ہمارے گلے میں لٹکے تمغے (آخری حصہ)

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 23 ستمبر 2015

خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔ گدھے نے خچر سے کہا سلام پیارے بھتیجے۔ سلام چچا جان خچر نے جواب دیا کہو اتنے خوش خوش کہاں سے آ رہے ہو۔ خچر نے سارا واقعہ سنایا تو گدھا رینگا۔ ذرا ٹھہرو میں بھی جا کر با دشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔

یہ کہا اور بھاگم بھاگ سیدھا شاہی محل کے مین گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا دربانوں نے منت سماجت کر کے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ لگا تار بادشاہ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آٓخر کار بادشاہ کو اطلاع دی گئی، گدھے کو بھی حاضری کی اجازت مل گئی۔

انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آ چکا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا۔ گدھے کہیں کے، تمہیں کیسے جرأت ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل آ پہنچے ہو اور پھر طرہ یہ کہ ما بدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو۔ میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گو شت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔

خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سر انجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں ڈھینچوں کر کے رعایا کے آرام میں خلل کے اور کیا کام ہے۔ تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں۔ بتاؤ! گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا بادشاہ سلامت آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خد مت تو گدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہو تے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔

اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنہیں گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی بدستور محفوظ چلی آ رہی ہے، گدھے کی یہ فلسفیانہ بات سن کر بادشا ہ کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا واقعی گدھا حق بجانب ہے۔ بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا۔ اے میر ے وفادار و ذہین گدھے تو بالکل ٹھیک کہتا ہے تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے۔ البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ رہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں کیا کرو۔‘‘

میں نے عزیز ناسن کی یہ کہانی ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھی ہے اور ہر بار پڑھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کہانی کا ایک ایک لفظ مجھ پر ہنس رہا ہے، قہقہے لگا رہا ہے اور مجھ سے زور زور سے چلا کر کہہ رہا ہے کہ میرے معصوم دوست یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے بلکہ تمہاری خود کی اپنی سچائی ہے۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم بے اختیاری، بدحالی، ذلت و افلاس، گالیوں اور غلامی کے تمغے اپنے گلے میں لٹکائے لٹکائے نہیں پھرتے ہو؟ کیا تمہیں اپنے تمغوں کی ٹن ٹن کی آوازیں سنائی نہیں دیتی ہیں، کیا تم اتنے بہرے ہو چکے ہو کہ تمہیں کچھ سنائی نہیں دیتا ہے، یاد رکھو تم کسی وقت انسان ہوا کرتے تھے اب تو تمہاری حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔

یہ بھی یاد رکھو تم خود اپنے تمام حقوق، خوشحالی و ترقی سے رضاکارانہ دستبردار ہوئے ہو آج تم جیسے ہی کروڑوں انسان نما گدھوں کی بدولت تمہارے ملک کے کرپٹ، راشی، لٹیروں کی کرسی بدستو محفو ظ چلی آ رہی ہے وہ سب تمہاری ہی بدولت اتنی مدتوں سے شاہی تخت پر براجمان ہیں اگر تم جیسے گدھے نہ ہوتے تو کیا ان سب کا تاج و تخت اب تک سلامت رہتا، کیا ان کے عہدے و کرسیاں سلامت رہتیں۔ یہ سب تمہاری ہی بدولت آج تک زندہ و محفو ظ ہیں اور تم پر مسلط ہیں کیونکہ تم دن رات ان کی سلامتی کے لیے دعا گو رہتے ہو، گھاس کھاتے رہتے ہو، اس لیے کہ تمہیں روزانہ ایک بوری گھاس جو مل جاتی ہے۔

ذرا سوچو کیا آج کل جو کچھ تمہارے ملک میں ہو رہا ہے کیا یہ سب کچھ تمہاری اپنی مرضی کے خلاف ہو رہا ہے کیا تم اس سب کچھ ہونے کے ذمے دار نہیں ہو۔

یاد رکھو میر ے معصوم دوست تم جی ہاں صرف تم اس سب کچھ ہونے کے اکلوتے ذمے دار ہو، اگر تم نہ ہوتے تو کیا تم اس سب کچھ ہونے کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوتے۔ کیا تم اس سب کچھ کے خلاف احتجاج نہ کر رہے ہوتے، میرے معصوم دوست مجھے بے وقوف نہ سمجھو اور نہ بناؤ بلکہ اپنے آپ کو بناتے رہو، کیونکہ ایسا نہ ہوکہ ایک دن تمہیں ایک بوری گھاس کے بھی لالے پڑ جائیں۔ تمہارے مجر م یہ عہدے دار یہ کرسی پر براجمان بڑے بڑے لوگ نہیں بلکہ تم خود اپنے سب سے بڑے دشمن اور مجرم ہو تم اپنے آپ کو سزا دو، اپنے کو برا بھلا کہو۔

لیکن افسوس صد افسوس تم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اس لیے کہ اب تم کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں رہے ہو، کیونکہ تم نے خود ہی اپنے لیے اس زندگی کا انتخاب کیا ہے۔ کسی فارسی شاعر نے کہا ہے کہ

خر ِعیسی اگر تا مکہ رود
چوں بباید ہنوز خر باشد

یاد رکھو تمہارے خوابوں کی کرچیں تمہاری آنکھوں کو زخمی کرتی رہیں گی۔ اب تم مزید نئے خواب دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے ہو، اگر تم نئے خواب دیکھنے کی کوشش کرو گے تو تم اپنی آنکھیں اور زخمی کر لو گے، ہاں ایک آخری بات میرے معصوم دوست اور یاد رکھنا کہ اگر تم نے غلطی سے بھی اپنی گردن پر لٹکے تمغوں کو نو چ کر پھینکنے کی اور ایک بار پھر دوبارہ جیتا جاگتا انسان بننے کی کوشش کی تو تم اپنی ایک بوری گھاس سے بھی محروم کر دیے جاؤ گے۔

یہ بات میں تمہیں اس لیے سمجھا رہا ہوں کہ تم مجھے اچھے لگتے ہو لیکن ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل میں نہیں بلکہ ایک گدھے کی صورت میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔