مسائل کے حل کیلئے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا ہوگا!!

احسن کامرے  پير 21 ستمبر 2015
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

بلدیاتی حکومت کو جمہوریت کا ستون تصور کیا جاتا ہے اور بلدیاتی انتخابات کے ذریعے مقامی حکومتیں قائم کرکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل کیے جاسکیں ۔ پاکستان میں رواں سال عدالتی حکم پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اوراب پنجاب اور سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ ’’بلدیاتی انتخابات ‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی، سیاسی و سماجی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا ثناء اللہ (صوبائی وزیر قانون پنجاب)

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوںکا الائنس مسلم لیگ (ن) سے خوف کا نتیجہ ہے۔ ان جماعتوں کو پنجاب میں مقامی سطح پر امیدوار نہیں مل رہے ۔ اس لیے یہ جماعتیں اپنی کمزوری کو چھپانے اور اسے دور کرنے کے لیے اکٹھی ہوگئی ہیں ۔ مقامی سطح پر اگر ہماری کسی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بنتی ہوئی تو اس حلقے کا ایم این اے یا ایم پی اے بہتر فیصلہ کرے گا ۔ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کسی الائنس کا حصہ نہیں بنے گی اور ان شاء اللہ ہم انتخابات میںبڑی کامیابی حاصل کریںگے۔ لوکل باڈی ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے باتیں کی جارہی ہیں میرے نزدیک یہ ترامیم بالکل درست ہیں، ان سے انتخابی عمل میں بہتری آئے گی۔خیبر پختونخواکے بلدیاتی انتخابات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں ہر ووٹر کو سات بیلٹ پیپر دیے گئے، جس کی وجہ سے ووٹر کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ووٹنگ اپنے مقررہ وقت پر مکمل نہ ہوسکی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d6.jpg

اب اگر اسی طریقے سے پنجاب میں انتخابات کروائے جاتے ہیں توہر ووٹر کو چیئرمین، وائس چیئرمین، جنرل کونسلر، مزدور، نوجوان، اقلیت اور خواتین کی سیٹوں کے الگ الگ بیلٹ پیپر ز دیے جائیں گے تو انہیں بیلٹ پیپر پر نشان ڈھونڈھنے اور مہر لگانے میں وقت لگے گا جس سے انتخابی عمل سست روی کا شکار ہوجائے گا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں ترامیم کی گئیںجس کے تحت چیئرمین، نائب چیئرمین اور جنرل کونسلر کو عوام منتخب کریں گے جبکہ عوام کے یہ منتخب نمائندے اقلیتوں، خواتین، نوجوانوں اور مزدوروں کی مخصوص نشستوں پر اپنے ووٹ کے ذریعے نمائندے منتخب کریں گے۔ یہ ایک جمہوری عمل ہے اور مخصوص نشستوں پر بھی ووٹ کے ذریعے ہی لوگوں کو منتخب کیا جائے گا۔ میرے نزدیک اس طریقہ انتخاب سے ووٹنگ آسان ہوگی اور وقت بھی کم لگے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات اسی طریقے سے ہوئے اور یہ تجربہ بہترین رہا ہے۔ الزام لگایا جارہا ہے کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کررہی ہے حالانکہ انتخابات کروانا حکومت کا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے جبکہ انتخابات کا شیڈول بھی اس نے ہی جاری کرنا ہوتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے سیلاب کی وجہ سے نامکمل تیاریاں ہونے کے باعث عدالت سے تھوڑا وقت مانگا، اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہے اور الیکشن کمیشن کی مدد کرنا ہماری آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے لہٰذاہم اسے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ حکومت شروع سے ہی بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہے، ہم 2013ء میں ہی بلدیاتی انتخابات کروارہے تھے تاہم اپوزیشن کی رٹ کے بعد الیکشن میں دو سال کی تاخیر ہوگئی اور اب بھی ایسا نظر آرہا ہے کہ اپوزیشن لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کو چیلنج کرکے انتخابات میں تاخیر چاہتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم انتظامات کے حوالے سے ہیں، ان ترامیم سے کسی کے اختیارات میں کمی نہیں کی گئی اور نہ ہی ایسی کو ئی ترمیم ہوئی ہے جس سے بلدیاتی حکومت کے اثاثے صوبائی حکومت کے اختیار میںچلے گئے ہوں۔ یہ ایک الگ سسٹم ہے ، جس کے تحت سٹی دسٹرکٹ گورنمنٹ کے اثاثے میونسپل کمیٹی کو منتقل ہو جائیں گے ، ’’ٹی ایم اے‘‘ کی جگہ میونسپل کمیٹی جبکہ ڈسٹرکٹ کونسل کی جگہ کارپوریشن آجائے گی اور ان سب کو اختیارات منتقل ہو جائیں گے۔ میرے نزدیک یہ نظام بہترین ہے ، اس سے ملک کو فائدہ ہوگا اور گورننس میں بھی بہتری آئے گی۔

میاں محمود الرشید (اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی)

دنیا میں بلدیاتی حکومت کو جمہوریت کا ستون تصور کیا جاتا ہے اور بلدیاتی انتخابات کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران تمام تر اختیارات اپنے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نہ وہ بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہیں اور نہ ہی ادارے بنانا چاہتے ہیں تاہم اگر ادارے بن بھی جائیں تو انہیں اختیارات نہیں دیے جاتے۔ ہمارے ملک میںآمریت کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، حالانکہ اب جمہوریت کا تسلسل ہے لیکن ابھی تک بلدیاتی انتخابات میں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام کا تصور بڑا جاندار تھا، اِنہوں نے اس نظام پر کرپشن کے الزامات لگا کر اسے ختم کردیا۔ انہیں چاہیے تھا کہ اس نظام چلنے دیتے اور اس میں مزید بہتری لے آتے۔ بدقسمتی سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو قانون سازی ہوئی ہے وہ نقائص سے پر ہے اور آئینی روح کے خلاف ہے جبکہ پنجاب حکومت نے قانون سازی کے ذریعے بلدیاتی حکومت کے سارے اختیارات لے لیے ہیں۔ میرے نزدیک حالیہ ترامیم خوفناک اور جمہوری سپرٹ کے خلاف ہیں، اس قانون سازی کے تحت اگر انتخابات ہوئے تو کسی کے پاس اختیارات نہیں ہونگے جبکہ ادارے محض نمائشی ہوں گے۔

حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اتھارٹیاں بنا دی ہیں۔ ایجوکیشن اتھارٹی، ہیلتھ اتھارٹی کے علاوہ بڑے شہروں میں بھی بہت زیادہ اتھارٹیاں بنا ئی گئی ہیں، یہ سب اتھارٹیاں براہ راست حکومت پنجاب کو جوابدہ ہیں لہٰذاان اتھارٹیوں کے بنانے کے بعد بلدیاتی حکومتوں کے پاس صحیح معنوں میں اختیارات نہیں ہوں گے۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم زہر قاتل ہیں،اس کے مطابق 8افرادمخصوص نشستوں کیلئے 5لوگوں کو منتخب کریں گے۔ اس طریقہ کار سے انتخابی منڈی لگے گی، ہارس ٹریڈنگ ہوگی، ووٹ خریدے جائیں گے جبکہ امیدواروں پر دباؤ بھی ڈالا جائے گا۔ یہ طریقہ کار جمہوری روح کے بالکل خلاف ہے ، اس کے مطابق کوئی خاتون براہ راست انتخاب نہیں لڑ سکتی۔ میرے نزدیک ان ترامیم کے بعد یہ نظام سیاسی اکابرین کے تابع ہوگیا ہے۔ اب منظور نظرلوگ سامنے آئیں گے جبکہ تعمیری کام کرنے والوں کے لیے دروازے بند ہوجائیں گے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ حکومت نے اکثریت سے پاس کروالیا، ہم نے اس کی مخالفت کی اور پھرہمارے احتجاج کے نتیجے میں خواتین کی سیٹ ایک سے بڑھا کر دو کردی گئیں، اسی طرح یوتھ کی سیٹ بھی تحریک انصاف اور اپوزیشن کے اصرار کرنے کے بعدرکھی گئی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d12.jpg

لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کا جمہوری سوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف نے متفقہ فیصلے کے بعد ان ترامیم کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حالیہ ترامیم کے علاوہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس پرعمل ہونا چاہیے اور حکومت کو بلدیاتی انتخابات میں تاخیری حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ بلدیاتی انتخابات کروانے میں حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے جبکہ سیلاب کا بہانہ بنا کر انتخابات میں تاخیر کردی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ انتخابات مرحلہ وار ہونے تھے جبکہ پہلے مرحلے میں لاہور، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں انتخابات کروائے جانے تھے، ان شہروں میں تو سیلاب کا مسئلہ بھی نہیں ہے لہٰذا اگر حکومت انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہے تو سیلاب زدہ علاقوں میں تیسرے مرحلے میں انتخابات کروالیے جائیں۔

یہ تاثر غلط ہے کہ ہم بلدیاتی انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کررہے ہیں، واضح رہے کہ ہم کسی سے اتحاد نہیں کررہے بلکہ یونین کونسل کی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کررہے ہیں اور یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی زیادہ تر جماعت اسلامی کے ساتھ ہوگی۔اس وقت حکومت پری پول دھاندلی کررہی ہے، پورے پنجاب میں اربوں روپے کے فنڈز جاری کردیے گئے ہیں، یہ وہ فنڈز ہیں جو بلدیاتی انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو دیے جانے تھے۔ اس کے علاوہ اس موقع پر کسان پیکیج کے اعلان سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ان پیسوں سے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم نے الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے درخواست دی ہے لیکن کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا لہٰذا اگر حکومت ان حربوں سے باز نہ آئی تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا بھی دیں گے۔

سلمان عابد (دانشور)

پاکستان میں حکمرانی کا ماڈل مرکزیت پر مبنی ہے اور یہاں کوئی بھی اپنے اختیارات کی منتقلی نہیں چاہتا۔ 18ویں ترمیم کے بعد جب اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے تو خیال یہ تھا کہ صوبے اضلاع کو اور اضلاع ،تحصیل کی سطح پر اختیارات منتقل کریں گے لیکن بدقسمتی سے صوبوں نے اختیارات اپنے تک محدود کرلیے اور کوئی بھی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مقامی حکومتیں قائم نہیں ہوئیں ۔ مقامی حکومتوں کے ذمے ترقیاتی کام ہیں جبکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ترقیاتی فنڈز اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اس لیے یہاں فنڈز کا ٹکراؤ پیدا ہوجاتا ہے اورمقامی حکومتوں کے ادارے نہیں بنتے۔ بلدیاتی نظام صرف فوجی حکومتوں کے دور میں آتا ہے جبکہ جمہوری ادوار میں ایم این اے، ایم پی اے اس نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ آرٹیکل 140-Aکے مطابق تمام صوبائی حکومتیں نہ صرف بلدیاتی انتخابات کروانے کی پابند ہیں بلکہ عوام کے منتخب نمائندوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارا ت دینے کی پابندبھی ہیں۔ ہمارے ہاں تو اتھارٹیوں کے ذریعے صوبے کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بلدیاتی انتخابات عدالتی حکم کی وجہ سے ہورہے ہیں،اس میں سیاسی جماعتوں کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ جماعتیں تو 2010ء سے ہی ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ان پانچ سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں اور مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے کیونکہ یہ زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے تک محدود کرکے نظام چلانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لیے 20ستمبر کی تاریخ دی جس کے تحت 29جولائی کو انتخابی شیڈول کا اعلان ہونا تھا، لیکن سیلاب کی و جہ سے اس میں تاخیر کردی گئی۔اب پنجاب اور سندھ میںمرحلہ وارانتخابات ہورہے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں 31,30 اکتوبر کو 25اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے جس میں 12 پنجاب جبکہ 13اضلاع سندھ کے شامل ہیں۔ اسی طرح انتخابات کا دوسرا مرحلہ نومبر جبکہ تیسرا مرحلہ دسمبر میں ہو گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنے کیلئے ترامیم کررہی ہے اور اب اس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم سے نظام کو اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ باقی صوبوں میں براہ راست الیکشن ہورہے ہیں جبکہ صرف پنجاب میں بالواسطہ انتخابات کا طریقہ اپنایا جارہا ہے۔حالانکہ ہر یونین کونسل کے لوگوں کو یہ حق ملنا چاہیے تھا کہ وہ خواتین، نوجوان، اقلیت اور مزدور نمائندے خود منتخب کرتے لیکن یہاں آٹھ لوگوں کے ہاتھ میں ان کاحق دے دیا گیا جو بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d22.jpg

میرے نزدیک یہ نظام لوٹا کریسی ہے اور اس ایکٹ کے مطابق اختیارات بیوروکریسی کو منتقل ہوجائیں گے لہٰذا اگر صرف کٹھ پتلی ادارے بنانے ہیں تو پھر اس بلدیاتی نظام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اب جو نیاآرڈیننس جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق لوکل گورنمنٹ کے اثاثے بھی صوبائی حکومت کے پاس چلے گئے ہیں جبکہ یہاں پہلے سے موجود اتھارٹیاں بھی صرف صوبائی حکومت کو جوابدہ ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ سسٹم بیورکرسی اور مرکزیت پر مبنی ہے اوربلدیاتی نظام میں جو تبدیلیاں لائی گئی ہیں اس کے مطابق ڈسٹرکٹ کے انتظامی اختیارات بھی چیف سیکرٹری کے پاس چلے گئے ہیں لہٰذا اگر صرف کٹھ پتلی ادارے بنانے ہیں تو پھرمقامی حکومتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات میںپنجاب میں بڑا معرکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان نظر آرہا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی الائنس بنانے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے اور کوئی بڑا الائنس نہیں بن سکا۔ اب صرف یونین کونسل کی سطح پر سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی غرض سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔ حکومت کی جانب سے 7ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے پر الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

بعدازاں کسان پیکیج کا اعلان بھی کیا گیا جس پر سیاسی جماعتوں کو تحفظات ہیں۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان کے استعفوں کا معاملہ بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا اور اب عمران خان 4اکتوبر کو الیکشن کمیشن کے باہر دھرنا دیں گے اور اس موقع پر کوئی اہم اعلان بھی کیا جائے گا۔بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہمارا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کوآرٹیکل 140-Aکے ماتحت لایا جائے اور سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں کے اداروں کو دیے جائیں۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو تیسرے درجے کی حکومت کا درجہ دیا جائے جبکہ بلدیاتی انتخابات براہ راست طریقے سے ہونے چاہئیں اور عوام کو اپنے نمائندے خود چننے کا بنیادی حق ملنا چاہیے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بیوروکریسی کی بجائے عوام کے منتخب نمائندوں کواختیارات دیے جائیں تاکہ نظام کو بہتر طریقے سے چلایا جاسکے۔

مخصوص نشستوں کے حوالے سے کچھ بھی واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے لہٰذا ان کا ٹرم آف ریفرنس واضح کیا جائے اور انہیں اختیارات بھی دیے جائیں۔میرے نزدیک حکومت کو تاخیری حربوں کی بجائے جلد از جلد انتخابات کروانے چاہئیںاور جس طرح قومی اور صوبائی اسمبلیاں ختم ہونے پر90دن کے اندر اندر دوبارہ انتخابات کروانے ہوتے ہیں اس طرح بلدیاتی نظام کو آئینی بھی تحفظ دیا جائے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک اس نظام کا تسلسل قائم نہیں ہوسکے گا۔ آج پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ گورننس اور حکمرانی کا ہے اور ہمارے ہاں جو بحث ہورہی ہے کہ چند بڑے شہرو ں کی ترقی پرچھوٹے شہروں کا بجٹ خرچ کردیا جاتا ہے ، جب مقامی حکومتیں قائم ہوجائیں گی تو لوگوں کا احساس محرومی بھی ختم ہوجائے گا اورپھر ہر جگہ ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے ادارے بنائیں جائیں اور بیوروکریسی کی بجائے انہیںاختیارات دے کر مضبوط بنایا جائے۔

آئمہ محمود (ڈائریکٹر ورکنگ وویمن آرگنائزیشن)

پاکستان کو آزادہوئے 68برس ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک ہم اس جمہوری ملک میںبلدیاتی نظام قائم نہیں کرسکے بلکہ ہم بلدیاتی نظام کے ہونے یا نہ ہونے پر بحث کررہے ہیں۔بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتوںکی ترجیح عوام نہیں بلکہ اقتدار ہے اور وہ عوام کو حقوق دینے کے حوالے سے کوئی کام نہیں کررہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک میںگورننس نہیں ہے، سیلاب کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں جبکہ کرپشن اور خواتین کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ میرے نزدیک تعلیم ، صحت، انصاف اور عوام کوبنیادی سطح پرسہولیات کی فراہمی میں مقامی حکومتیں بہت اہم کردارادا کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بحیثیت سماجی کارکن حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ واقعی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہے تو اسے بلدیاتی نظام کی طرف توجہ دینی چاہیے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی اور پھر نتیجہ یہ ہوا کہ اب عدالت کے حکم پرجمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے طاقت کو اپنے تک محدود کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ایسی شرمناک ترامیم کی گئیں ہیں جس کے نتیجے میں پانچ مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات ہوں گے اور اس طریقہ انتخاب کے بعد یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ اقتدار عوام تک آئے گا۔

ایسی محنت کش خواتین جن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ان کے لیے بلدیاتی نظام میں شامل ہوکر اپنی ترقی اور سیاسی عمل کا حصہ بننے کا راستہ بند کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان ترامیم سے نوجوانوں، مزدوروں اور اقلیتوں کے لیے بھی راستہ بند کردیا گیا ہے حالانکہ یہ نظام ان کے لیے نرسری کا کام کرسکتا تھا اور پھر وہ اپنے مسائل خود حل کرنا سیکھ لیتے۔ بدقسمتی سے ہماری تمام سیاسی جماعتیں جو جمہوریت کو بچانے کیلئے چند ماہ پہلے پارلیمنٹ میں اکٹھا ہوئیں اب انہوں نے اس جمہوریت کو دفنانے کیلئے بلدیاتی حکومت کا نیا نظام متعارف کروایا ہے۔ اس نظام کی بدولت جمہوریت کو جو نقصان پہنچے گا اس کے لیے حکمرانوںکو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ان تمام سرمایہ دار جماعتوں میں مزدور طبقے کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی ان جماعتوں میں اقلیتوں اورنوجوانوں کوفیصلہ سازی میں شامل کیا جاتا ہے اور حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں، خواتین، اقلیتوں اور مزدوروں کے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھ لیا ہے جو افسوسناک بات ہے۔ میرے نزدیک اگر حکومت فوری طور پر ملکی نظام کی بہتری اور اپنی بقاء چاہتی ہے تواسے بالواسطہ انتخابات کے طریقہ کار کو ختم کرکے براہ راست انتخابات کا نظام اپنانا ہوگا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/09/d32.jpg

بلدیاتی انتخابات میں سیلاب، مردم شماری و دیگر تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیںجن سے عوام میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔ میرے نزدیک مردم شماری، سیلاب اور پیسے کو بنیاد بنا کر مقامی حکومتوں کے قیام میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ اس نظام کا آغاز ہونا چاہیے اور بعدازاں حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اس نظام کو بہتر بنائے۔ لوکل گونمنٹ ایکٹ میں حالیہ ترامیم سے سول سوسائٹی کا خواتین کی نمائندگی کا مطالبہ دم توڑ گیا ہے جبکہ حکومت کے خواتین کی نمائندگی کے اپنے دعوے بھی ہوا ہوگئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے وویمن ایمپاورمنٹ پیکیج میں یہ وعدہ کیا تھا کہ فیصلہ سازی اور سیاسی عمل میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی دی جائے گی لیکن اب حکومت اپنے ہی کیے گئے وعدوں سے منحرف ہورہی ہے ۔ حالیہ ترامیم کے حوالے سے حکومت نے کسی سے مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مقامی حکومتوں کے قیام میں سنجیدہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس میں تاخیر کے مختلف جواز ڈھونڈھ رہی ہے لہٰذا ہمیں اس ساری صورتحال سے باخبر رہنا چاہیے۔

میاں محمود الرشید نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات اپوزیشن کی کوششوں کی وجہ سے ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تو بلدیاتی انتخابات کروانے میںسنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ملک بھر میں جہاں بھی بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں یہ سول سوسائٹی کے پریشر او ر عدالتی حکم کا نتیجہ ہیںلہٰذا اس کا کریڈٹ کسی سیاسی جماعت کو نہیں جاتا۔ سب جانتے ہیں کہ اگر عدالت حکم نہ دیتی تو کو ئی بھی سیاسی جماعت بشمول تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی جماعت بھی اپنے صوبے میں بلدیاتی انتخابات نہ کرواتی۔ اب اگر حکومت مقامی حکومت کے ذریعے عوام کی بہبود اور گورننس کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ براہ راست انتخابات کانظام لائے اور پھر عوام خود اپنے مزدور، خواتین، اقلیت اور نوجوان نمائندے منتخب کریں۔ سول سوسائٹی عوام کو شعور دینے کے حوالے سے کام کررہی ہے ، اس کے علاوہ ہم نے کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کو بھی خط لکھا ہے کہ وہ اپنے کردار کو فعال بنائیں اور حکومت کو باور کروائیں کہ خواتین کی بہبود اور ترقی کے حوالے سے حکومت نے جو وعدے کیے ہیں، اس بلدیاتی نظام میں ان کی نفی ہورہی ہے اور اس نظام سے خواتین کا استحصال ہوگا۔

سول سوسائٹی اس استحصالی بلدیاتی نظام کا بائیکاٹ کرتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ براہ راست انتخابات کروائے جائیں۔ حکومت مجبوری میں بلدیاتی انتخابات کروارہی ہے اور حالیہ ترامیم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور وہ اقتدار کی منتقلی نہیں چاہتی۔ خیبر پختونخوا میں براہ راست انتخابات ہوئے لیکن پنجاب میں ایسا کیا ہوگیا کہ یہاں بالواسطہ انتخابات کروائے جارہے ہیں۔ آج اپنے ہم میلینیم ڈویلپمنٹ گول حاصل نہیں کرسکے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے موجود نہیںتھے جبکہ تعلیم، صحت اور روزگار پر حکومت کی توجہ نہیں رہی لہٰذا اگر ہم نے اپنے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنا ہے تو ہمیں مقامی حکومتیں قائم کرنا ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔