آئی جے آئیاں بمقابلہ کھپے ٹیکنالوجیاں

طاہر سرور میر  اتوار 21 اکتوبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

ساغر صدیقی نے فرشتوں جیسی پارسائی رکھنے والوں کے رونق ِ بازار بننے کا وقوعہ یوں بیان کیا تھا کہ

کل جنھیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں

وطن عزیز میں اس وقت اچھی خاصی ’’رونق‘‘ دکھائی دے رہی ہے اور اس کی وجہ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ 90ء کے انتخابات میں اس وقت کے صدر اسحاق خان، آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کے ٹرائیکا نے قوم کے کروڑوں روپے سے ایک انتخابی اتحاد ( آئی جے آئی) کو کامیاب کرایا تھا۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ان انتخابات کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تھے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تین قرار دادیں منظور کی گئی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ ’’شریف برادران کو نا اہل، جنرل بیگ اور جنرل اسد درانی کا کورٹ مارشل کیا جائے۔‘‘

پیپلز پارٹی کاموقف پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی وساطت سے سامنے آیا ہے۔ پرابلم یہ ہے کہ راجہ ریاض کو پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اﷲ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ رانا صاحب نے فرمایا ہے کہ راجہ ریاض کی انھی یاوہ گوئیوں کی وجہ سے سپریم کورٹ میں انھیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن وہ باز نہیں آتے۔ انھوں نے سوال کیا کہ راجہ ریاض الیکشن کمیشن سے (آئی جے آئی) کی کس قیادت کو نا اہل قرار دلانا چاہتے ہیں، آدھی سے زیادہ آئی جے آئی تو اس وقت ان کے ساتھ شریک اقتدار ہے۔

رانا صاحب نے فیصل آبادی لہجے میں کہا کہ راجہ ریاض اپنے اس بیان پر ایوان صدر سے ’’تمغہ شرمندگی‘‘ ملنے پر تیار رہیں۔ رانا ثنا اﷲ ماضی میں جیالے رہ چکے ہیں اس لیے گھر کے بھیدی ہونے کی نسبت سے جانتے ہیں کہ لنکا کیسے ڈھائی جاتی ہے۔ ویسے بھی رانا ثنا اﷲ کی حس ظرافت اور رگ سیاست راجہ ریاض سے زیادہ اچھی پھڑکتی ہے لہٰذا وہ اس ڈیزائن کے ’’پنجاب جگت فیسٹیول‘‘ جیت کر اپنے آپ کو تمغۂ حسنِ کارکردگی کا اہل ثابت کرتے رہتے ہیں۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض تمغے واقعی بعض ’’بڑوں‘‘ کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا اکثر ہوتا رہا ہے، ماضی میں تو ایسا کثرت سے ہوتا رہا۔ چند ایک مثالیں مجھے یاد بھی آ رہی ہیں کہ منیرؔ نیازی سے قبل ایک ایسے شاعر کو پرائڈ آف پرفارمنس دے دیا گیا تھا جس کا دھیان شعر سے زیادہ شیئر کی طرف رہتا تھا۔ ٹی وی کے بہترین ایکٹر کا ایوارڈ کراچی کے ایک ایسے ایکٹر کو دے دیا گیا جس کی ایکٹنگ سے زیادہ ہوسٹنگ (ڈیرہ نما گھر میں میزبانی) کے چرچے زیادہ ہیں۔ ایکٹنگ کے اس ’’رابن ہڈ‘‘ کے سامنے سہیل احمد جیسے ورسٹائل ایکٹر کو اس بار ایوارڈ کا مستحق قرار نہیں دیا گیا تھا۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور میں ایک ایسے نو آموز کو پرائڈ آف پرفارمنس دے دیا گیا جو گلوکار شوکت علی کے انداز گائیکی سے بے حد متاثر تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ لوک فنکار کی وضع قطع کا یہ گلوکار اپنے سے کئی سال سنیئر گلوکار شوکت علی سے شدید متاثر تھا لیکن ایوارڈ دینے والوں نے اصل سے پہلے نقل کو پرائڈ آف پرفارمنس دے کر ثابت کر دکھایا کہ ’’آئی جے آئی‘‘ کسی بھی شعبہ میں قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طر ف سے جنرل اسلم بیگ کو جو ’’تمغہ ء جمہوریت‘‘ دیا گیا تھا، اسے واپس لیا جائے۔

جنرل صاحب نے اس ضمن میں کہا ہے کہ یہ اعزاز جمہوری حکومت یا جمہوریت کی طرف سے فوج کے ادارے کو دیا گیا تھا، اگر پیپلز پارٹی وہ واپس لینا چاہتی ہے تو بے شک ایسا کر لے۔ ہمارے ہاں کسی فیصلہ، عمل اور ایسے دیگر عوامل کو انفرادی اور اجتماعی قرار دے کر ہمیشہ سے کنفیوژ کیا جاتا رہا ہے۔ بعض اوقات انفرادی فیصلے ادارہ ہذا پر ڈال کر خود کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربنایاگیا۔ہمارے ہاں اس ضمن میں 10سال، 11سال اور 8 سال پر مشتمل فوجی، نیم فوجی اور جمہوری ادوار کی مثالیں موجود ہیں۔

جنرل ضیاء برینڈ کا مارشل لاء جو صرف 90 دن کے لیے لایا گیا تھا وہ قومی سلامتی کی حدت سے پگھل کر 11 سال تک پھیلتے تو ہم سب نے دیکھا بھی ہے اور جھیلا بھی ہے۔ مارشل لاء کے بعد جب کبھی کورٹ مارشل جھیلنے کا وقت آیا تو کہا گیا کہ ہم تو فوج کے نظم و ضبط کے پابند تھے۔ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کہتے ہیں کہ مارشل لاء نافذ کرنے میں ٹرپل ون بریگیڈ کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، اس وقت کو ئی فوجی افسر حکم ماننے سے انکار کرے تو اسے کسی عدالت سے ریلیف نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ ہی حمید گل نے کہا کہ سابق آرمی چیف کا معاملہ ایف آئی اے کے سپرد نہیں کرنا چاہیے اس ضمن میں آرمی ایکٹ موجود ہے، لہٰذا انھیں کال کیا جا سکتا ہے۔ جرنیلوں کو سول یا فوجی کٹہرے میں لانے کے سوال پر جنرل حمید گل نے انجانے میں اپنی ’’ٹرپل ون بریگیڈ مجبوری‘‘ کو بلا جواز بھی تسلیم کر لیا ہے۔

جنرل بیگ اور جنرل حمید گل سمیت ان کے پیش رو جرنیل جو پیارے وطن میں ’’آئی جے آئیاں‘‘ بنانے میں مصروف رہے ان کے مائنڈ سیٹ کو شاید تبدیل نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ان کی طرف سے تو ہم سب کو ’’ناں‘‘ ہی سمجھنی چاہیے۔ جنرل بیگ نے جنرل ضیاء الحق کا طیارہ پھٹنے کے بعد اگر مارشل لاء نہیں لگایا تو انھوں نے آئین کے مطابق اپنی ڈیوٹی سرانجام دی ہے، اس ضمن میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انھیں ’’تمغہ ء جمہوریت‘‘ سے نوازا تھا تو اسے بھی قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔

جنرل بیگ اگرچہ ’’ناں‘‘ کر چکے ہیں لیکن اتمام حجت کے طور پر ہمارا انھیں مشورہ ہے کہ وہ تمغہ واپس کر کے ’’آئی جے آئی‘‘ جیسی جعل سازی پر قوم سے معافی مانگیں ۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔ ورنہ۔ افہام و تفہیم کے شہنشاہ اور ’’کھپے ٹیکنالوجی‘‘ سے قوم کی تھراپی کرنے کے ماہر حکمران یہ فرمان جاری فرما سکتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔۔۔۔ حکمرانوں اور سیاسی رہنماوں کی سیاست کے انھی رہنما اصولوں کے اثرات شعراء، صحافیوں اور ادبیوں کی جانب سے کرائی جانے والی ادبی کانفرنسوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ’’الحمرا ادبی کانفرنس‘‘ جس میں مدعو نہ کیے جانے پر ڈراما نگار خالد احمد نے لکھا ہے کہ ۔۔۔۔ ادبی کانفرنس بہترین انتقام ہے ۔۔۔۔ اس ادبی کانفرنس سے ادب کی کوئی خدمت ہو سکی یا نہیں اس کے اثرات تو سامنے نہیں آئے، لیکن اس ادبی سرگرمی کو سید ضمیر جعفری کے مشاہدوں سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ

نہ لینا نہ دینا، نہ آنا نہ جانا
مراسم سراسر ہیں نا محرمانہ
مگر دیکھنا جب انھیں مسکرانا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔