ماسٹر مدن (پہلا حصہ)

رئیس فاطمہ  اتوار 4 اکتوبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

بہت پرانی بات ہے۔ میرے والد چھٹی والے دن اپنے میوزک کلیکشن اور فوٹوگرافس کا جائزہ لے رہے تھے۔ انھیں کلاسیکل میوزک، عالمی ادب، شعر و ادب کے علاوہ فوٹو گرافی کا بھی بہت شوق تھا، سیر و سیاحت کے علاوہ سرکاری دوروں پر بھی وہ اپنا محبوب کیمرہ ’’رولی فلیکس‘‘ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ وہ کچھ نئے گراموفون ریکارڈ لے کر آئے تھے، جس میں میری والدہ کی پسند بھی شامل ہوتی تھی۔ انھوں نے ریڈیو گرام پہ ایک ریکارڈ لگایا۔ ’’پلے‘‘ کا بٹن دباتے ہی ایک عجیب سحر انگیز آواز ابھری:

حیرت سے تک رہا ہے جہاںِ وفا مجھے
تم نے بنا دیا ہے محبت میں کیا مجھے

والد صاحب نے حسرت سے شیلف میں لگی ایک تصویر کی طرف دیکھا جس میں ایک قالین پہ تین لوگ بیٹھے تھے۔ دو جوان پگڑیاں باندھے ہوئے۔ ایک ہاتھ میں وائلن اور دوسرے کے سامنے ہارمونیم، درمیان میں نو دس سالہ بچہ پگڑی باندھے بیٹھا تھا۔ درمیان والا بچہ ماسٹر مدن تھا جس کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ جو تصویر شیلف میں فریم کی ہوئی رکھی تھی۔ وہ میرے والد نے خود ماسٹر مدن کے گھر پہ اپنے ذاتی کیمرے سے کھینچی تھی۔ دوسری تصویر میں ماسٹر مدن اور سہگل (کندن لال سہگل) بیٹھے تھے۔ ’’نظر کھا گئی مدن کو۔ کاش وہ زندہ رہتا تو نہ جانے کیا قیامت ڈھاتا‘‘۔ والد نے افسوس کے ساتھ کہا۔ ساتھ ہی ریکارڈ ختم ہوا تو سائیڈ بدل کر دوسری غزل ماسٹر مدن کی ہی آواز میں ابھری۔۔۔۔

یوں نہ رہ رہ کر ہمیں ترسائیے
آئیے آ جائیے‘ آ جائیے

ساغر نظامی ایک بڑے غزل گو شاعر تھے لیکن ان کی دو غزلوں کو ماسٹر مدن کی گائیکی کی وجہ سے جو شہرت نصیب ہوئی وہ لافانی ہے۔ جس وقت یہ غزلیں ’’ہز ماسٹر وائس‘‘ والوں نے 78 آر پی ایم (Round Per Minute) پر اپنی گراموفون کمپنی کی طرف سے ریکارڈ کیں۔ اس وقت ماسٹر مدن کی عمر صرف آٹھ برس تھی۔ ان کی گائیکی کا قصہ بھی بڑا عجیب ہے۔ کہتے ہیں قدرت جب کسی جوہر قابل کو سامنے لانا چاہتی ہے تو اسباب بھی وہ خود پیدا کرتی ہے۔ جسے ہم فانی انسان اتفاق یا قسمت کہتے ہیں۔ میرے والد کا آنا جانا سردار امرسنگھ کے گھر تھا۔

کیونکہ ان کی دوستی سردار صاحب کے دونوں بیٹوں سے تھی۔ ماسٹر موہن بڑے بیٹے تھے اور وائلن بہت اچھا بجاتے تھے۔ میرے والد کے پسندیدہ سازوں میں وائلن ہمیشہ سرفہرست رہا۔ شملہ میں اکثر وہ کے ایل سہگل کے ساتھ اور اکثر اکیلے بھی ماسٹر موہن کا پیانو سننے جاتے تھے۔ سہگل تو اکثر اپنا ہارمونیم موہن کے گھر لے جاتے تھے۔ سردار امرسنگھ کے دوسرے بیٹے کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا، غالباً والد صاحب نے منوہر یا کچھ اور بتایا تھا۔ ان کی ایک بیٹی بھی تھیں، شانتی دیوی۔ لیکن سردار امرسنگھ کا نام اَمر کیا ان کے سب سے چھوٹے بیٹے ’’مدن‘‘ نے جسے موسیقی کی دنیا نے ماسٹر مدن کے نام سے لازوال شہرت عطا کی۔ ان کی دونوں غزلیں آج بھی اہل ذوق کے کلیکشن میں موجود ہیں۔

ماسٹر مدن کا جنم 26 دسمبر 1927 کو ایک کٹر سکھ خاندان میں ہوا، مشرقی پنجاب کا ایک گاؤں جو جالندھر کے قریب تھا، اسے اکبر اعظم کے نو رتن عبدالرحیم خان خاناں نے بسایا تھا اور انھی کے نام سے منسوب ہے۔  خان خاناں ایک ماہر جنگجو سپاہی کے علاوہ، ہندی اور عربی کے نہایت معتبر شاعر بھی تھے۔ ان کا تخلص ’’رحیمن‘‘ تھا، لیکن بعض ہندی دوہوں میں انھوں نے ’’رحیم‘‘ بھی استعمال کیا ہے۔

ماسٹر مدن کے دونوں بڑے بھائی گلوکاری اور ساز و آواز کے میدان میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ مدن کو بھی وہ اپنے ساتھ لے جاتے۔ مدن کی آواز بہت سریلی تھی ایک طرح کی چاشنی اور کشش ان مذہبی کیرتن میں بہت ابھر کر آتی تھی جو  عموماً سکھوں کی مذہبی محفلوں اور گردواروں میں منعقد ہوتی تھیں۔ قدرت کی جس فیاضی کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے (بہ زبانِ والد صاحب) کہ پنڈت امرناتھ گھر پر ماسٹر مدن کے دونوں بھائیوں کو موسیقی کی اعلیٰ تعلیم دینے آتے تھے۔ اس دوران مدن بھی وہیں کہیں آس پاس موجود رہتا، یاد رہے کہ یہ وہی پنڈت امر ناتھ ہیں، جو نہ صرف ہندوستان کے بہت بڑے اور مایہ ناز موسیقار تھے بلکہ ایک اور نام ور موسیقار حسن لال بھگت رام کے بڑے بھائی بھی تھے۔

جنھوں نے ’’مرزا صاحباں‘‘ نامی فلم کی موسیقی بھی دی تھی اور نور جہاں سے کچھ گیت بھی گوائے تھے۔ تو ہوا یوں کہ یہ بچہ جس کا نام مدن تھا ’’کن رسیا‘‘ تھا، قدرت نے اس کی مٹی کا خمیر راگ راگنیوں سے تیار کیا تھا۔ ایک دن جب ماسٹر امر ناتھ نے ان کے بڑے بھائی موہن سے موسیقی کا سبق دہرانے کو کہا، تو کئی جگہ وہ غلط تان لگا گئے، کہیں الاپ ہی غلط لیا۔ امر ناتھ جی جھنجھلا کر ماتھے پہ ہاتھ مار کر بولے۔ ’’ہئے۔۔۔۔ موہن تیرا کیا کروں؟‘‘ مدن قریب ہی بیٹھے کھیل رہے تھے۔ اچانک بولے ’’ماسٹر جی! میں سناؤں؟‘‘ پنڈت جی نے گردن گھما کر انھیں تعجب سے دیکھا۔ اور تفریحاً ہنس کر بولے۔ ’’چل سُنا!‘‘ اور پھر ماسٹر مدن نے بغیر کسی غلطی کے وہ سبق دہرا دیا جو کئی دن سے پنڈت جی اس کے بڑے بھائی کو دے رہے تھے۔ قسمت کی دیوی نے مزید بانھیں پھیلا دیں اور اسی مبارک دن سے پنڈت امرناتھ نے ماسٹر مدن کو باقاعدہ اپنی شاگردی میں لے لیا۔ انھوں نے بھی حق شاگردی ادا کر دیا۔ شاگرد ہونہار ہو تو استاد کو دلی خوشی ہوتی ہے۔

اب یوں ہوتا کہ جہاں جہاں بڑے بھائی اپنے فن کے مظاہرے کے لیے جاتے ماسٹر مدن نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ ہوتے بلکہ گائیکی کے فن کا مظاہرہ بھی کرتے۔ وہ ہمیشہ بابا گرو نانک کی تصویر اپنے سامنے رکھ کر گاتے۔ اس معصوم بچے کی دل سوز آواز نے پورے ہندوستان کو چونکا دیا۔ سہگل نے اس کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی، وہ خود مدن کی آواز کا گرویدہ تھا۔

صرف ساڑھے تین یا چار برس کی عمر میں مدن نے پہلی پبلک پرفارمنس دی۔ انھوں نے راگ در پد میں گانا سنایا تھا۔ سامعین موسیقی پر ان کی گرفت پہ حیران رہ گئے تھے۔ موسیقی کے راگوں سے واقفیت رکھنے والے حیران تھے کہ جو سُر مدن کے گلے سے نکل رہے ہیں اور جو کیفیت اس کم عمر بچے کی وہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ انتہائی حیران کن ہے۔ کیا اس کے گلے میں بھگوان بول رہے تھے؟ سُر تال پہ ان کی گرفت اور ایک وجدانی کیفیت نے انھیں راتوں رات مشہور کر دیا۔ سنگیت کی محفل کے اختتام پر انھیں ایک سونے کی انگوٹھی اور گولڈ میڈل دیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بڑے اخباروں میں ان کی تصاویر شایع ہوئیں اور وہ ایک ’’ننھے منے لیجنڈ‘‘ بن گئے۔ اب ہر جگہ ان کی تصاویر کے پوسٹر لگے نظر آتے۔

وہ باقاعدگی سے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ملک کے مختلف شہروں میں فن گائیکی کے مظاہرے کے لیے جاتے۔ بے شمار انعامات، تحفے اور نقد رقوم جب وہ لے کر گھر آتے تو گھر والے نہال ہو جاتے۔ خصوصاً ان کی ماتا جی پورن دیوی جو ایک مذہبی گھریلو خاتون تھیں اور ان کی بڑی بہن شانتی دیوی بڑی محبت سے وہ تمام گولڈ میڈل سنبھال کر رکھتیں جو مدن کو انعام کے طور پر ملتے تھے۔

اور جب وہ کہیں پرفارمنس کے لیے جاتے تو بڑی دعاؤں اور محبت سے وہ تمام گولڈ میڈلز شانتی دیوی اپنے چھوٹے بھیّا کے گلے میں ڈال دیتیں۔ اب جو پوسٹر لگتے ان میں تصاویر اور نام تو دونوں بھائیوں کے ہوتے۔ لیکن ماسٹر مدن کا نام زیادہ نمایاں ہوتا کیونکہ واقعی لوگ مدن سے محبت کرتے تھے۔ اس کی رسیلی آواز میں کھو کر وہ سب دکھ بھلا دیتے تھے۔ موسیقی کی دنیا میں جو شہرت ساغر نظامی کو اپنی ان دو غزلوں کی وجہ سے ملی جو ماسٹر مدن نے گائی تھیں، ویسی لازوال شہرت شاید ہی کسی دوسرے شاعر کو ملی ہو، جہاں بھی جائیے اور ماسٹر مدن کے گیت طلب کیجیے۔ یہی دو غزلیں آپ کو دستیاب ہوں گی۔   (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔