اسلامی تہوار، اسلامی تعلیمات کے برعکس؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 23 ستمبر 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

بات تو بہت سادہ سی ہے کہ اسلامی تہوار، اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی منایا جاتا ہے اور اس میں کسی جوش و جذبے کی بھی کمی نہیں ہوتی مگر بات درحقیقت اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دینی تہواروں میں بھی دانستہ یا غیردانستہ طور پر اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کی رفتار تیز اور عادت پختہ ہوتی جا رہی ہے۔

اس میں ایک پہلو جدیدیت کا بھی ہے اور غفلت کا بھی۔ جدیدیت کا اس لحاظ سے کہ اجتماعی قربانی کا بڑھتا ہوا رحجان اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم مزید جدت اور سہل پسندی کا شکار ہوئے تو شاید مستقبل میں ہم کسی این جی او کو صرف ایک چیک کاٹ کر دے دیں گے اور وہ ہمارے بدلے تمام کام مثلاً جانور کی خریداری، رکھوالی، ذبیحہ اور گوشت کی تقسیم کا فریضہ نہایت مستعدی سے ادا کر دے گی اور ہم بحیثیت مسلمان جانور کی خریداری، رکھوالی، ذبیحہ اور گوشت کی تقسیم جیسی سنت سے بھی محروم رہ جائیں گے اور آنے والی نسلیں اس عمل سے نابلد ہوں گی۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ (حدیث کی روشنی میں) اگر آپ اپنے گھر میں کھانے کی اشیاء لے کر جائیں تو اس طرح کہ پڑوسی کی نظر اس پر نہ پڑے، جب آپ کے بچے پھل کھائیں تو گھر سے باہر نہ لے جائیں کہ کسی پڑوسی کے بچے کی نظر پڑے اور اس کو رنج و ملال ہے، اسی طرح جب آپ کے گھر میں کھانا پکے اور اس کی خوشبو پڑوس کے گھر تک جائے تو چاہیے کہ ایک ڈوئی (چمچہ) کھانے کا اپنے پڑوس میں بھی بھیج دیں۔

امام غزالی کی یہ تعلیمات کسی غیر مذہب کی نہیں بلکہ ہمارے اپنے دین اسلام کی ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی اقدار میں بھی ایک طویل عرصے سے شامل رہی ہیں جس کی گواہی انگریز گورے لارڈ میکالے سے بھی مل جاتی ہے کہ جب اس نے ہندوستان پہنچ کر یہاں کے معاشرے کا جائزہ لیا اور پھر تاج برطانیہ کو رپورٹ بھیجی کہ یہاں کے لوگ سپاہی سے ڈر کر نہیں بلکہ اپنے پڑوسیوں کے ڈر سے چوری چکاری نہیں کرتے۔

راقم کو بھی یاد ہے کہ اب سے چند دہائیوں قبل تک کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی یہ صورتحال تھی کہ بازار سے سامان خرید کر لانے کے لیے ایسی ٹوکری یا تھیلا استعمال کرتے تھے کہ جس میں اشیاء نظر نہیں آتی تھیں، پھر گھر میں کوئی اچھا کھانا پکے تو پڑوس میں ضرور بھیجا جاتا تھا، غربت کا رونا کوئی نہیں روتا تھا حالانکہ پورے گھر کو ایک شخص ہی کما کر لا کر دینے والا ہوتا تھا۔ یعنی کوئی ایسی نمود و نمائش نہیں ہوتی تھی کہ جس سے کسی پڑوسی کو یا معاشرے کے کسی فرد کو احساس کمتری محسوس ہو۔

اب آیے اصل موضوع کی طرف، آج ہم قربانی کے لیے جانور لاتے ہیں تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کیا کرتی ہے؟ اپنے جانور کی نمود و نمائش کی کوئی کسر نہیں چھوڑنی، چاہے اس سے معاشرے میں کتنی ہی احساس کمتری پھیلے یا کسی کی دل آزاری ہو، پھر جانور کو اس طرح باندھنا کہ گزرنے کا راستہ ہی بند ہو جائے اور پانی و چارے وغیرہ سے گندگی بھی خوب کرنا چاہے اس سے پڑوسی کو سخت تکلیف ہی کیوں نہ پہنچے۔

اب تو فلیٹ میں رہنے والے (جن کے اپنے رہنے کی گنجائش کم ہوتی ہے) قربانی سے کم از کم ہفتہ دس دن قبل بکرے لا کر دروازے پر باندھ دیتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ جن فلیٹوں میں پہلے ہی روشنی اور ہوا ناپید ہو وہاں دیگر مکینوں کی کیا حالت زار ہو گی؟ شاید ہم بھول چکے ہیں کہ پڑوسیوں کے کیا حقوق ہوتے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو کی طرف غور کیجیے، قربانی کے گوشت کی تقسیم کے بارے میں ہمارا یہ تصور تو یہ ہے کہ اس کا کچھ حصہ عزیز رشتے داروں میں، باقی پڑوس اور غربا میں تقسیم کرنا چاہیے لیکن یہ مناظر بھی عام ہیں کہ ہم اس موقعے پر محض اپنی انا، ناراضگی یا ہٹ دھرمی کے باعث تقسیم میں بھی پسند و نہ پسند کو سامنے رکھتے ہیں، حالانکہ نہ ہمارا دین نہ ہی ہماری معاشرتی اقدار اس کی اجازت دیتی ہیں۔ یوں بعض اوقات سگے رشتے داروں سے ناراضگی ختم کرنے کا یہ سنہری موقع بھی گنوا دیتے ہیں۔

آج کل کے دور میں سفید پوش کس طرح زندگی گزار رہے ہونگے کبھی ہم نے غور کیا؟ فرض کریں ایک سفید پوش ماہانہ پندرہ ہزار کی ملازمت کرتا ہے اور کرائے کے مکان میں رہتا ہے تو جناب اس کی پوری تنخواہ تو کرائے اور یوٹیلٹی بلز میں چلی جاتی ہو گی وہ گزارہ کیسے کرتا ہو گا؟ کیا گوشت تقسیم کرتے وقت کوئی ایسی بات آپ نے سوچی؟ کیا جس طرح اپنی اشیاء کی خریداری کے لیے کئی کئی شاپنگ سینٹر کے سروے کر ڈالتے ہیں کبھی اپنے پڑوس یا ارد گرد غور کیا کہ کون آپ کی مدد کا زیادہ مستحق ہے؟ یا آنکھ بند کر کے پیشہ ور بھکاریوں کو نواز دیا؟

آیے، اسی سے منسلک ایک آدھ بات پر اور غور کریں، وہ بات جو خود ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ ایک چارہ فروخت کرنے والا سڑک کے کنارے چارے کا ڈھیر لگا کر فروخت شروع کر دیتا ہے، خریدار آ کر اپنی گاڑی کہیں مناسب جگہ کھڑی کرنی کی زحمت بھی نہیں کرتا کہ شاید اس کا ایک ایک سیکنڈ نہایت قیمتی ہے۔

چند لوگ یہ عمل کرتے ہیں اور یوں پوری سڑک پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے جس میں پھنسی ہوئی کسی ایمبولینس کی چیخ بھی کسی کو سنائی نہیں دیتی، کسی کی جان جاتی ہے تو چلی جائے مگر ہمارا گاڑی کو کسی مناسب جگہ کھڑی کرنے کا وقت بچ جائے، کیونکہ یہ بچا ہوا وقت ہم اپنے جانور کو گلی محلوں میں رسی پکڑ کر گھمانے میں گزاریں گے تا کہ پوری دنیا کو پتہ چل جائے کہ آخر ہم نے بھی تو اتنا قیمتی جانور خریدا ہے اور پھر عید والے دن خاص کر ہم اپنے گھروں میں بھی خوب پانی بہا کر صفائی ستھرائی کریں گے کہ ہم تو ہیں ہی

’صفائی نصف ایمان‘ پر ایمان رکھنے والے چاہے ہمارے اس عمل سے گلی محلوں کے گٹر بند ہو جائیں اور خون، پانی اور کیچڑ اس قدر ہو جائے کہ گزرنا بھی ممکن نہ رہے۔

اگر ہم جانور کی خریدار ی کے ساتھ ساتھ کچھ رقم کی مٹی خرید کر ڈال دیں اور جانور ذیبحہ ہونے کے بعد یہ مٹی اٹھا کر پھینک دیں تو اس سے بھی ماحول صاف ستھرا ہو جاتا ہے اور گلی کوچوں سے خون اور کیچڑ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

راقم کی یہ چند گزارشات تھیں کہ جس پر کمشنر کراچی بھی عمل کرا سکتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ ہم خود عمل کر کے اپنا تشخص بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ آیئے ذرا سی دیر اس جانب غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔