اونٹ رے اونٹ

سید بابر علی  اتوار 27 ستمبر 2015
قیمتوں سے سجاوٹ تک ’’صحرا کے جہاز‘‘ کے بارے میں دل چسپ معلومات ۔  فوٹو : فائل

قیمتوں سے سجاوٹ تک ’’صحرا کے جہاز‘‘ کے بارے میں دل چسپ معلومات ۔ فوٹو : فائل

قربانی ہر صاحب استطاعت مسلمان کے لیے ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ ہر مسلمان کی اﷲ کی راہ میں کچھ قربان کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر سال ذی الحج کی دس تاریخ کو عالم اسلام اﷲ کے نام پر سچے جذبے، خلوصِ نیت سے گائے، بکرے، بیل اونٹ اور دنبے کی قربانی کر کے سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

قربانی ایک عظیم عبادت ہے، جو تمام مذاہب میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے، تاہم اسلام نے قربانی کے لیے کچھ اصول متعین کیے ہیں۔ قربانی کے گوشت میں سے ایک حصہ غرباء کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

ذی الحج کا مہینہ آتے ہی ملک بھر کے شہروں، قصبوں میں مویشی منڈیاں لگنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کراچی کے مضافاتی علاقے میں سپرہائی وے پر ہر بار کی طرح اس سال بھی ایک عارضی منڈی قائم کی گئی۔ ہر سال کی طرح مویشی منڈی میں فروخت کے لیے ملک بھر کے بہترین مویشی لائے گئے، جن کی تشہیر کے لیے ایک جانب دیو ہیکل سائن بورڈ استعمال کیے گئے۔

تو دوسری جانب متعدد بیوپاری فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بھی بڑے نازوں سے پلے جانوروں کی خصوصیات بیان کرنے میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ منڈی میں لائے جانے والے زیادہ تر مویشیوں کا تعلق ساہیوال، چولستان، تھر، سبی اور رحیم یار خان سے تھا۔ کچھ سال قبل تک کراچی میں گائے، بیل یا بکروں کی نسبت اونٹ کی قربانی کا رجحان بہت کم تھا، لیکن اس سال اونٹ کی فروخت میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ اسی رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے منڈی میں ایک مخصوص جگہ اونٹوں کے لیے مختص کی گئی۔

چار دیواری میں قائم اس عارضی منڈی میں ایک لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک کی مالیت کے اونٹ فروخت کے لیے لائے گئے۔ اس حوالے سے صحرائے تھر کے علاقے اسلام کوٹ سے آنے والے بیوپاری عبدالعزیز کا کہنا ہے: ’’گلہ بانی ہمارا خاندانی کام ہے۔ پہلے ہم پورے سیزن میں دس بارہ اونٹ ہی فروخت کر پاتے تھے، لیکن اب لوگوں میں اونٹ کی خریداری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ اونٹ کے وزن کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’کم زور سے کم زور اونٹ میں بھی چھے سے سات من گوشت ہوتا ہے۔

اس بار منڈی میں تھری، لاڑی اور پنجاب کے سفید اونٹ بھی بڑی تعداد میں لائے گئے۔ تھر سے تعلق رکھنے والے اونٹوں کی قیمت لاڑ نسل کے بھورے اور پنجاب کے سفید اونٹوں کی نسبت نسبتاً کم ہوتی ہے، کیوں کہ قحط کے شکار تھر میں انسانوں کے کھانے کے لالے پڑے ہیں تو اونٹ کیسے صحت مند ہوسکتے ہیں۔‘‘

سہون سے تعلق رکھنے والے بیوپاری محمد بخش رحمانی کو بھی امسال اونٹو ں کی زیادہ فروخت کی امید تھی۔ لاڑ نسل کے بھورے اونٹوں کی افزائش نسل اُن کا خاندانی کام ہے۔ اُن کے پاس ڈیڑھ لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک کے اونٹ موجود تھے۔

اونٹ منڈی میں کاروبار کرنے والے تمام بیوپاری اس بار امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے بہت مطمئن ہیں۔ اس بابت سہون سے تعلق رکھنے والے بیوپاری سائیں داد کا کہنا تھا: ’’پہلے جتنے دن ہم منڈی میں رہتے تھے ہر وقت اپنی رقم سے محروم ہونے کا دھڑکا لگا رہتا تھا، لیکن اس بار ہمیں کم از کم منڈی کی حدود میں کسی قسم کی چوری ڈکیتی کا ڈر نہیں تھا۔‘‘

منڈی میں جہاں ایک طرف بھورے اور سفید اونٹ نظر آرہے تھے وہیں سیاہ رنگت والے اونٹ بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔ اونٹوں کی سیاہ رنگت کے بارے میں ایک بیوپاری موسی کا کہنا ہے کہ ’’سیاہ رنگ کا اونٹ بہت کم پایا جاتا ہے، گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہم چار پانچ ہزار روپے میں اس پر سیاہ رنگ کروادیتے ہیں۔ جس سے اونٹ کی قیمت تھوڑی اچھی مل جاتی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔

البتہ ہم اپنے گاہک کو صاف بتا دیتے ہیں کہ یہ اوریجنل سیاہ نہیں ہے بلکہ ہم نے اس پر رنگ کیا ہوا ہے، تاہم منڈی میں کچھ بیوپاری گاہک سے یہ حقیقت چھُپا کر زیادہ پیسے اینٹھتے رہے۔ اونٹوں کی فروخت میں اضافے سے جہاں ایک طرف بیوپاریوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب ان (اونٹوں) کے سامان آرائش کی فروخت بھی بڑھی۔

اس بارے میں سانگھڑ سے آنے والے بیوپاری نور احمد کا کہنا ہے کہ ’’پہلے ہم گائے بکروں کی زیبائش کا سامان فروخت کرتے تھے لیکن اس مرتبہ ہم نے اونٹ منڈی میں بھی اپنا پتھارا لگایا اور یہاں کاروبار اچھا چل رہا ہے۔ اگلے سال ہمارا ارادہ مزید پتھارے لگانے کا ہے۔ پہلے لوگ صرف گائے، بیل بکروں کو سجاتے سنوارتے تھے لیکن اب اونٹوں کے لیے طرح طرح کا سامان آرائش مارکیٹ میں آگیا ہے۔‘‘

٭ اونٹ کے جسم پر نقش و نگار بنانے والے فن کار
اونٹوں پر بنے دیدہ زیب نقش و نگار نہ صرف بچوں کو متوجہ کرتے ہیں، بلکہ بیوپاریوں کا منافع بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان نقش و نگار کو تخلیق کرنے والے فن کار نہ کسی آرٹ اسکول کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کاغذ پر بنے کسی ڈیزائن کو دیکھ کر کاپی کرتے ہیں۔ ہر فن کا ر کو درجنوں ڈیزائن ذہن نشین ہوتے ہیں، اونٹ کے دونوں طرف ایک جیسے نقش و نگار بنانا اُن کے کام کی انفرادیت ہے۔

اس کام کے لیے یہ فن کار کسی رنگ یا کینوس کے محتاج نہیں ہوتے۔ بس مالک سے کام کا معاوضہ طے ہونے کے وہ اپنی قینچی سے اونٹ کے جسم پر اس طرح نقش بنا دیتا ہے، جس طرح کوئی مصور اپنے برش سے کینوس پر نئی زندگی اُجاگر کرتا ہے۔ ان فن کاروں کے لیے قینچی برش اور اونٹ کے جسم پر موجود بال کینوس کا کام کرتے ہیں۔

اونٹوں کی منڈی میں ایک اونٹ کے جسم پر خوب صورت نقش اجاگر کرنے والے فن کار سید علی حسین کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہمارا خاندانی کام ہے۔ بچپن سے آج تک اس کام کو سیکھنے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ کیوں کہ انسان کبھی کسی کام کو مکمل نہیں سیکھ سکتا۔ یہ عمل تو ماں کی گود سے قبر کی آغوش میں جانے تک جاری رہتا ہے۔‘‘

اس کام کی مزید تفصیلات کچھ یوں بیان کیں:’’ایک اونٹ کی ڈیزائننگ میں تین سے چھے گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ پورے دن میں دو سے تین اونٹوں کے جسم پر نقش و نگار ابھارتے ہیں۔

زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ مالک ہمیں اپنی مرضی سے نقش بنانے کا کہہ دیتا ہے، لیکن کچھ بیوپاری اپنی خواہش کے مطابق ڈیزائن بنواتے ہیں۔‘‘ معاوضے کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اُجرت ہم اونٹ کی جسامت دیکھ کر طے کرتے ہیں۔ ’’عموماً تین سے پانچ ہزار میں معاملہ طے پاتا ہے۔ اس بار ہمارا کام اچھا چل رہا ہے کیوں کہ اس سال منڈی میں اونٹوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔‘‘
٭ اونٹ کے گوشت کے فوائد
ماہرین صحت کے مطابق گوشت لحمیات (پروٹین) کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہر جانور کا گوشت صحت کے لیے انفرادی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔ اونٹ کا گوشت نمکین، سخت اور ثقیل (دیر سے ہضم ہونے والا) ہوتا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق کے مطابق ہائی بلڈ پریشر (بلند فشارِخون) کے مریضوں کو اونٹ کا گوشت کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

تاہم اونٹ کا گوشت ہیپاٹائیٹس سی (کالے یرقان) میں مفید غذا ہے۔ اونٹ کا گوشت عرق النسا، اعصابی اور جسمانی کم زوری دور کرنے میں مفید ہے۔ اونٹ کی چربی جوڑوں کے درد کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ کچھ ماہرین طب نے اونٹ کے گوشت کو کم چکنائی اور تمام ضروری حیاتین سے بھرپور ہونے کی وجہ سے امراض قلب کے لیے مفید قرار دیتے ہیں۔

٭ اونٹ کی قربانی کا طریقہ کار
اﷲ تعالی نے قران پاک میں ارشاد فرمایا ہے،’’اور قربانی کے اونٹ کو ہم نے تمہارے لیے قدرت کا شاہ کار بنایا ہے، اس میں تمہارے لیے فائدہ ہے پس انہیں کھڑا کر کے ذبح کرتے وقت ان پر اﷲ کا نام لو، پھر جب وہ ذبح ہو کر زمین پر گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال نہ کرنے والے اور سوال کرنے والے کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے تا کہ تم شکر ادا کر سکو۔ ‘‘

علما کے مطابق اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اونٹ کا اگلا گھٹنا باندھ دیا جائے اور جب وہ اپنے تین پیروں پر کھڑا ہو تو ماہرقصاب یا کوئی فرد اس کے حلقوم (اونٹ کے جسم کا وہ حصہ ہے جہاں سے گردن شروع ہوتی ہے اور جب ذبح کیا جائے گا تو چُھری وہاں چلائی جائے گی جہاں گردن ختم ہوتی ہے) پر چھرا یا نیزہ مارے۔ جب خون بہنے کی وجہ سے اونٹ نڈھال ہوکر زمین پر گر جائے تو تب اسے گردن سے ذبح کر دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔