وزیراطلاعات جناب پرویز رشید کامطالبہ

تنویر قیصر شاہد  منگل 29 ستمبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی مخلصانہ کوششیں اور دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کی بھرپور جنگ جاری ہے۔ پاکستان نے عالمی امن کے قیام کی خاطر اس جنگ میں اپنے ہزاروں بیٹے قربان کردیے ہیں۔ ذاتی خزانے سے اربوں ڈالر کے جو اخراجات کیے گئے ہیں، وہ انتہائی قیمتی جانی نقصانات کے علاوہ ہیں۔ یقینا ان بھاری اخراجات سے پاکستان کی معیشت کو زک اور ضعف پہنچا ہے لیکن پُرامن مستقبل کی خاطر یہ قربانی جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو کامل تحفظ فراہم کرنے کے لیے پاکستان اکیلے ہی یہ جنگ لڑ رہا ہے۔

پاکستان کے جانی و مالی نقصانات پر بھارت کی بانچھیں کھِل رہی ہیں اور اس کی طرف سے پاکستان کے خلاف دائیں بائیں سے شیطانیاں اور شرارتیں بھی جاری ہیں لیکن شاید وہ نہیں جانتا کہ آخر کار اسے اپنے مفسدانہ اقدامات کا ایک روز اقوامِ عالم کے سامنے جواب بھی دینا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ اس کا عدم تعاون اس کے اپنے دامن کو آگے لگانے کا باعث بن جائے کہ واقعی معنوں میں وہ آگ سے کھیل رہا ہے اور اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ یہ آگ اسے کبھی گزند نہیں پہنچائے گی۔

دنیا کے بہت سے انصاف پسند ممالک کھلے الفاظ میں دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کی کھلی اور غیر مبہم جنگ کی ستائش کررہے ہیں اور یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی سخت تگ و دَو اور مخلصانہ اقدامات سے دہشتگردی کا عالمی خونریز گراف بہت نیچے گرا ہے، دہشتگردوں کے ٹھکانے و محفوظ پناہ گاہیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور ان کا معاشی ناطقہ سختی سے بند کیا جارہا ہے۔

ایسے پیش منظر میں پاکستان کے وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا ایک مطالبہ بجا طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ مطالبہ اگرچہ نیا نہیں ہے لیکن اس کا اعادہ بھی ازبس ضروری تھا۔ جناب پرویز رشید نے کہا: ’’پاکستان نے دنیا کو دہشت گردی سے تحفظ دیا، اب دنیا ’’ڈومور‘‘ کرے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پاکستان کے پڑوسی ممالک دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں۔‘‘ پاکستان کے پڑوس میں چار ممالک لگتے ہیں۔ وزیرِاطلاعات نے اگرچہ ان میں سے کسی کا نام تو نہیں لیا لیکن ہم سب پاکستانی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پڑوسی ممالک کون ہیں جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا مسلسل باعث بنے ہوئے ہیں اور جو دہشت گردوں کو ٹھکانے، پیسہ، اسلحہ اور تربیت فراہم کررہے ہیں۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت گذشتہ ڈھائی تین برسوں سے ذاتی حیثیت میں اور سفارتی سطح پر مسلسل کوشش کرتی آرہی ہے کہ ان پڑوسی ممالک کو راہِ راست پر لایا جائے یعنی قیامِ امن میں تعاون کرنے پر رضامند کیا جاسکے یعنی انھیں دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے سے باز رکھا جاسکے لیکن بدقسمتی سے ان پڑوسی ممالک نے پاکستان، اس کے عوام اور اس کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف باقاعدہ محاذ بنا رکھا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف اپنے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو لے کر افغانستان بھی گئے تاکہ معاملات سدھارے جاسکیں۔ صدرِ افغانستان جناب اشرف غنی کے بیانات حوصلہ افزا بھی سامنے آنے لگے لیکن پھر افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ نے رنگ دکھانا شروع کیا اور پاکستان کے بارے میں افغان تیور بدلنے لگے۔ اٹھارہ ستمبر کو بڈھ بیر کا سانحہ، جس میں پاکستان فورسز کے 29 جوان جامِ شہادت نوش کر گئے، میں افغانستان کا ہاتھ صاف نظر آیا۔

یہ دستِ ستم دراصل بالواسطہ بھارت کا ہاتھ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیراطلاعات جناب پرویز رشید اور وزیراعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز بالترتیب جب یہ کہتے ہیں کہ وقت آنے پر افغانستان کو بڈھ بیر کے شواہد دیں گے اور یہ کہ بڈھ بیر ائیربیس کیمپ پر حملہ کرنے والے فون پر مسلسل کابل سے رابطے میں تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ’’بعض‘‘ ہمسائے اپنی گندی اور امن دشمن حرکتوں سے باز نہیں آرہے۔ پاکستان مگر پوری استقامت اور پامردی کے ساتھ ان خونخوار اور شرانگیز ہتھکنڈوں کے خلاف کھڑا ہے۔

ان غلیظ، پاکستان دشمن اور دہشت گردانہ حرکتوں سے ان ممالک کو باز رکھنے کے لیے عالمی قوتوں کو عملی طور پر سامنے آنا چاہیے۔ اندازہ یہ ہے کہ ہمارے وزیراطلاعات جناب پرویز رشید نے اسی پس منظر میں اقوامِ عالم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اب دنیا ڈُومور کرے۔ یہ مطالبہ بالکل بجا اور بروقت ہے۔ اور دنیا کے ڈُومور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف رزم آرا اور جنگ آزما پاکستان کی ممکن ترین مالی امداد بھی کرے، اس کے ساتھ دہشت گردوں کے بارے میں حاصل کردہ انٹیلی جنس معلومات بھی شیئر کرے اور ان ممالک (خصوصاً بھارت اور افغانستان) کو راہ راست پر لانے کی عملی کوششیں کرے جو پاکستان کی راہ کھوٹی کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کرتے نظر آرہے ہیں۔

امریکا بہادر سے زیادہ توقعات وابستہ ہیں جو اب بھی عسکری طور پر افغانستان میں موجود ہے اور افغان حکومت پر اسے ہر قسم کا مؤثر لیوریج بھی حاصل ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی (NDS) کو پاکستان کے خلاف کردار ادا نہ کرنے کا حکم جاری کرے تو اس کے باوجود NDS کے کرتا دھرتا پاکستان کے خلاف بروئے کار آتے رہیں؟ چنانچہ ہمارے وزیراطلاعات کا یہ مطالبہ امریکا سے بھی ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے حامیوں کے خلاف ’’ڈُومور‘‘ کرے۔ اب پاکستان سے ڈُو مور کا مطالبہ ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا اس امر کی گواہ ہے کہ پاکستان گذشتہ ایک عشرے سے مسلسل دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ اس لیے امریکا سمیت کوئی عالمی قوت جب پاکستان سے ڈُومور کا مطالبہ کرتی ہے تو پاکستانی غصے میں آجاتے ہیں کہ یہ مطالبہ دراصل ان کی توہین ہے۔

امریکا اور اس کی انتظامیہ بھی اس بات سے باخبر ہے؛ چنانچہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کی جو خفیہ ای میلز افشا ہوئی ہیں، ان میں ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بطور امریکی وزیرخارجہ مسز کلنٹن نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف کوئی مطالبہ کرتے وقت ’’ڈومور‘‘ کے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں کیونکہ پاکستانی حکام اور پاکستانی عوام ان دونوں الفاظ سے طیش میں آجاتے ہیں۔

وزیراطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید کا یہ بیان بھی پاکستان کی مساعی جمیلہ کا آئینہ دار ہے کہ ’’پاکستان نے دنیا کو دہشت گردی سے تحفظ دیا ہے۔‘‘ جی ہاں، پاکستان نے واقعی معنوں میں بھاری قیمت ادا کرکے دنیا کو دہشت گردی سے محفوظ کیا ہے۔ یہ بات محض اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی نہیں ہے۔ جس روز پاکستان کے سبھی اخبارات میں وزیراطلاعات کا مذکورہ بیان شایع ہوا، اسی روز روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں سری لنکا کے ہائی کمشنر کا مفصل انٹرویو شایع ہوا۔

اسلام آباد میں متعین سری لنکن ہائی کمشنر جناب وجیا نتھی سنگھے نے اپنے اس انٹرویو میں نہایت صاف الفاظ میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جنگ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا: ’’پاکستان تعاون نہ کرتا تو سری لنکا دہشت گردی سے چھٹکارا نہیں پاسکتا تھا۔‘‘ کسی غیر ملکی سفارت کار کی زبانی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کا یہ غیر معمولی اعتراف ہے۔ سری لنکا میں بھی بھارت ہی برسوں دہشت گردوں کو مالی اور اسلحی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ سری لنکا کا سب سے بڑا دہشت گرد بھارتی ریاستوں میں پناہ لیتا رہا ہے۔

یہ محض الزام اور تہمت نہیں ہے۔ بھارت کے سابق وزیرخارجہ کنور نٹور سنگھ کی سوانح حیات ONE  LIFE  IS  NOT  ENOUGH اس امر کی گواہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکا کے سب سے بڑے دہشت گرد (پربھا کرن) کو بھارتی ریاست کا ایک وزیراعلیٰ پناہ بھی دیتا رہا ہے اور کروڑوں روپے کی امداد بھی۔ پاکستان کے تعاون سے سری لنکا کو 26 سالہ دہشت گردی سے نجات ملی چنانچہ سری لنکا بجا طور پر پاکستان کا ممنونِ احسان ہے۔ بھارت کو اس کی دلی تکلیف ہے جس کا اظہار وہ گاہے گاہے کرتا رہتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب سری لنکا کی طرح دنیا کا ہر ملک دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب جنگ کی تعریف و تحسین کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔