آپ اس کرسی سے اٹھ جائیں !!

شیریں حیدر  اتوار 11 اکتوبر 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

صبح وہ حسب معمول اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے اپنی گاڑی پارک کر کے دانتوں کے اس مشہور اسپتال میں پہنچی تو اسے اندر سے نعروں کی آوازیں آ رہی تھیں… اس نے کان لگا کر سنا تو حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی کیونکہ نعرے اسی کے خلاف لگائے جا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ اگر وہ اس اسپتال میں کام کرے گی تو باقی سارے ڈاکٹر کام نہیں کریں گے!!! اس نے اردگرد کا جائزہ لیا، اسے چند ٹیلی وژن چینلز کی موبائل گاڑیاں بھی نظر آئیں جو کہ یقینا اس ’’ اہم ‘‘ واقعے کی کوریج کے لیے وہاں موجود تھیں، اس نے خاموشی سے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی، اسے علم تھا کہ کوئی اس کی سننے والا نہیں اور چینلز پر لمحوں میں اس کی تصاویر سمیت جھوٹی سچی خبر کے ساتھ وہ دنیا بھر میں دیکھی جا سکے گی۔

وہ  لاہور کے ایک معروف اسپتال میں تین ماہ سے جا رہی تھی، جہاں اسے کافی کم عوضانے پر رکھا گیا تھا ۔ اپنی ہاؤس جاب کے پہلے ہی دن اسے جب طبی اوزار استعمال کرنے کی ضرورت پڑی تو اسے پھر حیرت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسے بتایا گیا کہ اسے خود اپنے اوزارخریدنا ہوں گے۔ چار و نا چار، اس نے تیس ہزار روپے خرچ کر کے اپنے استعمال کے لیے اوزار خریدے اور اسے ان کو استعمال کرنا بھی نصیب نہ ہوا کہ چائے کے وقفے کے دوران اس کے اوزار کسی سرجری سے چوری ہو گئے۔

جہاں وہ اپنی طرف سے محفوظ سمجھ کر رکھ آئی تھی۔اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر وہ خاموش رہی ، اگلے دو تین دن چھٹیاں آ گئیں اور اس سے اگلے دن کام کے لیے آتے ہوئے ساٹھ ہزار روپے اپنے ساتھ پرس میں رکھ کر لائی کہ پہلے اوزار بھی اس نے اسپتال سے متصل میڈیکل اسٹور سے ادھار لیے تھے اور اب دوبارہ خریدنا تھے۔

دن کے کسی حصے میں اسپتال کے کسی آفس بوائے نے اسے اپنی انچارج کا پیغام دیا کہ وہ ان سے مل لے، اس نے اپنا بیگ وہاں چھوڑا جہاں کئی اور ڈاکٹر بھی موجود تھے اور سوچا کہ وہ محفوظ ہو گا۔ اس روز اسے نہ صرف ساٹھ ہزار روپوں کا، بلکہ اپنے بینک کارڈ، شناختی کارڈ، موبائل فون اور بیگ میں موجود ہر چیز سے بیگ سمیت محروم ہونا پڑا۔ کسی سے فون لے کر اپنے شوہر کو فون کیا جس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی انچارج سے بات کرے اور اگران کے پاس کوئی حل نہ ہو تو اسپتال کے انچارج کے پاس جائے، اس کی انچارج نے تو اسی کو لاپروا کہا اور کہا کہ ا س کے پاس تو اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

اس نے اسپتال کے انچارج کے پاس جانے کی کوشش کی تو اسے کامیابی نہ ہوئی کہ وہ ایک میٹنگ میں تھے، نہ صرف اس دن بلکہ اگلے پانچ دن تک جب بھی وہ چیک کرتی تو وہ میٹنگ میں ہی ہوتے۔ اسی اثناء میں اس کے شوہر نے پولیس رپورٹ کروا دی تھی، تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا، ڈانڈے اسپتال کے اندر ہی جا ملے، اسپتال کے اسٹاف میں سے لوگ اس میں ملوث پائے جا رہے تھے، اسپتال سے ملحقہ میڈیکل اسٹور سے تیس ہزار میں خریدی جانے والی طبی آلات کی کٹ ،چوری ہو کر بیس ہزار میں واپس خرید لی جاتی تھی۔

پولیس اسپتال کے اندر جا کر تحقیقات کرے، اس سے پہلے اس ڈاکٹر کے شوہر نے کہا کہ وہ اسپتال کے انچارج کے ساتھ خود مل کر بات کر کے دیکھتا ہے کہ وہ کس حد تک اس معاملے میں مدد کر سکتے ہیں اور اپنے عملے میں سے ملوث لوگوں کو یا تو وارننگ دیں یا پھر انھیں فارغ کریں۔

اگلے دو تین دن تک وہ ڈاکٹر خاموشی سے اپنی ڈیوٹی پر جاتی رہی اور اس کا شوہر دن بھر اپنا کام چھوڑ کر اس اسپتال کے انچارج کے دفتر کے باہر استقبالیہ کے صوفوں پر بیٹھا رہتا تھا کہ چھٹی کا وقت ہو جاتا اور اسے اپنی بیوی کو لے کر واپس جانا ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اندر اطلاع نہیں کی جاتی تھی، دن میں بیسیوں دفعہ اٹھ کر وہ دروازے پر جاتا اور چپڑاسی سے کہتا کہ اسے انچارج صاحب سے فقط پانچ منٹ کے لیے ملنا ہے مگر انچارج صاحب کی میٹنگ کبھی بھی ختم نہ ہوتی۔

چوتھے دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے اسے جانے کیا سوجھی کہ اس نے اخلاقیات کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھا اور چپڑاسی کے روکتے روکتے بھی اس’’ اہم میٹنگ ‘‘میں دخل انداز ہو گیا جہاں انچارج صاحب کے کمرے میں تین چار اور مرد اور خواتین سینئر ڈاکٹر موجود تھے اور چاٹ، سموسوں اور برفی کے ہمراہ قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ باہرسے اندر داخل ہو کر مخل ہونے والے کو سب نے حیرت کے بعد ناراضی سے دیکھا، باقی تو خاموش رہے مگر انچارج صاحب گرجے  ’’ کون جاہل اور بے ہودہ ہے یہ؟ ‘‘

وہ ان کے قریب جا کر میز کے پاس کھڑا ہوا جو پہلے سے ہی لوازمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، اس کے دو ہاتھوں کا بوجھ بھی نہ برداشت کرتی ہوئی وہ میزایک طرف کو جھکی اور اس پر سے چند پلیٹیں سموسوں کے بوجھ سمیت زمین پر آ رہیں، انچارج صاحب تو اس بات پر بپھر اٹھے اور اپنی ’’ مہذب ‘‘ زبان میں صلواتیں سنانے لگے۔

اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ہونے والے چوری کے دونوں واقعات کے بارے میںان سے پوچھا، انچارج صاحب نے کہا کہ یہ ان کا مسئلہ تھا نہ ان کے پاس اس کا کوئی حل تھا، ڈاکٹروں کو اپنی چیزوں کا خود خیال کرنا چاہیے اور اپنی ملکیت کی حفاظت۔  وہ انھیں بتا کر کہ وہ کیا کرنے والا ہے، اس دفتر اور اسپتال سے باہر نکل گیا۔اگلا روز تھا جس دن اس ڈاکٹر نے باہر سے ہی اپنے نام کا غوغا سنا اور خاموشی سے اس اسپتال سے نکل آئی۔ گھر پہنچ کر چولہا چوکی سنبھالا اور آج تک سنبھال رہی ہے، کسی کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ لاپروائی اور بے حسی دوسروں کے اندر کیا کیا مار دیتی ہے!! آج ڈاکٹر عمر کی ای میل پڑھ کر مجھے یہ سالوں پرانا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ یاد آ گیا ہے۔

کب تک ہم ایسا ہونے دیتے رہیں گے؟ کب تک ان چور ڈاکوؤں کی سر پرستی ان اسپتالوں کے انچارج اپنی لاپروائی اور بے حسی کے ساتھ کرتے رہیں گے۔ اہم میٹنگ کے نام پر چائے پارٹیاں ہوں گی، ڈاکٹرز اپنی فریاد تک صاحبان اختیار تک نہیں پہنچا پاتے ، اب تو وہ وقت آ گیا ہے کہ ہر مطالبہ منوانے کے لیے ہڑتال کر دی جاتی ہے اور ہم سب باہر بیٹھے لوگ ڈاکٹروں کو بے حس کہہ رہے ہوتے ہیں، یہ مت بھولیں کہ ڈاکٹر بھی ہماری طرح انسان ہیں اور شعور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جو گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا اس کے لیے انگلیاں ٹیڑھی کرنا پڑتی ہیں، جب وہ خود کو اپنے اسپتال کے انچارج تک رسائی حاصل کرنے میں بھی بے بس پاتے ہیں تو حکومت تک رسائی تو اسی طرح احتجاج کر کے اور ہڑتالوں پر جا کر ہی ہو گی نا!

کون مرتا ہے کون نہیں، اس کی فکر تو ہر ایک کو اپنی فکر کے بعد ہوتی ہے ۔ خدمت اور مسیحائی کا جذبہ لے کر ، بے انتہا رقوم خرچ کر کے اور پانچ سال تک کم از کم سخت مشقت کی تعلیم حاصل کر کے جو لوگ اپنے فرائض کی ادائیگی کے راستے میں ایسی مشکلات پاتے ہیں ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں ، سخت حالات ان کے اندر کا نرم انسان مار دیتے ہیں، جن اسپتالوں میں علاج کے لیے عوام کی کھالیں تک ادھیڑ دی جاتی ہیں وہاں پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو اپنی ملکیت کے تحفظ کے لیے لاکر فراہم کر دیے جانا کتنا مشکل کام ہے؟ ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو حل کر دیا جائے تو بڑے مسائل جنم نہ لیں۔

جس طرح ہم اپنے گھروں کا نظام چلاتے ہیں اور اس کے لیے حکومت سے مدد کی توقع نہیں کرتے ماسوائے اس کے کہ ہمارے مسائل کو مہنگائی وغیرہ سے بڑھائیں نہیں، اسی طرح ہر اسپتال کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ اپنے پاس کام کرنے والے ڈاکٹروں اور ٹرینیزکو احسا س تحفظ اور اپنائیت دیں ، کام کی جگہ کو ان کے لیے محفوظ بنائیںاور انھیں ان فکروں سے آزاد کردیں کہ ان کا مال اور ملکیت محفوظ نہیں۔ دوسروں کی بات سن لینا ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، کسی ماتحت کا مسئلہ سننا اور اسے حل کرنا آپ پر فرض ہے، یقینا آپ سینئر ہیں اور آپ کا احترام کرنا جونئیرز پر فرض ہے مگر احترام اور عزت اپنے رویوں سے کمائے جاتے ہیں نہ کہ جھوٹ کے پردوں میں سچ کو لپیٹ کر، اگر آپ خود کو بے بس پاتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا آپ کے بس کی بات نہیں تو آپ اس کرسی سے اٹھ جائیں کہ آپ اس کے مستحق ہی نہیں !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔