معرکۂ قسطنطنیہ۔ حیرت میں تھی دُنیا (آخری حصہ)

تشنہ بریلوی  اتوار 11 اکتوبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

سلطان حملے کا فیصلہ کرچکا تھا اس نے طے کیا کہ بحیرہ مرمرہ سے ترک جہاز دارالحکومت کی سمندری فصیلوں پر سینیٹ صوفیہ کے بڑے گرجا گھر پر،گھڑ دوڑ کے میدان پر اور Contoscalion کی مضبوط بندرگاہ پرگولہ باری کریں گے۔ امیر البحر حمزہ بے نے منصوبہ بنایا تھا کہ ترک جہازوں کو ساحل سے لگا کر اس کے جاں فروش سپاہی طویل سمندری فصیلوں پر سیڑھیوں سے چڑھ کر شہر میں داخل ہوں گے ۔ یہ بہت جوکھم کا کام تھا جس میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا ہے چونکہ چڑھتے ہوئے سپاہیوں کوگرانے کے لیے تو کھولتے ہوئے پانی کی ایک دھار ہی کافی ہوتی ہے ۔

پھر بھی بہت سے ترک سپاہی اندر داخل ہوگئے ساتھ ہی ساتھ ترک توپوں کی گولہ باری بھی جاری رہی۔ سینیٹ رومانس St.Romanusکا گیٹ نشانہ بنا‘کیری سیاس Charisiusکا پھاٹک تباہ ہوا ۔ سب سے اہم یہ کہ بلاشرنائے Blachernaeکا دروازہ ٹوٹ گیا ۔بڑی توپ ہر سات منٹ بعد چٹان کے مساوی پتھر داغتی تھی جو بزنطینیوں کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہوا ۔لیکن قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا اصلی راستہ گولڈن ھارن کی خلیج سے جاتا تھا جہاں ایک بہت موٹی زنجیر جہازوں کا راستہ روک رہی تھی اور جہاں بزنطینیوں کی اصلی طاقت موجود تھی۔ ترکوں کی ہرکوشش بے کار رہی ۔

کوئی جنگی جہازگولڈن ھارن کی تنگنائے میں داخل نہ ہوسکا ۔بندرگاہ کی بے حد مضبوط فصیل پر دمدمے بنے ہوئے تھے اورگولہ باری کررہے تھے ۔اس فصیل کو بڑی توپ نے بہت نقصان پہنچایا لیکن یونانی بہت جلد اس کی مرمت کردیتے تھے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ترک سپاہی بڑی تعداد میں فصیل کے نیچے جمع ہوکر پوری طاقت سے دھاوا بولیں لیکن یہ سپاہی تو Galieys(جنگی جہازوں) ہی میں آسکتے تھے اور جہازوں کا راستہ خلیج میں بڑی زنجیر روک رہی تھی ۔کیا کیا جائے؟سلطان محمد ثانی نے بہت غوروفکر کے بعد فیصلہ کیا کہ کیوں نہ کیرم کھیلا جائے ! جی ہاں کیرم ۔

اس دلچسپ معصوم سے کھیل سے جنگ کا کیا تعلق ۔ یہ تو گھروں میں کھیلا جاتا ہے ۔

کیرم میں پلاسٹک یا لکڑی کی چکنی سطح پرگوٹیں دوڑائی جاتی ہیں ۔ سلطان محمد ثانی نے ’’گولڈن ھارن کی زنجیر کا حل یہ نکالا کہ بائیں طرف’’ گالاتا‘‘ شہرکے عقب میں خشکی پر راستہ بنایا اوراس پر بڑے بڑے تختے ڈال دیے۔ جانوروں کی لس دار چربی استعمال کرتے ہوئے اس نے ان تختوں کو بے حد چکناکردیا ۔ ہتھیاروں اورسپاہیوں سے لدے ترکی جنگی جہاز (Galleys)چکنے تختوں پر مزے سے پھسلتے گئے۔ کل 70جہاز اس طرح منزل تک پہنچ گئے اور بیچاری زنجیر دیکھتی رہ گئی۔

قسطنطنیہ کے عیسائیوں نے ترک جہازوں اور سپاہیوں کو اس طرح آتے دیکھا تو وہ بھونچکا رہ گئے اور یوں ترکوں کو ان پر زبردست نفسیاتی فتح حاصل ہوگئی، اب دارالحکومت کا محاصرہ مکمل تھا اور جنگ کو شروع ہوئے 53دن ہوچکے تھے ۔ سب سے پہلے’’ باشی بازو ک‘‘ رضا کار آئے ( انھیں مشرقی پاکستان کے ’’الشمس‘‘ اور ’’البدر‘‘ جیسا سمجھیے) اس کے بعد اناطولی سپاہی اور آخر میں یے نی چیری (Janissary)کمانڈوز ۔ وہ جڑے جڑے آگے بڑھے کتائب (Phalanges)کی طرح طوفانی گولہ باری کی پروا کیے بغیر۔ دلوں کو گرمانے کے لیے زبردست مارشل میوزک (جنگی ترانہ) زور زور سے بج رہاتھا ۔ (جیسا کہ 1965ء میں پاکستان میں بھی ہواتھا ) دونوں طرف سے توپیں گرج رہی تھیں ۔

نوجوان سلطان جان کی پروا کیے بغیر بنفس نفیس ایک خندق میں موجود تھا اور سپاہیوں کی ہمت بڑھارہا تھا ۔ ایک سیل رواں کی طرح سپاہی فصیل کے گرد قائم مورچے تک پہنچ رہے تھے اپنی لمبی لمبی سیڑھیاں اور متحرک ٹاور فصیل سے لگا کر اوپر چڑھ رہے تھے ۔گرتے بھی جارہے تھے لیکن بالآخر کامیاب ہوئے یونانی افراتفری کے عالم میں پسپا ہونے لگے اور بھاگتے وقت ایک دروازہ کرک پورٹ Kerkporte بندکرنا بھول گئے ۔ ساری ترک فوج اندر داخل ہوگئی ۔

اب قسطنطنیہ سلطان محمدثانی کے قدموں تلے تھا ۔ وہ فاتح بن چکا تھا ۔اس سے پہلے ایسا کارنامہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے سر انجام دیا تھا جب انھوں نے 1187ء میں دوسری صلیبی جنگ میں جبل حطین کے قریب یورپی طاقتوں کو شکست دے کر یروشلم (القدس) فتح کیاتھا ۔

اوپر ہٹلرکا ذکر ہوچکا ہے وضاحت ضروری ہے ۔ جون1940ء میں فرانس کو شرمناک شکست دینے کے بعد اڈولف ہٹلر رودباد انگلستان (English Channel)کو پارکرکے انگلینڈ کو فتح کرناچاہتا لیکن ہزارکوشش کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا اور انگلستان آزاد رہا ۔ اس لحاظ سے سلطان محمد ثانی ھٹلر کے مقابلے میں بہتر رہا لیکن ایک دوسرے معاملے میں دونوں برابر کامیاب رہے، فرانس نے اپنے دفاع کے لیے بیحد مضبوط Maginot Line مژینو لائن تیار کی تھی لیکن ہٹلر اسے چھوڑکر بلجیم کے راستے سے فرانس پر حملہ آورہوا۔ جس طرح سلطان محمد ثانی آہنی زنجیر کو نظرانداز کرکے حملہ آور ہوا۔ ترک سپاہیوں نے شہر میں داخل ہو کر لوٹ مار اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا ۔ شہنشاہ قسطنطنیہ قتل کردیاگیا اوراس کے سر کی نمائش ہوئی تاکہ کسی کو شک نہ رہے اور سب ہتھیار ڈال دیں۔

یہ کس کا سر ہے دیکھیے ‘ پہچان جائیے
اپنی شکستِ فاش کو اب مان جائیے

340سال بعد یہی عمل فرانس میں دہرایا گیا جب لوئی شانزدھم کا سر انقلابی عوام کے سامنے لہرایا گیا تھا ۔

سلطان محمد ثانی فاتح بڑی شان سے مفتوحہ شہر میں داخل ہوا، وہ سب سے پہلے ’’آیا صوفیہ‘‘Hagia sofia پہنچا جہاں موذن اذان اور امام خطبہ دے چکاتھا۔ محمد ثانی نے شکرانے کے نفل پڑھے اس جگہ جو عیسائیوں کی قربان گاہ تھی اور جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بی بی مریم وغیرہ کی شبیہیں لگی ہوئی تھیں ۔ اس کے بعد قیصر کے اجڑے ہوئے ایوان کی طرف روانہ ہوا جہاں ہو کا عالم تھا۔ فاتح سلطان نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ عبرت و حسرت کی تصویرٖ محل جھونپڑے سے بدتر ۔ بے اختیار زبان پر ایک فارسی شعر آیا کچھ اس طرح :

قصر شاہی زیر تارعنکبوت
ہر کجا لرزد صدائے زاغ و بُوم

بزنطینی سلطنت ختم ہوچکی تھی اور سلطان محمد ثانی خود قیصر روم بن چکاتھا ۔ قسطنطنیہ کو اب ’’اسلا م بول‘‘ کہا جانے لگا تھا یعنی اسلام کا شہر پھر استنبول۔ 1930سے اس کا سرکاری نام استنبول ہے۔

آیا صوفیہ کو فوراً مسجد میں تبدیل کردیاگیا اور تقریباً پانچ سو سال تک وہاں اذان گونجتی رہی پھر مصطفیٰ کمال اتاترک کے سیکولر دور میں اسے میوزیم بنادیاگیا۔

سلطان محمد ثانی کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اس نے بلغاریا یونان اور سربیا وغیرہ پر قبضہ کیا اور اٹلی کے جنوب میں ’’اپولیا ‘‘پر اپنی فوجیں اتاردیں وہ عیسائیت کے سب سے بڑے مرکز’’رومۃ الکبریٰ‘‘ پر حملہ کرنے کی پوری تیاری کر چکا تھا کہ اچانک 1481ء میں سلطان محمد ثانی فاتح صرف 49 سال کی عمر میں انتقال کرگیا ۔ شاید اس کو زہر دیاگیا تھا ۔ روم پر قبضے کے بعد سارا یورپ اس کے پاؤں تلے ہوتا۔ سلطان فاتح کی موت پر عیسائی دنیا نے اطمینان کا سانس لیا اور بڑی خوشی منائی چونکہ 1453میں قسطنطنیہ میں شکست کے بعد سارا عالم عیسائیت غم میں ڈوبا ہوا تھا ۔1469میں’’ بلادولید‘‘ valladolidہسپانیہ میں ایک شادی ہوئی تھی دلہن تھی ازابیلا’’ قسطلہ‘‘ کی شہزادی اور دولہا تھا فرڈیننڈ ’’اراگاں‘‘ کا شہزادہ۔ دونوں ایک دوسرے کے کزن تھے اور کٹرکیتھولک تھے۔ ان کے ہی دور میں Inquistion نے زور پکڑا جو مذہبی شدت پسندی کوفروغ دیتاتھا اور عیسائیوں کے دشمنوں( یعنی یہودیوں ‘ مسلمانوں اور چڑیلوں ) کو نیست و نابود کرنے کے لیے وجود میں آیاتھا۔ بربر اور عرب مسلمانوں کی آخری پناہ گاہ غرناطہGranadaان کے ہی دور میں شکست سے دوچار ہوئی ۔ یہ تھا عیسائیوں کا ’’انتقام‘‘ جو یورپ کے مغربی کونے پرلیاگیا ‘ یورپ کے مشرقی کونے قسطنطنیہ پر 31سال پہلے ہونے والی ہزیمت کا اور اب فوراً ہی بیروزگار جہاز راں کولمبو اپنی مہم پر روانہ ہوگیا نئی دنیا دریافت کرنے کے لیے۔

ازابیلا اور فرڈیننڈ نے اپنی فتح کا جشن بڑے شاندار طریقے سے منایا ۔بڑے بڑے الاؤ روشن کیے گئے جن میں مورو (Moro)بربر اور عرب مسلمان) اور سیفر دی (Sephardic)یہودی تالیوں کے درمیان جلائے گئے ۔ یہ تھا”Auto da fa”’’جشنِ آتش‘‘

داستانِ عبرت و حسرت تو ہے بیحد طویل
میں نے لکھ ڈالی ہے کرکے مختصر دیوار پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔