’’حیرت کدہ‘‘ نے حیرت زدہ کردیا

رئیس فاطمہ  اتوار 11 اکتوبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

چند دن پہلے ایک ایسی کتاب مطالعے میں آئی، جس نے حیرت زدہ کر دیا۔ پہلا صفحہ کھولا، مولف کا پیش لفظ پڑھنا شروع کیا تو جیسے اس دنیا میں کھو گئی، جو اس کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ بہت کچھ آشنا اور مانوس واقعات عمارات، جنھیں ہمیشہ دیکھتے آئے۔ ان قیمتی اور سونا اگلتی جگہوں پہ ویران بیش قیمت عمارتوں کی پراسراریت سے تو نہ جانے کب سے واقف تھے۔

کتاب ہاتھ میں آنے سے ایک دن قبل معروف صحافی انور سن رائے (جو بی بی سی سے وابستہ ہیں) کا تبصرہ آتش شوق کو پہلے ہی بھڑکا چکا تھا اور جب اگلے دن معراج جامی یہ کتاب دے کر گئے تو بس میں ان کے جاتے ہی لے کر بیٹھ گئی۔ کتاب ختم ہوئی تو جی چاہا کہ اپنے قارئین سے یہ ضرور کہوں کہ بہت کم کتابیں اپنے سحر میں قاری کو اس طرح جکڑ لیتی ہیں کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ بہت پہلے طالبعلمی کے زمانے میں رائیڈر ہیگرڈ کی ’روح کا سفر اور روح کی واپسی پڑھ کر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہوئی تھی۔

’’حیرت کدہ‘‘ دراصل خود نوشتوں اور دیگر معتبر کتب میں درج مافوق الفطرت اور ماورائے عقل واقعات پر مشتمل ہے۔ اس محنت طلب کام کو راشد اشرف نے بہت خاموشی سے انجام دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسی تحریریں صرف اپنی پراسراریت کی وجہ سے پسند نہیں ہیں، (مجھے جاسوسی ادب سے کوئی خاص شغف نہیں) بلکہ اس کے پیچھے اپنی ننھیال اور ددھیال سے ملا روحانی اور تصوف کا ورثہ بھی شامل ہے۔

بہت سے لوگ ہر شے کو عقل اور سائنس کی کسوٹی پہ پرکھتے ہیں، لیکن وہ لوگ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں، جو ماورائے عقل واقعات پہ یقین نہیں رکھتے۔ اگر سب کچھ عقل کے تابع ہے تو خدا کیا ہے؟ کس نے اسے مجسم دیکھا ہے۔ سچائی خود ایک دلیل ہوتی ہے۔ جو خود انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ ’’حیرت کدہ‘‘ میں راشد اشرف نے کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر غیر آباد اور نامکمل الآمنہ پلازہ کی جو وجوہات بتائی ہیں۔ اس کو پڑھنے کے بعد جو بھی پرانی نمائش سے صدر کی طرف جائے گا تو اسے بلند و بالا ’’سی بریز‘‘ بھی نظر آئے گا جہاں ایک بڑا اسپتال قائم ہوا تھا اور اس کی بیرونی آرائش ایک بڑے مصور نے اپنی پینٹنگ سے کی تھی۔ بہت دنوں تک وہ میورل نظر آتے رہے۔ پھر سب کچھ کیوں ختم ہو گیا؟ کیا تھا وہاں؟

کراچی کے لوگ جانتے ہیں کہ پرانی نمائش کے قریب عامل کالونی والے علاقے میں چند بنگلوز آج بھی موجود ہیں جو اجاڑ اور خالی پڑے ہیں۔ وہاں کئی پارٹیوں نے کوشش کی مگر مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ ان عمارتوں پر جنات کا قبضہ ہے۔ ان عمارتوں سے جڑے واقعات کے راوی اور متاثرین بھی موجود ہیں۔

ایک ہم عصر روزنامے کے میگزین میں ایک بار ان بنگلوز سے جڑے واقعات معہ تصاویر کے شایع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب نے مجھے بہت کچھ یاد دلا دیا۔ میری والدہ کو ایک ادراک تھا کہ کسی خاص جگہ کو پاک صاف کیوں رکھا جائے۔ ہمارے پی ای سی ایچ ایس والے گھرکی تعمیر کے بعد کارنر پلاٹ ہونے کی وجہ سے ہل پارک کو جانے والی سڑک کی تعمیر سے دو سو گز مزید زمین قیمتاً والد کو مل گئی تھی۔ یہ 1965ء کا زمانہ تھا۔ مکان بن کر تیار ہو چکا تھا۔ سڑک بعد میں بنی تھی۔

لہٰذا اس دو سو گز کو پہلے سے موجود گارڈن میں شامل کر کے گلاب، موتیا، رات کی رانی اور کچھ پھل دار درختوں کا مسکن بنا دیا گیا تھا۔ لیکن کچھ پچھلا حصہ جو اصل زمین سے تقریباً چھ فٹ نیچے تھا۔ اس کی بھرائی پر بہت خرچ آ رہا تھا۔ والد صاحب پہلے ہی ہاؤس بلڈنگ والوں سے قرضہ لے چکے تھے۔ اب مزید ممکن نہ تھا۔ وہ حصہ بالکل اجاڑ تھا۔ لمبی لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ پورے علاقے میں صرف تین بنگلوز تھے۔ جن میں سے ایک ہمارا تھا۔ والد صاحب نے اس حصے کو یوں ہی رہنے دیا کہ جب اصل قرض ادا ہو جائے گا تو اس کی طرف توجہ دیں گے، لیکن جن صاحب کو گھر کی تعمیر کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

وہ نہ صرف ایک سول انجینئر بلکہ ایک باشرع صوفی بھی تھے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ اس جگہ کو یوں ہی Basement کے طور پر تعمیر کرنے سے اخراجات بہت کم ہو جائیں گے۔ یہ حصہ تقریباً 80 گز پہ مشتمل تھا۔ ان کی بات مان کر جھاڑیوں وغیرہ کی صفائی کروائی گئی۔ میری والدہ نے اپنا گھر ’’نوبہار‘‘ خود اپنی نگرانی میں بنوایا تھا۔ انھوں نے جھاڑ جھنکاڑ کی صفائی کے بعد اس حصے میں لوبان، اگربتیاں اور صندل کی دھونی دلوائی، پھر وہاں قرآن خوانی کروا کے نیاز تقسیم کی۔

یہ ایک علیحدہ پورشن بن گیا تھا۔ بڑے کمرے کے ساتھ کچن بنایا گیا تھا۔ جب یہ تیار ہو گیا تو کچھ عرصہ والدہ نے اسے اپنے استعمال میں رکھا، اصل بنگلو کو یو این او (UNO) نے کرائے پر لے لیا تھا۔ میرا بچپنا تھا، لیکن یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ والدہ صاحبہ نے کچن والے حصے سے چولہا اٹھوا لیا تھا۔ وہاں سوئی گیس آ چکی تھی اور برتن دھونے کی جگہ بھی تبدیل کروا دی تھی۔ ایک دن اسکول سے آئی تو دیکھا کہ سابقہ کچن والے حصے کی صفائی کر کے اسے بالکل علیحدہ کر دیا گیا اور وہاں والدہ نے سب کو جانے سے منع کر دیا۔ البتہ روزانہ شام کو وہ وہاں اگربتیاں اور لوبان جلانا نہ بھولتیں۔ پھر بس اتنا یاد ہے کہ بہت جلد گھر کی دوسری منزل بن گئی اور ہم سب اوپر شفٹ ہو گئے۔

اس پورشن کے لیے بہت سے کرایہ دار آئے، لیکن والد صاحب نے اسے ایک ایسی فیملی کو رہنے کے لیے دیا، جن کا تعلق پنجاب سے تھا اور نرسری پہ ان کا ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور تھا۔ وہ ایک معتبر اسٹیٹ ایجنٹ کے ساتھ گھر پر آئے تھے۔ میرے والد نے جب ان کے مالی حالات سنے تو صرف گیس اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی ان کے ذمے کی اور بغیر کسی کرائے کے رہنے کو گھر دے دیا۔ مختصر فیملی تھی اور لائل پور (فیصل آباد) سے کراچی شفٹ ہوئے تھے۔

والدہ نے ان کو صرف یہ ہدایت کی کہ وہ گھر کو صاف ستھرا رکھیں، پاکیزگی اور طہارت کا خیال رکھیں اور روز شام کو مذکورہ حصے میں اگربتی اور لوبان ضرور جلائیں۔ وہ فیملی صرف ایک سال میں اتنی مالا مال ہوئی کہ ان کے ایک اسٹور سے تین جنرل اسٹور ہو گئے۔ لیکن وہ کسی طور پر بھی وہ مختصر سا گھر چھوڑنے کو تیار نہ تھے، لیکن والدہ کا کہنا تھا کہ اب انھیں ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کسی اور ضرورت مند کے لیے خالی کر دیں۔

مجھے یہ سب باتیں بہت بعد میں پتہ چلیں جب کہ دونوں بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ اس حصے میں اور ہمارے اصل گھر میں جو بھی آ کے رہا وہ نہال ہوا۔ میرے اپنے کمرے میں جو اوپر کی منزل میں تھا اکثر مغرب کے وقت گلاب کے پھولوں کی خوشبو آتی تھی۔ ایک دن میں نے اپنی والدہ سے ذکر کیا تو انھوں نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور صرف اتنا کہا کہ ’’کسی اور سے ذکر نہ کرنا۔ جب ایسی خوشبو آئے تو درود شریف پڑھا کرو۔‘‘ اس مکان سے اور والدہ صاحبہ سے جڑی بہت سی غیر معمولی باتوں کو راشد اشرف نے یاد دلا دیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ میری چچازاد بہن پر ایبٹ آباد میں آسیب کا سایہ ہو گیا تھا۔ ہم سب نے اس آسیب کو دیکھا اور دوستی بھی کی۔ وہ کراچی میں ہی رہتی ہیں۔ وہ قرأت بہت اچھی کرتی تھیں، گھر کے سامنے ہی پیپل کا درخت تھا جو کہ نادیدہ مخلوق کا ٹھکانہ تھا۔ بہت تفصیل طلب سچا واقعہ ہے اور اتنا حیرت انگیز کہ کاش وہ ’’حیرت کدہ‘‘ کا حصہ بن جاتا۔ انشا اللہ کسی دوسرے مکمل مضمون میں ان واقعات کا ذکر ضرور کروں گی۔

جو ہمارے قریبی رشتے داروں کے ساتھ پیش آئے تھے اور اپنی والدہ کی اس غیبی قوت کی بھی جسے ماہرین نفسیات چھٹی حِس کہتے ہیں۔ ان سب کو کالم میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ لیکن ’’حیرت کدہ‘‘ نے اس جانب توجہ ضرور دلائی ہے کہ ہمیں دوسروں کو اس میں شریک ضرور کرنا چاہیے۔ خود میں دو ایسے بزرگوں سے ملی ہوں جنھوں نے مجھے حیران کر دیا تھا۔

’’حیرت کدہ‘‘ کے بیشتر واقعات میں پہلے ہی دوسری سوانح عمریوں میں پڑھ چکی ہوں۔ لیکن الگ الگ سچے واقعات نے جب ’’حیرت کدہ‘‘ کو اپنا مسکن بنایا تو بہت اچھا لگا۔ راشد نے ملیر کی لوکل ٹرین کا جو واقعہ اپنی نانی کے حوالے سے لکھا ہے۔ ان صاحب کرامت بابا کا ذکر میں نے جامعہ ملیہ کے پرانے اساتذہ اور ملیر 15 پہ مندر کے پاس رہنے والوں سے بھی سنا ہے۔

سچ کہیے تو یہ ایک ایسی کتاب ہے جس نے ان دنوں کی یاد بہت سے لوگوں کو دلا دی ہو گی جب نہ ٹی وی تھا، نہ انٹرنیٹ، نہ موبائل۔ لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے تھے۔ اپنے دکھ سکھ اور خاندان و احباب سے جڑی باتیں شیئر کیا کرتے تھے۔ لوگ اکیلے نہیں تھے۔ رشتوں کی ڈور نے انھیں باندھ رکھا تھا۔ آج کی طرح بھری محفل میں انسان تنہا نہیں تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔