بیرونی دورے

طلعت حسین  منگل 17 جولائی 2012
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

پاکستان کے حکمرانوں کو’ باہر ‘کی بیماری ہوگئی ہے۔ اپنے ملک میں ان کو تمام تر سہولیات کے باوجود چین نہیں آتا۔چھوٹا سا موقع ملتے ہی منہ اٹھاکر سرحدوں کے پار چلے جاتے ہیں ۔کہنے کو تو یہ سب سرکاری دورے ہوتے ہیں مگر اصل میں سیاحت، ذمے داریوں سے دوری اور خود کو اہم ثابت کرنے کا ایک پرانا طریقہ کار ہے ۔راجہ پرویز اشرف بھی عمرہ کرنے کے نام پر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں پر تمام اہم نظریاتی ’ستونوں ‘کے ساتھ مصافحہ کیا ۔اِس کے بعد ان کے دل میں یقیناً یہ خیال آیا ہوگا کہ ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور گئیں ۔
میاں نواز شریف کا بیرونی دورہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔الطاف حسین تو رہتے ہی باہر ہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کب اور کہاں جاتی ہے، اس بارے میں وہ معلومات انتہائی احتیاط اور کامیابی کے ساتھ چھپالیتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کے دورے تو مشہور ہیں ۔اُن کے بارے میں ہم اگر بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ پیپلز پارٹی والے یہ الزام لگاتے ہیں کہ تجزیے کے نام پر ذاتی معاملات چھیڑے جارہے ہیں ۔

اِن دوروں کے فضائل اور برکات بیان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔حکومت اور ریاست بشمول پارٹی ممبران کی جیب میں 12,14وضاحتیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں ۔اُن سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں (بلکہ شاید آج کل پاکستان میں کسی بھی معاملے پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا ہے ۔حقائق جھوٹی دانائی کا شکار بن جاتے ہیں اور خودسر سیاسی جذبات بنیادی عقل پر مبنی مشوروں کو پائوں تلے روند دیتے ہیں) مگر اس کے باوجود ملک سے قیادت کے باہر جانے کا رحجان شائد اُن طور طریقوں کا حصہ ہے جن پر تنقید بے اثر ہونے کے باوجود کرنی چاہیے ۔بین الاقوامی طورپر پاکستان سے کہیں زیادہ اہم ممالک اپنی قیادت کو یہ چھوٹ نہیں دیتے کہ وہ پہلی فرصت سے بھی پہلے جہاز پکڑ کر دوسروں کے مہمان جابنیں۔اِس قسم کی مسافت صرف سپر پاور کے نمایندگان کرتے ہیں۔

جس طرح امریکا کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن یا روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے دوروں سے ظاہر ہوتا ہے ۔چونکہ سپرپاورز نے دنیا کو تہس نہس کرنا ہوتا ہے لہذا وہ ہر خطے میں جاکر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں ۔مگر پاکستان کی قیادت جس سے اپنے گھر کے باہر کی ٹریفک قابو میں نہیں آتی، اُن سے یہ توقع وابستہ کرنا کہ دنیا سے پاکستان کے لیے اچھا نام کماکر لائیں گے ،بے وقوفی کی علامت ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی ڈگری لینے کے بعد برطانیہ کی ملکہ کے دربار میں حاضری دی ۔اِس دورے پر حکومت نے بڑے وسائل صرف اس وجہ سے صرف کردیے تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس سے اہم سفارتی ضرورت پاکستان کی تاریخ میں کبھی آئی ہی نہیں ۔زبان اور تحریرسے ہر قسم کی شعبدہ بازی بیان ہوئی تاکہ گیلانی صاحب کی فضول خرچیاں قومی مفاد کے کھاتے میں لکھ کر قابلِ دفاع بنائی جاسکیں۔

اِس تمام ڈرامے میں صحافیوںکے دامن پر بھی کیچڑ کے چھینٹے پڑے۔ مفت خوری کے الزام لگے ۔ خوامخواہ کا تنازعہ کھڑا ہوا۔ مگر آخر میں ہوا کیا ؟ یہ دورہ خود کو پاکستان کا قانونی وزیراعظم ثابت کرنے کی ایک بھونڈی کوشش تھی جو ظاہر ہے کامیاب نہیں ہوئی ۔بین الاقوامی درگاہوں پر سجدہ کرنے کے باوجود گیلانی صاحب کو اپنا کیا بھگتنا پڑا ۔آج کل وہ خود اپنے کارنامے اپنے آپ کو سناکر وقت گزار رہے ہیں ۔

راجہ پرویز اشرف کے کان میں بھی کسی نے یہ سرگوشی کی ہوگی کہ اگر اپنی عزت ،مال ،جائیداد اور کرسی کو دوام دینا ہے تو سعودی عرب کے بادشاہ سے ایک خلعت لے آئیں۔خادمین حرمین شرفین کے بابرکت ہاتھوں سے طاقت کی جو روشنی پھوٹتی ہے، اس سے راجہ پرویز اشرف کی قسمت ہمیشہ چمکتی رہے گی ۔چونکہ راجہ صاحب کو سوچ کے گہرے پن سے کوئی خاص الفت نہیں ہے لہذا مشورہ ملتے ہی پُھرسے اُڑ کر اس اہم کام کو سرانجام دینے کے لیے راہ پکڑلی ۔مگر اِن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو ہونا ہے ۔سعودی عرب ہو یا امریکا ،لندن ہو یا ٹوکیو حکومتوں کی قسمتوں کے فیصلے اُن کی کارکردگی سے تراشے جاتے ہیں ۔یقیناً پاکستان میں بیرونی اثرورسوخ وقتی طورپر اپنا جادوجگاتا ہے مگر پھر یہ کمزور بند خوفناک غلطیوں کی یلغار کے سامنے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو جنرل پرویز مشرف لندن کے اڑھائی کمرے والے فلیٹ کے بجائے بیسیوں ایکڑ پر مبنی آرمی ہائوس میں سنہری پلیٹوں کے اندر کباب کھارہے ہوتے ۔انھوں نے خود کو واشنگٹن کے چھاتے کے نیچے تحفظ دلوانے کی بڑی کوشش کی مگر آخر میںچھاتہ کہیں اور تھا، اولے سیدھے سرپر پڑرہے تھے ۔

حزب اختلاف کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہ طاقت میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ طاقت سے باہر نکلنے کے اہتمام کو مضبوط کرنے کے لیے ملک سے باہر جاتے ہیں ۔اس خطے میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جس کی سیاسی قیادت نے اپنا مال ومتاع بیرونی ممالک میں منتقل کیا ۔ وہ جو دیارِغیر کو اپنی اصل رہائش گاہ کے طورپر استعمال کرتے ہوں ۔جو ملک سے متعلق اہم فیصلے اور میٹنگز غیر ملکی سیمینارز ہالزمیں منعقد کرتے ہوں ۔جو سات سمندر پار سے بیانات جاری کرکے خود کو اس وطن کا سب سے بڑا جیالا ،کارکن قرار دیتے ہیں۔پاکستان میں سب کچھ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تذبذب کے کیا جاتا ہو۔ موجودہ قیادت میں سے ہر کسی نے لندن، نیویارک اور یورپ کے مختلف ممالک کو اپنا اصل اڈہ بنایا ہوا ہے ۔اور تو اور نئی نسل کے نام نہاد زیر تربیت قائدین بھی ملک سے باہر ہی پاکستان کو چلانے کی ترکیبیں سیکھ رہے ہیں ۔پاکستان میں بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے کی ناکام مہم کی سربراہی آصفہ زرداری بھٹو پتہ نہیں کس خطے میں بیٹھ کر کررہی ہیں ۔

وہ اِن معصوم اور پولیو زدہ بچوں کے ساتھ اظہار ہمدردی ٹویٹر پر کرتی ہیں ۔اُن کے خیال میں ٹویٹر پر بولے گئے سات الفاظ اتنے بااثر ہیں کہ ملک کے اندر سے یہ بیماری خودبخود ختم ہوجائے گی۔بلاول بھٹو کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔چوہدری برادران کی نئی نسل یا شریف خاندان کے آنے والے لیڈران یا تو اپنی دلکش پناہ گاہوں میں چھپ کر غریبوں کے حالات بدلتے ہیں اور یاپھر سال میں سے چھ مہینے دنیا گھوم کر پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ بیرونی دوروں پر پلنے والے یہ لیڈران ملک سے اتنے ہی مخلص ہیں جتنا ایک دیہاڑی کا مزدور اپنے ٹھیکیدار سے ۔مگر پھر بھی یہ موزانہ درست نہیں ۔دیہاڑی کا مزدور کم از کم اپنی دیہاڑی حلال تو کرتا ہے ۔خون پسینہ ایک کرکے دیوار کو اونچا تو کرتا ہے ۔ہمارے لیڈران تو اس ملک کی جیبیں کاٹ کر اپنے جبّے بناتے ۔دیہاڑی پوری لیتے ہیں ۔کام ایک دھیلے کا نہیں کرتے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔