خطرناک،خوفناک کے بعد سیاست ناک

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 14 اکتوبر 2015

ہم خطرناک، خوفناک اور دہشت ناک تو تھے ہی لیکن اب اس کے ساتھ ساتھ سیاست ناک بھی ہو چکے ہیں اٹھتے بیٹھتے، کھاتے، پیتے، چلتے پھرتے بس صرف سیاست پر بات کرنا ہمارا محبوب ترین ہی نہیں بلکہ محبوبہ ترین مشغلہ بن کے رہ گیا ہے، اب ہمیں اپنی یا دنیا کی کسی بھی اور بات میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔

اب صرف اکلوتی بات سیاست ہے جس میں دلچسپی ہی دلچسپی ہے جب ہم سیاست پر بات کر کر کے تھک کر چور ہو جاتے ہیں ، ہمت جواب دے جاتی ہے تو پھر ہم آپس میں ایک دوسرے سے سیاست سیاست کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر میاں بیوی کے ساتھ سیاست کر رہا ہوتا ہے۔ بیوی ساس کے ساتھ سیاست سیاست کھیل رہی ہوتی ہے، دوست دوست کے ساتھ سیاست کر رہا ہوتا ہے، بیوروکریٹس اپنے سے چھوٹے کے ساتھ سیاست کر رہے ہوتے ہیں، بڑے اپنے چھوٹے کے ساتھ اور چھوٹے سب سے چھوٹے کے ساتھ سیاست کر رہا ہوتا ہے اور یہ سب مل کر عام لوگوں کے ساتھ سیاست، سیاست کھیل رہے ہوتے ہیں۔

ہول سیلرز، ریٹیلرز کے ساتھ اور ریٹیلرز اپنے گاہوں کے ساتھ سیاست کر رہا ہوتا ہے، وزیر اعظم اپنے وزراء کے ساتھ اور وزراء اپنے پارٹی عہدے داروں و کارکنوں کے ساتھ سیاست، سیاست کھیل رہے ہوتے ہیں یہ سلسلہ ہر طرف اوپر سے نیچے تک جوں کا تو ں چلا آرہا ہے، بس ہر شخص موقعے کی تاک میں بیٹھا رہتا ہے جیسے ہی اسے موقع مل جاتا ہے وہ سیاست کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اب ہم ہوا، پانی اور خوراک کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن سیاست کے بغیر ہمارے لیے ایک لمحہ بھی زندہ رہنا ممکن نہیں رہا ہے۔ ہماری زندگی سیاست کے بغیر اب ایسی ہے جیسا میٹھا شکر کے بغیر ہو جیسے سالن میں نمک اور مرچ ڈالنا بھول گئے ہوں جیسے اپنی شادی کے دن دلہا نئے کپڑے اور جوتے پہنا بھول گیا ہو جیسے کوئی لڑائی بغیر  ہتھیاروں کے لڑی جارہی ہو۔

ہم سیاست کے بغیر ایسے تڑپتے ہیں جیسے مچھلی پانی کے بنا تڑپتی ہے اب ہم اپنی محبوب ترین یا محبوبہ ترین چیز یا شخصیت کو دیکھ کر اتنا خو ش نہیں ہوتے ہیں جتنا کسی محفل، تقریب یا راہ چلتے سیاست پر بحث و مباحثے ہوتے ہوئے دیکھ کر ہوتے ہیں، سیاست اب ہماری دوسری نہیں بلکہ پہلی اور آخری محبت قرار پا گئی ہے۔

اب ہماری رگوں میں خون نہیں بلکہ سیاست دوڑتی اور چھلانگیں مارتی پھر رہی ہے ہم سیاست پر بات کرنے کے لیے کوئی موقع کوئی محل نہیں چھوڑتے ہیں۔ شادی ، منگنی یا خو شی کی کوئی تقریب کی حد تک تو ٹھیک ہے اب تو ہمیں جنازوں میں بھی مردے سے زیادہ سیاست میں دلچسپی ہوتی ہے ہماری باتیں سن کر مردہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میرے عزیز و اقارب اور دوستوں کو میری مغفرت سے زیادہ آج بھی سیاست کی پڑی ہوئی ہے۔

یہ حال صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ مشرق کے سارے ممالک میں یہی حال ہے۔ مشرق کے وہ سارے ممالک جنہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی ملی وہ سب سیاست میں آدھے نہیں بلکہ پورے کے پورے ڈوبے پڑے ہیں جب کہ اس کے بالکل بر عکس مغربی ممالک کے خواص اور عوام دونوں ہی سیاست میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے جتنی ہم رکھتے ہیں۔ اصل میں ہمارے ہاں سیاست لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ بھی ہے یعنی اگر بہتر حکومت یا بہتر لیڈر ہونگے تو وہ بہتر حکمرانی کر سکیں  گے تو شاید ہمارے اقتصادی مسئلے حل ہو جائیں گے جب کہ مغرب میں لوگوں کی روزی روٹی سیاست کی محکوم نہیں ہے۔ اسی لیے جو اہمیت اور حیثیت ہمارے ہاں سیاسی لیڈروں کو حاصل ہے وہ وہاں نہیں ہے۔

ہمارے ہاں ایک عجیب تماشہ لگا رہتا ہے وزیر آ رہا ہو یا جا رہا ہو تو گھنٹوں پہلے راستے بند کر دیے جاتے ہیں پولیس لگا دی جاتی ہے سائرن بجا تی پولیس موبائل گھومتی رہتی ہیں۔ پھر گھنٹوں بعد وزیر ایک شاہانہ جلوس میں نمودار ہوتا ہے دنیا میں جہاں جہاں بادشاہت ہے۔ ان کے لوگوں کو صرف ایک بادشاہ کا سامنا ہے جب کہ ہمارے ہاں جمہوریت ہے لیکن ہمیں چھوٹے چھوٹے سے ان گنت بادشاہوں کا روز سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے چھوٹے چھوٹے سے بادشاہ جب اپنے گھر سے نکلتے ہیں یا جاتے ہیں یا کبھی کبھار ان کا اپنے دفاتر کے  سیر سپاٹے کا پروگرام بن جاتا ہے تو وہ سب کے سب اپنے آپ کو دراصل بڑا با دشاہ سمجھ رہے ہوتے ہیں اور بننے کی پوری کو شش کر رہے ہوتے ہیں آگے پیچھے پو لیس موبائل سائرن بجاتی ہوئی چل رہی ہوتی ہے۔

محکمے کی ان گنت گاڑیاں ان کے چھوٹے سے جلوس کے ساتھ ساتھ ہوتی ہیں اگر آپ کی قسمت اچھی ہوئی اور ہمارے چھوٹے سے بادشاہ کی گاڑی کے شیشے کالے ہوئے نہ ہوئے تو آپ کو انھیں دیکھنے اور ان کے گاڑی میں شاہانہ انداز میں بیٹھے دیکھنے کا شرف حاصل ہو سکتا ہے اور اگر کسی روز آپ کی قسمت اور نصیب  عروج پر ہوں اور آپ کو ان سے ہاتھ ملانے یا بات کرنے کا شرف حاصل ہو جائے تو آپ کو ان کے انداز و ادا  اور ناز و نخروں سے باآسانی ان کے چھوٹے سے بادشاہ ہونے کا اندازہ ہو جائے گا اور اسی طرح بڑ ا با دشاہ نظر آنے اور بننے کی ایکٹنگ میں ان کی ساری میعاد گزر جاتی ہے اور پھر سابق ہونے کے بعد وہ اپنے موبائل فون میں سائرن کی آوازیں ریکارڈ کر کے فارغ اوقات میں سن سن کر دل بہلاتے رہتے ہیں۔

اصل میں وہ سب ایک مصنوعی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں یہ نہ کبھی اصل میں بادشاہ بن پاتے ہیں اور نہ ہی ایک اچھا انسان، بس ساری زندگی ان کی ایکٹنگ کرتے کرتے گزر جاتی ہے اور ہماری ساری زندگی ان کی ایکٹنگ دیکھتے دیکھتے گزر جاتی ہے۔ ساری زندگی کا نہ ہمیں پتہ چلتا ہے اور نہ انھیں پتہ چلتا ہے بس ہم سب مل کر روز سیاست زندہ با دکے نعرے لگا تے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔