بگڑا ہوا آوا

شاہد سردار  بدھ 14 اکتوبر 2015

یہ ہماری قومی زندگی کا ایک المیہ ہے کہ ہم آزمودہ حقیقتوں کو آزماتے رہتے ہیں اور مسلمہ اصولوں سے انحراف کر کے اس حسن ظن میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ ہم پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے تاریخ کے شعور سے محروم ہیں۔ وہ اقتدار کو اپنے گھرکی لونڈی سمجھتے ہیں اور ماضی سے کچھ نہیں سیکھتے۔ ایسے حکمران صرف ایجنسیوں کے تیار کردہ تجزیوں کو قابل توجہ سمجھتے ہیں اور ’’سب اچھا ہے‘‘ کی زلف کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ اس المیے کی دوسری وجہ بھی ایک قومی المیہ ہی ہے اور وہ ہے سیاسی قیادت کے قدرتی ارتقا کا فقدان۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملک کی تازہ ترین صورتحال پر کہا ہے کہ ’’پاکستان میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور حکومت کرنا مشکل ترین کام ہو گیا ہے۔‘‘ وزیر داخلہ کا یہ شکوہ یقینا بے جا نہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا آوا درست کیسے ہو؟ بنیادی طور پر یہ توقع حکومتوں ہی سے رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی درست پالیسیوں کے ذریعے قومی زندگی کے تمام شعبوں کی بتدریج اصلاح کریں اور اس کے لیے معاشرے کے ان تمام طبقات کو فعال اور متحرک کریں جو اس عمل میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بدترین کرپشن، خانہ جنگی اور دیگر مسائل سے دوچار ملکوں کو باصلاحیت اور مخلص قیادتوں نے مشکلات سے نجات دلا کر ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں لا کھڑا کیا۔ خود مسلم دنیا میں ترکی اور ملائشیا جیسے ممالک اس کی روشن مثال ہیں۔

کرپشن (بدعنوانی) کا ناسور ہمارے قومی امراض میں سب سے دیرینہ اور سب سے بڑا عارضہ ہے جو وطن کے قیام کے صرف دو سال بعد ہی لاحق ہو گیا تھا اور بدعنوانی (کرپشن) سے کھربوں روپے کا نقصان مسلسل ہو رہا ہے لیکن تادم تحریر پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی موثر قانون سازی نہیں کی جا سکی۔

ملکی اور غیر ملکی منظر نامے پر گہری نگاہ رکھنے والے ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘‘ نامی ادارے سے بخوبی واقف ہوں گے۔ یہ ادارہ دنیا کا ایک معتبر ادارہ ہے جو مختلف ممالک میں کرپشن کے کوائف اور حالات پر نظر رکھتا ہے۔ اس ادارے نے کرپشن کے حوالے سے 163 ممالک کی درجہ بندی کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا نمبر کرپٹ ممالک میں 142 واں ہے گویا 141 ممالک پاکستان سے کم کرپٹ ہیں۔

اس لسٹ کے مطابق صرف نائیجیریا، روانڈہ، برونڈی سے بھی پاکستان کا درجہ کمزور تر ہے اور سوڈان اور ہیٹی جیسے ممالک سے معمولی درجے میں بہتر ہے۔پاکستان میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ ملک کے اندر کرپشن کی صورتحال کیا ہے؟ تو 60 فیصد نے پست اور منفی رائے ظاہر کی۔ صرف 19 فیصد نے کہا کہ انسداد کرپشن کی کوششیں قدرے بہتر ہیں، 17 فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔ سارے ملک میں سے صرف چار فیصد لوگوں نے حکومت کی کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان ہم سے بہت بڑا ملک ہے (آبادی اور صوبوں کے لحاظ سے بھی) اس نے کرپشن سے تدارک کے لیے بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور 13 درجے اوپر چلا گیا ہے یعنی کرپشن کے لحاظ سے اس کی کیفیت میں 12 درجے کی بہتری آ گئی۔ یہ 163 ممالک میں اس وقت 70 ویں نمبر پر ہے۔کرپشن وسائل کی لوٹ مار یا بدعنوانی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ اس بدعت سے معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اقتصادی و معاشی عدم مساوات و ناہمواری سے طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ کئی ملکوں میں کرپشن کی وجہ سے قومی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ صورتحال ان ملکوں کے عوام کی اکثریت کے غربت و افلاس کے گراف میں بھی اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

اس بنیاد پر ہر سال دنیا بھر میں انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس موقعے پر کرپشن کے خاتمے کے موضوع پر مذاکروں اور سیمینارز کا اہتمام کر کے دانشوروں اور ماہرین کو اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ماضی میں پاکستان کا شمار کرپٹ ترین اور ناکام ترین ممالک میں ہوتا رہا۔

ماضی کی اکثر حکومتیں بھی کرپشن میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ملوث رہیں جن سے ملک بری طرح بدنام ہوا اور آئے روز کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی ایک بنیادی وجہ بھی کرپشن کو قرار دیا جاتا رہا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے متعلق یہ ناخوشگوار ردعمل سامنے آیا کہ پاکستانی قوم جمہوریت کی اہل ہی نہیں اور ملک کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے جسے حکمرانوں کی باقاعدہ سرپرستی حاصل ہے۔ اس حوالے سے کم و بیش تمام سرکاری محکموں سے متعلق عوام کی شکایات میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا اور عام تاثر یہ تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی کام جائز طریقے سے نہیں ہو سکتا بلکہ رشوت اور سفارش اس کے پاؤں سمجھے جاتے ہیں۔

کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لیے ساٹھ کے لگ بھگ قوانین نافذ العمل ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرے کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جا سکا بلکہ یہ زہر قوم کے رگ و ریشے میں اترتا چلا جا رہا ہے جو پورے معاشرے کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔ کرپشن ہمارے مذہبی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار یعنی امانت و دیانت کے لیے بھی ایک زبردست چیلنج ہے، جس کے نتیجے میں عدم اعتماد، عدم مساوات اور طبقاتی تفاوت پیدا ہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور پوری قوم کرپشن کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دے کراس نوع کی تمام برائیوں سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے پوری سرگرمی اور مستعدی کا مظاہرہ کرے کیونکہ کرپشن ہمارے معاشرے کا وہ بنیادی روگ قرار پا چکا ہے جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔

ایک عام آدمی جو اصول پسند ہے، محنتی ہے، ایماندار ہے، ذمے دار ہے اگر وہ کسی جائز مسئلے پر پریشان ہے یا اس کے حقوق کی پاسداری ہمارے معاشرے میں نہیں کی جا رہی تو اس کی ذمے داری ریاست پر ہی عائد کی جائے گی کیونکہ ریاست ہر فرد کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے دار ہے اور یہ عوام ہی ہیں جن کے لیے ریاست اور اس کے تمام ادارے تخلیق کیے گئے ہیں۔ شہریوں کو زندگی کی بہترین سہولتیں فراہم کرنا ریاست کا فرض ہے۔ یہ شہریوں کا استحقاق ہے کہ انھیں زندگی کی تمام ضروریات مہیا کی جائیں اور اس استحقاق ہی کو ریاست کی تمام پالیسیوں اور اصلاحات کی بنیاد ہونا چاہیے۔

خود چیف جسٹس نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ جب عمرانی معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ریاست اپنا جواز کھونے لگتی ہے، جب عوام اپنے آئینی حقوق سے محروم ہوتے ہیں تو مایوسی اور منافرت کے جذبات جنم لیتے ہیں، اور یہ صورتحال لاقانونیت کے دروازے کھول دینے کا سبب بنتی ہے۔

بہرحال چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر قانون سازی کی جس ضرورت کا اظہار کیا ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے اس پر فوری توجہ دی جائے۔

اس مقصد کے لیے ماہرین قانون اور ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی قائم کر کے اور مقررہ مدت میں کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر قوانین تجویز کرنے کا ہدف دیا جانا چاہیے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جو قوانین اور احتساب کا نظام قائم ہے، اس سے بھی استفادہ ضروری ہے لیکن بددیانتی، خیانت، رشوت اور بے ضمیری کا خاتمہ محض قانون کے ڈنڈے سے ممکن نہیں اس کے لیے دل کے اندر محتسب کا ہونا ضروری ہے اور یہ کام اخلاقی اقدار کی بحالی کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔