو وفاق کے انگڑائی لینے پر دھمکیاں دیتے ہیں کہ ’’ہمیں چھیڑا گیا تو 71 والے حالات پیدا ہو جائینگے،، اور ’’اگر صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا تو وفاق رہیگا نہ پاکستان،، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سیکڑوں بیانات ہیں جو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور بلوچ علیحدگی پسند جماعتیں بارہا دہرا چکی ہیں۔

کبھی فیڈریشن کے خلاف ایسے دھمکی آمیز بیانات جاری کرنا اتناآسان نہ تھا لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد تمام پاکستان دشمن قوتیں کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں جو اپنے ملک مخالف ایجنڈے کو جمہوری حق سے موسوم کرتی ہیں۔ ملکی سلامتی کو مضروب کرنیوالے اپنی ہر واردات جمہوری طریقے سے کرتے ہیں کیونکہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے اور ان کا  ہر انتقام جمہوریت کا حسن ہے، جمہوریت کے لیے انھوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں جسکے ثمرات سے انہیں محروم کرنا جمہوریت کے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔

حد تو یہ ہے کہ ان کے مطابق اب صوبے آزاد اور خودمختار ہیں اور ان کے پاس احتساب کے اپنے ادارے موجود ہیں، سو، وفاقی ایجنسیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ جا کر ان کے جمہوری ڈاکوؤں، قاتلوں اور دہشت گردوں کا احتساب کریں، بھلے وہ نیشنل ایکشن پلان یا تحفظِ پاکستان ایکٹ کے تحت ہی کیوں نہ ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان میں امن عامہ کی دگرگوں صورتحال پر قابو پانے کے لیے قومی سلامتی کے اداروں کی جائز کارروائیوں کو مجرمانہ تشخص رکھنے والی سیاسی جماعتیں آج اگر صوبوں پر حملہ اور بلاجواز مداخلت قرار دے رہی ہیں تو وہ کسی حد تک حق بجانب ہیں کیونکہ عوامی اُمنگوں کے برعکس منظور کی گئی اٹھارہویں ترمیم نے انہیں یہ واویلا کرنے کا جواز فراہم کر رکھا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم (جسے ایک ضمنی آئین کا نام دیا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا) بھی ایک این آر او کی پیداوار ہے جو پیپلز پارٹی نے نون لیگ، قاف لیگ، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی اور کچھ دیگر صوبائی پارٹیوں کے ساتھ کیا۔ نواز شریف اور ان کی جماعت نے اس ترمیم کے حق میں اس لیے ووٹ ڈالا کیونکہ سترہویں ترمیم کی رُو سے وہ تیسری بار وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں تھے، نہ ہی شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے، شریف برادران نے صرف اقتدار کے لیے وفاق کو معذور کرنے میں کوئی عار نہ سمجھا اور پانچ سال فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بھی صرف تیسری باری لینے کی اُمید میں ادا کیا۔

زرداری کو معلوم تھا کہ شریف اگر تیسری باری لے بھی لیں گے تو وہ ان کی آخری باری ہو گی اس لیے انہیں نوالۂ تر کا طمع دیکر اٹھارہویں ترمیم کے لیے راہ ہموار کر لی۔ تعجب تویہ ہے کہ چوہدری برادران، جنھوں نے مشرف سے سترہویں ترمیم منظور کرائی اور شریفوں کے واپس آنے کے خوف سے تیسری بار وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننے پر پابندی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے اختیارات برائے نام حد تک کم کروا دیے۔

انھوں نے بھی سترہویں ترمیم کے خلاف اور اٹھارہویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ دیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت پسند اپنے ذاتی مفادات کے مقابلے میں ریاست کے کتنے خیرخواہ ہیں! بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوںکی اصلیت بھی کسی سے اوجھل نہیں، ان کی یہ سیاسی فطرت ہے کہ کوئی بھی موسم ہو، کسی کی بھی حکومت ہو وہ اپنی اغراض کے لیے اس کے  دست بستہ طبلچی بن جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے گناہ میں بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔

ایک این آر او مشرف نے کیا تھا جسے وہ آج بھی اپنی بدترین سیاسی غلطی اور سیاہ کارنامہ قرار دیتا ہے، اور ایک این آر او پاکستان کی ملغوبہ سیاسی کانگریس نے کیا جسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ قرار دیا گیا حالانکہ یہ این آر او سے بھی ہزار گنا زیادہ سیاہ کارنامہ ہے جس نے پاکستان کی مرکزیت اور قومی سلامتی کو سر بریدہ نعش بنا کر رکھ دیا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے ادھورے مشن کو ان کے سیاسی وارثوں نے 34 سال بعد پورا کر کے اپنا نام تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر لیا۔

اٹھارہویں ترمیم کی بدولت آج پاکستان کے تمام صوبے مادر پدر آزاد ہیں۔ آئین کی رو سے وفاق کی 20 وزارتیں اور ان کے ملحقہ و متعلقہ محکمہ جات صوبوں کی تحویل میں جا چکے ہیں۔ وزارتِ تعلیم، صحت، پانی و بجلی، وزارتِ کھیل، ماحولیات، ترقیٔ نسواں، محنت و افرادی قوت، خوراک و زراعت اور اقلیتی امور وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہائرایجوکیشن کمیشن، قومی کمیشن برائے انسانی ترقی، ورکرز ویلفیئرفنڈ، ای او بی آئی، صحت کی قومی پالیسی کی اتھارٹی اور صنعتی تعلقات کمیشن وغیرہ پر وفاق کا استحقاق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور اب یہ وفاقی نہیں بلکہ صوبائی معاملات بن چکے ہیں۔

وزارتِ اطلاعات کو بھی بے اثر کر دیا گیا اور وفاق میں اخبارات کی رجسٹریشن کے باوجود اب صوبوں نے بھی اخبارات کی رجسٹریشن کا نیا ڈرامہ رچا رکھا ہے جس سے غیر معمولی قباحتوں نے جنم لیا ہے۔ وفاق کے پاس اب صرف دفاع، خارجہ، مالیات اور ترقیات کے علاوہ چند اور اہم وزارتیں ہی رہ گئی ہیں جن پر بھی کل وقتی وزراء فائز نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے ماسٹرمائنڈ میاں رضا ربانی (جو آجکل چیئرمین سینیٹ ہیں اور قومی زبان سے انہیں اسقدر نفرت ہے کہ سپریم کورٹ کے نفاذِ اُردو کے احکامات کے باوجود وہ سینیٹ میں انگریزی میں تقریر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں) وہ اس ترمیم کے عملدرآمد کمیشن کے بھی چیئرمین تھے۔

جب انھوں نے 30 جون 2011 کو اپنا مشن مکمل کر کے 17 فیڈرل منسٹریز (مکمل) اور 3 وزارتیں (جزوی) صوبوں کو منتقل کر کے کنکرنٹ لسٹ ختم کرنے کی منظوری دی تھی جسکے نتیجے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ان وزارتوں کی مجالس قائمہ کا خاتمہ ہو گیا تھا، بہ ایں ہمہ سابقہ وفاقی وزارتوں کے اثاثے، عمارتوں کا انتظام، اداروں کے بورڈز آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو کے اختیارات، صحت کے پروگرام اور قومی خزانے میں پڑے ان کے فنڈز و دیگر ملکی و غیر ملکی فنڈز کابینہ ڈویژن اور وزارتِ بین الصوبائی رابطہ کے ذریعے صوبوں کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کروائے گئے تھے۔ یہ ساری پیشرفت دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے تقسیم ہندوستان کے بعد اب تقسیم پاکستان ہو چکی ہے اور پاکستان سے آزاد ہونے والی  ریاستیں اس کے  اثاثہ جات اور خزانے سے اپنے اپنے حصے بخرے وصول کر رہی ہیں۔

یہی نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کسی ملک کے یومِ آزادی کی طرح یکم جولائی کو یومِ صوبائی خودمختاری منانے کا اعلان بھی کیا اور پہلا یومِ صوبائی آزادی یکم جولائی 2011 کو 14 اگست کی طرح منایا گیا جسے دیکھ کر پنجاب کے علاوہ دیگر سب صوبوں نے اپنے اپنے قومی پرچم متعارف کروانے کی تجویز پر بھی غور شروع کر دیا، اس تاریخ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یکم جولائی1970کو پاکستان کی وفاقی اکائی کو ختم کر دیا گیا اور ون یونٹ تحلیل کر کے صوبے بحال کر دیے گئے تھے۔ زرداری کا یہ ترمیم لانے کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں اگر پیپلز پارٹی وفاق میں اپنی اہمیت کھو دیتی ہے تو انتہائی حالات میں صوبائی خودمختاری سے فائدہ اٹھا کر وہ سندھ کو وفاق سے آزاد کرا لیں گے۔

اس طرح جمہوریت کا انتقام بھی پورا ہو جائے گا اور سندھ میں بادشاہت کرنے سے بھی کوئی نہیں روک پائیگا۔ اب بات یہ ہے کہ وفاق سے چند ایک کے علاوہ باقی تمام وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوئے چار سال ہو چکے ہیں لیکن کسی صوبے سے بھی کوئی قابل ستائش معرکہ سر نہیںہوا۔ نالائقی کی انتہا یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت منتقل شدہ وزارتوں کے لیے مطلوبہ قانون سازی تک نہیں کر پائی، صرف خیبرپختونخوا نے بقدرِ اطمینان نئے قوانین بنائے ہیں، سندھ کی حالت تو یہ ہے کہ وزارتوں پر مافیاؤں اور گھوسٹ ملازمین نے قبضے کر رکھے ہیں جو بھتے اور ٹارگٹ حاصل کرنے میں غرقاب ہیں۔ یہ اٹھارہویں ترمیم ہی کی کرامت ہے کہ تمام ضروری وزارتیں وفاق اور صوبوں کے درمیان معلق ہو کر رہ گئی ہیں۔

نہ تو ان پر وفاق کا اختیار باقی رہا ہے، نہ ہی صوبے انہیں سنبھال پا رہے ہیں جس سے وفاق اور صوبوں میں رسہ کشی کی سی صورتحال ہے، اس سے اور کسی کا نہیں، صرف عوام کا نقصان ہو رہا ہے جو صوبائی خودمختاری کے بعد بھی ذلیل و خوار ہیں۔ عشروں سے یہ غوغا کیا جا رہا تھا کہ اسلام آباد اور لاہور چھوٹے صوبوں کے ذخائر پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اب تو اسلام آباد اور پنجاب کا کوئی کردار نہیں رہا، اب تو ذخائر اور حقوق صوبوں کے اپنے ہاتھ میں ہیں، پھر کیوں چھوٹے صوبوں کے غرباء و مساکین کو ان کے حقوق نہیں مل رہے؟ کیوں وہاں کے ذخائر سے فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے؟ کیوں وہاں ترقی کی راہیں مسدود ہیں؟

اب کون سا بہانہ چاہیے؟ مرکز کے یتیم ہونے سے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے، بنیادی سہولیات، بیروزگاری اور امن و امان کی صورتحال نے پاکستانی عوام پر سانس تنگ کر رکھی ہے۔ کیا یہی ہے صوبائی خودمختاری؟ یہ کیسی خودمختاری ہے جس میں عام آدمی کے پاس اپنی مرضی سے زندہ رہنے کا اختیار تک نہیں؟ اٹھارہویں ترمیم نے کیا گل کھلائے ہیں کہ ملک کے تمام ادارے آج تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں؟ الیکشن کمیشن جو عوام کی نمائندگی کا ضامن ہے، اس کا  سربراہ عملاً بے اختیار اور ممبران کی اکثریت کے سامنے لاچار بن کررہ گیا ہے اور سپریم کورٹ ہی کی طرح آزاد اور با اختیار ہونے کے باوجود یہ ادارہ اپنی حیثیت منوانے میں ناکام ہو چکا ہے۔

وزارتِ تعلیم کے بعد ہائرایجوکیشن کمیشن کو ختم کروانے میں رضاربانی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، وہ اس کے  ریزے کر کے صوبوں کو اس لیے دینا چاہتے تھے کیونکہ اس ادارے کو جعلی ڈگریوں کی جانچ پڑتال میں ایمانداری دکھانے کا بڑا شوق ہے، انھوں نے اس پر اس لیے غصہ نکالا کہ یہ سندھ میں ہو گا تو دیکھیں گے یہ کیسے کسی انتخابی امیدوار کی ڈگری جعلی ثابت کرتا ہے۔ اب صوبے اپنا اپنا تعلیمی نصاب مرتب کر رہے ہیں جو فیڈریشن کے لیے ایک بری خبر ہے، اس اقدام سے لسانی ذہنیت کو تقویت ملنے اور قومی زبان کے مزید کمزور ہونے کا اندیشہ ہے، اور اگر کوئی صوبہ لسانی منافرت یا وفاق مخالف نصاب کی اشاعت و ترویج کرتا ہے تو اس کا  سدباب ممکن نہیں ہو سکے گا۔

پرائیویٹ ادارے، جو پرائمری اسپتال سے لے کر  یونیورسٹیوں تک پھیل چکے ہیں شتر بے مہار بن چکے ہیں اور اپنے اوپر وفاق کا کوئی چیک نہ ہونے کی وجہ سے زیادتیوں پر اُتر آئے ہیں، انھوں نے والدین کو اے ٹی ایم مشین سمجھ لیا ہے اور بغیر کسی نوٹس کے آئے روز فیسوں میں بے پناہ اضافہ کر کے والدین کی کمر توڑ رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم نے پاکستان بھر کی تعلیم کو لاوارث کر دیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق کی طرف سے صوبوں کو مکمل خودمختاری دینا عوام اور خود تعلیم کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے تحت پاکستان میں محکمہ تعلیم کو جس قدر زک پہنچائی گئی اس کی مثال دُنیا میں کہیںنہیں ملتی۔

انرجی کے شعبہ کا بھی یہی حشر کیا گیا، دنیا کے تمام ممالک میں توانائی کے وسائل پر صوبوں کی بجائے مرکز کا کنٹرول ہوتا ہے مگر کیا ستم ہے کہ اس ملک دشمن ترمیم کے ذریعے انرجی بھی صوبائی معاملہ بنا دیا گیا ہے جس سے آئے روز مرکز اور صوبوں اور صوبوں اور صوبوں کے مابین نزاعی حالات جنم لے رہے ہیں۔

زراعت جیسا انتہائی اہم شعبہ بھی صوبوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ امریکا جیسی ریاستی یونین میں بھی زراعت کا محکمہ فیڈریشن کے پاس ہے، یہ ترمیم پاکستان کی زراعت کو تباہ کرنے میں موثر ترین آلہ ثابت ہو رہی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے غیر مسلموں کو بھی اشد متاثر کیا ہے، انہیں شادی اور علیحدگی دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اس ترمیم کے تحت مذہبی اور شادیوں کے معاملات صوبوں کے سپرد ہیں اور ابھی تک کسی بھی صوبے نے اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی، اگر چاروں صوبوں میں الگ الگ قانون بنائے جاتے ہیں تو غیر مسلم برادریاں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔

اسی طرح محکمہ خوراک بھی شدید مسائل کا شکار ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایک مقدمہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کراچی کی آٹا مافیا نے یوکرائن سے چھ لاکھ میٹرک ٹن سے زائد غیر معیاری گندم درآمد کی جس سے سندھ میں پنجاب کی ذخیرہ کردہ گندم کی فلور ملز کو ترسیل میں نمایاں کمی واقع ہو گئی اور ہزاروں کسانوں کو استحصال کا شکار ہونا پڑا۔ اس ترمیم کے تحت وفاقی وزارت صحت کا محکمہ بھی صوبوں کو منتقل ہو گیا، صوبوں میں وہ تمام اسپتال جو وفاق کے زیر انتظام تھے، ان کا  کنٹرول ختم ہو کررہ گیا ہے جس کی وجہ سے ہیلتھ کے تمام ادارے اور اسپتال تباہی کے گڑھے میں جا گرے ہیں، ڈرگ کنٹرول اتھارٹیز پر وفاقی حکومت کی نگرانی ختم ہونے سے جعلی ادویات کی بھرمار کے باعث ڈرگ انسپکٹر بھی بے مہار ہو گئے ہیں۔

وفاقی وزارت صحت کے خاتمے کی وجہ ہی ہے کہ دنیا بھر میں پولیو کے حوالے سے پاکستان کو بدنام کیا جاتا ہے، افسوس تو یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے مالی پہلوؤں سے تو صوبائی حکومتیں پوری طرح مستفید ہو رہی ہیں لیکن ان کے انتظامی پہلوؤں سے فرار حاصل کر رہی ہیں۔ اس طلسماتی ترمیم میں کئی ایک ایسی لغویات بھی ہیں جن کا عام آدمی کے مسائل سے کچھ واسطہ نہیں۔ الطاف حسین ملک کے خلاف جو نت نئے بیانات داغتے رہتے ہیں وہ بھی اسی ترمیم کا کرشمہ ہے کیونکہ اس سے قبل فوج، عدلیہ، نظریۂ پاکستان اور قومی سلامتی کے خلاف بیان دینے والا عمر بھر کے لیے نااہل قرار پاتا تھا مگر اب آرٹیکل (g)(1)63 میںترمیم کیوجہ سے ایسے شخص کو جب تک عدالت سزا نہیں دیتی وہ معصوم تصور ہو گا اور اس کی نااہلی بھی زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک ہو سکتی ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے محرکین شاید یہ بھول گئے کہ ریاست کے وجود پر اس کے  کتنے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، صوبائی خودمختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمے داریوں اور اختیارات سے محروم ہو جائے یہ دُنیا میں کہیں نہیں ہوتا، برٹش سامراج جس نے مضبوط فیڈریشن کے بل پر پشاور سے رنگون تک اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی، اس نے جب اپنے ملک کی ریاستوں کو خودمختاری دی تو انگلینڈ، آئرلینڈ، اسکا ٹ لینڈ اور ویلز کے نام سے چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ روس اگر دنیاکی سپرپاور بنا تو اس کی وجہ صرف ایک مضبوط فیڈریشن تھی۔

آسٹریلیا، جرمنی اور انڈیا دنیا کی بہترین جمہوریتیں ہیں مگر ان کے ہاں بھی صوبائی خودمختاری کا کوئی تصور نہیں۔ ہماری صوبائی خودمختاری کی آڑ میں اور بھی بہت سے موقع پرست نئے صوبوں کا ایجنڈا لے کر سامنے آنے لگے ہیں، کل کو اگر زرداری جیسا کوئی اور بادشاہ اقتدار میں آگیا تو پاکستان میں جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں اتنے صوبے بننے میں دیر نہیں لگے گی اور پھر انہیں صوبائی خودمختاری کو علیحدگی پسندی میں بدلنے سے کوئی نہیں روک پائیگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر فوری نظرثانی کرے اور اس مرکزدشمن آئین کو کالعدم قرار دے، اگر عدالت عظمیٰ اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھاتی تو پھرایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وزیر اعظم قوم سے معافی مانگتے ہوئے اس ترمیم کے مضر اثرات سے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو آگاہ کریں اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم پر مہر انجماد ثبت کریں اور بالفرضِ محال اگر سیاسی جماعتیں ایسا کرنے پر رضامند نہیں ہوتیں تو پھر ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے لے لی جائے۔

اس ترمیم کے ہوتے پاکستان کا مستقبل انتہائی مخدوش اور دھندلا ہے، اور کسی کو اندازہ ہو نہ ہو مقتدرہ کو اس بات کا بری طرح احساس ہو چکا ہے کیونکہ ریاست کے وجود کو یکجا رکھنے کے لیے صوبائی حکومتیں (خاص کر سندھ) وفاقی سیکیورٹی اداروں سے تعاون نہیں کر رہیں جس سے ملک میں دہشت گردی اور دیگر مسائل پر قابو پانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اس علیحدگی پسند ترمیم کی وجہ سے ریاست کی رِٹ خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔

اگر حکومت نے فیڈریشن بحال کرنے میں کوئی کردار ادا نہ کیا تو پھر فیڈریشن کے محافظوں کو اس کی حفاظت کے لیے ماورائے آئین اقدام کا سہارا لینا پڑ سکتا ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ وفاق کو یرغمالی کیفیت سے آزاد کرانے میں خلوصِ نیت سے جدوجہد کریں تا کہ ان کا  یہ گناہ ان ہی  کے ہاتھوں دھل جائے اور ملک کا وفاقی آئین بھی عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کے مطابق بحال ہو، اسی صورت میں ہی وفاق ملکی سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔