بیوروکریسی کے شاہی نوابوں کا احتساب کون کریگا؟

رحمت علی رازی  اتوار 11 اکتوبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

’’یورپین سلور اسٹون اور ماؤنٹ پینوراما کی پر خطر موٹر ریس میں پاکستانی بیوروکریٹس کے بگڑے بچے جتنی قیمتی اسپورٹس کاروں کے ساتھ آف ٹریک منورنجن کرتے دکھائی دیتے ہیں اس معیار کی کاریں شاید یورپ کے امیر ترین ریسنگ چیمیئنز اور شہزادہ ولیم کے پاس بھی نہ ہوںگی‘ پھر اپنے تفریحی مشاغل کو مطمئن کرنے کے لیے جس بے دردی اور بے اعتنائی سے یہ نوخیز ریسرز اپنی ان بیش قیمت کاروں اور موٹر بائیکس کو توڑ پھوڑ کرخوش ہوتے ہیں اسے دیکھ کر پل بھر کے لیے یہی گمان ہوتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ متمول لوگ پاکستان کے علاوہ اور کسی ملک میں نہیں رہتے‘‘۔

یہ کہنا تھا ایک جرمن بزنس مین کا جو کاروں کی ریس کا جنون کی حد تک شوقین ہے اور وہ دنیا میں ہونے والی کاروں کی ہر چھوٹی بڑی ریس کو دیکھنے کے لیے وہاں موجود ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل میگزین ’’بزنس ٹریولر‘‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں برناڈو نے بے پناہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اتنی مہنگی کاروں کے مالک یہ امیرزادے یقینا راجوں مہاراجوں یا شہنشاہوں کی اولاد ہی ہو سکتے ہیں اور یہ امر انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان جیسے غریب ترین ملک کے بیوروکریٹس اگر وہاں کے بزنس مینوں سے بھی زیادہ دولتمند ہیں تو بلا شبہ پاکستان دنیا کا سب سے کرپٹ ترین ملک ہے اور تاریخ خود گواہ ہے کہ ایسے ملک تاریخ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہتے‘‘۔

یہ قطعۂ کلام ایک بین الاقوامی نیوز چینل نے بھی ہائی لائٹ کیا اور ہمارے ایک رفیق نے اس المیے پر ایک جلا کٹا تبصرہ بھی رسید کیا مگر بے حس پاکستانی معاشرے کے لیے یہ جنبشِ ابرُو دراز کرنیوالی بات ہر گز بھی نہیں‘ بیرونی دنیا کے لیے یہ خبر ضرور ورطۂ حیرت ہو گی مگر یہاں کا تو یہ سماجی چلن ہے بلکہ ہمارے اخبار خوروں کے لیے تو یہ روح کی غذا اور نرگسی محب وطنوں کے لیے قومی اعزاز ہے کہ دنیا کی سب سے گراں قیمت اسپورٹس کاریں صرف پاکستانی ترنگ بازوں کے پاس ہیں‘ انہیں اس بات سے کوئی غایت نہیں کہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے تنخواہ لینے والے ہمارے سرکاری نوکروں کے پاس اتنی دولت کہاں سے اور کیسے آئی کہ ان کی مغرب زدہ اولادوں کی عیاشیوں پر دیگر ممالک کے رؤسا بھی انگشت بدنداں ہیں۔

یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ نصف صدی سے جاری ہے اور اس میں صرف بیوروکریٹ ہی نہیں پاکستان کی خفیہ ایمپائر کے اور بھی بہت سے زرگرشامل ہیں جن کے چاند سے کھیلنے والے لاڈلے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ ساؤتھ افریقہ اور کینیڈا وغیرہ میں وسیع وعریض فارم ہاؤسز اور عالیشان بنگلوں کے مالک ہیں۔ ان شاہی شہزادوں اور شہزادیوں کے بیرون ممالک بینک اکاؤنٹس میں پاکستان سے لُوٹا ہوا پیسہ باقاعدگی سے منتقل ہوتا رہتا ہے۔ بیوروکریسی کے کرپٹ بابوؤں پر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی حکومتی نظام ہمارے ملک میں موجود نہیں کیونکہ حکومتی کارندے خود اس دلدل میں سر کے آخری بال تک دھنسے ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس بابو کریسی میں اثاثہ جات کے حوالہ سے ایسے ہی کچھ معاملات سامنے آنے پر میرٹ ا و ر کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے جن کا جواب ڈھونڈنے کے لیے حساس اداروں کے بعض خفیہ ونگز کی جانب سے بیوروکریٹس کے ملکی و بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات مرتب کی گئیں اور اس کے لیے تمام صوبائی حکومتوں میں موجود خفیہ رپورٹس کا جائزہ بھی لیا گیا تھا مگر کوئی حوصلہ افزا پیشرفت سامنے نہ آ سکی اور حسبِ دستور یہ رپورٹ بھی محض ایک سیاسی کمیشن کی رپورٹ بن کر رہ گئی اور حدِّ ادب یہ کہ خفیہ ایمپائر کے کچھ طاقتور کرداروں نے اس رپورٹ کی فائلیں ہی جلا کر راکھ کر دیں۔

رپورٹ کی کیفیت کے مطابق بعض بیورو کریٹس نے تو اپنے اثاثے ظاہر ہی نہیں کیے جب کہ بعض نے اپنے بیوی بچوں، بہنوں، بھائیوں، والدین کے نام کروڑوں اربوں کی پراپرٹی لگا رکھی ہے، بعض بیوروکریٹس نے ملک سے باہر بھی پیسے رکھے ہوئے ہیں، بعض نے نوکری کے بعد غیر قانونی اقدامات کرتے ہوئے خفیہ طور پر اپنے بزنس کھول لیے اور سرکاری کھاتوں میں اثاثے کم ظاہر کر کے اربوں روپے کا ٹیکس تک ادا نہیں کیا۔ پاکستان میں 40 فیصد ایسے بیوروکریٹس ہیں جنھوں نے نوکری اختیار کرتے ہی سیاسی پشت پناہی حاصل کر لی جب کہ بعض بیوروکریٹس ایسے بھی ہیں۔

جو سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیل کرتے گئے اور اس دور کی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی ہمدردیاں ظاہر کرتے ہوئے اپنے مقاصد پورے کیے جا تے رہے، بعض نے کسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھی اور وہ اپنا الگ گروپ بنائے ہوئے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے کے لیے تین مرحلوں میں کام کیا گیا، پہلے مرحلے میں ان افسران کی تفصیلات لی گئیں جنھوں نے 2013ء میں سیاسی دباؤ پر غیر قانونی ترقیاں حاصل کی تھیں اور بعد میں انھیں غیر قانونی قرار دیدیا گیا تھا، دوسرے مرحلے میں ایسے افسران کی تفصیلات حاصل کی گئیں جو سیاسی ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے گئے جب کہ تیسرے مرحلے میںبقیہ افسران کو رکھا گیا۔

ان افسرشاہوں کے اثاثوں کی تفصیلات، اے سی آرز، اب تک کا جمع کرایا جانے والا ٹیکس، نوکری کے بعد اثاثے اور اب تک کی تفصیلات، تنخواہ، کس عہدے پر کتنا وقت گزارا، کونسا معاہدہ کس وقت کیا گیا اور اس کے رزلٹ کیا سامنے آئے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ بیوروکریٹس نے کس سیاستدان کو کس طرح کے فوائد دیے اور انتخابات میں کس طرح وفاداری نبھائی۔ جن ڈویژنوں کے افسران کی تفصیلات رپورٹ میں شامل کی گئیں ان میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان، کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ، وزارت کامرس، وزارت کمیونیکیشن، منسٹری آف ڈیفنس پروڈکشن، وزارت ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ، وزارت خزانہ، وزارت فارن افیئرز، وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس، وزارت انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، واٹر اینڈ پاور، بورڈ آف انویسٹمنٹ، وزارت قانون، جسٹس اینڈ پارلیمانی افئیرز، وزارت اینٹی نارکوٹکس کنٹرول، وزارت ترقیاتی و منصوبہ بندی، وزارت پٹرولیم، پورٹس اینڈ شپنگ، پوسٹل سروسز، وزارت ریلوے، نیشنل ریگولیشن اینڈ سروسز، وزارت مذہبی امور، ایف بی آر، وزارت شماریات و دیگر شامل ہیں۔ رپورٹ میں ایسے افسران کے نام بھی شامل تھے۔

جنھوں نے غیر قانونی اقدام نہیں کیے اور اپنے ذرائع سے میرٹ پر اثاثے بنائے جو ظاہر بھی کیے گئے‘ ایسے ہی چند سینئر بیوروکریٹس کا کہنا تھا کہ تمام افسران کی فہرست مرتب کر کے عوام کے سامنے لائی جائے اور سب کا آن بورڈ احتساب کیا جائے، جنھوں نے میرٹ کے برعکس اقدامات کیے یاغیر قانونی طور پر اثاثے بنائے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور یہ تفصیلات بھی سامنے آنی چاہئیں کہ جب انھوں نے نوکری جوائن کی تب اثاثے کیا تھے۔

اب کیا ہیں اور یہ اثاثے کیسے بنے‘ ان کی فیملی کے اکاؤنٹس بیرون ملک کہاں ہیں اور اس میں جو پیسہ ہے وہ کہاں سے آیا۔ یہ خفیہ رپورٹ مرتب کرنیوالے ایک ذمے دار افسر کا ماننا ہے کہ اس سارے ناسور کے پیچھے ایس اینڈ جی اے ڈی کا ہاتھ ہے جسکا کام بیوروکریٹس کے اثاثوں کی تفصیلات مرتب کرنا‘ ٹیکس کی پوچھ پڑتال کرنا اور ان کے اثاثوں کی تفصیلات کو عوام میں مشتہر کرنا ہوتا ہے مگر یہ محکمہ سرکاری ملازموں کے ساتھ ملی بھگت کر کے ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے‘ اس بابت جب دریافت کیا جائے تو ایس اینڈ جی اے ڈی حکام یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ ’’افسران کی جانب سے اپنے اثاثوں کی تفصیلات اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن کو بھجوا دی جاتی ہیں، افسران کی جانب سے ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔

بعض وجوہات کی بناء پر افسران کے اثاثوں کی تفصیلات کو پبلک نہیں کیا جا سکتا، ہر سال افسران سے ان کے اثاثوں کی تفصیلات طلب ضرور کی جاتی ہیں، کس افسر نے کتنے غیرقانونی طور اثاثے بنائے اس کا ہمیں بھی علم نہیں ہے۔ کسی افسر کے خلاف لگنے والی انکوائریوں کے حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، یہ ایک راز ہے اسے راز ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے‘‘۔

یہ راز واقعی ایک راز ہے جس سے بھولا بھنڈاری عوام کو 68 سالوں سے بے خبر رکھا گیا‘ اگر ایس اینڈ جی اے ڈی یہ عذر پیش کریگا کہ بعض وجوہات کی بنا پر بیوروکریٹس کے اثاثہ جات کی تفصیلات کو پبلک نہیں کیا جا سکتا تو پھر قصابی ذہنیت رکھنے والے افسروں کو دنیا کی کون سی طاقت کرپشن کرنے اور لمبے چوڑے اثاثے بنانے سے روک سکتی ہے کیونکہ انہیں جب یہ خوف ہی نہیں ہو گا کہ وہ جس قدر چاہیں لوٹ مار کر لیں ان کی سیاہ کاریوں پر سے ٹاٹ کبھی نہیں اٹھے گا اور وہ اندھیرنگری میں جتنا چاہیں چوپٹ راج برپا کر لیں ان کا ہاتھ کوئی نہیں روکے گا تو پھر ظاہرہے وہ تو مادرِ وطن سے کھل کھیلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے‘ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریٹس آج بے حساب مال ومتاع کے مالک ہیں اور نہ تو ان کا کوئی احتساب کرنیوالا ہے نہ ہی اصلاح۔

بیوروکریسی میں اصلاحات کا ڈرامہ ہر حکومت رچاتی آئی ہے لیکن بابو کریسی حکومت سے آپریٹ ہونیوالی مشین کبھی نہیں رہی جسکے ناکارہ کل پرزے تبدیل کیے جا سکیں۔ نون لیگ نے اس بار اقتدار میں آتے ہی بڑا غوغا کیا کہ وہ افسرشاہی میں اصلاح لانے کے لیے پوری طرح کمربستہ ہے لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے ’’وژن 2025‘‘ کے لیے ’’اڑان‘‘ کے نام سے جو پراجیکٹ شروع کیا تھا اس کا مقصد بھی سول سروس اصلاحات کی فقط ایک اور رپورٹ تیار کرنا ہی ثابت ہوا جسے دو سو یا پانچ سو صفحات کی کتاب کی شکل دیکر لائبریری کی زینت بنا دیا گیا۔

اس اقدام کا مقصد قطعی یہ نہیں تھا کہ ہمیں کس طرح اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر عملدرآمد کی طرف جانا ہے اور جو تجاویز ملیں انہیں کس طرح قابل عمل بنانا ہے۔ موجودہ حکومت نے بیمار اداروں کا نیک نیتی سے جائزہ تک نہیں لیا۔ آج آپ حکومت کے کسی بھی محکمے میں چلے جائیں اس کا سیکریٹری یا ڈی جی وغیرہ اپنے محکمے کے کسی بھی شعبے کے بارے میں آکسفورڈ کے ہم پلہ نہیں تو اس کے قریب تر پاور پوائنٹس پیش کر سکتا ہے لیکن جب ہم ایشوز اور اس سیکٹر کو درپیش چیلنجز کو دیکھتے ہیں اور نتائج کی بات کرتے ہیں تو ہمیں انتہائی مایوس کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس حوالے سے ہم پسماندہ ترین ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنے سول سروس کا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سول سروسز کے افراد سے مقابلہ کریں تو انفرادی طور پر ہم مطلوبہ صلاحیت اور اہلیت سے عاری نظر آتے ہیںجب کہ ہماری تربیت کا انفرانسٹرکچر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے پائے کا ہے‘ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ورلڈ بینک سے قرضہ لیکر اپنے سول سروس کے افسران کو ہارورڈ یونیورسٹی سے ٹریننگ کرائی لیکن جب ہم نتائج کی طرف جاتے ہیں تو یہ کسی بھی طرح سے متاثر کن نہیں۔ سول سرونٹس کی صلاحیت میں تو اضافہ ہوا ہے اور یہ اوپر جا رہی ہے جب کہ نتائج کو دیکھتے ہیں تو یہ نیچے آ رہے ہیں۔

جب میونسپل سروس کا نظام تھا تو صفائی بہترین تھی، ماضی میں ٹرینیں بھی ٹھیک چلتی تھیں، سرکاری اسکولوں میں اچھے نتائج آتے تھے اور سرکاری سینیٹرل ماڈل اسکول ایک چوائس ہوتا تھا اور سرکاری اسکول نتائج دے رہے تھے، سرکاری اسپتالوں میں قدرے بہتر علاج میسر تھا اور ادارے قدرے تسلی بخش کام بھی کر رہے تھے جسکی وجہ سے ریاست اور عوام کا رشتہ بندھا ہوا تھا لیکن آج لوگوں میں فرسٹریشن ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست عملاً ان کی زندگی سے لاتعلق ہو گئی ہے۔ شہری کو اپنی حفاظت چاہیے جو پولیس کا کام ہے لیکن آج انہیں اپنی حفاظت کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز رکھنے پڑتے ہیں‘ ریاست بجلی دینے سے قاصر ہے جسکی وجہ سے عوام کو جنریٹرز اور دیگر متبادل انتظام کرنا پڑتا ہے، صفائی میونسپل کی ذمے داری ہے لیکن آج گلی محلے کے لوگوں کو صفائی کے لیے پیسے اکٹھے کرنے کے لیے پول کرنا پڑتا ہے۔

نلکے کا پانی پینا نری بیماری ہے جسکی وجہ سے لوگ منرل واٹر پر آ گئے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام پرائیویٹ اسپتالوں کے محتاج ہیں‘ سرکاری تعلیم کا نظام اتنا گیا گزرا ہے کہ غریب لوگ بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں‘ سرکاری اسکولوں کے ہیڈماسٹرز کی تنخواہیں 95 ہزار سے ایک لاکھ 5 ہزار تک ہیںجب کہ کسی پرائیویٹ اسکول کے سربراہ کو اس سے آدھی بھی تنخواہ نہیں ملتی لیکن جب ہم نتائج دیکھتے ہیں تو پرائیویٹ اسکول کے نتائج سرکاری اسکولوں سے زیادہ بہتر آتے ہیں‘ یہ اچھی بات ہے کہ تنخواہیں زیادہ ہونی چاہییں اور سرکاری مدرسوں کے اساتذہ دوگنا تنخواہیں وصول بھی کر رہے ہیں لیکن نتائج پرائیویٹ اسکولوں سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر تو ہونے چاہئیں۔

دنیا بھر میں تجزیات کیے جا چکے ہیں کہ کارکردگی کا 20 فیصد انحصار لوگوں جب کہ 80 فیصد نظام پر ہوتا ہے۔ نون لیگ کے جزوقتی مفکر اور وزیر ترقیات جناب احسن اقبال وژن 2025ء کے حوالہ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’کسی دور میں اصلاحات دانشوری کا نام تھا لیکن اگر آج آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اصلاحات آکسیجن کا نام ہے‘ اگر ہم خود کو تبدیل نہیں کرینگے تو ہمیں زمانہ تبدیل کریگا اور پھر ہم ان کی تبدیلی کو پسند نہیں کرینگے‘‘۔

ہم قبلہ وزیر صاحب سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ سول سروس میں اصلاحات لانے کے لیے جن مجالس و محافل کا جناب نے اہتمام فرمایا تھا اور ہم ایسے اصلاح پسندوں سے جو تجاویز باہم لی تھیں آپ تو ان میں سے ایک میں بھی آکسیجن نہیں پھونک پائے تو پھر کس اَن دُھلے منہ سے آپ یہ کہنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ہم خود کو تبدیل نہیں کرینگے تو ہمیں زمانہ تبدیل کریگا؟ اگر عوام نے خود کو خود ہی تبدیل کرنا ہے تو پھر آپ کس مرض کی دوا ہیں؟ اگر جنتا کو یہی لازم ہے تو کیوں نہ اس تبدیلی کے لیے وہ حکومت کو ہی تبدیل کرنے کا چارا کر لے؟

شاید اس طرح زمانہ اس تبدیلی کو پسند بھی کرے اور قبول بھی! پاکستان میں صاحب کریسی کو اصلاحی چرخے پر چڑھانا حکومتوں کے بس کی بات نہیں‘ یہ بات نواز حکومت کی بے بسی سے عیاں بھی ہے اور ثابت بھی ہو چکی ہے کہ نواز حکومت ایک طرف تو بیوروکریسی کے نکمے پن سے نالاں ہے تو دوسری طرف شدید خواہش کے باوجود اس کی اصلاح سے ہمہ تن گریزاں بھی ہے۔ اسے بیوروکریسی میں کلیدی عہدوں کے لیے اہل اور تجربہ کار افراد کی تلاش میں کمی کا زبردست سامنا رہا ہے تاہم حکومت اس ضمن میں تصحیح کے لیے بنیادی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے بہرطور قاصر ہے۔

مختلف اجلاسوں میں وزیر اعظم اور ان کے وزراء کویہ شکایت کرتے ہوئے بارہا سنا گیا ہے کہ انتظامی مشینری عضو معطل ہے جو ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت سے بالکل ہی عاری ہے تاہم اس جانب کبھی کوئی دھیان نہیں دیا گیا کہ کس وجہ سے بیوروکریسی ایسی تنزلی کا شکار ہوئی اور سول سروس کو آخر کس طرح بحال کیا جائے کہ وہ عوام کی توقعات کے مطابق کارکردگی ظاہر کر سکے۔ موجودہ حکومت کے گزشتہ سوا دو سالہ دور میں بہت سی وزارتوں کے سیکریسیکریٹرٹریز کو متعدد مرتبہ تبدیل کیا گیا‘ گزشتہ عشروں میں سویلین بیوروکریسی کا نظام تباہ و برباد ہو کر رہ گیا لیکن اس میں اصلاح اور غلطیوں کی درستی کے لیے کسی حکومت کی جانب سے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا گیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت میں اور خود بیوروکریسی کے اندر بھی ایسے افراد بہت زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں جنھیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے نااہل، بدعنوان اور سیاست زدہ بیوروکریسی بیحد پسند ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پختہ سیاسی نیت اور مصمم عزم کے بغیر بیوروکریسی کی حالت تبدیل نہیں ہو سکتی، بیوروکریسی میں کئی ایک کو یقین ہے کہ جب تک اہم اصلاحات اور مکمل طور پر موجودہ مسخ شدہ نظام، جس میں سویلین بیوروکریسی کے تمام کلیدی عضو غیر موثر اور کمزور ہو چکے ہیں، اسے سیاست سے پاک نہیں کیا جاتا اسے بحال کرنا ناممکن سا کام ہے۔

گزشتہ ادوار میں آنیوالی ہر حکومت نے یوں تو اصلاحاتی کمیٹیاں بھی تشکیل دیں اور انتظامی مفکرین کی مدد سے بیشمار سفارشات بھی مرتب کیں لیکن اس کے باوصف کوئی بہتری کا پہلو نکل کر سامنے نہ آ سکا ‘ اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ جمود پسندوں اور آمریت نوازوں کی پے در پے حکومتوں نے اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سیاست زدہ بیوروکریسی ہی کو اپنا آلۂ کار سمجھا۔ بیوروکریسی کے مجموعی ڈھانچے کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان میں سب سے طاقتور ڈی ایم جی گروپ اور پی ایس پی ہی نظر آتے ہیں‘ فارن سروس اور سیکرٹریٹ گروپ وفاقی بَیچ ہونے کی وجہ سے ان سے بھی کہیں زیادہ قوی ہیکل ہیں۔

ان سب سروس گروپوں کو بادشاہ گر یا شاہی گروپ بھی کہا جاتا ہے اور متذکرہ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ اثاثے بھی انہی چار گروپس سے وابستہ افسران کے ہیں‘ یہی وہ بیوروکریٹس ہیں جن کے چہیتے دنیا کے امیر ترین ممالک میں پرتعیش زندگی گزارتے ہیں اور پاکستان میں بھی ان کے ورثے میں بہت سی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ان کے انتظار میں رہتی ہے۔ ان گروپوں میں بطور خاص پی اے ایس (ڈی ایم جی) نے اپنی دیرینہ ہوس مٹانے کے لیے ہمیشہ ہی سول سروس کے دیگر گروپوں اور صوبائی محکموں کے حقوق پر ہاتھ صاف کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ پاکستان سول سروس کے بیکراں بحرالکاہل میں ڈی ایم جی اس وقت قوی ہیکل مچھندروں کی ہیئت اختیار کر چکا ہے جو اپنی سدابہار بھوک کو مطمئن کرنے کے لیے ایف پی ایس سی کی کزن مخلوق کو نوالۂ تر بناتا رہتا ہے، غرضیکہ اس وسیع الدہن یاجوج ماجوج سے سول سروس کی ہمہ نوع آبی حیات کا وجود سخت خطرے سے دوچار ہے۔

ڈی ایم جی کی مرغوب غذا پی سی ایس کی چھوٹی مچھلیاں ہیں جنہیں یہ بغیر چبائے ہی ہڑپ جاتا ہے اور انہیں ہضم کرنے کے لیے اسے کسی مشقِ کسرت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ ڈی ایم جی کا فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے دیگر گیارہ گروپوں کو سسٹر ڈیپارٹمنٹس کے زعم میں استحصال کا نشانہ بنانا آج کی بات نہیں بلکہ یہ نصف صدی کا قصہ ہونے چلا ہے۔ اضلاع اور ڈویژنوں میں کمشنریٹ کے نظام اور ڈسٹرکٹ مجسٹریسی کے علاوہ ڈسٹرکٹ ریونیو کلیکٹر کا اضافی آفس بھی ا سی گروپ کے نمایندہ کے مینو کارڈ پر رہا ہے۔ ضلع کا تاثر ختم کرنے کے لیے ڈی ایم جی نے اپنا نیا نام پی اے ایس (پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ) رکھنے میں اکتفا سمجھا۔ اب ایک اور برہمن گروپ ’’نیشنل ایگزیکٹو سروس (این ای ایس)‘‘ سامنے آ رہا ہے جس پر ہم اگلے کالم میں ان کی ’’ایم ایس ون‘‘ کرینگے۔

آج پاکستان بھر میں مجسٹریسی نظام غیر فعال ہو چکا ہے مگر فیڈرل کیپٹل کے مجسٹریٹس تمام صوبوں میں سیشن ججوں کی سی تمکنت سے کام کر رہے ہیں جن پر صوبائی محتسب کا دائرہ اختیار بھی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ دیگر تو دَرکنار ایف پی ایس سی کی ریکروٹنگ ایجنسی میں بھی ڈی ایم جی ہی کی دھونس دھاندلی چلتی ہے اور کسی بھی انتظامی بھینس کو ہانکنے کے لیے اصل لاٹھی اسی کے پاس ہے۔ بلدیہ کی ایک دیہی یونین کونسل سے لیکر پرائم منسٹر آفس تک یہی بے آواز نمالاٹھی ہر طرف چلتی نظر آتی ہے۔ انتظامی عہدوں کی جنگ میں ڈی ایم جی نے پی سی ایس کے حقوق پر ڈاکہ زنی کی دیرینہ عادت آج تک ترک نہیں کی، نتیجتاً ان دونوں فریقین کے مابین آئے روز نفرت و دشنام اور دست و گریبان ہونے کے اِکادُکا مناظر دیکھتے میں آتے رہتے ہیں۔

ان دنوں بھی پنجاب میں بیوروکریسی کے انہی دو گروپوں کے پلیٹ فارم سے بڑی اسامیوں پر تعیناتی کے لیے وفاقی اور صوبائی افسروں میں شدید نزاعی صورتحال ہے۔ پی سی ایس اور ڈی ایم جی کے درمیان پوسٹوں کی غلط تقسیم اور ترقیاں نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈی ایم جی کے گریڈ17، 18 اور گریڈ 19 کے افسروں کو فوقیت دیکر بڑے گریڈ کی اسامیوں پر تعینات کرنے پر روایتی اختلافات ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈی ایم جی افسروں کو جس کوٹے کے تحت اسامیاں تقسیم کی جا رہی ہیں ایک تو وہ کوٹہ غیرقانونی ہے اس پر ستم یہ کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے آفیسرز غیر آئینی طریقہ سے پنجاب پر قابض ہیں جن کی وجہ سے صوبائی افسران ترقیوں اور پوسٹنگ سے حسب معمول محروم ہیں اور اس ضمن میں پوسٹنگ کا اختیار چیف ایگزیکٹو کے پاس ہے جو ڈی ایم جی کی طرفداری پر بضد ہے۔

معین قریشی کے نگران دور میں صوبوں میں وفاقی افسروں کی تعیناتی کا ایک فارمولہ طے کیا گیا تھا جسکے تحت گریڈ 19 کی اسامیوں پر پی سی ایس اور وفاقی افسروں کا کوٹہ 50، 50 فیصد رکھا گیا تھا، اس لحاظ سے گریڈ20 کی اسامیوں پر وفاقی افسروں کا کوٹہ 60 فیصد جب کہ صوبائی سروس کا 40 فیصد مختص تھا‘ اسی طرح گریڈ21 کی اسامیوں پر وفاقی سروس کے افسروں کا کوٹہ 65 فیصد جب کہ صوبائی سروس کے افسروں کا 35 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم گریڈ 22 کی ساری اسامیاں وفاقی سروس کے افسروں کے لیے مخصوص کر دی گئی تھیں جس پر صوبائی سروس کے افسروں کے گزشتہ 20 سالوں سے اٹھائے جانے والے اعتراضات پر 12 سے زیادہ بنائی گئی کمیٹیاں اور متعدد کمیشن بھی اس مسئلے کو تاحال حل نہیں کر پائے۔

اس وقت چاروں صوبوں میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار پی سی ایس افسر ہیں جب کہ ڈی ایم جی افسروں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن حسب ضابطہ میرٹ پر بھرتیاں کرتا ہے جب کہ وفاقی افسروں کی بھرتیاں کوٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ ڈی ایم جی میں اس وقت 92.5 فیصد افسران کوٹہ کے تحت اور 7.5 فیصد میرٹ پر ہیں۔ پی سی ایس افسروں کی یہ دیرینہ شکایت رہی ہے کہ پنجاب میں ہمیشہ ڈی ایم جی کی اجارہ داری رہی ہے جسکے باعث ان کے گریڈ17 کے افسر کو دو سال بعد گریڈ 18 کی اسامی کا چارج دیدیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں صوبے کا چیف ایگزیکٹو بھی ان افسروں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ مزید برآں معین قریشی دور کے غیرآئینی و غیر قانونی فارمولہ کی بھی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں جو بذاتِ خود ایک غیرقانونی فعل ہے۔ 10 فروری 2014ء کو بیوروکریسی سے متعلق جو ایس آر او پاس کیا گیا اس نے سول سروس کے ایک بڑے حصے کو ناراض کر دیا۔ حکومت کے اس اسٹیچوری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) کے تحت 65 فیصد سیکریٹریٹ گروپ کے پروموشن گریڈ21 اور 22 کو دیے گئے ہیں جب کہ 35 فیصد دوسرے کیڈرز کے لیے رکھے گئے تھے جس میں آفس مینجمنٹ گروپ، کامرس اور ٹریڈ، بیرونی سروس، ریونیو سروس، انفارمیشن سروس، ملٹری لینڈ، کنٹونمنٹ، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس، ریلوے اور لائسنس شامل ہیں۔

19 گریڈ کے بعد آفس مینجمنٹ اور کچھ دیگر گروپس کے آفیسرز کو سیکریٹریٹ گروپ میں پروموٹ کر دیا گیا، مگر اپنے گروپ میں نہیں‘ اس طرح سیکریٹریٹ گروپ کے پروموشن کو بہت سے دوسرے گروپس میں تقسیم کر دیا گیا۔ ڈی ایم جی کے افسروں نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جن کو ہتھیار کے طور پر استعمال میں لا کر صوبائی سروس کے افسروں کو دبایا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈی ایم جی افسران اپنی دھن پر مصر ہیں کہ پنجاب میں وفاقی سروس کے افسرشاہان پہلے ہی کوٹہ سے کم ہیں اور صوبائی سروس کے ذمے داران اس شب ظلمت میں اپنی بے بسی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جب تک پاور فل بیوروکریسی میں انقلابی اصلاحات ہنگامی بنیادوں پر نافذ نہیں کی جاتیں اور ان پر احتساب کا ایک کڑا نظام مسلط نہیں کیا جاتا نہ تو سول سروس کے گروپوں میں طاقت اور اختیارات کی کشمکش ختم ہو گی نہ ہی بیوروکریٹس کسی ذاتی ریاست کے نوابوں کی طرح خفیہ اثاثے بنانے سے باز آئینگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔