راجا نورمحمد نظامی کے پاس نوادرات کا اتنا ذخیرہ ہے کہ پورا عجائب گھر بن جائے

غلام محی الدین  جمعرات 1 اکتوبر 2015
نوادرات جمع کرنے کے شائق اور ماہر آثاریات، علامہ راجا نور محمد نظامی کی شخصیت کے چند گوشے  ۔  فوٹو : فائل

نوادرات جمع کرنے کے شائق اور ماہر آثاریات، علامہ راجا نور محمد نظامی کی شخصیت کے چند گوشے ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  آثار قدیمہ اوائل سے انسانی دل چسپی کا محور ہیں۔ اِسے باقاعدہ علم کا درجہ دیئے جانے سے قبل افراد نے انفرادی طور پر نوادرات اکٹھے کرنے شروع کیے، پھر خزانوں کی تلاش میں تباہ شدہ بستیوں کی کھدائی ہوئی، جب وہاں سے نادر اشیاء ملیں تو انہیں منظم طریق پر رکھنے اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خیال پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں عجائب گھر قائم ہوئے۔ یوں انسانی ارتقاء کی سلسلہ وار کڑیاں بھی منضبط شکل میں جمع ہوئیں، گزرے ہوئے زمانے اور مختلف ملکوں میں انسان کی معاشرتی زندگی کی تصویر مرتب ہوتی چلی گئی۔

معاشرت کی اس تصویر کشی کا شوق رکھنے والے نوادرات کے شایق اور ماہر آثار قدیمہ راجا نور محمد نظامی کا نام خطہ پوٹھوہار میں خاصا معروف ہے ۔ ان کا تحقیقی اور آثاریاتی کام پوٹھوہار، ہری پور اور ایبٹ آباد تک پھیلا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر زمیں دار ہیں۔ تجارت سے بھی وابستہ ہیں۔ بارہ تیرہ سال کے تھے تو انہیں یہ شوق پیدا ہوا۔ جب گھر کے باہر ڈیرے پر بڑے بوڑھے علاقے کی کہانیاں سناتے تو وہ شوق سے سنا کرتے تھے ۔ آہستہ آہستہ بڑے بوڑھوں سے حالات کریدنے شروع کر دیے۔ وقت کے ساتھ کہانیاں سننے کے شوق میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اب یہ شوق اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں سارا وقت اور پیسہ اسی کی نذر ہورہا ہے۔ راجا نور محمد نظامی کے مطابق آرکیالوجی کا فن دنیا میں منظم بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے، پاکستان میں اس کی آب یاری کی سخت ضرورت ہے۔پاکستان میں وجدان اور گیان سے ہی کام چلایا جا رہا ہے۔

جب پوچھا کہ اس شوق نے آپ کو کیا دیا تو کہا؛ میں آنے والی نسلوں کو ایک ایسا ثقافی ورثہ دینا چاہتا ہوں جو اس خطے کی اصل شناخت ہو۔ گو کہ آج کی نسل ’’گوگل ڈاٹ کام ‘‘کے نرغے میں پھنس چکی ہے لیکن اس کے باوجود جس کام کا میں نے بیڑا اٹھارکھا ہے وہ بھی اپنی جگہ خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت جو لوگ آثار قدیمہ پر ریسرچ کر رہے ہیں وہ اب بھی پرانی کتابوں کے متلاشی ہیں مگر پاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ حکومتی ادارے اس طرح کے شوق اور کام کو آگے بڑھانے میں بالکل دل چسپی نہیں رکھتے۔

میں سمجھتا ہوں، اگر میرے جیسا شوقین کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں کی حکومت اس کے ساتھ بہت تعاون کرتی۔ اب میرے پاس نادر اشیاء کا اتنا ذخیرہ ہے کہ اس سے ایک پورا عجائب گھر بن سکتا ہے۔اس شوق نے مجھے پاکستان کی معروف شخصیات سے ملنے کے مواقع فراہم کیے، ان میں وزیر، سفیر، پیر، پروفیسرز، جج، جنرل اور صاحب علم لوگ شامل ہیں۔ یہ سارے لوگ خصوصی طور پر میرے گائوں تشریف لاتے ہیں اور میرے غریب خانے کو رونق بخشتے ہیں۔ اس شوق کی خاطر پاکستان کے معروف ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر حسن دانی کی جوتیاں بھی سیدھی کیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

اصل تاریخ پیدائش تو 13 اپریل 1960ہے لیکن کاغذوں میں 28 جون1961درج ہے۔ راجا نور محمد نظامی کی دو بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ والد صاحب نے تین شادیاں کی تھیں۔ اب بھی اپنے آبائی گائوں میں رہتے ہیں۔ وہ ٹیکسلا اور حسن ابدال کے نواح میں ایک معروف تاریخی گائوں بھوئی گارڈ میں پیدا ہوئے۔ اس گائوں کا علمی حوالے سے ایک خاص پس منظر ہے۔ غزنوی دور سے اب تک اس گائوں میں ایک دینی مدرسہ ہے، جہاں برصغیر کے نام ور علمائے کرام نے اپنے علم کی پیاس بجھائی۔ راجہ نور محمد نظامی نے اس مدرسے سے تفسیر، ترجمہ قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی،  مڈل تک تعلیم اسی گائوں کے اسکول سے حاصل کی، میٹرک کا امتحان کوٹ نجیب اللہ کے ہائی اسکول سے پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے کیے۔ جب کہ ایم اے کے بعد ایم فل کا مقالہ 1990میں قائداعظم یونی ورسٹی کے ادارہ تحقیقات پاکستان کے زیر اہتمام مکمل کیا۔

جب پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے علم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ یا فلاں علاقے میں آثارِ قدیمہ کے آثار ہیں یا وہاں نادر اشیاء دفن ہوں گی؟ تو کہنے لگے اس کا کوئی مروجہ طریقہ تو نہیں البتہ حادثاتی طور پرنادر اشیاء ملنے کے علاوہ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ دل چسپی رکھنے والے فرد میں خود بخود ایک ایسی حس پیدا ہو جاتی ہے، جو اس کی رہنمائی کرتی رہتی ہے۔ میں اِس بات کا گواہ ہوں ، متعدد بار مجھے میری اسی حس نے رہنمائی فراہم کی کہ اس جگہ یا فلاں جگہ نوادرات مل سکتے ہیں۔ جب میں نے وہاں کام کیا تو مجھے مایوسی نہ ہوئی۔ میں اسے شوق اور محبت ہی کہہ سکتا ہوں، جو آثار قدیمہ کے شوقین لوگوں کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ایک بار ایک علاقے سے  میںاپنے دوستوں کے ساتھ گزر رہا تھا تو مجھے یوں لگا کہ جس جگہ سے ہم گزر رہے ہیں یہاں کچھ دفن ہے، میری بات سن کے پہلے تو میرے دوست حیران ہوئے پھر ہم سب نے جب کھدائی کی تو نیچے سے تاریخی سکے برآمد ہوئے۔ اسی طرح ایک بار میں دریائے ہرو کے کنارے جا رہا تھا تو مجھے شک ہوا کہ یہ جو سامنے پڑی ہوئی چیز ہے یہ ہزاروں سال پرانی لکڑی ہے۔ جب میں نے اس کا جائزہ لیا تو وہ واقعی لکڑی تھی جو زمین میں دب کر فوصل کی شکل اختیار کر چکی تھی اور اب وہ پتھر بن چکی ہے۔

اپنے بارے میں مزید بتایا،’’میں ایک سادہ سا آدمی ہوں، جب میرے پاس مہمان آتے ہیں تو میں کوئی تکلف نہیں کرتا، اگر کوئی محقق اپنی تحقیق کے لیے میرے پاس آتا ہے تو میں بخل سے کام نہیں لیتا، میں اسے متعلقہ معلومات زبانی، تصاویر یا فوٹو کاپی کی شکل میں فراہم کر دیتا ہوں۔ محقق سے تعاون کو عبادت سمجھتا ہوں۔ میں نوادرات بیچتا نہیں اور نہ ہی کسی کو ادھار دیتاہوں البتہ دوسروں سے خرید ضرور لیتا ہوں۔ اُدھار اس لیے نہیں دیتا کہ شروع دنوں میں جو بھی کچھ لے گیا پھر اس نے واپس کچھ نہیں کیا۔‘‘ راجا نے کہا کہ بزرگ کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی معشوقہ ہوتی ہے، اس لیے اس کو اُدھار نہیں دینا چاہیے اوراگر کتاب کی شکل میں یہ نادریا قلمی نسخہ ہو تو پھر بالکل ہی اُدھار نہیں دینا چاہیے۔

بیگم کے تعاون کا اعتراف کرتے ہیں،’’میری بیوی بہت حوصلے والی ہے اس نے میرے اس شوق کو آگے بڑھانے میں نہایت انکساری کے سے کام لیا۔‘‘ کھانے پینے میں بریانی اور بھنا ہوا گوشت زیادہ پسند ہے، پہناوے میں شلوار قمیص اور موسم میں بہار کا جب کہ رنگوں میں سرخ اورکالا پسند ہے۔ موسیقی سے ہرگز دل چسپی نہیں۔

پرانی اور تاریخی حیثیت کی حامل عمارتیں اور مقامات، ان کے مطابق نہ صرف کسی علاقے کی شاخت ہوتی ہیں، بلکہ ان سے لوگوں کی نسل در نسل یادیں بھی وابستہ ہوتی ہیں اور ان کی تباہی ایسے افراد کے لیے ذہنی کرب کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں بالخصوص جنوبی وزیرستان میں برطانوی دور حکومت میں بنائے جانے والے تاریخی لدھا قلعہ کو بھی شدت پسندوں نے تباہ کردیا ہے جب کہ سوات میں بدھادور کے مجسموں اور والی سوات کے دور میں تعمیر کیے جانے والے سکول بھی اس فہرست میںشامل ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔