’’بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘

اوریا مقبول جان  جمعـء 2 اکتوبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سیاسی پارٹی تو بہت بڑی بات ہے کہ اسے عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہونا پڑتا ہے، اگر کوئی چھوٹا سا عزت دار خاندان بھی ہوتا تو اس انٹرویو کے بعد شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ لیکن جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ ایسا سب کچھ ہونے کے باوجود کمال ڈھٹائی سے لوگ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ لودھراں سے کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبر صدیق بلوچ کے کالعدم قرار دیے جانے والے فیصلے پر عمل درآمد روکا جاتا ہے اور معزز رکن کی رکنیت اس وقت تک بحال کی جاتی ہے جب تک مکمل فیصلہ نہیں آ جاتا۔ “معزز”  رکنِ اسمبلی کو الیکشن ٹربیونل نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر تمام عمر کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی میڈیا میں بریکنگ نیوز کا طوفان مچ گیا۔ رات کے ٹاک شوز میں یہی سب کچھ موضوعِ گفتگو تھا۔

سیاسی پارٹیوں کی نوک جھوک جاری تھی۔ ایسے میں کوئی اس جانب نہیں آ رہا تھا کہ معزز رکنِ اسمبلی جو اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت یعنی “ایم اے” کے جعلی ہونے پر نااہل ہوئے ہیں ان سے سوال کر لیا جائے کہ آپ پر یہ الزام غلط تھا یا نہیں۔ ایسے میں ایک ٹیلی ویژن کے شو میں وسیم بادامی نے ان سے ایک معصومانہ سوال کر دیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ نے کس مضمون میں “ایم اے” کیا ہے۔ موصوف جو نوے فیصد جواب آنکھیں بند کر کے دے رہے تھے۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بھی انھوں نے آنکھیں بند رکھیں اور فرمایا  “یار تیرہ سال پہلے میں نے ایم اے کیا ہے؟ اب یاد تھوڑا ہے کہ کس مضمون میں کیا تھا” ایک ہلکی مسکراہٹ اینکر پرسن کے چہرے پر آئی اور اس نے پھر سوال کیا آپ کو وہ ادارہ تو یاد ہو گا جس سے آپ نے ایم اے کیا، فرمانے لگے “میڑک میں نے ملیر کینٹ سے کیا، ایف اے بھی ملیر کینٹ سے کیا، بی اے بلوچستان سے اور ایم اے پنجاب سے۔ حصولِ تعلیم کے لیے شہروں شہروں دربدر ہونے والے معزز رکنِ اسمبلی سے ـ “اینکر پرسن” نے پھر پوچھا آپ یہ بتا ہی دیں کہ آپ نے ایم اے کس مضمون میں کیا ہے۔

کہنے لگے “یاد تو نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے ایم اے آرٹس میں کیا ہے”۔ اس کے بعد پروگرام ایک شرارتی سی مسکراہٹ پر اختتام پذیر ہو گیا۔ یہ شرارتی مسکراہٹ یقینا توہینِ جمہوریت تھی۔ یہ طنز دراصل سسٹم کو ناکام بنانے کے لیے تھا اور ایسے سوال معزز اراکینِ اسمبلی سے پوچھنا دراصل میڈیا کی بہت بڑی سازش ہے جو مقتدر قوتوں کے اشارے پر ایسا کرتا ہے۔

صدیق بلوچ کے اس “عالمانہ” اور “مفکرانہ” جواب پر اس عوامی نمائندگی کے شاندار نظام کے کئی واقعات ذہن میں گونجنے لگے۔ تقریباً تیس سال قبل بلوچستان کی ایک وزیرِ تعلیم تھیں۔ ابھی میڈیا نے اس طرح الیکٹرونک پالنے میں جنم نہیں لیا تھا۔ اخباری انٹرویو ہوتے تھے جو بڑے انہماک سے پڑھے جاتے تھے۔ ایک صحافی نے محترمہ کا انٹرویو کیا۔ سوال و جواب کی نوعیت ملاحظہ کریں اور ذہانت و علمی استعداد پر سر دھنیں۔ میڈیم آپ کی تعلیم کیا ہے۔

“میں نے بی اے کیا ہے” ، اچھا آپ نے گریجویشن کی ہے، “نہیں میں نے بی اے کیا ہے” ۔ آپ نے کہاں سے بی اے کیا ہے۔” میں نے کانوینٹ اسکول سے بی اے کیا ہے” مشرف دور میں جب بی اے کی ڈگری کو الیکشن لڑنے کے لیے لازمی قرار دیا گیا تو جہاں عام یونیورسٹیوں کی جعلی ڈگری میدان میں آئیں وہیں مدارس کے درسِ نظامی کی جعلی اسناد بھی پیش کی گیئں۔ ان اسناد کا پورے کا پورا متن عربی زبان میں تحریر ہوتا ہے۔ کوئٹہ شہر کے ایک حلقے سے ایک امیدوار ایسی ہی ایک سند لے کر ریٹرننگ آفیسر کے پاس گیا، جس نے اسے قبول کر لیا۔ مخالف امیدوار اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل میں چلا گیا۔

امان اللہ یٰسین زئی جو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ان کی عدالت میں مقدمہ تھا۔ جج صاحب نے مدرسے کی درسِ نظامی کی عربی میں تحریر کردہ سند ہاتھ میں پکڑ ی اور فاضل امیدوار صوبائی اسمبلی سے کہا آپ اسے پڑھ کر سناؤ۔ اس سوال پر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے چالاک ذہن نے فوراً جواب دیا” سر اسوقت وضو میں نہیں ہوں” ۔ جج صاحب نے کہا یہ ساتھ باتھ روم ہے، آپ جا کر وضو کر آئیں، وہ ایک دم بولا” وہ دراصل مجھے جلدی عدالت آنا تھا، اس لیے میرے کپڑے بھی ناپاک ہیں اور غسل بھی واجب ہے” عدالت کا پورا ہال مسکرا رہا تھا۔ لیکن آپ اس جمہوری نظام کا کمال دیکھیں کہ اس شخص نے الیکشن لڑا بھی اور وہ جیتا بھی۔

جھنگ کے ایک امیدوار کی ڈگری بھی اسی طرح عدالت میں چیلنج ہوئی۔ جج نے اس کے سامنے کاغذ رکھا اور کہا اس پر اپنا نام انگریزی میں لکھ دیں۔ اس نے کہا گزشتہ رات سے میرے ہاتھ میں کوئی رعشہ سا ہے میں قلم نہیں پکڑ سکتا۔ جج مسکرایا اور بولا اچھا،  آج آپ انگریزی کی ABC سنا دیں۔ “عظیم” قومی رہنما نے اپنی زبان میں کہا “جج صاحب نکی سناواں یا وڈی” (یعنی بڑی اے بی سی سناؤں یا چھوٹی)۔ لطیفوں کی یہ ایک طویل داستان ہے جو برصغیر پاک و ہند کی پارلیمانی تاریخ سے شروع ہوتی اور پاکستان کے موجودہ نظام تک تواتر کے ساتھ چلی آ رہی ہے۔

یہ لطیفے صرف ڈگریوں کے جھوٹ تک محدود نہیں بلکہ اسمبلی کی کاروائی میں بھی ان تمام قانون ساز افراد کی عقل و دانش تک جا پہنچتے ہیں۔ ممتاز دولتانہ پاکستان کی تحریک اور مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد یار محمد دولتانہ یونینسٹ پارٹی کے تحت پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ یہ وہ اسمبلی ہے  جس کے ارکان جب منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے تو ان کی تواضع چائے اور پیسٹری سے کی گئی۔ یہ پیسٹریاں گول چھوٹی ٹرے نما کاغذی پیالیوں میں رکھی تھیں۔

ان میں سے کئی تھے جو پیسٹریاں کاغذ سمیت کھا گئے تھے۔ یار محمد دولتانہ کے ذمے انگریز سرکار نے یہ کام لگایا کہ ہم زمینداروں کے بارے میں ایک بل اسمبلی میں لا رہے ہیں اس پر بحث نہیں ہونا چاہیے۔ ایک رکنِ اسمبلی مصر تھا کہ میں یہ کروں گا۔ اسے لاکھ منانے کی کوشش کی گئی، مگروہ نہ مانا۔ انگریز سرکار کا حکم بھی ٹالا نہ جا سکتا تھا۔

یار محمد دولتانہ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اس کو روکو اور خصوصی طور پر ان کی نشست اس ممبر اسمبلی کے پہلو میں لگوا دی گئی۔ جیسے ہی بل اسمبلی میں پیش ہوا، تو وہ ممبر اسمبلی بحث کے لیئے کھڑا ہو گیا اور دولتانہ صاحب نے فوراً اس کی شلوار کا آزار بند کھینچ دیا جس سے شلوار نیچے گر گئی اور وہ اسے سنبھالنے میں لگ گیا۔ اتنی دیر میں بل پر ووٹنگ مکمل کر لی گئی اور بل منظور ہو گیا۔

پارلیمانی تاریخ کے شعبدے آج بھی اسی طرح قائم ہیں۔ ایسے لوگوں کا دفاع کرنے والوں کی بھی ایک فوجِ ظفر موج ہے جو کہتے ہیں یہ سسٹم کی پیداوار ہیں اور جیسے عوام ہیں ویسے ہی نمائندے ہوں گے۔ ان سب سے کوئی یہ سوال کرے کہ اگر آپ نے اپنا گھر بنانا ہو، کاروبار شروع کرنا ہو، بیٹی کی شادی کرنی ہو، کسی جگہ سرمایہ لگانا ہو تو آپ جانچ پرکھ کر بندہ دیکھتے ہیں ایسے شخص سے مشورہ کرتے ہیں جسے ان چیزوں کا علم اور تجربہ ہو۔ لیکن جمہوریت ایسا نظام ہے کہ اگر اکثریت جاہل کے ساتھ ہو تو جہالت ، ناخواندگی اور کم علمی کا وزن علم، تجربے، کردار اور اخلاق سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اسی نہ تولنے کے نتیجے کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔

گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارِ شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آئی

(جمہوری طرز سے گریز کرو اور کسی پختہ کار کے غلام ہو جاو، اس لیے کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر پیدا نہیں ہو سکتی)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔