تعلیم: تب اور اب

مقتدا منصور  جمعرات 1 اکتوبر 2015
حکومتِ وقت ان اداروں کے معیار، پڑھائے جانے والے نصاب اور دیگر معاملات سے قطعی بے خبر ہوا کرتی تھی۔

حکومتِ وقت ان اداروں کے معیار، پڑھائے جانے والے نصاب اور دیگر معاملات سے قطعی بے خبر ہوا کرتی تھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں 40لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ سندھ جہاں اس وقت کل47,394 سرکاری اسکولوں میں صرف10 فیصد ہائی اسکول ہیں، باقی پرائمری اسکول ۔ سندھ کے سابق وزیر تعلیم نثار کھوڑو سندھ اسمبلی کے فلور پر اعتراف کرچکے ہیں کہ پورے سندھ میں تقریباً8ہزار اسکول مختلف وجوہات کی بنا پر بند پڑے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر اسکول مقامی زمینداروں کے گودام یا اوطاق بنے ہوئے ہیں جب کہ اساتذہ کی اکثریت جو سفارش اور رشوت دے کر ملازم ہوئی ہے، بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے مقامی سیاسی رہنماؤں کے ذاتی ملازمین کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

جو اسکول کام کررہے ہیں، ان میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ کہیں کمروں میں فرنیچر نہیں ہے اور کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کہیں بیت الخلا نہیں، تو کہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بیشتر اسکولوں کی چہار دیواری یا تو ہے نہیں اگر ہے تو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہر ایرے غیرے کا داخلہ عام سی بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ سر شام اسکولوں کی عمارتیں منشیات کے عادی افراد کے علاوہ دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔

اساتذہ کی طویل غیر حاضریاں معمول کی بات ہیں۔2013کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہر سال پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں میں سے بمشکل15فیصد بچے ہائی اسکول کی پہلی منزل یعنی چھٹے درجہ تک پہنچتے ہیں۔ اسکول چھوڑنے کا رجحان ان پانچ برسوں میں مزید تیز ہوجاتا ہے۔ میٹرک تک چھٹی جماعت میں داخل ہونے والوں کی 20 فیصد تعداد پہنچ پاتی ہے جس کا 60 فیصد میٹرک کا امتحان پاس کر پاتی ہے۔

اس صورتحال کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کی ابتر صورتحال کا بنیادی سبب تو بلاشبہ حکومت کی عدم دلچسپی ہے جس نے دیگر عوامل کو جنم دیا ہے ، لیکن معاشی مسئلہ سب سے اہم ہے۔2010میں ہم نے کراچی کی کچی بستیوں کے علاوہ اندرون سندھ مختلف گوٹھوں میں تعلیم سے عدم دلچسپی کے بارے میں لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ وہ تمام خاندان جن کی ماہانہ آمدنی10 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے، ان سے تعلق رکھنے والے90فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کی مالی حالت سرکاری اسکولوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کی حالت نہایت ابتر ہے جہاں تعلیم کے علاوہ ہر برائی پنپ رہی ہے۔ اگر پیٹ کاٹ کر تعلیم دلائی بھی جائے تو میٹرک کے بعد یہ توقع نہیں کہ جاسکتی کہ بچے کو ملازمت مل سکے گی یا نہیں۔ اس لیے والدین بچے کو میٹرک کرانے کے بجائے موٹر مکینک کے پاس بٹھا دینے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں سے کم از کم ان کا بچہ چند ماہ کے اندر 50سے100روپے یومیہ گھر لانے لگتا ہے، جو ان کی گھریلو آمدنی میں ایک نمایاں اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔

بہت سے غریب گھرانے اپنے بچوں کو مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مدرسے میں داخل کرانے کے بعد وہ اپنے بچے کے تعلیمی اخراجات کے علاوہ اس کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کے اخراجات سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد اسے باعزت روزگار بھی مل جائے گا۔ لیکن سب سے بڑھ کر انھیں یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا عالم دین بن کر آخرت میں ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔ یہ وہ تصورات ہیں، جو عام طور پر غریب اور کم آمدنی والے گھرانوں میں پائے جاتے ہیں۔

لیکن اگر تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کبھی بھی اولین ترجیح نہیں رہی ہے۔7سو برس کے دوران کسی مسلمان حکمران نے اعلیٰ معیار کا کوئی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس دوران جو مکتب، مدرسے اور جامعات قائم ہوئیں ، وہ سب ہی نجی شعبے میں مخیر اور علم دوست احباب اپنے وسائل سے چلارہے تھے۔ یہی کچھ معاملہ ہندوؤں کا تھا، جن کی تعلیم کی ذمے داری دھرم شالوں نے اٹھا رکھی تھی۔

حکومتِ وقت ان اداروں کے معیار، پڑھائے جانے والے نصاب اور دیگر معاملات سے قطعی بے خبر ہوا کرتی تھی۔ انگریز کے آنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ابتداً کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں لی۔1813 میں حکومت برطانیہ نے ان ہندوستانی علاقوں میں جو کمپنی کی عملداری میں آگئے تھے، تعلیم کے فروغ کے لیے ایک لاکھ روپے سالانہ کی گرانٹ منظور کی۔

مگر 20 برس تک یہی بحث چلتی رہی کہ یہ رقم کہاں خرچ کی جائے؟ کیا اس سے روایتی تعلیمی اداروں کی مدد کی جائے یا جدید عصری تعلیم کو ہندوستان میں متعارف کرایا جائے؟1835میں لارڈ میکالے نے پارلیمنٹ میں سفارشات پیش کیں جس میں اس نے ہندوستان میں دی جانے والی تعلیم کو ناقص، فرسودہ اور جدید تقاضوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے پورے ہندوستان کے لیے جدید عصری تعلیم اور عربی اور سنسکرت کی جگہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی۔

لارڈ میکالے کی سفارشات پر 1858کے بعد عمل درآمد شروع ہوا جب کمپنی کی جگہ ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر اثرآگیا۔ لیکن یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1757میں بنگال کی فتح کے بعد کمپنی بہادر نے بھی بنگال اور بہار کے بیشتر گاؤں میں کئی ہزار اسکول قائم کیے جن میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔

یہی عمل پھر 1858کے بعد پورے ہندوستان میں شروع کیا گیا۔ تقریباً ہر گاؤں میں ایک پرائمری اسکول، بڑے گاؤں یا دوتین گاؤں کے بیچ والے گاؤں میں ایک مڈل اسکول، ہر تحصیل میں ایک ہائی اسکول اور ڈویژن (کمشنری)کی سطح پر انٹرمیڈیٹ کالج قائم کیے۔ 1900کے آنے تک تقریباً65ہزار کے قریب ہندوستانی میٹرک ہوچکے تھے۔1947میں جس وقت انگریز نے ہندوستان چھوڑا، تو اس وقت تک 21یونیورسٹیوں اور 496ڈگری کالجوں میں تدریسی عمل جاری تھا۔ انگریزی دور میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام صوبائی حکومتیں چلاتی تھیں جب کہ پرائمری اسکولوں کی دیکھ بھال میونسپل نظام کے تحت ہوتی تھی۔

قیام پاکستان کے بعد ابتدائی23 برسوں کے دوران حکومت نے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی تعمیر میں کسی حد تک دلچسپی لی ۔ اس نے پبلک سیکٹر کے علاوہ نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تعلیمی ادارے قائم کرے ۔ اسکولوں اور کالجوں کی عمارت اور اساتذہ کی اہلیت کے حوالے سے حکومت برطانیہ نے جو معیارات قائم کیے تھے۔

ان پر عمل بھی کیا۔ لیکن بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جہاں پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کو نقصان پہنچا وہیں تعلیم کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ آپ پورے مغربی پاکستان کے تعلیمی بورڈز کے نتائج کے گوشوارے نکال کر دیکھ لیجیے،1980 تک ملک کے ہر بورڈ میں پوزیشنز سرکاری اسکولوں سے آتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو مرحوم کی تعلیم کو قومیانے کی پالیسی کو جس انداز میں ختم کیا، اس نے پاکستان میں تعلیمی نظام کو شدید نقصان سے دوچار کردیا۔

آج ملک میں چار نظام تعلیم رائج ہیں۔ اول، اشرافیہ کے تعلیمی ادارے، جو کیمبرج سسٹم سے منسلک ہیں۔ دوئم، مڈل کلاس کے انگریزی میڈیم اسکولز جو سرکاری تعلیمی بورڈ یا کسی اور بورڈ سے منسلک ہیں۔ سوئم، سرکاری تعلیمی ادارے، جو کرپشن، بدعنوانی اور سرکاری عدم توجہی کا شکار ہیں اور جہاں تعلیم کے سوا سب کچھ میسر ہے۔ چہارم، دینی مدارس، مگر یہ مدارس بھی فقہہ اور مسلک کی بنیاد پر قائم ہیں اور ان کے امتحانی بورڈز بھی الگ الگ ہیں۔

2000 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائرایجوکیشن کمیشن(HEC) قائم ہوا جس نے نجی شعبے میں جامعات کے قیام کی اجازت دینا شروع کی۔ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں بنگلوں میں یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں۔ یہاں پھر کچھHEC کی مہربانی اور کچھ سفارش و رشوت کی کارفرمائی کہ یہ تعلیمی ادارے منفعت بخش کاروبار بن گئے اور لوٹ کھسوٹ ان کا معیار ٹھہرا۔ ان میں سے بیشتر یونیورسٹیاں بھاری داموں ڈگریاں بھی فروخت کر رہی ہیں۔

اب ایک ایسی صورتحال میں جب حکومت تعلیم کی فراہمی سے بے نیاز ہوجائے، تو علم برائے فروخت ہی ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جن کی جیبوں میں چند سکے ہیں، وہ اپنے بچوں کو نجی شعبے میں تعلیم دلوا رہے ہیں یا بیرون ملک بھیج رہے ہیں، لیکن ایک غریب مزدور اور ہاری، جو سرکاری اسکول میں اپنے بچے کو تعلیم دلاکر افسر بنانے کا خواب دیکھتا ہے اس کا یہ خواب دور غلامی میں تو شرمندہ تعبیر ہوجاتا تھا مگر اس آزاد دور میں ایسا ممکن نہیں ہے۔کیونکہ ان68برسوں کے دوران ہم نے نہ صرف نئے ادارے نہیں بنائے، بلکہ انگریز سے ورثے میں ملنے والے اداروں کو بھی حسب توفیق تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مستقبل سازی جیسی اصطلاحات ہمارے لیے بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔

ایک ایسے ماحول میں صرف سندھ ہی پر کیا موقوف، پورے ملک میں تعلیم بدترین ابتری کا شکار ہے۔ خاص طور پر غریب کے بچے کے لیے حصول علم کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے اراکین مل کر آئین آرٹیکل 25A نکال دیں، کیونکہ اس شق کا بظاہرکوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔