قیمتی وقت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 5 اکتوبر 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

وقت بڑا قیمتی ہوتا ہے اس کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال میں لانا چاہیے، وقت کا درست استعمال ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے مگر ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے اور اس کے غلط استعمال کے باعث بعض اوقات انتہائی سخت نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں تو یہ ایک عام بیماری بن چکی ہے کہ ہر دوسرا شخص خواہ وہ سڑک پر ڈرائیو کر رہا ہو یا بازار سے کچھ سودا سلف خرید رہا ہو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ بس کسی طرح تمام لوگوں کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے سب سے پہلے خود فارغ ہوجائے یا اپنا کام مکمل کرلے، سگنل پر سرخ بتی نظر آئے تو تب بھی بہت سے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تمام ٹریفک کو چیرتے ہوئے آگے نکل جائیں۔

سودا سلف لینے والا شخص پہلے سے کھڑے لوگوں کو برداشت کرنے کو تیار نظر نہیں آتا، کوشش ہوتی ہے کہ اس کے پہنچتے ہی کے ساتھ سب سے پہلے اس کو سودا دیا جائے۔ اس جلد بازی کا انجام کیا ہوتا ہے؟ کبھی اسپتال جا کر دیکھیے، کسی بڑے اسپتال کی ایمرجنسی میں جاکر دیکھیے، پورا دن وقفے وقفے سے زخمی لوگ لائے جا رہے ہوتے ہیں، کوئی موٹرسائیکل سے تو کوئی کسی اور گاڑی سے حادثے کا شکار ہوا ملتا ہے ان سب میں سے بیشتر حادثات کی وجہ جلد بازی اور غفلت ہوتی ہے۔ اگر تھوڑا سا توقف کر لیا جائے تو بہت سے ممکنہ حادثات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہمارے ایک بھتیجے کو سامنے سے آتی ہوئی تیز رفتار سوزوکی نے ٹکر ماردی، واقعے کے وقت موجود لوگوں کے مطابق سوزوکی والا انتہائی تیزی میں تھا اور ایک ٹھیلے والے کو بچاتے ہوئے اس نے ہمارے بھتیجے سے اپنی گاڑی ٹکرا دی۔ ممکن ہے اس سوزوکی ڈرائیور کے پاس وقت نہ ہو اور وہ اپنے کسی کام کو کرنے کے لیے اپنے چند منٹ بچانا چاہتا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے ان چند منٹ کی بچت نے ہمارے بھتیجے کو اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں پہنچادیا، جہاں وہ تادم تحریر گزشتہ دس روز سے بے ہوشی کی حالت میں ہے۔ (قارئین سے دعا کی التماس ہے)۔ ذرا غور کیجیے کسی خاندان کا سب سے بڑا بیٹا، عمر 23 سال، گریجویشن کا آخری سال، گھر والوں کا اہم سہارا۔ کسی کے چند منٹ کی بچت نے اس گھرانے پر کیا کچھ مسائل لا کھڑے کردیے؟

ہمارا بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے معاملات پر غور وخوض کرنے کے لیے بھی وقت نہیں رکھتے۔ باہر آتے جاتے بھی اپنے اردگرد ماحول پر غور و فکر نہیں کرتے، ہم خود اپنے لیے کس قدر مسائل پیدا کرتے ہیں اس پر غور کرنے کا بھی ہمارے پاس وقت نہیں۔ راقم کے روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب گلی بازار، سڑک پر گاڑیاں چلانے والے جلد بازی میں نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ’’کامن سینس‘‘ کے اعتبار سے بھی سنگین غلطیاں کرتے ہیں محض چند سیکنڈ تک بچانے کے لیے جان کا ’’رسک‘‘ لے کر ڈرائیونگ کی جا رہی ہوتی ہے اور پھر دوسری طرف دیکھیں تو سخت حیرت ہوتی ہے کہ یہی جلد بازی کرنے والے کہیں ہوٹلوں پر بیٹھے چائے پیتے اور فضول کی گفتگو کرتے ہوئے گھنٹوں گزار دیتے یا کسی ڈبو یا کیرم بورڈ وغیرہ کھیلنے میں وقت ضایع کرتے یا پھر گھر پر ٹی وی دیکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں۔

کیا یہ بڑی حماقت نہیں ہے کہ ایک طرف تو جان خطرے میں ڈال کر محض چند منٹ کی بچت کے لیے غلط انداز میں ڈرائیونگ کریں کہ جیسے ہمارے چند سیکنڈ بھی کسی حکمران سے کم اہم نہ ہوں لیکن گھر پہنچنے کے بعد گھنٹوں ٹی وی کے آگے یا ہوٹلوں پر وقت ضایع کردیں۔ آخر ہم اپنے وقت کو درست طریقے سے استعمال کرنا (مینیج کرنا) کب سیکھیں گے؟ گھر سے باہر دفتر جانا ہو یا کہیں کسی کام سے جانا ہو، ہم میں سے اکثر کی عادت بن چکی ہے کہ ہمیشہ گھر سے دیر سے نکلیں گے اور پھر راستے میں ڈرائیونگ تیز تر، خطرناک انداز میں کریں گے، دیر سے دفتر پہنچ کر دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کریں گے، اس دوران نہ جانے کتنے لوگ حادثات کا شکار ہوکر اسپتال بھی پہنچتے ہیں۔ یہ قومی ’’عادت‘‘ بہت پرانی ہے جس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ آج سے کوئی پندرہ یا 20 سال پہلے ریڈیو پاکستان اپنے پروگراموں کے دوران سامعین سے یہ درخواست کرتا تھا کہ ’’اپنی منزل پر کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے کچھ دیر سے پہنچ جائیں۔‘‘

بظاہر یہ سب باتیں بہت معمولی سی لگتی ہیں لیکن یہ کتنی اہم اور غیر معمولی ہیں کبھی ان سے پوچھیے جو حادثات کا شکار ہوچکے ہیں۔ آپ کسی سڑک کے کنارے کھڑے ہوجائیے آپ کو سب اچھا لگے گا۔ زندگی کا پہیہ رواں دواں لگے گا بلکہ کوئی نوجوان اگر ایک پہیے پر موٹرسائیکل (ون ویلنگ) کا کرتب دکھاتے گزر رہا ہو تو یہ بھی بہت اچھا لگے گا اور آپ بہت محظوظ ہوں گے لیکن اچانک کوئی حادثے کا شکار ہوجائے تو پھر آپ اس کے ساتھ ساتھ جائیے اور دیکھیے حادثے کے بعد کیا مسائل شروع ہوتے ہیں؟

خدانخواستہ کسی کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جائے، ایمبولینس آئے اور زخمی کو ایمبولینس میں ڈال کر فوراً اسپتال کی طرف روانہ ہوا جائے تو مسائل کا آغاز ہوجاتا ہے، اب اگر زخمی آپ کا کوئی جگری عزیز ہے تو آپ کو احساس ہوگا کہ یہ بے حسی معاشرہ تو ایمبولینس کی آواز سنتے ہوئے بھی راستہ دینے کو تیار نہیں یا لوگوں کی جلد بازی کے باعث ٹریفک جام ہے اور راستہ آگے جانے کے لیے دستیاب نہیں جب کہ آپ کا دل چاہ رہا ہے کہ کسی طرح اڑ کر اسپتال پہنچا جائے تاکہ اپنے جگر گوشے کی زندگی بچائی جاسکے۔

اسپتال پہنچنے کے بعد نئے مسائل کا سامنا ہوگا کہ جب کسی بڑے سرکاری اسپتال میںپہنچ کر آپ کو پولیس رپورٹ بھی کرانی ہوگی اور فوری علاج بھی، کبھی پرچی بنوانے کے لیے تو کبھی ایکسرے کرانے کے لیے تو کبھی دوا اسپتال سے باہر جاکر کسی اسٹور سے خریدنے کے لیے ان تمام کاموں کے لیے زخمی کے ساتھ کم ازکم تین چار افراد کا ہونا ازحد ضروری ہوگا کیونکہ ان اسپتالوں میں ایمرجنسی میں بھی خون ٹیسٹ، ایکسرے پھر ان کی رپورٹس کے لیے الگ الگ بلاک اور الگ الگ منزلیں (فلور) کے چکر لگانا ہوں گے۔ اور اگر آپریشن کے مرحلے تک پہنچ گئے تب بھی آپ کو ایک مستعد ٹیم کی ضرورت جو کسی بھی وقت ضروری کام مثلاً خون کا انتظام وغیرہ کرنے کے لیے ضروری ہوگی۔ یہ سب کچھ اس ایمرجنسی کی صورتحال میں کرنا ہوگا کہ جب کہ زخمی کے گھر والوں کو نہ جانے اطلاع بروقت مل بھی گئی ہوگی یا شاید نہیں اور پھر صرف اطلاع کافی نہیں، وہ ایک معقول رقم کے ساتھ اپنے متاثرہ فرد کے پاس پہنچ پاتے ہیں یا رقم ہی کا بندوبست کرنے کے لیے پریشان رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ خیر خیریت سے ہوجائے اور آپریشن بھی خوش قسمتی سے اچھی طرح ہوجائے تو بھی مسائل ختم نہیں ہوتے اب کم ازکم چھ ماہ تک ’’بیڈ ریسٹ‘‘ یعنی مکمل آرام کرنا ہوگا۔ اس دوران متاثرہ شخص اگر ملازمت کرنے والا ہے تو اس کی تنخواہ کہاں سے آئے گی؟ اگر طالب علم ہے تو سال ضایع ہوجائے گا اور پھر جو کوئی بھی ہو اس کی تیمار داری کے لیے بھی کسی مددگار کی ضرورت ہوگی کیونکہ واش روم کے لیے بھی ’’کموڈ‘‘ کی ضرورت پیش آئے گی۔

غور کیجیے من حیث القوم ہمارے وقت بچانے کی خطرناک ’’حکمت عملی‘‘ کے نتائج کس قدر خطرناک ہوتے ہیں۔ افسوس جو لوگ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی چند لمحے، منٹ بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں وہ جو چند منٹ بچانے کے باوجود بھی کوئی مثبت کام مثلاً کوئی اچھی کتاب وغیرہ پڑھتے نظر نہیں آتے ہاں ہوٹل یا کیرم بورڈ وغیرہ پر یا ٹی وی کے سامنے گھنٹے برباد کرتے ضرور نظر آتے ہیں۔ کہیں میں بھی ان وقت بچانے والے ’’لوگوں‘‘ میں سے تو نہیں؟ آئیے غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔