تعلیم کا کاروبار

اوریا مقبول جان  پير 21 ستمبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ پچیس تیس سالوں سے ہماری شہری اور قصباتی زندگی میں کاروباری ہوس نے ایسے تعلیمی اداروں کو راستہ دکھایا ہے جنھیں عرف عام میں ’’انگلش میڈیم اسکول‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی بے شمار اقسام ہیں۔ دنیا میں کسی بھی ملک کے نظام تعلیم کے ساتھ اتنا بھونڈا مذاق نہیں کیا گیا جسقدر بے رحمانہ طریقے سے چند سو روپے ماہانہ پر انگلش میڈیم تعلیم دینے والوں سے لے کر کئی ہزار روپے ماہانہ پر تعلیمی ادارے قائم کر کے کیا گیا۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں لوگوں کے بچوں کو جدید انگریزی تعلیم کا لالچ دینے کے لیے کیا کیا ڈھنگ اختیار کیے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک عمارت‘ خواہ گھر ہو‘ کوئی گودام ہو یا تین چار دکانوں کا مجموعہ‘ اسے خریدا یا کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اس میں رنگی برنگی کرسیوں‘ دیواروں پر چیختے چلاتے رنگ کے پلستر‘ ان پر مغرب سے متاثر کارٹون کے کرداروں کی تصویریں اور اگر ممکن ہو تو چند عالمی حقائق اور مناظر کی پینٹنگز لگا کر اس قابل کیا جاتا ہے کہ اس کے تنگ و تاریک کمروں‘ یہاں تک کہ راہداریوں اور برآمدوں میں کلاسوں کا اہتمام کیا جا سکے۔ انتہائی مشکل سا انگریزی نام منتخب کیا جاتا ہے۔ ایسا نام کہ جو ان دیہات نما قصبے کے رہنے والوں کو اچنبھا سا لگے۔

آپ ان لوگوں کی کاروباری صلاحیت کی داد ان ناموں کو دیکھ کر ہی دے دیں گے۔ ’’لٹل اسکالرز‘‘ لٹل اینجلز‘‘، ’’رائزنگ اسٹار‘‘ ’’بیسٹ ریڈرز‘‘، ان تمام کے آگے انگلش میڈیم اسکول لکھ کر اس ’’عظیم‘‘ ادارے کا افتتاح ہوتا ہے۔ پورے قصبے میں یا قریبی شہر سے ایسی بچیاں ڈھونڈی جاتی ہیں جنہوں نے اسی طرح کے اداروں سے واجبی تعلیم جیسے میٹرک یا ایف اے وغیرہ کیا ہوتا ہے۔ انھیں معمولی تنخواہ پر ملازم رکھا جاتا ہے۔ ان میں اکثر کی تنخواہ پاکستان میں ایک عام مزدور کی تنخواہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ خواتین یا لڑکیوں کے انتخاب کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی وجہ سے اسکول ان فرسودہ اور دقیانوسی اردو میڈیم تعلیمی اداروں سے مختلف نظر آتا ہے جہاں استاد، جنھیں عرف عام میں ماسٹر کہا جاتا ہے، پڑھاتے ہیں۔ ان اسکولوں میں پڑھانے کے لیے سیلبس نام کی کسی چڑیا کا کوئی وجود نہیں۔ ادھر ادھر کے اسکولوں میں‘ اور جہاں کہیں جو نرسری‘ پرائمری اور پھر میٹرک کی انگلش میڈیم کتابیں میسر آتی ہیں انھیں اسکول کا نصاب بنا دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسی کتابوں کو مالکان خود خریدتے ہیں اور انھیں بچوں کے والدین کو مہنگی قیمت پر فروخت کر کے منافع کمایا جاتا ہے۔

اسکولوں کے نظام تعلیم کو اس دیہی قصباتی ماحول سے الگ تھلگ دکھانے کے لیے عجیب و غریب بھونڈے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ آپ ان کی کلاسوں میں جائیں‘ ایک بیچاری معمولی تعلیم یافتہ استاد فوراً بچوں سے کہے گی‘ بچو! گڈ مارننگ بولو! اور پوری کلاس لہک لہک کر گڈ مارننگ کہے گی۔ بعض اوقات ایسی مضحکہ خیز صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ دن کے ایک بجے بھی یہ بچے اسی رٹے رٹائے گڈ مارننگ کو ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچوں کو وہ نرسری نظمیں یاد کروائی جاتی ہیں جنھیں بڑے بڑے انگلش میڈیم اسکولوں میں سکھایا جاتا ہے۔ ان نظموں کو نہ وہاں کے بچے سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی ان کے والدین۔ آپ لوگوں نے ایک نظم ’’ٹوئینکل ٹوئینکل لٹل اسٹار‘‘ عموماً بچوں کی زبانی سنی ہوگی۔

ان کو چند مخصوص اشارے سکھائے جاتے ہیں کہ ٹوئینکل کہتے ہوئے کیسے انگلیوں کو کھولنا اور بند کرنا ہے‘ اسٹار یا ’’اسکائی‘‘ کہتے اوپر ہاتھ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ آپ ان بچوں کو کھڑے کر کے پوچھیں کہ ٹوئینکل کا کیا مطلب‘ اسکائی کے کیا معنے یا اسٹار اور ڈائمنڈ کیا چیز ہیں تو انھیں بالکل اس کا ادراک تک نہ ہو گا۔ لیکن ان بچوں کو یہ سب رٹایا جا رہا ہوتا ہے تا کہ معلوم ہو کہ یہ اسکول گجومتہ‘ جھڈو‘ کھڈ کوچہ یا میر علی کے قصبوں میں نہیں بلکہ برمنگھم اور گلاسگو کے نواح میں کھلا ہوا ہے۔ اس بدترین اور بھونڈے طریقے سے یہ ہزاروں چھوٹے چھوٹے اسکول بچوں کو نام نہاد ’’انگلش میڈیم‘‘ تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان قصبوں کے والدین غریب ہوتے ہیں‘ اپنا پیٹ کاٹ کر ان بچوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی ویسی ہی تعلیم حاصل کر رہا ہے جیسی لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں چالیس پچاس ہزار روپے ماہانہ دے کر اشرافیہ کے بچے حاصل کرتے ہیں۔

یہ اشرافیہ کے بچے کیسی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کا حال بھی قابل رحم ہے۔ دنیا میں او لیول‘ اے لیول یا کیمبرج کا تعلیمی نظام دیگر نظام ہائے تعلیم کے مقابلے میں ایک کمتر نظام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ترجیح یعنی رینکنگ جرمنی اور دیگر ممالک کے نظاموں سے بہت کم ہے لیکن ’’ہم‘‘ نے اس کو اختیار کیا ہے، اس ’’ہم‘‘ سے مراد یہ ملک یا اسی کی حکومت نہیں بلکہ ان کاروباری تعلیمی اداروں کے مالکان ہیں جنہوں نے اس سے وابستہ ہو کر اپنے کاروبار کو چار چاند لگائے۔ پورے ملک کے طول و عرض میں لوگوں کی جیبیں کاٹ کر تعلیمی ادارے بنائے اور ان میں سہانے خواب دکھا کر بچوں کو داخل کروایا گیا۔ ہزاروں روپے ماہانہ فیس دے کر یہ بچے او لیول اور اے لیول کر کے جب پیشہ وارانہ تعلیم کے میدان کے لیے میڈیکل کالجوں یا انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے نکلے تو جب ان کے سرٹیفکیٹوں کو میٹرک اور ایف ایس سی کے برابر تولا گیا تو وزن کرنے والی مشین یعنی بورڈ کمیٹی نے کم قرار دے دیا۔ او لیول میں 80 فیصد نمبر لینے والا یہاں 60 فیصد پر آگیا۔ اب ایک اور کاروباری طبقہ وجود میں آ گیا۔

یہ تھا پرائیویٹ میڈیکل کالج‘ انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیاں۔ ہر بڑے چھوٹے شہر میں ان طلبہ کے لیے یہ تعلیمی ادارے کھولے جانے لگے۔ یہ صرف اور صرف وہ مضامین پڑھاتے تھے جن کی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ کھپت ہو۔ نوے کی دہائی میں کمپیوٹر کا جنوں چڑھا تو ہر گلی محلے میں ایک کمپیوٹر کالج کھل گیا۔ کاروباری اداروں نے اپنی ضرورت کے لیے ملک میں ایک دو بزنس ایجوکیشن کے اسکول کھلوا دیے۔ ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج کی اجازت ملی تو پھر یار لوگوں کو بھی کمائی کا لالچ آیا۔ اسپتال ہو نہ ہو‘ مریض میسر ہو نہ ہو‘ لیبارٹری یا لائبریری کی سہولت کے بغیر میڈیکل کالج کھلے اور بے تحاشہ کھلے۔ دوسری جانب کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جن کے والدین سرمایہ خرچ کر سکتے تھے‘ قرض لے سکتے تھے‘ گھر یا گاڑی بیچ سکتے تھے‘ انھیں جب معلوم ہوا کہ او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد ان کے بچے کا اس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کوئی مستقبل نہیں یا ان کا بچہ یہاں کے ماحول‘ اور یہاں کے اداروں پر عدم اعتماد کر چکا ہے تو انھوں نے اپنے بچوں کو انگلستان‘ یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں بصد مشکل اور بہت سا بوجھ اٹھا کر بھیجنا شروع کر دیا۔

یہاں ایسے بچے جو قابل تھے ان کو انھی ملکوں نے اپنے ہاں ملازمتیں دے کر رکھ لیا اور ان بچوں کو وہ ماحول ذرا بھی اجنبی اس لیے محسوس نہ ہوا کہ انھوں نے بچپن ہی سے نرسری نظموں کے ذریعے اپنے ذہنوں میں اس ماحول کے خواب بسائے ہوئے تھے۔ وہ لوگ جو انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا ذکر کرتے ہوئے ایک بات کا بہت واویلا کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم انگریزی کے علاوہ دی ہی نہیں جا سکتی۔ ان کی حیرت کے لیے کیا یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ یہ انگلش میڈیم بچے جب جرمنی‘ ناروے‘ سویڈن‘ چین اور جاپان کی یونیورسٹیوں میں گئے تو انھوں نے پہلے ان کی زبان سیکھی اور پھر وہاں انھی کی زبان میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ لیکن تعلیم کو کاروبار بلکہ بدترین اور مکروہ کاروبار بنانے والے کبھی بھی اس بات پر راضی نہ ہوں گے کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کی جگہ اردو میں تعلیم دی جائے۔ اس لیے کہ اسی انگریزی نام پر تو وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے لوٹتے ہیں ورنہ نہ ان کے اسکولوں کی عمارتیں اردو میڈیم اچھے اسکولوں سے بہتر ہیں‘ نہ ان کے استاد اور نہ ہی لیبارٹری و لائبریری اور کھیل کے میدان۔ لیکن چونکہ ان تمام کاروباری تعلیمی اداروں کے سرپرست سیاستدان ہیں‘ ان کے خیرخواہ بیوروکریٹ ہیں اس لیے دانستہ عدم توجہی کی وجہ سے بڑے بڑے سرکاری تعلیمی ادارے زوال کا شکار ہیں‘ بے توجہی کی تصویر ہیں اور والدین ان کاروباری دکانوں پر بچے بھیجنے کے لیے مجبور۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔