چیخوں کا گلا گھونٹنے کی اجازت

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 10 اکتوبر 2015

مطلق العنان حکمران عوام پر جو مظالم کرتے ہیں وہ اکثریت پر اقلیت کا ظلم ہے، جسے قائم رکھنے کے لیے دھوکے اور فریب کا سہارا لیا جاتا ہے ۔اس فریب کاری کا پردہ چار صدیاں قبل فرانسیسی مفکر لابوتی (LaBoetie) نے اپنے مضمون ’’رضاکارانہ غلامی‘‘ میں چاک کیا تھا۔ وہ ایک عظیم سیاسی مصنف تھا جس نے اپنے دور کے شاہی استبداد کے خلاف ناقابل فراموش جدوجہد کی تھی ۔ اپنے مضمون میں وہ لکھتا ہے’’جابر اورمطلق العنان حکمرانوں کو فوج ہتھیار، گولہ بارود اور توپ خانہ قائم نہیں رکھتے بلکہ ان کے محافظ محض تین یاچار (زر خرید) افراد ہوتے ہیں ، جو پورے ملک کو ان کی غلامی میں دے دیتے ہیں۔

مطلق العنان حکمران  کے قریب ترین افراد کا حلقہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ لوگوں پر مشتمل ہوتاہے ۔ یہ لوگ یا تو چمچہ گیری سے اس کا قرب حاصل کر لیتے ہیںیا وہ انھیں خود منتخب کرتا ہے ۔ ان کا مقصد اس کے مظالم میںاس کی ہاں میںہاں ملانا اور جواباً اس کے تعیشات میں شریک ہونا اور لوٹ کے مال میں حصہ بٹانا ہوتا ہے۔ یہ چھ افراد اپنا اثرو نفوذ مزید چھ سو افراد پر قائم کرتے ہیںجوان کے حاشیہ بردار اور چمچہ گیر ہوتے ہیں۔ چھ سوافراد چھ ہزارافراد کو حلقہ بگوش کرتے ہیں جنہیں اہم سرکاری عہدے، انتظامی مراعات اور مالی اختیارات دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کی بدعنوانیوں اور مظالم کی تائید و حمایت کرتے رہیں اور اگر کوئی گہرائی میں اتر کردیکھنے کی کوشش کرے تو اسے اندازہ ہوگا کہ یہ محض چھ سو یا چھ ہزار افراد نہیں بلکہ لاکھوں افراد ہیں جو باہمی تعلقات اور مفادات کے رشتے میں منسلک ہو کر کھا پی رہے ہیں ۔

ان سرکاری عہدیداروں کی تعداد جس قدر بڑھتی جائے گی عوام پر ہونے والا ظلم و تعدی بھی اسی تناسب سے بڑھ جائے گا۔ اس طریقہ کار سے وہ خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور حکمران طبقے کو بھی کرتے ہیں جن لوگوں کو یہ سب کچھ راس آتا ہے یا جن کے مفادات اس میں پنہاں ہیں وہ تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ان سچے اور دیانتدار افراد پر آسانی سے غالب آجاتے ہیں جو آزادی و خود مختاری کو ترجیح دیتے ہوں ۔

جیسا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر جسم میں کوئی پھوڑا یا ناسور ہو توتمام مفسد مادے اسی کے اردگرد اکٹھے ہونے لگتے ہیں ، یہی حال ہماری حکومت کا بھی ہے جونہی کوئی بدعنوان مطلق العنان حکمران اختیارات اپنے قبضے میںلیتا ہے وہ ریاست کے تمام بدکاروں کو اپنے اردگرد اکٹھا کر لیتا ہے، اس طرح چوروں اور ڈکیتوں کا ایک گینگ تشکیل پاتا ہے جو خود دو وقت کی روٹی کمانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا اور صرف چوری اور حرام خوری میں ماہر ہوتا ہے ۔

یہ گینگ اپنے لیڈرکو گھیرے میں لیے رکھتا ہے اور مال غنیمت سے اپنا حصہ لیتا ہے یوں ایک بڑے مطلق العنان حکمران اور بدعنوان کے زیر سایہ لاتعداد چھوٹے چھوٹے، گھٹیا ،  رذیل بدعنوان اور آمر پرورش پاتے ہیں ۔ چنانچہ مطلق العنان حکمران خود چند لوگوں کو غلام بناتا ہے جو آگے چل کر اکثریت کو غلام بناتے ہیں اور اگر غلطی سے ان میں سے کوئی بہتر یا قابل انسان شامل ہوجائے تو مطلق العنان حکمران اس سے خوف کھانے لگتا ہے جیسا کہ ’’ لکڑی کو کاٹنے کے لیے کلہاڑا بھی اسی لکڑی کا بنایا جاتا ہے‘‘ ۔لہٰذا  مطلق العنان حکمران کو بھی اپنے ہی جیسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے اپنی طرز کے دیگر سیاہ کاروں اور مفاد پرستوں سے بچا سکیں ۔

کبھی کبھار چمچوں کو اس سے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ۔ لیکن یہ بھٹکے ہوئے ، گمراہ اور مجہول لوگ اس کی ہر تذلیل کو اس وقت تک خوشی سے سہنے پر تیار رہتے ہیں جب تک انھیں جواباً خود دوسروں کو ذلیل کرنے کی رعایت حاصل رہے ۔ یہ اس مطلق العنان حکمران سے انتقام نہیں لے سکتے جس نے انھیں ذلیل و رسوا کیا لیکن ان کمزوروں پر ظلم و ستم ڈھا سکتے ہیں جنہوں نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا  اور جن کے پاس برداشت کرنے کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہیں ۔

ادھر دوسری جانب تانگ عہد کا ایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے، جیتنے کی ترجیح ، اپنی غلطیوں کا سن کر اشتعال میں آجانا، اپنے اختیار میں اضافہ اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی ۔ وہ بتاتا ہے کہ جب انھیں یہ جراثیم لگ جائیں تو پھر و ہ لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا بند کر دیتے ہیں اورانتشار و افراتفر ی کے بیج پنپنا شروع کردیتے ہیں ۔

ہم اپنے68 سالوں میں کسی بھی چیز میں خودکفیل نہ ہوسکے تو کیا ہوا خدا کے فضل وکرم سے کم ازکم حکمرانوں کی خرابیوں اور برائیوں کی حد تک تو ہم نے مکمل خود کفالت حاصل کر ہی لی ہے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ لابوتی کے مضمون میں مطلق العنان حکمرانوں کے بارے میں لکھی گئی اور چینی وزیراعظم کی بادشاہوں کے متعلق کی گئی تمام خرابیاں اور برائیاں کیا ہماری تاریخ کے حکمرانوں میں نہیں پائی جاتی تھیں کیا ہم نے 68 سالوں میں ان خرابیوں اور برائیوں کو نہیں بھگتا ہے کیا ہم ان خرابیوں اور برائیوں کے شکار نہیں ہوئے ہیں کیا ہم ان کے ہاتھوں زخم آلودہ نہیں ہیں کیا ہمارے جسم لہولہان نہیں ہیںکیا ہماری روحیں  زخمی نہیں ہیں، کیا ہماری خاموشیوں میں چیخیں چھپی ہوئی نہیں ہیں۔

یہ صرف ایک مضمون یا کہی گئی بات نہیں ہے بلکہ اصل میں یہ ہماری اپنی کہانی ہے اور ہم سب اس کہانی کے کردار ہیں خاموش، زخم خوردہ ، بدحال، نڈھال کردار ۔ جو نہ توکچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کہنے کی اجازت ہے بس صرف چپ چاپ آواز نکالے بغیر اپناکردار ادا کرنے کی اجازت ہے ۔ بس صرف چپ چاپ آواز نکالے بغیر اپناکردار ادا کر نے کی اجازت ہے اور اپنی چیخوں کا گلا گھونٹنے کی اجازت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔