ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

اقبال خورشید  منگل 22 ستمبر 2015
کسی سیانے کا قول ہے؛ آدمی کو جاننا ہو، تو اس کے شیلف میں جھانکو۔

کسی سیانے کا قول ہے؛ آدمی کو جاننا ہو، تو اس کے شیلف میں جھانکو۔

کسی سیانے کا قول ہے؛ آدمی کو جاننا ہو، تو اس کے شیلف میں جھانکو۔

ہم ٹھہرے خاندانی آدمی۔ اوروں کے گھروں میں تاک جھانک کو اچھا نہیں سمجھتے۔ پھر اتنی محنت کون کرے۔ جسے جاننا ہو، اُس سے گفت گو کر لیں۔ خبر مل جائے گی، ن لیگی ہے کہ جیالا۔ امپائر کی انگلی کا منتظر یا ٹیلی فونک خطاب کا۔

ویسے اپنے شیلف میں جھانکنا خود شناسی کی اچھی مشق۔ خود کو جاننے میں ذاتی شیلف معاون۔ اُس کے رخسار پر سرخی، تو آپ ٹھہرے سرخ۔ اُدھر سبز رنگ لشکتا ہو، تو سبزی خور۔ فکشن کا اثر زیادہ، تو حقیقت سے بیزار۔ شاعری کا غلبہ، تو آپ اپنے دشمن۔ اگر خدانخواستہ کچھ لکھتے لکھاتے بھی ہیں، تو خود کو سماج کے لیے مضر جانیں۔

جو خود کو باذوق بتلاتے ہیں، ان عزیزوں کی تحریروں اور باتوں میں ہم نے ایک کتاب کا تذکرہ بارہا سنا، جو ہمارے پاس بھی موجود۔ سستے بازار سے ہاتھ لگی۔ ویسے کم یاب نہیں۔ بہتیروں کے پاس ہوگی۔ جب ہی تو ہمارے ہاں باذوق صاحبان کی بہتات۔

یہ ہے ابن انشا کی: اردو کی آخری کتاب! بڑی سنجیدہ کوشش ہے صاحب۔ التباسات پیدا کرتی ہے۔ ہمارے ایک عزیز ایک روز کہنے لگے: ’’بھائی، جب پہلے پہل پڑھی، تو سمجھے، واقعی کوئی نصابی کتاب ہے، درج معلومات کو سچ جانا۔‘‘ جب ہم نے پوچھا؛ دوسری پڑھت کے بعد تاثر کیا رہا؟ تو ہنس دیے: ’’دوسری کی ابھی نوبت نہیں آئی!‘‘

بڑے بوڑھے کہتے ہیں: ’’زندہ کتاب وہی، جو تیس چالیس برس بعد بھی پڑھی جارہی ہو۔‘‘ انشا جی کی کتاب یوں منفرد کہ نہ صرف پڑھی جارہی ہے، بلکہ اس کا متن آج بھی اپنی معنویت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کتاب ہنساتی ضرور ہے، پر فقط رُلانے کے لیے۔ مقصد چیرا لگانا، اور مریض گدگدی محسوس کرے۔

’’حالات حاضرہ پر لکھنے میں یہ قباحت ہے کہ حالات کبھی حاضر نہیں رہتے۔‘‘ ایسا ستھرا نکھرا جملہ ابن انشا ہی کے قلم سے نکل سکتا ہے۔ مرحوم کا ادبی اثاثہ اگر کسی بھلے ملک کو فروخت کر دیا جائے، تو پاکستان کا آدھا قرضہ اتر جائے۔ بڑے آدمی تھے، جو عہد اُن سے منسوب، اُسے خوشی خوشی اوروں کے نام کر دیا۔

خیر، بات ہو رہی تھی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ کی۔ باکمال کتاب ہے۔ چار عشروں قبل شایع ہوئی۔ ورق گردانی کریں، تو لگتا ہے، جیسے آس پاس کے دنوں میں لکھی گئی ہے۔’’ پڑھیں، اور سر دھنیں!‘‘ یہ فقرہ اِسی کتاب کے لیے مناسب۔ چند لقمے پیش خدمت ہیں، اب آپ انشا جی کے حوالے۔ ہم چلے:

٭کرسی: اِس پر بیٹھ کر قوم کی بے لوث خدمت بہت اچھی طرح کی جاسکتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے تو جب لوگوں میں قومی خدمت کا جذبہ زور مارتا ہے، تو وہ کرسی کے لیے لڑتے ہیں۔

٭ متحدہ محاذ: ہر متحدہ محاذ میں عموماً ایک شیر اور باقی گدھے ہوتے ہیں۔ تقسیم شکار کی ہو یا ٹکٹوں کی، اس میں شیر کا حصہ خاص ہوتا ہے۔ اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے، تو گدھا ہے۔

٭دائرہ: ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے۔ آج کل داخلہ منع ہے۔ صرف خارج کرتے ہیں۔

٭گدھا: گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں، چار پاؤں والے، دو پاؤں والے۔ سینگ ان میں سے کسی کے سر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے۔ دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔

٭کشش ثقل: یہ نیوٹن نے دریافت کی تھی۔ غالباً اس سے پہلے نہیں ہوتی تھی۔ نیوٹن اس سے درختوں سے سیب گرایا کرتا تھا۔

٭ مہابھارت: مہابھارت کورؤوں اور پانڈوؤں کی لڑائی کی داستان ہے۔ کورو تو جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، بڑے کور چشم لوگ تھے۔ ہاں، پانڈو اچھے تھے۔ اتنا ضرور ہے کہ کبھی کبھی جوا کھیل لیتے تھے۔

٭ سکندر اعظم: یہ بادشاہ جو پنجاب کے ایک سابق وزیر اعظم اور پاکستان کے ایک سابق صدر کا ہم نام تھا، مقدونیہ کے بادشاہ فیلقوس کا بیٹا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد گدی پر بیٹھا، جو اس کی سعادت کی دلیل ہے۔ باپ کی زندگی میں بیٹھ جاتا، تو باپ کیا کرلیتا۔

٭ سلطان محمود غزنوی: اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ شروع کے حملوں میں تو وہ چند ناگزیز وجوہ سے واپس جاتا رہا۔ آخر ہندوستان کو فتح کر لیا۔ اس نے سومنات کا بت بھی توڑا، جس میں سے زر و جواہر کا بہت بڑا خزانہ نکلا۔ ہر چند کہ سومنات کو اس نے صرف اپنا فرض سمجھتے ہوئے توڑا تھا، روپے کے لالچ میں نہیں، تاہم ان زر و جواہر کو اس نے پھینک نہیں دیا، اونٹوں پر لدوا کر اپنے ساتھ غزنی لے گیا۔ ایاز اس کا غلام تھا۔ علامہ اقبال سے روایت ہے کہ جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا تھا، تو یہ دونوں یعنی محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہوجاتے۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔

٭خاندان غوری: غزنوی خاندان کے بعد کسی نہ کسی کو تو آنا ہی تھا، چناں چہ غوری خاندان آیا۔ اس خاندان کا عہد بہت مختصر رہا۔ یہ لوگ اس بات پر غور ہی کرتے رہے کہ ملک کو کیسے ترقی دی جائے۔

٭بابر: بابر بادشاہ سمرقند سے ہندوستان آیا تھا، تاکہ یہاں خاندان مغلیہ کی بنا ڈال سکے۔ یہ کام تو وہ بحسن وخوبی اپنے وطن میں بھی کرسکتا تھا۔ البتہ پانی پت کی پہلی لڑائی میں اس کی موجودگی ضروری تھی، یہ نہ ہوتا، تو وہ لڑائی یک طرفہ ہوتی۔ ایک طرف ابراہیم لودھی ہوتا، دوسری طرف کوئی بھی نہ ہوتا۔ لوگ اس لڑائی کا حال پڑھ پڑھ کر ہنسا کرتے۔

٭ جہانگیر اور بے بی نورجہاں: اکبر کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا۔ وہ اکبر کا بیٹا تھا۔ اگر اس کا باپ ہوتا، یقیناً اس سے پہلے تخت پر بیٹھتا۔

٭عالم گیر بادشاہ: بعض مورخین نے عالمگیر کے متعلق بہت غلط بیانیاں کی ہیں۔ مثلاً یہی کہ وہ متعصب تھا۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اگر متعصب ہوتا، تو جو سلوک اپنے بھائیوں سے کیا، وہ ہندو راجاؤں وغیرہ سے کرتا۔

٭ایک سبق گرامر کا: عروض میں بحریں ہوتی ہیں، جن میں بعض بہت گہری ہوتی ہیں۔ نومشق ان میں اکثر ڈوب جاتے ہیں۔ اسی لیے احتیاط پسند لوگ شاعری اور عروض کے پاس نہیں جاتے۔ عمر بھر نثر لکھتے رہتے ہیں۔

آخر میں ’’ہمارا تمھارا خدا بادشاہ‘‘ کی لازوال سطریں، جو عشروں بعد بھی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں:

کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ۔ بڑا دانش مند، مہربان اور انصاف پسند۔ اس کے زمانے میں ملک نے بہت ترقی کی، اور رعایا اُس کو بہت پسند کرتی تھی۔ اس بات کی شہادت نہ صرف اُس زمانے کے محکمے اطلاعات کے کتابچوں اور پریس کے نوٹوں سے ملتی ہے، بلکہ بادشاہ کی خودنوشت اور سوانحی عمری سے بھی۔۔۔ اخبار آزاد تھے کہ جو چاہیں کہیں، جو چاہیں لکھیں، بہ شرطے کہ بادشاہ کی تعریف میں ہو۔۔۔ہر طرف خوش حالی ہی خوش حالی نظر آتی تھی۔ جو لکھ پتی تھے، دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی بن گئے۔ لوگ سونا اچھالتے اچھالتے ملک کے اِس سرے سے اُس سرے تک، بلکہ بعض اوقات بیرون ملک بھی چلے جاتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ پوچھے، اتنا سونا کہاں سے آگیا اور کہاں لیے جارہے ہو۔۔۔طبیعت میں غفور و درگزر کا مادہ ازحد تھا۔ اگر کوئی آکر شکایت کرتا، تو مجرم خواہ بادشاہ کا کتنا ہی قریبی عزیز کیوں نہ ہو۔ وہ کمال سیر چشمی سے اُسے معاف کر دیتے تھے، بلکہ شکایت کرنے والوں پر خفا ہوتے تھے کہ عیب جوئی بری بات ہے۔

جب بادشاہ کا دل حکومت سے بھر گیا، تو وہ اپنی چیک بکیں لے کر تارک دنیا ہوگیا، اور پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، اب بھی زندہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔