ہم بھی وہیں موجود تھے

انتظار حسین  جمعـء 2 اکتوبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

آگے تو الیکٹرونک میڈیا کے نام اپنے یہاں بس پی ٹی وی ہی پی ٹی وی تھا۔ یاران فن بس اسی کلھیا میں گڑ پھوڑتے رہتے تھے اور گل پھول کھلاتے رہتے تھے۔ موسم بدلا تو ایک دم سے کتنے ٹی وی چینل پھوٹ پڑے۔ سیاسی مخلوق کے خوب دن پھرے۔ ہر چینل پر اس مخلوق کی ہڑبونگ۔ اس پس منظر میں یاروں کو پی ٹی وی کا گزرا زمانہ سنہری زمانہ نظر آنے لگا۔

اسے مزید سنہری بنایا اختر وقار عظیم کے قلم نے کیا۔ خوب کتاب لکھی ہے ’’ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘۔ آغا ناصر نے اس دور کی تاریخ بزبان انگریزی قلم بند کی تھی۔ اختر وقار نے اس پورے دور کو باتوں باتوں میں نظروں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پڑھتے جاؤ مسکراتے جاؤ۔

اختر وقار عظیم کے نام سے تھوڑی دیر کے لیے اختر کو منہا کر دیں تو پھر پروفیسر وقار عظیم سامنے کھڑے نظر آئیں گے۔ اور بقول افتخار عارف‘ مجسم شرافت‘ حلم‘ متانت‘ بردباری۔ اتنا علم اور ایسی عاجزی اور اتنی بے نیازی۔ شیروانی ان پر خوب پھبتی تھی‘‘۔ بقدر ظرف یہ رنگ فرزند ارجمند میں بھی نظر آئے گا۔ کسی حد تک تحریر میں بھی اس رنگ سے کہ سادگی اور متانت کے ساتھ جیسا دیکھا جیسا بھگتا بیان کرتے چلے گئے ہیں۔

اپنی طرف سے تنقید برائے نام۔ اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ جو واقعہ بیان کیا وہ خود بول رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ’’ضیاء الحق بیرون ملک دورے پر جانے والے تھے۔ مصلح الدین کے محکمہ نے جنرل مجیب الرحمن کی ہدایت پر ایک دستاویزی فلم تیار کی۔ مجیب الرحمن نے فلم دیکھی تو پسند نہیں آئی۔ انھوں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اتنی کمزور فلم۔ بی بی سی والے کیسے اتنی اچھی اور خوبصورت فلمیں بنا لیتے ہیں‘‘ مصلح الدین صاحب نے برجستہ جواب دیا ’’وہاں وزارت اطلاعات اور سیکریٹری اطلاعات نہیں ہوتے‘‘۔

ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا ٹیسٹ میچ۔ جنرل مجیب بھی اس تقریب سے ہندوستان پہنچے ہوئے تھے۔ ایک میچ میں وسیم راجہ نے سینچری بنائی۔ ’’جنرل صاحب انھیں مبارک باد دینے خاص طور پر پویلین گئے۔ وسیم راجہ ایک کونے میں لیٹے ہوئے تھے۔ ٹیم کے منیجر نے ان سے جنرل صاحب کا تعارف کرایا۔ راجہ بدستور لیٹے رہے۔ جنرل مجیب نے صدر کی طرف سے انھیں مبارک باد کا پیغام پہنچایا۔ وسیم نے لیٹے لیٹے جواب دیا ’’ان سے میری بات ہو چکی ہے‘‘۔ جنرل صاحب خاموشی سے واپس چل دیے۔ کہا تو صرف اتنا کہ ’’یہ بہت بڑا کھلاڑی ہے۔ لیکن معصوم ہے‘‘۔

خمیسو خاں نے کس انہماک سے الغوزہ بجایا۔ پروگرام کے میزبان نے خمیسو خاں کے فن کی تعریف کی۔ پوچھا ’’زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ اور کیا بچوں میں سے کسی کا اس میدان میں آنے کا خیال ہے‘‘۔ خمیسو خاں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا ’’بچے تو اس میدان میں نہیں ہیں۔ وہ تو ٹرک چلاتے ہیں۔ اللہ بھٹو سائیں کا بھلا کرے جو غریب کا خیال کرتا ہے۔ اس کے دیے وظیفہ سے گزارا ہوتا ہے‘‘۔ بس احتیاط دھری کی دھری رہ گئی۔ پروگرام چلانے والے سب ہی معطل ہو گئے‘‘۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ مگر خود بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی سنسر کی سختی اسی طرح تھی۔ اس کی ایک مثال ’’اس زمانے میں کسی تکنیکی خرابی کی صورت میں ’انتظار فرمائیے‘ لکھ کر اسکرین پر دکھایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ہمارے دوست عشرت انصاری کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ پیغام اگر کسی مزاحیہ انداز میں دیا جائے تو ناظرین بدمزہ ہونے کے بجائے شاید لطف اندوز ہوں۔ انھوں نے ایک تصویر بنائی جس میں ایک شخص نل کے نیچے بیٹھا غسل کر رہا تھا اور ٹونٹی میں سے بوند بوند پانی پانی ٹپک رہا تھا۔ نیچے لکھا تھا ’انتظار فرمائیے‘۔

پانی کی ان دنوں خاصی کمی تھی جس پر لوگوں کا احتجاج جاری تھا۔ اقتدار کے حلقوں میں عشرت صاحب کی اس کوشش کو اس ضمن میں طنز سمجھا گیا۔ اور وہ بیٹھے بٹھائے معطل کر دیے گئے‘‘۔

بس اسی طرح شگفتہ لہجہ میں دل نشیں پیرائے میں پاکستان ٹیلی ویژن میں رہتے ہوئے جو دیکھا اور جو بھگتا وہ بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بظاہر یہ پی ٹی وی کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان ہے مگر یہ ادارہ بھی تو ایسا ہے کہ بڑی حد تک پوری قومی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ تو یوں سمجھئے کہ پی ٹی وی کے بہانے بہانے یہ پورے عہد کا بیان ہے۔ بیان کیا یوں کہئے کہ اس پورے عہد کا نقشہ یا ایک جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ کیا عجب زمانہ تھا۔

پگڑی اپنی سنبھالیے گا میرؔ   اور بستی نہیں یہ دلی ہے

ارے یہ پی ٹی وی تھا یا پل صراط۔ ذرا قدم غلط پڑا اور ادھر سے معطلی کا پروانہ آ گیا۔ اور قدم غلط پڑنا بھی لازم نہیں۔ ایسے زمانوں میں حاکم اتنے چوکنے ہو جاتے ہیں کہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ ذرا ذرا سی بات پر شک۔ تو گزارے کی صورت یہی کہ ہر بات پہ کہو کہ آمنا و صدقنا۔ مگر انھیں مصلحت پسندوں اور للوچپو کرنے والوں کے بیچ کسی کسی میں بات کہنے کی جرات بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سارے نقشہ میں ایک نوجوان کچھ ایسی ہی جرات دکھاتا نظر آتا ہے۔

اور کچھ ایسا ہنر پایا ہے کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ ہاں لیجیے مصلح الدین ہی کی زبان درازی کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ اختر وقار عظیم بتاتے ہیں کہ محکمہ اطلاعات کے سیکریٹری اور پی ٹی وی کے چیئرمین جنرل مجیب الرحمن تھے۔ صدر ضیاء الحق کی کسی تقریب کی تصویر کشی ہو رہی تھی۔ لائٹ کے انتظام پر وہ بار بار برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔ مصلح الدین کتنی دیر خاموش رہے۔ آخر رہا نہ گیا جنرل صاحب سے مخاطب ہوئے ’’جناب عالی‘ یہ روشنی بہتر تصویر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ کیمرہ لائٹ مانگتا ہے۔ یہ کام صرف ایمان کی روشنی سے نہیں ہو سکتا‘‘۔

ارے ہاں‘ اس تذکرے میں کرکٹ کا بھی تو بہت ذکر فکر ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ اختر وقار عظیم کا اصل مضمون تو کرکٹ ہے۔ یا یہ کہ مارشل لاء‘ سنسر‘ ضیاء الحق ان سب کا توڑ اگر ہے تو بس کرکٹ ہے۔ سو کرکٹ کے میچوں کا‘ کھلاڑیوں کا‘ بلے بازوں کا‘ باؤلروں کا اور ہاں کرکٹ کی کمنٹری کرنے والوں کا ذکر انھوں نے بڑی شدومد سے کیا ہے۔

ماجد خاں کا ذکر یوں کیا ہے کہ دوسرے کھلاڑی اداکاروں اور اداکاراؤں سے محو گفتگو تھے۔ ماجد خاں تنہائی پسند۔ چپ چاپ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔ ایک سانولی سلونی لڑکی کو الگ  بیٹھے دیکھا تو اس سے بات چیت کرنے لگے۔ کرکٹ‘ سیاست‘ صحافت‘ انگریزی ادب ایسے موضوعات پر گفتگو کے بعد اس بی بی سے تعارف چاہا۔ پوچھا ’’کیا آپ کا تعلق بھی فلم انڈسٹری سے ہے‘‘۔

اس بی بی نے جواب دیا ’’جی ہاں چھوٹی موٹی اداکارہ ہوں سمیتا پاٹل میرا نام ہے‘‘۔

’’بعد میں ہم نے ماجد خاں کو بتایا کہ سمیتا پاٹل بھارت کی مشہور اور مقبول ہیروئن ہیں۔ بہت ہنسے۔ پھر اس کے بعد انھوں نے اس محفل میں کسی سے گفتگو نہیں کی‘‘۔

ہاں لیجیے۔ اختر وقار نے منیر حسین کو بابائے اردو کمنٹری قرار دیدیا۔ ارے بھائی کیا غضب کر رہے ہو۔ بابائے اردو کمنٹری اگر کسی کو قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ تو ہمارے قیوم نظرؔ ہیں۔ ٹی وی کی آمد سے کتنا پہلے سے وہ اس کام پر لگے ہوئے تھے۔ لگے ہاتھوں کرکٹ کی ساری اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کر ڈالا۔ مگر خیر اختر وقار کو کسی طور پر نام یاد آ گیا۔ سو انھوں نے اس کاروبار کا تھوڑا کریڈٹ انھیں بھی دیدیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔