قربانی

شیریں حیدر  اتوار 20 ستمبر 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

راحم کو قصے کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے اور اس کا من چاہتا ہے کہ اسے ہر رات کو سونے سے پہلے کوئی نہ کوئی کہانی سنائی جائے۔ اسے ہر طرح کی کہانی سننے میں لطف آتا ہے، میں نے اسے مذہبی کہانیاں اور پیغمبروں کے واقعات سنانا شروع کیے تو میرے پاس بھی کافی مواد تھا اور اسے بھی سن کر اچھا لگتا کہ وہ سب من گھڑت کہانیاں نہیں بلکہ حقیقی واقعات ہیں۔

حضرت یوسف ؑ کا قصہ سنانا شروع کیا، اس سے چار راتیں،گزر گئیں، پورے قصے میں اس کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہی، دن بھر وہ رات ہونے کا انتظار کرتا رہا، بیچ بیچ میں وہ اپنے دل میں اٹھنے والے سوالات پوچھتا۔ عید کی آمد آمد ہے اور ہر گھر میں قربانی کی باتیں ہو رہی ہیں تو اس نے مجھ سے سوال کیا کہ ہم قربانی کیوں کرتے ہیں، میں نے اسے کہا کہ میں اسے پوری کہانی سناؤں گی تا کہ اسے قربانی کا مفہوم اور مقصد دونوں سمجھ میں آ جائیں۔

حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ میں نے اسے سنایا۔ اس کا ننھا سا دل بے حد متاثر ہوا، ’’ ما ما!! حضرت ابراہیم کو اللہ تعالی نے اپنا بیٹا قربان کرنے کو کہا تو ہمیں بکرے، گائے اور اونٹ کی قربانی کا کیوں کہا؟ ‘‘

’’ اللہ کا شکر ہے بیٹا کہ ہمیں ایسا حکم نہیں ملا ‘‘ میں نے اسے کہا۔’’ مگر کیوں ؟ ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا، ’’ جب حضرت ابراہیم ؑ نے آنکھیں بند کر کے چھری چلائی تھی تو اس چھری کے نیچے ان کا بیٹا تھا نا، انھوں نے تو اسی کی گردن پر چھری چلائی تھی، اگر حضرت ابراہیم ؑ اپنا بیٹا قربان کر سکتے تھے تو باقی لوگ کیوں نہیں؟ ‘‘ ’ ہاں، ہوتے ہیں ایسے حوصلے والے ماں باپ بھی بیٹا، جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا بیٹا کسی بھی وقت کسی گولی کا نشانہ بن سکتا ہے، کسی بھی خنجر سے ذبح کیا جا سکتا ہے ، ایسے عظیم والدین اپنے بیٹے قربان کر رہے ہیں تو ہمارے جیسے لوگ اس ملک میں سکون سے رہ رہے ہیں!! ‘ میں نے دل میں سوچا مگر اتنی ثقیل بات اسے نہ سمجھا پاتی۔

’’ اپنے بچے کو قربان کرنا آسان کہاں ہوتا ہے، اپنے لخت جگر پر چھری چلانا تو درکنار، ہم تو اسے سوئی بھی نہیں چبھو سکتے، گردن پر چھری چلانا تو درکنار، اس کی انگلی پر بھی چھری نہیں چلا سکتے ‘‘ ’’ تو پھر حضرت ابراہیم ؑ نے کیسے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا لی؟ ‘‘ اسے سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔

’’ اللہ کے ہاں رتبے بھی تو ایسے ہی لوگ پاتے ہیں نا بیٹا، جو اللہ کی محبت میںسرشار ہوتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت اللہ کی اطاعت سے نہیں روک سکتی، حضرت ابراہیم کو بھی شیطان نے بہکانے اور اللہ کا حکم ماننے سے روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ، کیونکہ وہ ایسے انسان کو بہکانے کی کوشش کر رہا تھا جن کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی اطاعت میں گزرتا تھا، عام انسان تو شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے۔

اللہ نے اپنے پیغمبر کو آزمایا اور انہیں کامیاب پایا مگر انھیں اپنے پیغمبر کو انعام میں ان کی اولاد کی زندگی بخش دی اور ان کی اس سنت کو تازہ رکھنے کے لیے ہم سب مسلمانوں پر قربانی واجب کر دی، تا کہ ہر سال ہم اس یاد کو تازہ کریں اور ہمیں احساس ہو کہ اللہ کو اپنے پیغمبر کی قربانی کی ادا کتنی پسند آئی تھی! ‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔

وہ بات کر رہا تھا کہ ہم اپنے بیٹے کیوں نہیں قربان کرتے، اس کا معصوم سا دل اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اولاد اور والدین کا رشتہ کیا ہے، اولاد کو تکلیف میں دیکھنا بھی ماں باپ کے لیے کڑی آزمائش ہوتی ہے، ہم تو وہ ہیں جو قربانی بھی بد نیتی سے کرتے ہیں، اس کے لیے جو تکالیف اور مالی ’’ نقصان ‘‘ ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں مہینوں باتیں کرتے رہتے ہیں، قربانی نہ کرنے کو سو سو عذر تراشتے ہیں، جانور قربان کر لیں تو قربانی کا گوشت قربان کرنا مشکل لگتا ہے، گوشت تقسیم کرتے ہوئے دس بار سوچتے ہیں کہ دیں یا اسے بھی گھر پر ہی رکھ لیں ۔

عید قربان سے کئی دن پہلے تک گوشت کو سنبھالنے اور ذخیرہ کرنے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، فریزر صاف ہوتے ہیں، لفافے خریدے جاتے ہیں اور عید کے دنوں کا مینو ترتیب پاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گوشت پکا کر کھا لیا جائے، چاہے بیمار پڑ جائیں اوراگلے دن اپنے پیروں پر اٹھ کر کھڑے ہونے کی سکت بھی نہ ہو۔

ہم کہاں سمجھتے ہیں قربانی کی اصل روح کو، کہاں سوچتے ہیں ان لوگوں کی بابت جنھیں سارا سال گوشت دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا، جی ہاں !! اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ ایسے طبقات بھی اس ملک میں بستے ہیںجن کے گھروں میں سال کے کسی دن بھی گوشت نہیں آتا، حتی کہ عید کے دن بھی اگر ان کے گھروں میں کہیں سے گوشت آتا ہے تو وہ ایسا ہوتا ہے کہ جسے ہم لوگ اپنے گھروں میں کھانا پسند نہیں کرتے۔قربانی ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں، اللہ سے ہماری محبت کیا یہی ہے کہ جو کچھ ہم اس کی راہ میں دیتے ہیں وہ ایسا ہو کہ جسے ہم خود اپنے لیے پسند نہ کرتے ہوں ؟

ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے ہاں سال کے تین سو پنسٹھ دن گوشت پکتا ہے… کچھ ایسے ہیں جن کے ہاں ہر دوسرے دن، کہیں ہفتے میں دو دن، کہیں ہفتے میں ایک دن ، کہیں دو ہفتے میں ایک دن، کہیں مہینے میں ایک دن ’’ عیاشی‘‘ کی جاتی ہے اور کہیں مہینوں میں ایک دفعہ… آپ کا شمار ان میں سے کس طبقے میں ہوتا ہے؟ اگر آپ سال بھر کثرت سے گوشت کھاتے ہیں ، عام آدمی سے کہیں زیادہ، تو آپ پر لازم ہے کہ سال کے کسی اور وقت نہیں تو کم از کم عید پر دوسروں کو اس خوشی میں شامل کریں،آپ تو بہرحال عام حالات میں بھی استطاعت رکھتے ہیں۔

ہم سب قربانی کرنیوالوں پر لازم ہے کہ اپنے قربانی کے جانور کے گوشت کو سب سے پہلے تولیں، اس کے بعد اس کے تین ایک جیسے حصے کریں، ان میںسے ایک حصہ آپ اپنے لیے رکھیں اور اس حصے کے ناقص گوشت کو اچھے گوشت سے تبدیل نہ کریں، نہ ہی اپنے عزیز واقارب کو بھجوانے کے لیے سالم رانیں علیحدہ کر لیں اور باقی بچا کھچا گوشت غریبوں کے لیے رکھیں، اپنے حصے میں چاہیں تو کم گوشت رکھ لیں یا اپنے حصے کے گوشت کو صاف کرتے ہوئے اگر کوئی ایسی چیز آ جائے جسے آپ نہیں کھاتے مگر دوسرے کھا لیتے ہوں گے۔

اس لیے ان کو غریبوں کے حصے میں شامل توکر دیں مگر اس کے بدلے اچھا گوشت اپنے لیے نہ نکالیں۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ قربانی ہوتے ہی اس میں سے کلیجی اور گردے نکال کر بھوننے کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں، سری پائے بھی اپنے استعمال کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں اور باقی گوشت میں سے بہتر گوشت نکال کر اپنے لیے رکھ لیے جاتا ہے، دوسرے درجے کا گوشت اپنے عزیز و اقارب کے لیے اور چھچھڑوں ، چربی پر مشتمل تیسرا حصہ غریبوں کے لیے رکھ لیا جاتا ہے۔

ہماری اسی طرح کی عبادتیں ہیں جو روز حشر ہمارے منہ پر ماری جائیں گی۔ اگر اللہ ہمیں ہمارے اس عمل کے صلے میں وہ عطا کرے جو ہمیں پسند نہ ہو تو ہم منہ بھربھر کر اللہ سے شکوے کرتے ہیں ، اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے سو سو کیڑے نکالتے ہیں ۔ اللہ کا اس بات پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں بیٹوں کی قربانی کی بجائے جانوروں کی قربانی کا حکم دیا۔ قربانی کے جانور کو پال پوس کر قربان کرنے کا حکم ہے جو کہ عصر حاضر میں مشکل ہو گیا ہے اور آج کل قربانی محض مالی قربانی کی حد تک ہی رہ گئی ہے۔

اسے خوش دلی سے انجام دیں ، اللہ کی رضا جان کر اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دیں، نمود و نمائش اور دکھاوے سے گریزکریں، یہ بھی نہ کہیں کہ میں نے فلاں فلاں ضرورت کو پس پشت ڈال کر قربانی کے لیے رقم نکالی ہے… نہ ہی یہ کہ میرا تو دل ہی نہیں تھا قربانی کرنے کو، بیوی بچوں کے اصرار پر کرنا پڑی، اگر آپ نے قربانی کا جانور گھر پر رکھ کر پالا یا کچھ دن کے لیے گھر پر رکھا تو اس سے کراہت نہ کریں یا اس کے شور کی وجہ سے اسے برا بھلا نہ کہیں۔

نہ ہی یہ کہیں کہ قربانی کا گوشت بھی کوئی کھانے کے قابل ہوتا ہے، اس میں سے تو مخصوص سی ہیک آتی ہے اس لیے ہم نے تو ایک بوٹی بھی اپنے گھر پر نہیں رکھی سب دے دلا دیا ، یہ چھوٹی چھوٹی لاپرواہیاں ہماری بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں، بسا اوقات ہم لاپروائی میں غلط سلط بول دیتے ہیں اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اللہ کو کون سی بات ناپسند ہو۔کسی بھی عبادت میں خلوص اس وقت آتا ہے جب ہم اس عبادت کی روح کو سمجھیں، خوش دلی سے عبادت کریں، دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں ، دل کا سکون ہمیں بتا دیتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہماری عبادت اور قربانی کو قبول فرمایا! آپ سب کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں، خوشی اور صحت کے ساتھ اپنے پیاروں کے ساتھ عید منائیں اور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔