تیس چالیس برس شاعری کر لی، اب تراجم ہی توجہ کا مرکز ہیں ، باقر نقوی

اقبال خورشید / اشرف میمن  اتوار 11 اکتوبر 2015
وکٹر ہیوگو کے ناول Les Misérables نے نسلوں کو متاثر کیا، اِس کا ترجمہ کرتے ہوئے بہت لطف اندوز ہوا ۔  فوٹو : فائل

وکٹر ہیوگو کے ناول Les Misérables نے نسلوں کو متاثر کیا، اِس کا ترجمہ کرتے ہوئے بہت لطف اندوز ہوا ۔ فوٹو : فائل

تخلیقی سفر لکیر کی صورت آگے نہیں بڑھتا۔ یہ تو کسی بھول بھلیوں کے مانند ہے!

باقر نقوی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شعرگوئی کا سلسلہ عشروں پر محیط۔ شمار سنجیدہ شعرا میں ہوا کرتا تھا۔ چار مجموعے بھی آئے۔ پھر اچانک تخلیقی سفر میں موڑ آیا۔ اُنھوں نے خود کو ترجمے کے میدان میں کھڑا پایا۔ نوبیل انعام یافتگان جیسا اَن چھوا موضوع روبرو۔ ہمت کی۔ بیسویں صدی میں ادب کا نوبیل حاصل کرنے والوں کے خطبات کا ترجمہ کر ڈالا۔ کارنامے نے سب کو متوجہ کیا۔ مشاہیر نے جی کھول کر سراہا۔

منزل کی تلاش میں کتنے ہی موڑ آتے ہیں۔ اچانک دیوار سامنے آجاتی ہے۔ پھر غیرمتوقع انداز میں راستہ ظاہر ہوتا ہے۔ نامعلوم کی پکار سنائی دیتی ہے۔ تخلیق کار آگے بڑھتا ہے، اور یوں اُس کا اپنے جوہر تک رسائی کا سفر جاری رہتا ہے۔

اِس کام میں ایسا لطف آیا کہ امن کے شعبے میں انعام حاصل کرنے والوں کے خطبات کا بھی ترجمہ کر ڈالا۔ تب شمس الرحمان فاروقی نے کہا: ’’نوبیل ادبیات کی گونج ادب کے ایوانوں میں ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ وہ ایک اور بڑا معرکہ سر کرتے ہوئے ہمارے روبہ رو ہیں۔‘‘ اگلی باری نوبیل حیاتیات کی تھی۔ لوگ انھیں اردو کا پہلا ماہرنوبیلیات کہنے لگے۔ (اُن کے جذبے کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے، کچھ برس بعد کیمیا اور طبیعیات کے انعام یافتگان کے خطبات بھی اردو میں دست یاب ہوں گے۔ اور یہ ایک انوکھی مثال ہوگی!)

فکشن کی سمت بھی گئے۔ ہرٹا میولر اور گنٹر گراس کے منفرد ناولوں کو اردو روپ دے کر ناقدین سے داد سمیٹی۔ وکٹر ہیوگو کے شہرۂ آفاق ناول Les Misérables کا ترجمہ کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ شمیم حنفی نے بھی خود کو مرعوب و مسحور پایا کہ اُن کے بہ قول؛ یہ کارنامہ کسی ایک فرد کے بس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔

مستقل قیام لندن میں۔ ’’مضراب‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں پاکستان آئے، تو ملاقات ہوئی۔ یوں تو اور موضوع بھی زیر بحث آئے، لیکن گفت گو کا اصل محور فکشن کا ترجمہ اور وکٹر ہیوگو کا یہ شاہکار رہا۔

آئیے، مکالمے کا آغاز کرتے ہیں:
سوال: 2009 میں نوبیل ایوارڈ پانے والی جرمن ادیبہ، ہرٹا میولر اردو طبقے کے لیے اجنبی ہیں۔ ترجمے کے لیے اُن کے ناول Nadirsکے انتخاب کا کیا سبب رہا؟
باقر نقوی: انھیں نوبیل ملنے پر بڑی حیرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ برطانوی اخبارات نے ہیڈ لائن لگائی: Herta Müller: Who is she?، یعنی وہ حیران تھے کہ یہ کون ہے، جسے انعام مل گیا۔ میں نے اُس کا خطبہ پڑھا۔ میں حیران رہ گیا۔ بھئی کیا کمال کا خطبہ دیا ہے اس نے۔ اس کے لکھنے کا طریقہ بہت منفرد ہے۔ جملے زیادہ سے زیادہ پندرہ الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بیانیہ بھی مختلف ہے۔ مجھے اس کا ادب بہت اچھا لگا۔ Nadirs، جس کا میں نے ’’نشیبی سرزمین‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا، ایک معنوں میں سوانحی ناول ہے۔

سوال: اُس کی بنت بیانیہ ناولوں سے مختلف ہے۔ نثری نظم کا ڈھب ہے۔ ترجمے کا تجربہ کیسا رہا؟
باقر نقوی: دقت تو کوئی پیش نہیں آئی۔ بس یہ ہے کہ ٹھہرٹھہر کر آرام آرام سے کیا۔ ترجمہ کرتے ہوئے صحیح معنوں میں لطف اندوز بھی ہوا۔

سوال: غالباً یہ ہرٹا میولر کی پہلی تخلیق تھی، جس کا اردو میں ترجمہ ہوا۔ ردعمل کیا رہا؟
باقرنقوی: میں اِس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میرا قیام تو برطانیہ میں ہے۔ کتاب لوگوں تک پہنچی، اِس پر تبصرے شایع ہوئے؛ اس کا مجھے علم نہیں۔ آپ تذکرہ کر رہے ہیں، تو شاید اوروں تک بھی پہنچی ہوگی۔

سوال: آپ نے ایک اور جرمن نوبیل انعام یافتہ ادیب گنٹر گراس کے ناول The Tin Drum کا ’’نقارہ‘‘ کے زیرعنوان ترجمہ کیا، وہ ایک ضخیم اور پرپیچ ناول ہے!
باقرنقوی: اشاعت کے وقت اس ناول پر بڑے عجیب و غریب تبصرے ہوئے تھے۔ کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ فلمیں بھی بنیں۔ نوبیل انعام یافتگان کے خطبات کا ترجمہ کرتے ہوئے گنٹر گراس کو پڑھنے کی خواہش جاگی۔ میں نے پڑھا، تو اس کا انداز تحریر بہت اچھا لگا۔ ترجمے میں سال بھر لگا ہوگا۔ میں چار پانچ گھنٹے روزانہ کام کرتا ہوں۔ اس ناول میں ایک شخصیت کے تین روپ ہیں۔ تھوڑی بہت جرمن میں نے پڑھی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں رہا ہوں، تو تلفظ کے بارے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ یہ ناول اس کی مشہورِ زمانہ DanzigTrilogy (تین ناولوں پر مشتمل سلسلہ، جس میں ہر ناول اپنی جگہ مکمل ہو) کا حصہ ہے۔ سوچ رہا ہوں، باقی دو ناولوں کا بھی ترجمہ کروں۔ اس Trilogy میں عجیب کیفیات ہیں، عجیب تحریر ہے۔ اب یہی سوچ ہے کہ جو عجیب ہے، اُس کا ترجمہ کرو، عام تحریروں کا تو لوگ ترجمہ کرتے رہتے ہیں۔

سوال: اب آپ نے وکٹر ہیوگو کے Les Misérables کو اردو روپ دیا ہے، اس فرانسیسی تخلیق کار کی دیگر چیزوں کا تو ترجمہ ہوا، مگر شاید ضخامت کی وجہ سے اِس ناول کو بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا گیا!
باقرنقوی: برطانیہ میں سن 75 سے میرا قیام ہے۔ وہاں تقریباً سات عشروں سے اس پر ڈراما ہورہا ہے۔ ایک یہ ناول، دوسرا اگاتھا کرسٹی کا The Mousetrap؛ دونوں عشروں سے اسٹیج پر ڈرامے کی صورت پیش کیے جارہے ہیں۔ میں اس پر بڑا حیران ہوتا تھا۔ جستجو ہوئی، تو ناول پڑھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب میں تراجم کی سمت نہیں آیا تھا۔

بعد میں جب اس سمت آگیا، تو اس بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یہ ناول 1862 میں، انگریزی میں شایع ہوا تھا۔ اتنے عرصے میں مکمل ترجمے کے لیے کسی نے اِسے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاید وجہ ضخامت ہی ہو۔ میں نے اسے لفظ بہ لفظ پڑھا، تو یہ احساس اور قوی ہوگیا کہ وکٹر ہیوگو کمال کا رائٹر ہے۔ واقعات کا اتنی پختگی اور جزئیات سمیت بیان؛ پڑھیے تو لگتا ہے، جسے وہ خود ہر مرحلے سے گزرا ہو۔ دو تین باب پیرس کے نابدان میں سفر کے بارے میں ہیں۔ پڑھ کر لگتا ہے، جیسے کرداروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی نابدان میں سفر کر رہا تھا۔ اس ناول کا ترجمہ کرنے میں تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ لگا۔

سوال: جن ادیبوں کا ترجمہ کیا، اُن میں کسی نے الجھایا بھی؟
باقرنقوی: گنٹر گراس کا ترجمہ کرتے ہوئے الجھن ہوئی تھی۔ وہ گنجلک ہے۔ البتہ Les Misérables کا ترجمہ کرتے ہوئے بہت لطف اندوز ہوا۔ پانچ لاکھ ستر ہزار لفظ ہیں۔ اس پر ہزاروں تبصرے ہوئے۔ ان ڈیڑھ سو برسوں میں چالیس بیالیس زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج بھی اس کا ترجمہ ہورہا ہے۔

2013میں انگریزی میں پھر ترجمہ ہوا۔ اس کے حوالے سے بنی ویب سائٹس دیکھیں، آج بھی زورشور سے اس پر مباحثے جاری ہیں۔ ہزاروں لوگ اس پر بات کررہے ہیں۔ اِس نے نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ تو اس لحاظ سے ضروری تھا کہ اس کا اردو میں ترجمہ ہو۔ اس کے فلیپ میں پروفیسر فتح محمد ملک نے لکھا ہے : ’’ناول پڑھ کر لگتا ہے کہ آج پاکستان اسی دور میں جی رہا ہے، جس زمانے میں یہ ناول لکھا گیا ہے۔‘‘

سوال: Les Misérables کیلیے آپ نے کون سا ترجمہ سامنے رکھا؟
باقرنقوی: میں نے Isabel Hapgood کا ترجمہ سامنے رکھا، جو شاید 1887 میں شایع ہوا تھا۔ اس کتاب کا پہلا انگریزی ترجمہ غالباً 1862 میں ہوا تھا۔

سوال: Les Misérables کے چند انگریزی تراجم تلخیص کے عمل سے گزرنے کے بعد منظر عام پر آئے، آپ کا کیا معاملہ رہا۔ مکمل متن سامنے رکھا؟
باقرنقوی: ہاں، کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو لکھتے لکھتے ایک خاص کیفیت میں چلا جاتا ہے، فلسفہ بیان کرنے لگتا ہے، جس کا ناول کی کہانی سے تعلق نہیں ہوتا۔ قاری کا ذہن منتشر ہوجاتا ہے۔ تو چند مترجموں نے وہ ابواب نکال دیے۔ مگر میں نے کہا، یہ بددیانتی میں نہیں کروں گا، کیوں کہ اگر ایسا کیا جائے گا، تو ناول کی روح مجروح ہوگی۔ میں نے لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا ہے۔ میرے نزدیک، جو فلسفہ اس نے بیان کیا ، وہ بڑا متاثر کن ہے۔

سوال: دو جلدیں، دو ہزار کے لگ بھگ صفحات، آپ کے خیال میں آج کے قاری کے پاس اتنا ضخیم ناول پڑھنے کا وقت ہے؟
باقرنقوی: (ہنستے ہوئے) یہ تو آپ بتائیں گے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔

سوال: کاملیت کے ساتھ کسی ناول کا ترجمہ ممکن ہے، جیسے Les Misérables پہلے فرانسیسی سے انگریزی میں، پھر اردو میں منتقل ہوا؟
سوال: آپ پڑھ کر دیکھیے، پھر بتائیے۔ ترجمہ کرتے ہوئے میرے پیش نظر قاری ہوتا ہے۔ ابلاغ ضروری ہے۔ میں یوں کرتا ہوں کہ ترجمہ کے ساتھ قوسین میں کچھ تفصیلات بھی دے دیتا ہوں کہ منظر اور صورت حال پوری طرح واضح ہوجائے۔
سوال: مترجمین کے دو حلقے، ایک متن سے انتہائی حد تک مخلص رہنے پر زور دیتا ہے، دوسرا ابلاغ یا سماجی ضروریات کے پیش نظر اردو محاورے، ضرب المثل، اشعار استعمال کرنے کا قائل۔ آپ کا کیا موقف ہے؟
باقرنقوی: ہر زبان کا اپنا انداز ہوتا ہے، مگر معنویت میں فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ ہم جس زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں، اس میں بھرپور ابلاغ ہونا چاہیے، اس کے لیے ہم محاورے اور اشعار استعمال کرسکتے ہیں۔

میں نے یہ تجربہ کیا ہے۔ Les Misérables میں ایک باب کا عنوان میں نے ’’قلبِ تہِ سنگ‘‘ رکھا جس کا عنوان کچھ اور ہے، اس بات کو پڑھیے تو عنوان کا لُطف آتا ہے۔ غالب کی ترکیب ’دستِ تہِ سنگ‘ میں ’دست‘ کی جگہ ’قلب‘ مزہ دے گیا ہے۔ ’’نوبیل حیاتیات‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک جگہ متن کچھ ایسا ہی تھا کہ ’ہمت مرداں، مددِ خدا‘ اچھا ترجمہ معلوم ہوا۔ اس طرح ابلاغ کے ساتھ ادبیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ میں نے اس طرح کی تحریفات چند جگہ کی ہیں۔

سوال: کام کرنے کا طریقہ کیا ہے، دن کے کن اوقات میں کام کرتے ہیں؟
باقرنقوی: جب پاکستان میں زیادہ وقت گزارتا تھا، تو صبح چار بجے اٹھ جاتا۔ آٹھ بجے تک کام کرتا۔ برطانیہ میں ذرا مشکل ہے، وقت نہیں ملتا۔ ہمارے چھوٹی عمر کے دو پوتے ہیں۔ بہت شرارتی ہیں۔ وہاں قیام کے دوران تین بجے صبح اٹھتا ہوں، اور دو گھنٹے بعد، یعنی پانچ بجے وہ دونوں بھوّت بھی اٹھ جاتے ہیں (قہقہہ)۔ تو میں یہ کرتا ہوں کہ قریبی لائبریری چلا جاتا ہوں، وہاں سکون سے چار پانچ گھنٹے کام کرلیتا ہوں۔

سوال: اچھے ترجمہ کے لیے مترجم کو کن باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے؟
باقرنقوی: اسے دونوں زبانوں کا علم ہونا چاہیے۔ اردو اور انگریزی؛ یعنی دونوں پر دست رس ہو۔ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ترجمہ جلد بازی کا کام نہیں۔ بعض لوگ تو پورے پورے پیراگراف چھوڑ جاتے ہیں۔ اور بھی مسائل ہیں۔ ایک بہت مشہور مترجم ہیں، انھوں نے ایک نوبیل انعام یافتہ ترک ادیب کے ناول کا اردو میں ترجمہ کیا۔

میں نے سنا تو دل چسپی پیدا ہوئی۔ ناول منگوایا۔ ایک باب پڑھا، دوسرا پڑھا، پھر چھوڑ دیا۔ پھر کوشش کی، پھر چھوڑنا پڑا۔ تین کوششوں کے باوجود نہیں پڑھ پایا۔ پھر اپنے ہم زلف کو دیا۔ وہ اردو کے پروفیسر ہیں۔ وہ بھی اسی کیفیت سے گزرے۔ ان صاحب نے ناول کی اصل زبان کا انداز رکھنے کی کوشش کی، اور جدت طرازی کے لیے عربی اور ہندی کے الفاظ شامل کیے تھے۔ میں سمجھتا ہوں، کسی اور زبان کے وہی الفاظ استعمال کیے جائیں، جو مروج ہیں یا اچھے لگتے ہوں۔

سوال: آج کل کیا مصروفیات ہیں؟
باقر نقوی: اب عمر زیادہ ہوگئی ہے۔ ہر چیز پڑھنے کا وقت نہیں ۔ قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا‘‘ دوبارہ پڑھنے کے لیے اٹھایا تھا، مگر پھر چھوڑ دیا۔ ترجمے کے کام کو فوقیت دی۔ تیس چالیس برس شاعری کر چکا۔ لوگ کہتے ہیں، بہت اچھی شاعری ہے، مگر شاید یہ سب منہ دیکھے کی باتیں ہیں۔ پھر شاعری میں بہت جھنجھٹ ہے۔ سوچا، بہت وقت دے دیا۔ اب تراجم ہی توجہ کا مرکز ہیں۔

سوال: لوگ آپ کے تراجم کے تو مداح، مگر آپ کی کتب کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے!
باقرنقوی: قیمت کا تعین ناشر کا کام ہوتا ہے۔ میں کیا جانوں۔ وہ بہت نفیس انداز میں کتابیں چھاپتے ہیں، مگر کچھ لوگوں نے شکوہ کیا کہ قیمت زیادہ ہے۔ میں اس کا تعین نہیں کرتا، پبلشر صاحب کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

سوال: چند پبلشنگ ہاؤسز کے مالکان خود ادیب۔ وہ مارکیٹ کی ضرورت، بہتری یا سماجی تقاضوں کے تحت مسودوں میں ردوبدل بھی کرتے ہیں۔ آپ کبھی اس تجربے سے گزرے؟
باقرنقوی: جی نہیں۔اﷲ کا فضل ہے، اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ لاکھوں الفاظ میں ایک آدھ لفظ تبدیل کردیا جائے، تو اور بات ہے، مگر کبھی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی۔

حالات زندگی

وہ 1936 میں الہ آباد اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم الہ آباد ہی سے حاصل کی۔ 55ء میں والد کے انتقال کے بعد جدوجہد کا سفر شروع ہوا۔ ہجرت کے بعد کئی معاشی مسائل کا سامنا کیا۔ چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ انشورنس کے کاروبار میں آنے کے بعد سوئس انشورنس ٹریننگ سینٹر، زیورخ اور دیگر اداروں سے اسناد حاصل کیں۔ اسٹیٹ لائف کا حصہ رہے۔ 76ء میں لندن چلے گئے؛ ایک برطانوی کمپنی ’’سی سی آئی انشورنس‘‘ کا حصہ بن گئے۔ اور لندن ہی کو مسکن بنالیا۔ 93ء میں ’’ای ایف یو لائف انشورنس‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ آنے والے برسوں میں اس میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔

 

٭تذکرہ کتابوں کا۔۔۔


شعری مجموعے: تازہ ہوا ، مٹھی بھر تارے، موتی موتی رنگ، دامن (کلیات)
تراجم (نوبیل انعام یافتگان): نوبیل ادبیات، نوبیل امن کے سو برس، نوبیل حیاتیات
تراجم (فکشن): نشینی سرزمین (ہرٹا میولر)، نقارہ (گنٹر گراس)، مضراب (وکٹر ہیوگو)
دیگر کتب: الفریڈ نوبیل کی حیات، خلیے کی دنیا، برقیات، مصنوعی ذہانت
افسانوی مجموعہ: آٹھواں رنگ

ملالہ کا خطبہ:
سادگی ہی اُس کی شان ہے
نوبیل انعام یافتگان کے خطبات ان کا موضوع۔ اسی مناسب سے ملالہ یوسف زئی کی خطبہ کی بابت پوچھا۔ کہنے لگے،’’میں نے ایک صحافی کے ذریعے پیغام بھجوایا تھا کہ ان کو خطبہ اردو زبان میں دینا چاہیے۔ شاید پیغام پہنچ نہیں سکا۔ اچھا ہوتا، نوبیل کے سلسلوں میں اردو بھی اپنی بہار دکھلاتی۔ ملالہ کے خطبے میں جگہ جگہ اس کا بھولپن جھلکتا ہے، معلوم ہوتا ہے، اپنا خطبہ خود اُسی نے لکھا ہے۔ شاید والد نے نوک پلک درست کردی ہو، جس میں کوئی حرج نہیں۔ جذبات سے بھرپور، ایک نو عمر لڑکی کے شایانِ شان خطبہ ہے۔ اگر فلسفہ بگھارنے کی کوشش کی جاتی تو نامناسب ہوتا۔ سادگی ہی اس کی شان ہے۔ موضوع شروع سے آخر تک تعلیم، بالخصوص تیسری دنیا کی لڑکیوں کی تعلیم رہا، جو اچھی بات تھی۔ سترہ برس کی لڑکی سے اسی قسم کے خطبے کی توقع تھی۔ آخری جملے بہت اثر انگیز ہیں۔ پاکستان کا نام روشن ہوا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔