آئیے قاضی فیض محمد کو یاد کریں

مقتدا منصور  پير 12 اکتوبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جب میں نوجوانوں سے گفتگو کے دوران وطن عزیز کے ان رہنماؤں، دانشوروں اور اکابرین کے بارے میں دریافت کرتا ہوں، جو چند دہائیوں قبل تک قومی منظرنامہ میں نمایاں حیثیت کے حامل رہے ہیں، تو اکثریت ان کا کام تو کجا، نام تک سے واقف نہیں ہوتی۔ اس صورتحال کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب تو یہ ہے کہ تاریخ کو بطور ایک مکمل مضمون ہائی اسکول کے نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ مطالعہ پاکستان کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے، وہ تاریخ کے علاوہ سب کچھ ہے۔ تاریخ کے ساتھ اس سے بڑا کھلواڑ اور کیا ہو گا کہ دھرتی سے جڑی نامور شخصیات کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر ملکی حملہ آوروں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری نوجوان نسل جو گئی صدی کی آخری دہائی کے دوران پیدا ہوئی ہے، اپنے ملک کی ان شخصیات کے کارناموں اور سیاسی جدوجہد سے ناواقف ہے، جنھوں نے انسانی حقوق، جمہوریت اور سماجی برابری کے لیے انتھک اور بے لوث خدمات سرانجام دیں۔

اگر مستقبل قریب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بیسویںصدی ہوشربا تبدیلیوں کی صدی تھی۔ ایک طرف سائنس و ٹیکنالوجی نسل انسانی کے لیے نت نئی سہولیات متعارف کرا رہی تھی، جب کہ دوسری طرف عالمی منڈیوں پر قبضے کی خواہش میں دیوانگی کی حدود کو چھونے والا استعماری ذہن اس دھرتی کو آگ و خون میں لتھیڑنے پر آمادہ تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی مختلف انداز میں جاری ہے۔ مگر اسی ہیجان انگیز دور میں ایسی نابغہ روزگار ہستیاں بھی پیدا ہوئیں، جنھوں نے عالمی امن، انسانی حقوق، سماجی انصاف اور فکری کثرتیت کے لیے بے لوث و بے خطر جدوجہد کی۔ اپنے آدرش کے حصول کی خاطر ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سندھ اور ہند میں ایسی ان گنت قدآور شخصیات نے جنم لیا، جنھوں نے اپنی دھرتی کی آزادی اور عوام کے سیاسی و سماجی حقوق کی جنگ کو مہمیز لگائی۔

سندھ جنوبی ایشیا کا وہ خطہ ہے، جس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ جس کی تہذیب و تمدن دنیا کی چند قدیمی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ لیکن جو بات قابل فخر ہے، وہ یہ کہ سندھی عوام نے اپنی قومی شناخت، تہذیب و ثقافت اور لسانی تشخص پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ جب بھی ان کی تہذیب و ثقافت اور قومی تشخص کو خطرات لاحق ہوئے، سندھیوں نے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ اپنے تشخص کی بحالی کی خاطر دہائیوں پر مشتمل طویل جدوجہد سے بھی گریز نہیں کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1843ء میں سندھ پر مکمل قبضہ کے چار برس بعد (یعنی 1847) میں کمپنی بہادر نے جب اس کا الحاق بمبئی پریسیڈنسی کے ساتھ کیا، تو سندھ کے اہل دانش کی قیادت میں سندھی عوام نے اپنے سیاسی و جغرافیائی تشخص کی بحالی کے لیے 90 برس پر محیط طویل جدوجہد کی۔ یہ دنیا کی غالباً واحد تحریک ہے، جو اتنے طویل عرصہ تک انتہائی پرامن انداز میں استقامت کے ساتھ جاری رہی۔ اس تحریک کی کامیابی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سندھی عوام کو اپنی دھرتی سے کس حد تک محبت ہے اور حق و انصاف کے حصول کی خاطر طویل عرصہ تک میدان عمل میں کھڑے رہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

بمبئی پریسیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی (1936) نے سندھی عوام میں اعتماد کی ایک نئی فضا کو جنم دیا۔ انھیں یہ یقین ہو گیا کہ اخلاص کے ساتھ کی جانے والی جدوجہد کے ثمرات بہرحال ضرور ملتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں بعض ایسی شخصیات جنم لیتی ہیں، جنھوں نے سندھی قوم پرستی کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ اگر ایک طرف سائیں جی ایم سید سندھی عوام کے سیاسی حقوق کے لیے مختلف سیاسی پلیٹ فارم استعمال کر رہے تھے۔ تو دوسری جانب کامریڈ حیدر بخش جتوئی ظلم و ستم کی چکی میں پسے ہاریوں کو سندھ ہاری کمیٹی کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم کر رہے تھے، جب کہ ابراہیم جویو نے سندھی ادب وثقافت کے تحفظ اور پھیلاؤ کا ہدف لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان ہی اکابرین کے درمیان ایک ایسا شخص بھی موجود تھا، جو سندھی عوام کے سیاسی وجمہوری حقوق کی جدوجہد میں سائیں جی ایم سید کا دست راست بھی تھا، ہاری تحریک میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا سہارا اور ابراہیم جویو کی ادبی خدمات میں ان کامعاون و مددگار بھی۔ وہ شخص قاضی فیض محمد تھا۔

قاضی فیض محمد سندھ دھرتی کے وہ فرزند تھے، جو سیاسی و سماجی مسائل کی آگہی رکھنے کے ساتھ تاریخ کا شعور بھی رکھتے تھے۔ لیکن سب سے بڑھ کر ان میں قومی آزادی کے اہداف کو سمجھنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اگر ایک طرف انھوں نے ہاریوں، مزدوروں اور محنت کشوں سمیت معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ تو دوسری طرف سندھ کے حقوق کی جدوجہد کے لیے مختلف سیاسی پلیٹ فارم بھی استعمال کیے۔ سب سے پہلے وہ خاکسار تحریک میں شامل ہوئے۔ اس تنظیم کے ساتھ ان کی وابستگی 12 برسوں (1933ء سے 1945ء) پر محیط ہے۔ اسی دوران 1930ء میں میرپور خاص میں سندھ ہاری کانفرنس کا اہتمام ہوتا ہے، جو بعد میں سندھ ہاری کمیٹی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

خاکسار تحریک سے وابستگی کے دوران ہی وہ کامریڈ جمال الدین بخاری، ڈاکٹر ہاسانند اور کامریڈ عبدالقادر کی دعوت پر سندھ ہاری کمیٹی کی رکنیت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ 1941ء سے آخری سانس تک وہ ہاری کمیٹی کے ساتھ دامے، درمے اور سخنے وابستہ رہے۔ اس دوران انھوں نے کئی سیاسی جماعتوں کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ چونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہاریوں سمیت معاشرے کے محروم طبقات کے حقوق کی جدوجہد اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی، جب تک کہ قومی آزادی کی تحریک کو کامیابی میسر نہیں آتی۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ نے جو روش و رویہ اختیار کر لیا تھا، اس نے بہت سے صاحب فکر سیاسی کارکنوں کو اس سے مایوس کر دیا تھا۔ ون یونٹ نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یوں سندھ سے تعلق رکھنے والے اہل دانش اور متوشش سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئی کہ ’’آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا‘‘ کے مصداق سندھ ایک نئی استعماریت کا شکار ہو گیا ہے۔ اس نئے استعماری تسلط کے خاتمے کے لیے ایک بار پھر طویل سیاسی جدوجہد کرنا ہو گی۔

ان کی سیاسی بصیرت اور فکری وجدان نے انھیں یہ سمجھایا کہ اس وقت کے معروضی حالات میں عوامی لیگ ہی وہ واحد جماعت ہے، جو پاکستان میں قوموں اور قومیتوں کے حقوق کی نیک نیتی کے ساتھ ضمانت دے سکتی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد اس وقت تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ قومیتی حقوق بحال نہیں ہو جاتے۔ آج جو مارکسی دوست طبقاتی جدوجہد کے نام پر قومیتی حقوق کی جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہیں، وہ فکری رومانیت کا شکار ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کی کامیابی قومتی حقوق کی جدوجہد سے مشروط ہوتی ہے۔ استعماری قوتیں صرف بیرونی نہیں بلکہ ریاستوں کے اندر بھی ہوتی ہیں۔ جہاں مقتدر اشرافیہ جو طاقت کے بل بوتے پر کمزور قومیتوں اور کمیونٹیز کو کچل کر تاریخ کے صفحات کو مسخ کرنے کے درپے ہو، وہاں اپنے قومیتی تشخص کی جدوجہد حقیقی انقلابی جدوجہد ہوتی ہے۔ دوسری طرف قاضی فیض محمد مرحوم ہاری کمیٹی کے ساتھ اپنی وابستگی کو بھی متاثر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے ان کے سامنے یہی راستہ تھا کہ وہ ہاری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے محروم طبقات کے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور عوامی لیگ کے ذریعے سندھ کے قومی حقوق کے حصول کی جنگ کو مہمیز لگائیں۔ یوں انھوں نے واضح فکری اور نظریاتی رجحانات کے ساتھ اپنی زندگی کے 50 قیمتی سال سیاست کی نذر کیے۔

کل یعنی 13 اکتوبر کو انھیں ہم سے بچھڑے 33 برس ہو جائیں گے، مگر جب بھی سندھ میں ہاریوں اور مزدوروں سمیت معاشرے کے محروم طبقات کے لیے جدوجہد کی بات آئے گی تو قاضی فیض محمد مرحوم کا نام ضرور سامنے آئے گا۔ وہ اگر ایک طرف ہاریوں، مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی علامت تھے، تو دوسری طرف سندھ سمیت تمام مظلوم قومیتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے بے تیغ سپاہی بھی تھے۔ وہ سوشلزم کی عالمگیریت کے پرچارک تھے، تو ساتھ ہی سندھی تہذیب و ثقافت اور وضعداری کے امین بھی تھے۔ انھوں نے سیاست میں شرافت، نیک نیتی اور اخلاص کی جو روایات چھوڑی ہیں، وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر اس دھرتی پر جنم لینے والی ان نابغہ روزگار ہستیوں کا تعارف اپنی نوجوان نسل سے کرائیں، جن کی بدولت قومی حقوق کا شعور اور آگہی عام ہوئی ہے اور لوگوں میں اپنے حقوق کے لیے کمربستہ ہونے کا تصور پیدا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔