جج کے ریمارکس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی

اقبال خورشید / اشرف میمن  اتوار 4 اکتوبر 2015
 معروف قانون داں اور پاکستان کی پہلی لا یونیورسٹی ’’زیبسٹ‘‘ کے وائس چانسلر جسٹس (ر) قاضی خالد علی سے خصوصی ملاقات ۔  فوٹو : فائل

معروف قانون داں اور پاکستان کی پہلی لا یونیورسٹی ’’زیبسٹ‘‘ کے وائس چانسلر جسٹس (ر) قاضی خالد علی سے خصوصی ملاقات ۔ فوٹو : فائل

وہ ستمبر کی ایک خوش گوار سہ پہر تھی۔ مطلوبہ مقام کی تلاش میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ عمارت ابھی تازہ تازہ بنی تھی۔ بڑے رقبے پر تو نہیں تھی، مگر اندر داخل ہوں، تو کشادگی کا احساس ہوتا تھا۔ اس روز رش کم تھا۔

کچھ دیر بعد ہم اُس کمرے تک پہنچ گئے، جو عمارت کا مرکزہ تھا۔ وہاں کالے کورٹ میں ملبوس ایک نفیس شخص سے ملاقات ہوئی۔ اور اُس مکالمے کا آغاز ہوا، جو بنا کسی رکاوٹ اگلے ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا۔

ادارے قائم کرنا کافی نہیں، شرط تو اُن کا استحکام ہے۔ یہ استحکام وہ وسیع النظر سربراہان عطا کرتے ہیں، جن کا کردار قابل تقلید ہو۔ جب کراچی میں پاکستان کی پہلی لا یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، تو جسٹس (ر) قاضی خالد علی کا بہ طور وائس چانسلر انتخاب قابل فہم تھا۔ اگر ذمے داری بھاری ہے، تو ان کے کاندھے بھی توانا۔ شہر کے جانے مانے قانون داں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، سندھ رہے۔ ہائی کورٹ کے جج کا منصب سنبھالا۔ پھر تدریس کا وسیع تجربہ۔ لاکالجز کی ضروریات، مسائل، نصاب؛ سب پر گہری نظر۔

قاضی خالد علی سیدھے سبھاؤ کے آدمی ہیں۔ سُلجھی ہوئی گفت گو کرتے ہیں۔ طلبا سیاست نے ان کی ابتدائی تربیت کی۔ پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فورم سے سیاست میں حصہ لیا۔ صوبائی وزیرتعلیم رہے۔ پھر کُلی طور پر خود کو قانون کے شعبے کے لیے وقف کر دیا۔ کتابیں لکھیں، طلبا کو تیار کیا۔

اب احباب یادداشتیں لکھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ کبھی کبھار خواہش زور مارتی ہے، مگر پھر ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،’’آج میں جس منصب پر ہوں، وہاں تنازعات جنم دینے کے بجائے ماہرین قانون، وکلا تیار کرنا زیادہ اہم ہے!‘‘

2009 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو 110 ججز فارغ ہوئے تھے، قاضی خالد علی اس میں شامل تھے۔ اُس سہ پہر انٹرویو کا آغاز اِسی سوال سے کیا:

سوال: سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے31 جولائی 2009 کے فیصلے میں جو ججز فارغ ہوئے، اُن میں آپ بھی شامل تھے۔ اُس وقت کیا تاثرات تھے؟
جواب: جب یہ فیصلہ آیا، میں لاڑکانہ میں تھا۔ میں نے شکرانے کے دو نفل پڑھے کہ اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ احسان ہے، اس نے ہمیں اِس حال میں ذمے داریوں سے سبکدوش کیا کہ ہمارا ضمیر مطمئن ہے۔

سوال: بہ طور ماہرقانون اس فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: (کچھ سوچتے ہوئے) فیصلہ اچھا تھا یا برا، اس کا تعین وقت اور عوام کے جذبات کرتے ہیں۔ میں تو اس فیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔ جج جو کچھ لکھتا ہے، اﷲ کو حاضر ناظر جان کر لکھتا ہے۔ غلطی تو ہوسکتی ہے، مگر ہمیں نیتوں پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مختلف پہلو ضرور ہیں۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پی سی او ون والوں نے پی سی او ٹو والوں کو فارغ کردیا۔ کچھ ایسے ججز بھی فارغ ہوئے، جنھوں نے پی سی او پر حلف نہیں لیا تھا، اور ان ججز نے فارغ کیا، جنھوں نے حلف لیا تھا۔ البتہ میں اس فیصلے کا حامی ہوں۔

سوال: جج کو نہیں، اُس کے فیصلوں کو بولنا چاہیے، آپ اس سے متفق ہیں، یا پھر ان کی تقاریر اور ریمارکس کو بھی اہم جانتے ہیں، جیسے جسٹس ایم آر کیانی کی تقاریر کا بہت چرچا رہا؟
جواب: میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ جج کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔ جہاں تک ایم آر کیانی کی کتب کا تعلق ہے، وہ ان کی تقاریر تھیں، ریمارکس نہیں تھے۔ ایوب خان کے دور میں انھوں نے جو تقاریر کیں، وہ جمہوریت کی بحالی میں اہم ثابت ہوئیں۔ نواب آف کالا باغ گورنر تھے۔ ایک تقریب میں وہ مغربی پاکستان کے چیف جسٹس کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ انھوں نے تقریر میں کہا: ’’حاضرین، لوگ سبز باغ دکھاتے ہیں، میں آپ کو کالا باغ دکھا رہا ہوں!‘‘ یہ ان کی بذلہ سنجی تھی۔ جج کے ریمارکس کو میڈیا اہمیت دیتا ہے، ورنہ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ بعض ایسے بھی فیصلے ہیں، جو دوران کارروائی جج کے ریمارکس سے یک سر مختلف تھے۔ ہم نے بڑے بڑے کیس دیکھے، جیسے بھٹو صاحب کا کیس۔ آخر میں جو فیصلہ آیا، وہ ریمارکس سے مختلف تھا۔

سوال: زیبسٹ لا یونیورسٹی کے قیام کی بابت کچھ فرمائیں؟
جواب: میں کراچی یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف لا تھا۔ ہم ایس ایم لا کالج کو کافی عرصے سے یونیورسٹی بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مارچ 2012 میں گورنر ہاؤس میں اجلاس رکھا گیا۔ اس وقت کے لا منسٹر، ایاز سومرو اور ایجوکشن منسٹر پیر مظہر الحق گورنر ہاؤس آئے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ بھٹو صاحب بھی ایس ایم لا کالج میں پڑھاتے تھے، تو ان کے نام پر ایک نئی لا یونیورسٹی قائم کی جائے۔ تو اُس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا۔ پھر اسمبلی میں بل پیش ہوا، جو فروری 2013 میں پاس ہوا۔ مارچ 2013 میں مجھے وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔

سوال: پاکستان کی پہلی لا یونیورسٹی کو اپنے قیام کے لیے 68 برس انتظار کرنا پڑا۔ اس تاخیر کا سبب؟
جواب: اسباب پر تو میں نہیں جانا چاہوں گا۔ اس ضمن میں 2007 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، جس میں مختلف Deficiencies کی نشان دہی کی گئی تھی۔ لا کالجز کی جو حالت زار رہی، وہ ہمارے سامنے ہے۔ ممکن ہے، ماضی کی حکومتوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی ہو۔ لا کالجز ہر پر اکتفا کیا گیا۔ خیر، اب یونیورسٹی قائم ہوئی ہے۔

سوال: پاکستان میں قانون کی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ہمیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟
جواب: میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس وقت یہ اقدامات ہورہے ہیں۔ پاکستان بار کونسل اور ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نصاب سازی کا کام کرتے رہتے ہیں۔ اس نظام کی بہتری کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں انٹر یا اے لیول کے بعد داخلے دیے جاتے تھے، یہ سلسلہ لا کالجز میں بھی شروع کیا جائے۔ پاکستان بار کونسل کا منصوبہ ہے کہ 2018 کے بعد تین سالہ ایل ایل بی پروگرام ختم کر دیا جائے۔ تو نصاب سازی کے سلسلے میں کام جاری ہے۔ رواں برس فروری میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں میٹنگ ہوئی تھی۔ میں بھی اس میں شامل تھا۔

سوال: زیبسٹ لا یونیورسٹی کو بین الاقوامی معیارات کے قریب لانے کے لیے کیا منصوبے ہیں؟
جواب: جب تک ہم نے پاکستان بار کونسل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے معیارات تک رسائی حاصل نہیں کی، ہم نے رجسٹریشن کے لیے اپلائی نہیں کیا۔

ہائرایجوکیشن کمیشن کا معیار ہے کہ یونیورسٹی میں ڈیرھ ہزار کتب ہونی چاہییں۔ ہمارے ہاں ساڑھے چھے ہزار کتب ہیں۔ چار ہزار کتب ہمیں روٹری کلب آف نیویارک نے عطیہ کیں۔ مستقل فیکلٹی ہے، ڈیجیٹل لائبریری ہے۔ سابق ججز فیکلٹی ممبر ہیں۔ ہم نے پی ایچ ڈی پروگرام متعارف کروایا۔ تین گھنٹے کا Subjective امتحان لینے کے بعد میرٹ پر داخلے دیے ہیں۔

پاکستان میں پہلے لا کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی کلاسز نہیں ہوتی تھیں۔ طالب علم رجسٹریشن کے بعد سپروائزر کی نگرانی میں تھیسس تیار کرکے جمع کرواتا تھا۔ ہم نے جسٹس حاذق الخیری صاحب، جسٹس علی اسلم جعفری صاحب، جسٹس منیر احمد خان صاحب کے توسط سے پی ایچ ڈی کا نصاب تیار کر کے یونیورسٹی میں نافذ کیا۔ دو سمسٹر رکھے ہیں۔ 75 فی صد حاضری اور 75 فی صد مارکس لازمی ہیں۔

سوال: پاکستان کے لا کالجز میں رائج نصاب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: جو نصاب رائج ہے، اس میں ترامیم ہورہی ہیں۔ فروری میں ملتان میں ہونے والی میٹنگ میں جو فیصلے ہوئے، ان کے مطابق نصاب کو اپ ڈیڈ کیا جارہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔

ہمارے طالب علم بہت قابل ہے، مگر ان کی قابلیت کو پوری طرح استعمال نہیں کیا جاتا۔ وہ بیرون ملک جا کر وہاں کے طلبا سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں ہم توجہ دیں۔ انھیں ’’گروم‘‘ کریں۔ اچھی فیکلٹی دیں۔ انصاف پر مبنی معاشرے کی بنیاد قانون کی معیاری درس گاہیں ہی فراہم کرتی ہیں۔

سوال: قانون کی تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ اب جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کی جانب سے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں اردو نافذ کرنے کے احکامات جاری ہوگئے ہیں۔ کیا اس سے کسی قسم کا تصادم جنم لے سکتا ہے؟
جواب: اس سے کوئی تصادم یا الجھن جنم نہیں لے گی۔ میں سپریم کورٹ میں کئی بار پیش ہوا۔ میں جانتا ہوں، 90 فی صد کارروائی اردو ہی میں ہورہی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے وکیل، کسی کی عزت اور توقیر میں کمی کیے بغیر عرض کر رہا ہوں، اپنے مکمل دلائل انگریزی میں پیش نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی ایسی کوشش کرتے ہیں۔

سوال: کیا اس فیصلے کا اطلاق آسان ہے؟ ماہرین کے نزدیک اس راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں!
جواب: یہ عام رائے ہے کہ جو قومیں اپنی مادری زبان کو تعلیم کا ذریعہ بناتی ہیں، وہ ترقی کرتی ہیں۔ ماہرین تعلیم کے نزدیک تدریس کا موثر ترین ذریعہ یہی ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان میں پڑھایا جائے۔

البتہ عالم گیریت کے اس دور میں انگریزی کو یک سر نظر انداز نہیں جاسکتا۔ اس کا تجربہ بنگلادیش نے کیا تھا، جو ناکام رہا۔ تو انگریزی رہنی چاہیے۔ جہاں اردو کا اطلاق ہوسکتا ہے، کیا جائے۔ اب اگر اردو ڈکشنری بورڈ نام رکھا جارہا ہے، تو ڈکشنری اور بورڈ تو انگریزی ہی کے لفظ ہیں۔ اب یہ ججز کے اوپر ہے۔ آئین اور قانون تو موجود ہے، مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔ میں سپریم کورٹ کی عزت و توقیر میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر عرض کروں کہ یہ احکامات تو جاری ہوتے ہیں کہ لوگ آڈٹ کروائیں، مگر سپریم کورٹ اپنا آڈٹ کروانے سے منع کر دیتی ہے۔

سوال: کیا وکلا تحریک سے وابستہ امیدیں پوری ہوئیں؟
جواب: شاید میری رائے اس معاملے میں غیرمتعلقہ ہو۔ اب میرا تعلق قانون کی تدریس سے ہے۔ اور تمام قابل احترام جج صاحبان ہم سے اس منصوبے میں تعاون کر رہے ہیں۔ جسٹس افتحار چوہدری صاحب اور جسٹس تصدق جیلانی بھی ہماری فیکلٹی کا حصہ ہیں۔

سوال: لیکن وکلا تحریک تو ایک ملکی تحریک تھی، ایک ماہر قانون کی حیثیت سے آپ اس کا کیسے تجزیہ کرتے ہیں؟
جواب: میرے نزدیک ماسوائے تحریک آزادی کے کسی تحریک کا، بشمول وکلا تحریک، سو فی صد نتیجہ نہیں نکلا۔ میں نے ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بہ طور طالب علم حصہ لیا تھا، مگر اس کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ ہم نے پی این اے کی تحریک کو بھی دیکھا۔ اس کا نتیجہ بھی مارشل لا تھا۔ میرے نزدیک بہ طور وائس چانسلر اس تحریک کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس پیشے نے طلبا کو متوجہ کیا۔ وکلا کا احترام بڑھا۔

سوال: جوڈیشل ایکٹیوازم پر آپ کا کیا موقف ہے؟
جواب: اس میں دو رائے ہوسکتی ہیں۔ آئین میں آرٹیکل 184 کلاز 3 ہے، جس کے تحت public importance کے کسی بھی معاملے میں سپریم کورٹ براہ راست ایکشن لے سکتی ہے۔ اب public importance کی کس طرح تشریح ہو، قانون میں یہ درج نہیں۔ اس سلسلے میں خلیل اﷲ کا کیس بڑی مثال ہے۔ خلیل اﷲ نے اپنی بیوی کو قتل کیا۔ بچے بھی تھے۔ 1975 کی اسپیڈی ٹرائل کورٹ کا لا تھا۔ ہائی کورٹ کا جج اس کا پریزائیڈنگ آفیسر ہوتا تھا۔

صرف ایک اپیل ہوتی تھی، اور اس کا جج سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔ تو اسپیڈی ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی۔ سپریم کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا۔ اب قانون اور آئین میں مزید گنجائش نہیں تھی۔ مگر آرٹیکل 184 کے تحت اسلامی قوانین اور دوسرے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایکشن لیا گیا۔ گو وہ public importance کا معاملہ نہیں تھا، مگر ایک انسانی جان کی اہمیت کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا۔ یہ تو ہوئی ایک مثال۔ بعد میں ایک شراب کی بوتل پر بھی سوموٹو ہونے لگا۔ تو آئین میں جو اختیارات ہیں، انھیں استعمال ہونا چاہیے۔ البتہ ان کے تعین کے معیارات طے ہونے چاہییں۔

سوال: دہشت گردی اور بگڑتے حالات کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل آیا، سپریم کورٹ نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا۔ آپ اِس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ اِس سلسلے میں آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔ 21 ویں ترمیم۔ اس میں دو فیصلے بہت مشہور ہیں۔ اینٹی ٹیررازم کے حوالے سے ایک تو محرم علی کا کیس ہے، دوسرا ملٹری کورٹس کے حوالے سے شیخ لیاقت حسین کیس۔ اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، عزت مآب اجمل میاں کے بینچ نے ہولڈ کیا تھا کہ سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہو سکتا۔

وہ کورٹس ختم ہوئیں۔ مگر اس وقت اور آج کے حالات میں فرق یہ ہے کہ اس وقت آئین میں ترمیم نہیں کی گئی تھی، بلکہ ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون بنایا گیا تھا۔ اسے سپریم کورٹ نے ختم کر دیا۔ اب آئین میں ترمیم کرکے عدالتیں بنائی گئی ہیں۔ اس میں بھی سپریم کورٹ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ دو Remedy دی ہیں، جو قانون میں نہیں تھیں۔

سوال: اب آپ کے سیاسی سفر پر کچھ بات ہوجائے!
جواب: ہاں، 70 کی دہائی میں، مَیں کچھ عرصے پیپلزپارٹی کے ساتھ رہا۔ این ڈی خان جب 77ء میں نیشنل اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے تھے، تب میں ان کے ساتھ تھا۔ پھر سیاست سے دُور ہوگیا۔ 93ء اور 97ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر لانڈھی سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوا۔ یہ سب خدمت کا ذریعہ ہے۔ اگر آپ سیاست خدمت کے جذبے سے کر رہے ہیں، تب تو ٹھیک ہے۔ اگر بدعنوانی اور مال بنانے کے لیے کر رہے ہیں، تو پھر غلط ہے۔ اس وقت پی پی کی حکومت تھی، ایم کیو ایم اور پی پی کے درمیان جو مذاکرات ہوتے تھے، میں ان کا حصہ رہا۔

سوال: اب آپ سیاست سے وابستہ نہیں، مگر کئی برس متحدہ کے ساتھ گزارے۔ آج انھیں کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
جواب: وہ بڑے competent لوگ ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اس وقت کیا صورت حال ہے، مگر ان کے ہاں معروضی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جامع فیصلے کیے جاتے ہیں۔
سوال: وزیرتعلیم کی حیثیت سے کن تجربات سے گزرے؟
جواب: یہ کام ایمان داری اور لگن کا تقاضا کرتا ہے۔ میں وزیرتعلیم کی حیثیت سے نو بجے دفتر پہنچ جاتا تھا۔ چارج سنبھالنے کے بعد تعلیم کے لیے مختص بجٹ بڑھوایا۔ ڈیڑھ کروڑ روپے کی فیسیں معاف کیں۔ کراچی جیل میں کمپیوٹر سینٹر بنایا۔ میں نے ملٹری کو وزیراعلیٰ سے منظور کروا کے یہ پرپوزل بھیجا کہ وہ ملٹری اکیڈمی فور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کراچی میں بنائیں کہ یہاں سمندر بھی ہے، پہاڑ بھی۔ انفرااسٹریکچر موجود ہے۔ میں سندھ میں ہر جگہ گیا۔ بلاتفریق کام کیا۔ کئی اداروں کا سنگ بنیاد رکھا۔

سوال: جج بننے کے بعد زندگی یک سر بدل گئی ہوگی؟
جواب: ہاں، جس زمانے میں مَیں جج تھا، کچھ دوستوں، رشتے داروں نے ناراض ہو کر ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ اُنھوں نے سفارش کروانی چاہی، میں نے انکار کر دیا۔ حکومت کی طرف سے بھی دباؤ آیا۔ دیکھیں، ماضی میں فقط جج ہونا ہی باعث افتخار ہوا کرتا تھا۔ اب تو وہی جج سر اٹھا کر چل سکتا ہے، جس نے ایمان داری سے اپنا کام کیا ہوا۔

وکیلوں کو غیرضروری ڈانٹ ڈپٹ نہ کی ہو، ناانصافی نہ کی ہو۔ یوں تو Remedy ہے۔ اگر جج کا فیصلہ غلط ہوجائے، تو ڈویژن بینچ میں صحیح ہوسکتا ہے، پھر سپریم کورٹ میں صحیح ہوسکتا ہے، مگر جج کی جو عزت ہونی چاہیے، اس کا دارومدار اس کی اپنی ذات پر ہے۔ قرآن اور احادیث میں منصف کا کردار متعین کیا گیا ہے۔ جو اصول ہیں، ان کی تقلید کرنے والا ہی سر اٹھا کر چل سکتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں میں قانونی سقم ہیں، اور کئی خرابیاں ہیں، مگر اِس میں جج کا بھی بڑا رول ہوتا ہے۔

سوال: کیسا سبب ہے کہ ایک جانب ایسے وکلا ہیں، جو کروڑ میں فیس لیتے ہیں، دوسرے طرف علی احمد کرد جیسے وکیل، جو مالی آسودگی سے دور نظر آتے ہیں؟
جواب: میرا ذاتی خیال ہے کہ حکومت کو انصاف کی بنیاد پر وکلا کو کیسز سونپنے چاہییں۔ کمپنیز پرافیکٹ ایکٹ اور اپائٹمنٹ آف لیگل ایڈوائزر ایکٹ پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ ایسی ہزاروں اسامیاں ہیں، جہاں وکلا کو بھرتی کیا جاسکتا ہے۔ الاؤنسز بڑھائے جائیں۔ تن خواہوں میں توازن ہو۔ پھر قابلیت اور تحقیق کی بات ہوتی ہے۔ میرٹ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ فقط سفارش کی بنیاد پر وکیل اُس سطح پر پہنچ جائے کہ اسے لاکھوں میں فیس دی جانے لگے۔

سوال: عام خیال ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تو بہتری آئی ہے، مگر ماتحت عدلیہ وہی لگے بندھے اصولوں پر چل رہی ہے؟
جواب: میرے خیال میں ہر جگہ بہتری کا امکان موجود ہے۔ ماتحت ہو یا اعلیٰ عدلیہ، انصاف کی فراہمی کے معاملے میں عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔

سوال: انصاف کی فراہمی کے نظام کو کیسے تیز تر کیا جاسکتا ہے؟
جواب: خود احتسابی۔ اگر میں جج ہوں، اور آٹھ بجے کا وقت مقرر ہے، تو آٹھ بجے کورٹ پہنچ جاؤں۔ سب سے پہلے قانون خود پر نافذ کریں۔ اگر جج خود وقت کی پابندی نہیں کرے گا، تو انصاف کی فراہمی کیوں کر ممکن ہے۔ دنیا بھر میں انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا مسئلہ درپیش ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اس ضمن میں اقدامات کیے۔ پاکستان میں انصاف کا عمل تیز تر بنانے کے لیے عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جہاں ججوں کی اسامیاں خالی ہیں، انھیں بھریں۔ جو فنڈز روک رکھے ہیں، انھیں ریلیز کریں۔

سوال: فلاحی سرگرمیوں میں بھی آپ کی دل چسپی رہی؟
جواب: وکالت تو ہے ہی خدمت کا پیشہ۔ ایسے کتنے ہی کیسز ہوتے ہیں، جن کی وکیل فیس نہیں لیتے۔ پھر ہم جو فلاحی کام کرتے ہیں، وہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے۔ اس کا تذکرہ کیا کرنا۔

سوال: کچھ اعزازات کی بات ہوجائے!
جواب: اﷲ تعالی نے مجھے بڑا نوازا۔ 92ء میں مجھے ساؤتھ ایشین ہیومن رائٹس کی جانب سے ایوارڈ ملا۔ اُس برس پاکستان سے میرے علاوہ عبدالستار ایدھی اور عمران خان کو منتخب کیا گیا تھا۔ 96ء میں امریکی ریاست ٹیکساس نے مجھے ایک ایوارڈ سے نوازا۔ 99ء میں پرسٹن یونیورسٹی، امریکا نے مجھے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ مجھے ہائی کورٹ بار، سندھ کی جانب سے بھی ایوارڈ دیا گیا، جو میں نے جناب افتخار چوہدری سے وصول کیا۔

سوال: قانون کے شعبے میں کسے آئیڈیلائز کرتے ہیں؟
جواب: ہمارے ہاں تین چار جج بڑا زبردست گزرے۔ جیسے جسٹس اجمل میاں، جسٹس سعیدالزماں صدیقی، جسٹس ناصر اسلم زاہد۔ ان کے فیصلے مثالی ہیں۔ اے کے بروہی صاحب بہت شان دار وکیل تھے۔ اب تو زمانہ بدل گیا، طور طریقے بدل گئے۔ جسٹس وجیہ الدین احمد کے والد جسٹس وحید الدین احمد بہت اچھے جج تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے جج رہے۔ خاندانی تقاریب میں وہ ایک الگ کمرے میں بیٹھے رہتے۔ عام لوگوں سے ملنا تو دُور، وہ خاندان والوں سے بھی زیادہ ملتے جلتے نہیں تھے۔ یہ ہماری روایات رہی ہیں۔ وکلا تحریک نے ہماری اُن روایات کو یک سر بدل دے دیا۔ چیف جسٹس صاحب خود اپنا جلوس لے کر نکلے۔ کچھ لوگ کے لیے اچھا ہوگا، کچھ کو اس پر تحفظات ہوں گے۔ قریبی لوگ بعد میں جج بن گئے۔ میرے نزدیک ’’جیالا کریسی‘‘ معیار نہیں ہونا چاہیے۔

سوال: ارسلان افتخار کیس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ اس ضمن میں کافی اعتراضات ہوئے۔
جواب: اب بھی اعتراضات ہورہے ہیں، انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ کردار اور فیصلے تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کچھ چھپا نہیں رہتا۔ میں آپ سے کہوں کہ میں بہت ایمان دار ہوں۔ آپ میری چار جائیدادوں کے شواہد پیش کردیں گے۔ اب مجھے انکم ٹیکس کے گوشوارے دکھانے پڑے ہیں۔ میں 76ء سے ٹیکس دے رہا ہوں۔ جب میں جج بنا، اس وقت بھی اﷲ کی مہربانی سے 85 لاکھ میری نیٹ انکم تھی۔ جج بننے کے بعد مجھے دو لاکھ سترہ ہزار تن خواہ ملتی تھی۔

جب فارغ کیا گیا، تو میں نے شکر ادا کیا۔ ایک سبب تو یہ کہ ہم نے اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کیے، پھر یہ امر بھی تھا کہ میں قربانی دے رہا تھا۔ اس فیصلے کے بعد میں واپس پریکٹس کی طرف جاسکتا تھا۔ افتخار چوہدری صاحب سے میری بڑی نیاز مندی ہے۔ پچھلی ملاقات میں مجھ سے کہہ رہے تھے؛ عدلیہ بحالی تحریک میں آپ کی بڑی قربانیاں ہیں، آپ نے اپنا جج کا عہدہ قربان کیا۔ تو وہ مجھے سراہتے ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام میں بھی مجھ سے تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن ارسلان افتخار کیس کی نشان دہی میں تو نہیں کررہا، یہ تو ریکارڈ کا معاملہ ہے۔

سوال: وکیل کے فرائض کیا ہیں؟
جواب: وکیل کا پہلا فرض تو یہ ہے کہ وہ کلائنٹ کے لیے ایمان داری اور لگن سے کام کرے۔ اس کے لیے ریسرچ کرے۔ کیس تیار کرے۔ عدالت جائے، تو پوری طرح تیار ہو کر جائے۔ اصل معاملہ یہی ہے کہ آپ عدالت کو کس طرح Assist کرتے ہیں۔ اگر اچھی طرح Assist کریں گے، تو اچھے فیصلہ کی توقع کر سکتے ہیں۔

سوال: شعر و ادب، فلموں میں دل چسپی رہی؟
جواب: اچھے شعر پسند ہیں۔ ہمارے نصاب میں جتنا ادب ہے، اسے بڑی توجہ سے پڑھا۔ اسے ہی ایمان داری سے پڑھ لیں، تو آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اقبال اور نظیر کے اشعار سے شعور کی گرہیں کھلتی ہیں۔ میٹرک کے بعد فلمیں دیکھیں۔ سلیم رضا، مہدی حسن اور میڈم نور جہاں کی آواز اچھی لگتی ہے۔

سوال: خیالات کو کتابوں میں بھی سمویا؟
جواب: جی ہاں، پانچ چھے کتابیں ہیں۔ ایک ایڈوانس ایکٹ سے متعلق ہے۔ ایک سوشل لیجیسلیشن کے بارے میں ہے، جو ریفرنس بک کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ جج کی حیثیت سے دیے فیصلوں کو My Judgements کے زیرعنوان مرتب کیا۔ کتابوں کی مارکیٹنگ کبھی نہیں کی۔ خود ہی چھپوائیں، خود ہی تقسیم کیں۔ ہاں، قانونی ماہرین کی جانب سے اس کاوش کو سراہا گیا۔
سوال: شادی کب ہوئی؟
جواب: 1982 میں میری شادی ہوئی۔ میری چار بیٹیاں ہیں۔ چاروں شادی شدہ ہیں۔ اُن میں سے تین ڈاکٹر ہیں۔ دو صاحب زادے ہیں۔ ایک نے انگلینڈ سے ایل ایل بی کر لیا ہے۔

کچھ ٹکڑے زندگی کے
٭ خاندانی اور تعلیمی پس منظر
24 فروری 1952 کو کراچی میں پیدا ہونے والے قاضی خالد علی کے خاندان کا تحریک پاکستان میں نمایاں کردار رہا۔ ان کے والد، قاضی زاہد علی مسلم لیگ نیشنل گارڈز کا حصہ تھے۔ اُن کے تایا، مولانا حامد علی قریشی، دہلی مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل رہے۔ تقسیم کے بعد یہ گھرانا پاکستان چلا آیا۔ کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ سات بھائی، چھے بہنوں میں قاضی خالد علی چھٹے ہیں۔ والد کو ایک شفیق اور مخلص انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

گزر بسر کا ذریعہ زمیں داری۔ پھر ملازمتیں بھی کرتے رہے۔ متوسط طبقے کے طرز زندگی کو قریب سے دیکھا۔ قائد آباد کے علاقے میں آنکھ کھولی۔ کورنگی میں شعور کی دہلیز عبور کی۔ کھیلوں میں فٹ بال اُن کی توجہ کا محور رہا۔شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوتا۔ 66ء میں گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، کورنگی سے میٹرک کیا۔ نیا باغ ضیا الدین میموریل کالج سے انٹر کرنے کے بعد نیشنل کالج سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ ایل ایل بی کے مراحل اسلامیہ کالج اور ایس ایم لا کالج سے طے ہوئے۔ اب جامعہ کراچی کا رخ کیا، جہاں سے ایل ایل ایم کیا۔ بعد میں اسلامک اسٹڈیز میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی سند حاصل کی۔

٭ طلبا سیاست کا تذکرہ
سیاست تو گُھٹی میں پڑی تھی۔ پھر اس زمانے میں طلبا سیاست عروج پر تھی۔ وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن تھے، جس کی قیادت شہنشاہ حسین کر رہے تھے۔ یہ تنظیم نہ تو لیفٹ کی تھی، نہ ہی رائٹ کی، مزاج اعتدال پسندانہ تھا۔ نام تو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھا، مگر مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کالج کے زمانے میں یہ وابستگی قائم ہوئی۔ اس کے پلیٹ فورم سے ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پہلے اس کے یونٹ سیکریٹری رہے۔ پھر جنرل سیکریٹری سے ہوتے ہوئے صدر کے عہدے تک پہنچے۔ بعد میں یہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔

72ء میں جنگی قیدیوں کے لیے شروع کردہ تحریک پہلی جیل یاترا کا سبب بنی۔ آنے والے برسوں میں کئی بار یہ مشق دہرائی گئی۔ پندرہ بار گرفتار ہوئے۔ اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’تب طلبا کی بہت عزت ہوتی تھی۔ ٹارچر وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے، ایک بار مجھے گرفتار کیا گیا، تو سخت سردیوں کے دن تھے۔

ڈیوٹی آفیسر نے مجھے اپنا بستر دے دیا کہ آپ یہاں آرام کریں۔ ایک بار مینٹینس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت کورنگی سے گرفتار کرکے ہمیں لیاقت آباد تھانے لے گئے۔ وہاں ایس ایچ صاحب بہت عزت سے پیش آئے۔ میری درخواست پر انھوں نے گھر سے کتابیں منگوا دیں۔ جیل میں بیٹھ کر میں نے بی اے کا امتحان دیا۔ کراچی جیل میں امتحانی سینٹر بنایا گیا۔ ایک بار ہم آرام باغ تھانے میں رہے۔ وہاں بھی بہت اچھا سلوک کیا گیا۔‘‘

٭ پیشہ ورانہ سفر کی کہانی
زمانۂ طالب علمی ہی میں عملی زندگی کا آغاز کر دیا تھا۔ مختلف نجی اداروں میں ملازم رہے۔ لا پریکٹس ایل ایل ایم کے بعد شروع کی۔ میدان مشکل تھا، مگر صلاحیتیں راہ ہم وار کرتی گئیں۔

پہلی فیس کی بابت پوچھا، تو کہنے لگے،’’بار کونسل میں لائسنس کے لیے Viva دینے سے قبل میں 44 مقدمات میں 44 ہزار فیس وصول کر چکا تھا۔ صدر اور اس کے گردو نواح میں جو ہوٹل اور ریسٹورنٹ تھے، ان پر ڈیپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروسز نے رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ہزار روپے یومیہ کی پینالٹی لگائی تھی۔ میں نے 44 اپیلیں دائر کی تھیں، اور فی اپیل ایک ہزار روپے لیے تھے۔ تو اﷲ کا بڑا احسان تھا۔ گھڑیالی بلڈنگ میں جو دفتر لیا، وہ اسی فیس سے لیا۔‘‘

80ء میں وہ بہ طور ایڈووکیٹ انرول ہوئے۔ دو برس بعد ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ وہاں پہلا مقدمہ اے کے بروہی کے خلاف لڑا۔ 95ء میں سپریم کورٹ میں وکالت کا اختیار مل گیا۔

گو جانے مانے وکیل تھے، مگر کبھی بار کی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ بہ قول ان کے،’’میں نے جو کام کیا ہے، ایمان داری سے کیا۔ جو کام نہیں کرسکتا، اس کی ذمے داری اپنے سر لیتا ہی نہیں۔ انکار کر دیتا ہوں۔‘‘

2003 میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، سندھ کا عہدہ سنبھالا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اسائنمنٹ ان کے پاس تھے۔ 2004 تا 2007 مختلف چیف جسٹس صاحبان کے سامنے سندھ کی پیروی کی۔ اس عمل کو ’’چلہ کاٹنا‘‘ ٹھہراتے ہیں۔ اُن کے مطابق ایک پیشی کے پانچ سو روپے ملتے تھے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی تن خواہ نو ہزار روپے تھے۔

’’میں ہفتے یا اتوار کو وہاں جاتا تھا۔ پورا ہفتہ وہاں رہتا۔ اچھی طرح کیس پیش کرتا۔ اسی وجہ سے عزت مآب صبیح الدین احمد نے، جو اس وقت چیف جسٹس سندھ تھے، میرا نام تجویز کیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے بھی کہا تھا: We are taking you on bench. تو نومبر 2007 میں ہم ہائی کورٹ کے جج ہوگئے۔ 2009 میں مستقل جج بنا۔ عزت مآب انور ظہیر جمالی اس وقت چیف جسٹس سندھ تھے۔ انھوں نے حلف لیا۔‘‘

31 جولائی 2009 کو افتخار چوہدری کی سربراہ میں 14 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دے دیا، اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے 110 جج فارغ ہوئے۔ جسٹس قاضی خالد بھی ان میں شامل تھے۔

پریکٹس کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، وہیں سے جُڑ گیا۔ 2003 میں ایس ایم لا کالج میں پڑھنا شروع کیا تھا، جج کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سلسلہ معطل ہوگیا تھا، تو لوٹ کر پھر یہ ذمے داری سنبھالی۔ کراچی یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف لا رہے۔2013 میں پاکستان کی پہلی لا یونیوسٹی؛ شہید ذوالفقار علی بھٹو (زیبسٹ) لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے۔

یہ جامعہ انٹر یا اے لیول کے بعد بی اے ایل ایل بی کا پانچ سالہ پروگرام، گریجویشن کے بعد ایل ایل بی کا تین سالہ پروگرام، ایل ایل ایم کا دو سالہ پروگرام آفر کرتی ہے۔ پی ایچ ڈی پروگرام تین سال پر محیط ہے۔ اس وقت دو سو کے قریب طلبا زیرتعلیم ہیں۔ فنڈز صوبائی حکومت جاری کرتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔