انسانی حقوق خطرے میں؟

نور پامیری  پير 12 اکتوبر 2015
شاید ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہماری اپنی سمجھ اور پرکھ کی صلاحیت ختم ہوجائے گی، کیونکہ معلومات ہمیں ایک ہی ذریعے سے مل رہی ہوں گی۔ فوٹو:فائل

شاید ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہماری اپنی سمجھ اور پرکھ کی صلاحیت ختم ہوجائے گی، کیونکہ معلومات ہمیں ایک ہی ذریعے سے مل رہی ہوں گی۔ فوٹو:فائل

فیس بُک ہندوستان اور دیگر ممالک کے سربراہان کے ساتھ محبت کی پینگیں اسلئے بڑھا رہا ہے، کیونکہ اسے صارفین چاہئیں۔ غور کیجئے کہ اگر بھارت کے ایک ارب سے زائد شہری فیس بُک کے صارف بن جائے تو اس کا منافع کھربوں ڈالرز تک بڑھ جائے گا۔

یاد رہے کہ فیس بک http://www.internet.org/ نامی ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے، جس کے ذریعے انٹرنیٹ کی سہولت پوری دنیا تک پہنچانا مقصود ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لئے فیس بک کو حکومتوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہ اچھی بات ہے، اس میں کیا خامی ہے؟ جی، اس میں بظاہر کوئی خامی نہیں ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ اگر آپ کی تمام معلومات ایک نجی کاروباری ادارے کے پاس ہوں تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ کے حقوق محفوظ رہیں گے؟ اسی معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اکیسویں صدی، جسے علم اور معلومات کی صدی کا نام بھی دیا جاتا ہے، علمی معیشت کی صدی ہے، لیکن اس علمی صدی میں جو معلومات آپ تک بہم پہنچائی جارہی ہیں ان کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟

مشہور امریکی مُصنف اور دانشور جناب نوم چومسکی نے اپنی ایک کتاب ’’مینوفیکچرنگ کنسینٹ‘‘،  یعنی ’’رضا مندی کی تعمیر‘‘ میں اس پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کے مطابق حکومتیں اور مضبوط کاروباری ادارے میڈیا کے ذریعے معلومات کی مسلسل تشہیر سے لوگوں کی رائے سازی کرکے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بظاہر کامیاب بھی نظر آتے ہیں، اب اگر دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی تک معلومات کی رسائی کا کام ایک بہت ہی مضبوط کاروباری ادارے کے سپرد کیا جائے تو عالمی سیاسی اور کاروباری طاقتوں کا کام تو بہت ہی آسان ہوجائے گا، لیکن شاید ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہماری اپنی سمجھ اور پرکھ کی صلاحیت ختم ہوجائے گی، کیونکہ معلومات ہمیں ایک ہی ذریعے سے مل رہی ہوں گی۔

میرا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں اس سورس (معلومات کا منبع) پر اثر انداز ہونے کی ہماری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہوگی، لیکن یہ معلومات ایک نامعلوم اور بتدریج انداز میں اشیاء، نظام، اقدار اور حقائق کے متعلق ہماری رائے سازی کرتی رہیں گی اور ہمیں ایسا محسوس ہوگا کہ جو ہم سمجھ رہے ہیں وہ ہماری اپنی سوچ کا نتیجہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہوگی کہ ہماری سوچ معلومات کے تابع ہوگی، اور معلومات کی درستگی کا براہِ راست انحصار ذرائع کی نیت پر ہوگا۔ ایسے میں علمی منڈی کے صارفین کی ’’رضامندی کی تعمیر‘‘ اچھنبے کی بات نہ ہوگی۔

اسی بحث کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ریاستوں کے لئے حکومت کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے، اگر وہ شہریوں کے بارے میں ہر ایک چیز کی معلومات تک رسائی حاصل کرسکے، ایسے میں حکومت اور ریاست کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں اور بااثر افراد اور اداروں کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو دبانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ تصویر کا ایک بھیانک رُخ ہے، لیکن کیا اس پہلو کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟

معاشی عالمگیریت اور اقتصادی ترقی کے فائدے بہت ہیں، لیکن اس کے مضمرات سے باخبر رہنا بھی لازم ہے، کیونکہ صارف اور ممالک کی فلاح و بہبود ہر کارپوریشن کا مقصد نہیں ہوتا ہے، بلکہ ان کا اولین مقصد منافع بڑھانا ہوتا ہے۔ صارف اپنے حقوق سے آگاہ نہ ہو تو کارپوریٹ و غیر کارپوریٹ ادارے اس کا کچومر نکال سکتے ہیں، بلکہ کافی حد تک اب بھی نکال رہے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بہت سارے کارپوریٹ ادارے بہت سارے قومی حکومتوں اور ریاستوں سے زیادہ اثرورسوخ اور وسائل رکھتے ہیں۔ ان وسائل کے ساتھ وہ حکومتی پالیسی پر مکمل طور پر اثرانداز ہوتے ہیں، بلکہ اپنی پسند کی حکومتیں بھی بنواتے ہیں۔ ایسے میں صارف کے حقوق کی پاسداری کے لئے مضبوط ادارے بنانا جان جوکھوں کا کام ہے۔

21 ویں صدی کارپوریٹ اداروں کی اجارہ داری کی صدی ہے، اور ان کارپوریٹ اداروں کا ہماری زندگیوں میں عمل دخل بہت حد تک بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں مسلسل آگاہی کے ساتھ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد نہ کی جائے تو انسان پِس کر رہ جاتا ہے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری تمام معلومات ایک نجی کاروباری ادارے کے پاس ہوں تو کیا ہمارے حقوق محفوظ رہیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

نور پامیری

نور پامیری

مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ایک بین الاقومی غیر سرکاری ادارے میں کمیونیکیش ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ سے ٹوئٹر @noorpamiri پر کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔