معرکۂ قسطنطنیہ، حیرت میں تھی دُنیا (پہلاحصہ)

تشنہ بریلوی  ہفتہ 10 اکتوبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

بزنطینی سلطنت کے دارالحکومت اور عیسائیت کے بڑے مرکز قُسطُنطُنیہ کا محاصرہ ترکوں کی جرأت اور شجاعت کے ساتھ ساتھ سلطان محمد ثانی کی بے مثل روشن دماغی کا بھی ایک ایسا شاندار مظاہرہ تھا کہ سارا یورپ اب تک اس کی تعریف میں رطب اللسان ہے اور دوسرے تمام مورخوں کی طرح مشہور انگریز تاریخ داں آرنلڈ ٹائن بی Toynbeeنے بھی اس فتح کو تاریخ کے عظیم ترین کارناموں میں شمار کیا ہے۔جو کام اڈولف ہٹلر اپنی بے پناہ طاقت کے باوجود نہ کرسکا وہ اس ترک بادشاہ نے کردکھایا۔

خانہ بدوش ایغور نسل کے ترک قبائل ترکستان کے آس پاس ’’مرو‘‘ میں آباد تھے اور ’’اوغوزیاغبو‘‘کے نام سے ایک وفاق قائم کررکھا تھا لیکن وہ دور ایسا تھا کہ قبائل کے درمیان برابر لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں لہٰذا وہاں سے نکل کر یہ قبائل خراساں اور شام میں پھیل گئے ۔انھوں نے فارسی زبان کو اپنالیا اور اسلام بھی قبول کرلیا۔985 میں اُن کا سلجوق سردار اناطولیہ ( ایشیائے کوچک Asia minor) کے پلیٹو تک پہنچ گیا اور بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ۔ یہاں اُس وقت یونانیوں کی بزنطینی Byzantineحکومت تھی اور یہ علاقہ بھی ’’روم‘‘ ہی کہلاتا تھا ۔ سلجوق کے پوتے طغرل بیگ اوراس کے بھتیجے الپ ارسلان نے بھی سلجوق اقتدارکو بہت مضبوط کیا۔ سلجوقیوں ہی کے دور میں عمرخیام نے شاہکار رباعیاں لکھیں جن کو انگلش میں ڈھال کرفٹزجیرالڈFitzjeraldنے نام کمایا، اسی دورمیں الغزالی کا فلسفہ بھی دنیا کے سامنے آیا اور عظیم مدرس نظام الملک (طوسی) بھی سلجوقیوں کا ہی وزیر تھا جس نے’’درسِ نظامی‘‘ ترتیب دیا جو اب تک چل رہا ہے۔

سلجوق سلطنت کو1157میں خوارزم شاہ نے تباہ کیا لیکن قونیہ میں سلجوقیوں کی ایک شاخ موجود رہی جسے 1279میں منگولوں کے لشکر نے شکست دی۔ جلد ہی ترکوں کا ایک نیا قبیلہ ’’عثمانی لی‘‘ نمودار ہوا‘ جو رفتہ رفتہ Ottaman بن گیا ۔ اس قبیلے کا سردار ’’ارطغرل‘‘ تھا جس کے جس کے بیٹے ’’عثمانِ اوّل‘‘ نے اناطولیہ میں سلطنتِ عثمانیہ Ottoman Empireکی بنیاد رکھی جو 1299سے لے کر 1922تک قائم رہی ۔600 سال تک مشرق وسطیٰ جنوب مشرقی یورپ اور سینٹرل ایشیا پراس کا غلبہ رہا ۔ نیزخلافت کے ذریعے ترکی سارے عالمِ اسلام پر چھایا رہا۔

عثمانیوں کے بادشاہ مراد اول نے بلقان کے کچھ علاقے پر قبضہ کیا لیکن صوبۂ تراکیہ(Thrace)اور دارالحکومت قسطنطنیہ(Constantinople) اس کے قبضے میں نہ آسکا ۔ پھر بھی مراد اوّل نے ’’سلطانِ روم‘‘ کا لقب اختیارکرلیا۔ 1402ء میں تیمور لنگ گورگان (خانوادۂ چنگیزکا داماد) کا لشکر ِ جرّار اناطولیہ پر حملہ آور ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور ایک سال تک لوٹ مارکرتا رہا ۔ کھوپڑیوں کے میناربنائے جو اس کا محبوب مشغلہ تھا ۔ جاتے وقت تیمورہارے ہوئے ترک سلطان بایزید اوّل کو ایک سنہری پنجرے میں قید کرکے اپنے ساتھ لے گیا :

کبھی خسرو کبھی دارا کبھی رشکِ سکندر ہیں
کبھی ہیں تختِ زرّیں پرکبھی پنجرے کے اندر ہیں
(تشنہؔ)

تیمور لنگڑاتھا اور فالج زدہ ۔ نیزخارش کا شکار بھی۔ وہ سمرقند کو جنت کی دہلیزکہتا تھا (شکر ہے جنت ہی نہیں کہہ دیا۔)

چالیس سال تک عثمانی ترک بد حال رہے ۔ پھر مراد ثانی نے اقتدارکو مضبوط کیا ۔ اسی زمانے میں ’’ولاخیا‘‘ کا نوعمر شہزادہ ’’ولاد ‘‘ سوئم ’’ وارنا‘‘ کی صلیبی جنگ کے دوران یرغمالی کے طور پر سلطان کے دربار میں لایاگیا ۔ یہاں اس نے بہت ذلت آمیز وقت گزارا ۔ یہی شاہ زادہ بعد میں کاونٹ ڈریکولا(Dracula)کے نام سے مشہور ہوا ۔رومانیہ میںیہ ظالم شہزادہ ایک ہیروکا مقام رکھتا ہے ۔ انگلش ناول نگارBram stokerنے اس پر ایک ’’ھارر‘‘ ناول Dracula لکھا جو بیحد مقبول ہوا۔

مرادثانی کے بعد اس کا بیٹا محمد ثانی تخت نشین ہوا۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ اپنی بادشاہت کو محفوظ کرلیا،کس طرح؟محمد ثانی نے اپنے بھائی کو،جو بچہ تھا ‘ قتل کروا دیا تاکہ وہ بڑا ہوکر اسے چیلنج نہ کرسکے ۔ ترک بادشاہت میں برادرکشی معمول کی بات تھی اورکسی کو اس پر حیرت نہیں ہوتی تھی ۔

ہوسِ تاج و تخت سر پہ سوار
کوئی بھائی نہ کوئی رشتہ دار

اب محمد ثانی نے اپنے اصلی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ یعنی بحیرۂ مرمرہ کے پاریورپی علاقہ میں واقع بزنطینیوں کے دارالحکومت قسطنطنیہ پر قبضہ۔ محمد ثانی 19سال کی عمر میں تخت نشیں ہوا۔ اس کا باپ تو بادشاہ تھا لیکن ماں ایک کنیز ۔اس نے سائنس اور فلسفے کے ساتھ ساتھ یونانی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا اور وہ سکندر اعظم کو اپنا ہیرو مانتا تھا اور اسی کی طرح ایک عظیم فاتح بلکہ فاتحِ عالم بننا چاہتا تھا۔

محمد ثانی کا باپ مراد ثانی 1444ء میں تخت سے دستبردار ہوگیا تھا۔ 12سالہ محمد ثانی اسی وقت سے قسطنطنیہ پر حملے کا منصوبہ بنارہا تھا ۔ مگر جلد ہی مراد ثانی واپس آگیا اور محمد ثانی کو حکومت کے کاموں میں ’’مداخلت ‘‘ کرنے سے روک دیا، تاوقتیکہ وہ علم اور تربیت حاصل نہ کرلے لیکن1451ء میں محمد ثانی کے دل کی مراد بر آئی ۔ باپ مراد ثانی انتقال کرگیا اور اب سلطان محمد ثانی کی راہ میںکوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اس نے فوراً قسطنطنیہ پر حملے کی تیاری شروع کردی۔

اُدھر قسطنطنیہ میں یونانی ارتھو ڈاکس چرچ اور رومن کیتھولک چرچ کے ماننے والوں کے درمیان زبردست اختلافات تھے جن کی وجہ سے بزنطینی حکومت کمزورہوگئی تھی لیکن پھر بھی قسطنطنیہ کو فتح کرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔یہ شہر بزنطینیوں کے لیے تو بہت اہم تھا ہی ،یہ ترکوں کی بھی آنکھ کا تارا تھا اور اس پر قبضہ کیے بغیر وہ اپنا اقتدار وسیع نہیں کرسکتے تھے ۔ قسطنطنیہ بحیرہ مرمرہ اورگولڈن ھارن (خلیج)کے درمیان واقع تھا ۔ مشرق میں بحرِ اسود Black seaاور مغرب میں بحیرہ ایجینAegean sea واقع تھے۔جہاں گیلی پولیGallipoliکا مشہور تکون بھی موجود تھا ۔ بحیرۂ مرمرہ کے مشرق میں آبنائے باسفورس Bosporusاور مغرب میں دردنیل Dardanelles (جس کو درہ دانیال بھی کہا جاتا ہے جو غلط ہے چونکہ درّہ تو پہاڑوں میں ہوتا ہے) مزے کی بات Bosporusکا ترجمہOxfordہے۔

بزنطینی شہنشاہ قسطنطین یازدھم پالیولوگوس Paleologos بھی ترک سلطان کی طرح جوان تھا ۔ اس نے شہرکی دوسری فصیلوں کو بہت مضبوط بنایا تھا اورکافی فوج جمع کر رکھی تھی۔ مزید برآں گولڈن ھارن کی کھاڑی میں جنگی جہازوں کاراستہ روکنے کے لیے ایک زبردست آہنی زنجیر (Boom) عرصہ دراز سے موجود تھی جیسے سڑک پرگاڑیوں کو روکنے کے لیے بیریر لگائے جاتے ہیں ۔ اس طرح قسطنطنیہ پر حملہ ناممکن بنادیا گیاتھا ۔ سلطان محمد ثانی کی دو لاکھ فوج ہر طرح سے لیس تھی ۔ بحریہ کو بھی مضبوط کیاگیا تھا اور دو سو سے زیادہ Galleys(چھوٹے جنگی جہاز ) تیار تھیں جو دونوں طرف لگی ایک درجن سے زیادہ پتوار وں سے رواں کی جاتی تھیں اور جن میں پچاس ساٹھ سپاہی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس موجود ہوتے چھوٹی توپیں بھی ہوتی تھیں۔محمد ثانی نے گیلی پولی پر Triremes(مسلح کشتیاں) اور بجرے جمع کردیے تاکہ مغرب سے بزنطینیوں کے لیے کوئی مدد نہ آسکے ادھر باسفورس کی یورپی پٹی پر ایک زبردست قلعہ ’’رومیلی حصار‘‘ بھی قائم کیا۔ مزید برآں چھوٹی توپوں کے علاوہ 26 فٹ لمبی بہت بڑی توپ بھی ایک ہنگارین انجینئر سے ڈھلوائی گئی تھی جو بے حد بھاری پتھرکے گولے 600)کلو سے زیادہ وزنی) دو میل کی دوری تک پھینک سکتی تھی ۔ یہ اس وقت کا خوفناک ترین ہتھیار تھا ۔ یہ توپ اتنی بھاری تھی کہ اس کو کھینچنے کے لیے 60 بیل باندھے جاتے تھے ۔

سلطان محمد ثانی کے مشیر حملے کے حق میں نہیں تھے اس کی کامیابی کا بھی بہت کم امکان تھا اور ناکامی کی صورت میں سلطنت عثمانیہ کے تباہ ہوجانے کا خدشہ تھا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔