مسئلہ کشمیر حل کروانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے!!

احسن کامرے  پير 5 اکتوبر 2015
’’وزیراعظم پاکستان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

’’وزیراعظم پاکستان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: شہباز ملک/ایکسپریس

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70ویں اجلاس میں شرکت کے لیے دس روزہ دورے پر امریکہ گئے اور وہاں انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کیا۔

اس خطاب میں انہوں نے بھارت کو چار نکاتی امن فارمولا دیتے ہوئے اسے جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی۔ اس چار نکاتی فارمولے کے تحت یہ تجاویز دی گئیں کہ لائن آف کنٹرول پر مکمل فائر بندی کی جائے ، طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں، کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے اور سیاچن کو خالی کرکے اسے غیر فوجی علاقہ بنایا جائے۔ وزیراعظم نے پاکستان میںہونے والی تخریب کاری کے پیچھے بھارتی خفیہ ادارے کے ملوث ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ کہا کہ یہ مسئلہ 1947ء سے حل طلب ہے، اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں عملدرآمد کی منتظر ہیں جو اقوام متحدہ کی ناکامی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے اس خطاب میں اسلامی دنیا کے مسائل کا ذکر بھی کیا۔ ’’وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب اور اس کے اثرات‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کی گیا جس میںمختلف تجزیہ نگاروںنے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر فاروق حسنات (تجزیہ نگار)

اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی اپنی اپنی پالیسی اور مفادات ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مفادات کا استدقاق ہوجائے اور پھر وہ ممالک ایک گروپ کی شکل میں اپنے مفادات کے لیے کام کریں۔ میرے نزدیک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اصل ادارہ سکیورٹی کونسل ہے جو مسائل پر عملی طور پر کام کرتا ہے اور کارروائی بھی کرتا ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تمام ممبر ممالک اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے معاشرے کو کیسے دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کو کیا دکھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم دہشتگردی کو سپورٹ کرتے ہیں لہٰذا وزیراعظم کو اپنی تقریر میں اس تاثر کو ختم کرنا چاہیے تھا تاکہ دوسرے ممالک مطمئن ہوجاتے ۔ حال ہی میں پاک فوج کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دورہ جرمنی میں اپنی تقریر میں یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کی اور وہاں انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے، ہم اس معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کر کے دم لیں گے اور ہم اقتصادی ترقی چاہتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک جنرل راحیل شریف کی تقریر وزیراعظم کی نسبت زیادہ تھی۔

وزیراعظم نے کشمیر سے فوج ہٹانے کی بات کی جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان بھی اپنی فوج ہٹائے گا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں لوگوں کو پاکستانی پرچم اٹھانے پر پاکستان نے نہیں اکسایا بلکہ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 254کو ہٹا کر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت میں شامل کرے گا جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندو پنڈت جو 89ء میں کشمیر سے نکلے تھے واپس کشمیر لاکر آبادی کا تناسب خراب کرنے پر غور کیا جارہا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطین اور عرب ممالک میںکیا لہٰذا اگر آبادی کا تناسب خراب کردیا جائے گا تواستصواب رائے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی آبادی کا تناسب خراب کرنے کی کوشش اور آرٹیکل 245 ہٹانے کی سازش بے نقاب کرتے اوراقوام متحدہ کو اس پر سخت نوٹس لینے پر زور دیتے۔

سیاچن کے بارے میں وزیراعظم نے درست بات کی لیکن سرکریک کا مسئلہ بھی اہم ہے جو تقریباََ حل ہوچکا ہے، نقشہ بندی بھی ہوچکی ہے جبکہ صرف دونوں ممالک کے دستخط ہونا باقی ہیں جو بھارتی انکار پر ابھی تک نہیں ہوسکے۔ وزیراعظم کو اس مسئلے پر بات کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے صرف سیاچن کی بات کی جس سے ’’گڈوِل‘‘ نہیں بنی۔ ہونا تو ایسے چاہیے تھا کہ جو معاملہ حل ہورہا ہے پہلے اسے حل کرلیا جائے۔ اس وقت بھارت نے ہٹ دھرمی کا موقف اپنا لیا ہے، بھارت کوکاؤنٹر کرنے کے لیے ہمیں اس کے مقاصد سمجھنا ہوں گے۔ مجھے شک ہے کہ اوبامہ کے ساتھے ملاقات میں وزیراعظم کو افغانستان اور دہشت گردی کے معاملے پر ڈومور کا کہا جائے گا لہٰذا ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ ہم دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس وقت ہم خارجی معاملات میں گھرے ہوئے ہیں، ہمیں اپنے معاملات حل کرنے کے فل ٹائم وزیرخارجہ بنانا ہوگا اور مسائل کو غیرمعمولی طریقے سے حل کرنا ہوگا۔

محمد مہدی (دانشور و رہنما پاکستان مسلم لیگ(ن))

پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلے بھی خطاب ہوتے رہے ہیں مگر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ خطاب اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس میں وقت کا استعمال اچھے طریقے سے کیا گیا۔ وزیراعظم نے 10 منٹ کی بجائے 16منٹ کی تقریر کی اور تمام مسائل پر بات کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ تین سالوں سے وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کررہے ہیں اور انہوں نے تینوں مرتبہ مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا۔ اس مرتبہ انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر بات کی بلکہ اسے حل کرنے کا طریقہ بتایا اور اس پر تجاویز بھی پیش کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اقوام متحدہ کی ناکامیاں بھی گنوائیں جن میں بڑی ناکامیاں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ ہے۔ فلسطین کے بارے میں ہماری طرف سے بات نہیں ہورہی تھی، وزیراعظم کی اس تقریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے پوری دنیا کے مسائل پر بات کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایران کا جو مختلف ممالک کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے اس پر بھی بات کی اور اسے سراہا۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی مستقل سیٹوں کے حوالے سے اصلاحات پر رضامندی ظاہر کی لیکن ساتھ ہی یہ واضح بھی کردیا کہ ہم سکیورٹی کونسل میں مزید ویٹو برداشت نہیں کریں گے اور کسی صورت بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے داعش پر بھی گفتگو کی اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ یہ تنظیمیں کیوں بنتی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس پر بھی گفتگو کی۔ وزیراعظم نے ضرب عضب کا ذکر کیااور یہ واضح کیا کہ فوج اور سول قیادت ایک پیج پر ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی وزیراعظم نے بات کی اور انہوں نے چینی صدر کا ذکر بھی کیا کہ ان کے دورہ پاکستان پر پاک چین اقتصادی راہداری پر کیا بات کی گئی۔جرمنی میں فوجیوں کا جو اجتماع ہوا اس میں جنرل راحیل شریف نے بھی پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے یہی بات کی جو وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے خطاب میں کہی ۔ اس سے سول ملٹری قربت ثابت ہوتی ہے کیونکہ دونوں نے عالمی فورمز پر ایک ہی موقف اپنایا ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھارتی منفی کردار کے باوجود ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی بات کی۔

بھارتی وزیرخارجہ نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے جنرل اسمبلی کے خطاب کے ردعمل میں سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی اور نام لے کر تجاویز کو مسترد کیا۔ پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کی تقریر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں اپنا ردعمل جمع کروایا ہے اوریہ بھی بتایا ہے کہ کشمیر پر قبضہ کیا گیا ہے اور بھارتی وزیرخارجہ نے غلط بیانی کی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے بھارت پر یہ واضح کردیا ہے کہ اگر بھارت چار نکات پر بات نہیں کرنا چاہتا تو پاکستان بھی ایک نکتے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کا مقصد دنیا کے لیڈروں کے ساتھ تعلقات کا فروغ اور دنیاکے سامنے اپنا موقف پیش کرنا ہے۔ وزیراعظم کی بان کی مون سے جوملاقات ہوئی اس میں بھی وزیراعظم نے اپنا موقف بھرپور طریقے سے پیش کیا۔ پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے، وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں نے ہی یہ کہا ہے کہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں۔میرے نزدیک وزیراعظم کاجنرل اسمبلی کا یہ خطاب 23اکتوبر کی ملاقات کی پیش بندی ہے۔ پاکستان نے اپنی پالیسی واضح کردی ہے لہٰذا 23اکتوبر کو واشنگٹن کی ملاقات میں اس کا ’’فالو اپ‘‘ ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کا آئندہ ہفتوں میں کیا ردعمل سامنے آتا ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم یہ کہنا کہ اس کے فوری نتائج نکلیں گے ایسا ممکن نہیں ہے۔

بریگیڈئیر (ر) سید غضنفر علی (دفاعی تجزیہ نگار)

ماضی میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانا پڑے۔ اسی طرح جب امریکہ نے چین کے ساتھ تعلقات اسطوار کرنا تھے تو اسے پاکستان کا تعاون حاصل کرنا پڑا۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے عالمی طاقتیں اسے نظر انداز نہیں کرسکتیں۔ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑاملک ہیںجبکہ رقبے کے لحاظ سے ہم ایک چھوٹا ملک ہیں مگر اس کے باوجود ہم نے بغیر کسی مالی فائدے کے صرف اخلاقیات پر دوسروں کا ساتھ دیا۔ آج ہم جن حالات میں کھڑے ہیں ایسی صوتحال میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں وزیراعظم کے اس خطاب کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔ وزیراعظم کے خطاب کو صرف چار نکات کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اسے وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کا موضوع امن، تحفظ اور انسانی حقوق پر مبنی ہے اور وزیراعظم نواز شریف کی یہ تقریر اقوام متحدہ کے ان تین مقاصد کو پورا کرتی ہے اور انہیں پورا کرنے کے لیے سوچ کی ایک راہ دیتی ہے۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر بات کی جہاںانسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جب انسانی حقوق پامال کیے جائیں گے، لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جائے گا اورمظلوم لوگوں پر بمباری کی جائے گی تو پھر امن کیسے قائم ہوگا۔ کشمیر میں بھارتی فوج معصوم لوگوں پر ظلم کی انتہا کررہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور آئی سی آئی سی کی جون 2015ء کی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ایسی 40 قبریں ملی ہیں جن میں 2156 لوگ دفن تھے اور یہ سب کشمیری تھے۔ وزیراعظم نے اپنی اس تقریر میںکشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بات کی اور یہ کہاکہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردار 1948 ء سے موجود ہے۔ اس قرارداد کے مطابق کشمیر میں امن قائم کیا جائے گا،رائے شماری سے اس کا فیصلہ کیا جائے گا اور خطے میں امن کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین بھیجے جائیں گے جو یہاں معاملات کا مشاہدہ کریں گے اور پھر اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق معاملہ حل کیا جائے گا۔ 1948ء میں نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم کو ٹیلی گرام دیا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اقوام متحدہ سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے۔

اسی طرح شملہ معاہدے میں بھی یہ واضح ہے کہ اگر دونوں ممالک اس مسئلے کو حل نہیں کریں گے تو اقوام متحدہ یہ مسئلہ حل کروائے گا لہٰذا ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آج پاکستان نے اقوام متحدہ کو یہ کہا کہ آپ کی کارکردگی شفاف اور جوابدہ نہیں ہے لہٰذا آپ کو اپنی کارکردگی شفاف اور جوابدہ بنانی ہوگی،کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ حل کروانا ہوگا اور اس کے لیے وزیراعظم نے چار نکاتی تجاویز بھی دیں۔ تین سال قبل جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی نے بھی کہا تھا کہ سیاچن کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور پھر یہ تجویز دی گئی کہ ساچن سے فوج نکا لی جائے لیکن اس وقت بھی بھارت نے ہٹ دھرمی دکھائی۔ نریندر مودی اوران کی سرکار کی سوچ دہشتگردی پر مبنی ہے۔ انہوں نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بھارت کی قیادت میں بچپن سے ہی دہشت گردی شامل ہے لہٰذا ان لوگوں کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے پاکستان کو ایسی ٹھوس تجاویز دینا تھیں جس سے دنیا کو یہ پیغام ملے کے پاکستان اپنا مقدمہ اصولوں پر لڑ رہا ہے جبکہ بھارت دہشت گردی کررہا ہے اور پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ دنیا نے پاکستان کے اصولی موقف کو تسلیم کیا ہے۔

اوباما نے بھی یہ کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حل طلب مسئلہ ہے اور اسے اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل کرنا چاہیے۔ پاکستان کی کوششیں اخلاقی اور قانونی طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہیں اور ہم نے خطے کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا موقف دنیا کے سامنے واضح کیا ہے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو طاقتور ممالک کا کلب نہیں بننا چاہیے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اقوام متحدہ کو شفاف اور جوابدہ بناناجائے ۔وزیراعظم کے اس موقف کی 15 ممالک نے تائید کی ہے کہ اقوام متحدہ کو طاقتور ممالک کا کلب نہ بنایا جائے۔مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سرحدی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ بھارت دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور ان کے ذریعے پاکستان میں کارروائیاں بھی کروارہا ہے۔ اس لیے اگر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج یہ کہتی ہیں کہ ہم صرف دہشت گردی پر بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بھی یہ کہنا چاہیے کہ سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی تو کشمیر میں ہورہی ہے، وہاں انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں لہٰذا اگر بھارت دہشت گردی پر بات کرتا ہے تو سب سے پہلے کشمیر میں ہونے والی بھارتی دہشت گردی کو ختم کیا جائے ۔میرے نزدیک پاکستان نے دنیا کے سامنے اپنا موقف واضح کردیا ہے لیکن یہ صرف ایک تقریر تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ سفارتی، حکومتی و انتظامی سطح پر کام کیا جائے اور اس موقف کومزید مضبوط بنایا جاے تاکہ معاملات حل ہوسکیں۔

 ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

نریندر مودی سرکار نے اقتدار میں آتے ہی سرحدی خلاف ورزیوں اور افغانستان سے مداخلت کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ میرے نزدیک ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس یہ نادر موقع تھا کہ ہم اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کرتے اور یہ بتاتے کہ بھارت کس پالیسی پر کام کررہا ہے۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بات کی، اقوام متحدہ کی کارکردگی پر اعتراضات اٹھائے اور دنیا کو یہ بتایا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن بھارتی نقطہ نظر صحیح نہیں ہے۔ بھارت جو دہشت گردی کی بات کررہا ہے اس میںپاکستان کیا قربانیاں دے چکا ہے وہ دنیا کے سامنے ہیں ۔گزشتہ چند سالوں میں ہم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دنیا میں لیڈنگ رول ادا کیا ہے اور جس طرح جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی ہے دنیا اسے تسلیم کرتی ہے۔ عالمی سیاست میں بھارت کی ایک پوزیشن ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت پر کتنا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے اوروزیراعظم کے خطاب کے کیا مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔

وزیراعظم کی تقریر اہم تھی، انہوں نے بھرپور طریقے مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائی لیکن اہم یہ ہے اس وقت اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کاسٹیٹس کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چیپٹر 6پر ہے، اب اگر ہم اس مسئلے کو چیپٹر7پر منتقل کروانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ہماری بہت بڑی جیت ہوگی اور ایساپانچ مستقل ممبروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اگر پاکستان اتنی کامیابی حاصل کرلے کہ اس ایجنڈے کو مینڈیٹری ایجنڈے پر لے جائے تو پھر اسے ہر حال میں حل کروانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری بن جائے گی۔ امریکی صدر اوباما نے حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی موقف کی تردید کی ہے لہٰذا ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس مسئلے کو ہر حال میں اقوام متحدہ کے ذریعے حل کروائیںجس طرح اس نے باقی ممالک کے مسائل کو حل کیا۔بڑی طاقتیں اپنے کمرشل مفادات دیکھتی ہیں، وہ وقتی طور پر ہمیں تسلی دے دیں گی، مذاکرات کا بھی کہا جائے گا لیکن چند دن بعد اس کا اثر بھی ختم ہو جائے گا۔ کمرشل مفادات کے حوالے سے دنیا کے لیے بھارت کے مقابلے میں ہماری اہمیت کم ہے اس لیے ابھی بھارت پر دباؤ ڈالنا مشکل نظر آرہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات شروع کرے لہٰذا ہمیں پہلے اپنے اندرونی مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا، اپنی معیشت مضبوط کرنا ہوگی اور کشکول توڑنا ہوگا۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم بڑی طاقتوں اور بڑے اداروں سے امداد لیتے رہیں گے تب تک ہمیں دنیا میں پذیرائی نہیں ملے گی۔ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی معیشت کے لیے دنیا پر انحصار کررہے ہیں جبکہ بھارت دنیا پر انحصار نہیں کرتا۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی 25سال قبل تک دنیا میں کوئی اہمیت نہیں تھی اور نہ ہی عالمی سیاست میں اسے کردار اداکرنے دیا جاتا تھا بلکہ اس کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں اور 71ء تک اسے اقوام متحدہ کا ممبر نہیں بننے دیا گیا۔پھر جب اسی چین نے اپنی معیشت کو مضبوط کیاتو اسے ہانگ کانگ اور میکاؤ واپس مل گیا جبکہ تائیوان کے مسئلے پر بھی معاملہ بہتری کی طرف جارہا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ بڑی طاقتوں پر انحصار کرنا ہے لہٰذا ہمیں اپنے ملک کو مضبوط کرنا ہوگا اور یہاں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ عالمی طاقتوں کے کمرشل مفادات یہاں پیدا ہو جائیں ۔ جب دنیا یہ سمجھے گی کہ پاکستان میں اس کے مفادات ہیں تو پھر دنیا بھر میں ہماری شنوائی بھی ہوگی اور ہمارا اثرورسوخ بھی بڑھے گا۔ میرے نزدیک وزیراعظم کی اس تقریر کا وقتی اثر ہوگا لہٰذا جب تک ہم خود کو اندرونی طور پر مضبوط نہیں بنائیں گے تب تک ہم بھارت پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔