سو سالہ سالگرہیں کرشن چندر کے سوا

انتظار حسین  جمعـء 16 اکتوبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ایک دعوت نامہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے۔ ہم چونکے‘ زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا۔ وہ زمانہ ہی گزر گیا۔ آں دفتر را گاؤ خورد۔ گاو ٔ را قصاب برد۔ اب یہ کونسی ترقی پسند مصنفین ہے۔ جو دوست یہ پیغام لے کر آئے تھے انہو ں نے کہا کہ یہ انجمن مکرر ہے۔ اور اب وہ راجندر سنگھ بیدی کی سو سالہ سالگرہ منا رہی ہے۔

اور اس تقریب کی صدارت تمہیں کرنی ہے۔ پہلے ہمیں انجمن کے ظہور پر تعجب ہوا تھا۔ اب اس سے بڑھ کر تعجب ہوا۔ اس تقریب سعید کی صدارت ہم کریں گے۔ عجب ثم العجب۔ مگر ہمارے دوست نے یقین دلایا کہ اس واقعہ پر ایمان لاؤ۔ اپنی صدارت کی تجویز پر ہاں کہہ دو  چلو کہہ دیا۔

قائداعظم لائبریری کے بڑے ہال میں تقریب کا اہتمام تھا۔ ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ مجمع برحق۔ مگر وہ ترقی پسند کہاں ہیں جنھیں دیکھ کر ہمیں وہ پورا عہد یاد آ جاتا تھا۔ ایک شمع رہ گئی تھی جس کا نام تھا حمید اختر۔ کتنے دنوں تک وہ اکیلی ٹمٹماتی رہی۔ پھر وہ بھی مندی ہوتے ہوتے گل ہو گئی  ؎

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

مگر کچھ اس تحریک کے نام سے اپنے آپ کو منسوب کر کے لٹے پٹے ٹی ہاؤس میں نظر آتے تھے ان میں سے بھی کوئی نظر نہیں آ رہا۔ خیر سیکریٹری صاحب نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ کرسی صدارت پر بٹھایا۔ برابر میں بیٹھے نظر آئے حمید شاہد‘ نئے افسانے کی آبرو‘ اچھا آج کے ترقی پسند یہ ہیں۔ اسلام آباد سے آئے ہیں۔

خیر مضامین پڑھے گئے۔ راجندر سنگھ بیدی کے افسانے زیر بحث آئے۔ گرہن‘ اپنے دکھ مجھے دیدو‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان کے تجزیئے کیے گئے۔ بیدی کے فن افسانہ نگاری پر داد دی گئی۔ آخر میں ہماری باری آئی۔ ہم نے بھی اس رسم کو نبھایا۔ بتایا کہ افسانے کے حساب سے یہ دور حقیقت نگاری کا تھا۔

جو چار افسانہ نگار ابھر کر آئے اور اردو کے چار بڑے مانے گئے وہ یہی کرشن چندر، بیدی‘ منٹو اور عصمت۔ چاروں حقیقت نگاری کی ناک۔ مگر ایک فرق کے ساتھ کرشن چندر نے اپنی حقیقت نگاری میں رومانیت کا چھینٹا دیا ہوا تھا۔ اس سے وہ حقیقت نگاری کی دلکشی لے اڑی۔ راجندر سنگھ بیدی کی حقیقت نگاری آدرش یعنی آئیڈیلزم کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ہندو تہذیب نے ایک آدرش وادی عورت کو جنم دیا تھا۔ وہ تھیں سیتا جی۔ بیدی کے نسوانی کرداروں میں سیتا جی رچی بسی نظر آتی ہیں۔ ٹھیٹھ حقیقت نگاری اپ کو عصمت چغتائی کے افسانوں میں نظر آئے گی۔ اور اپنے عروج پر وہ منٹو کے یہاں نظر آئے  گی۔

یہ کہتے کہتے ہم نے اپنی ایک مسرت اور اس کے ساتھ تعجب کا اظہار کیا۔ وہ یہ کہ ہم نے پچھلے برسوں میں ا پنے تین بڑوں کا سال پیدائش منایا۔ راشد‘ فیض‘ منٹو‘ اتفاق دیکھئے کہ یہ تینوں مسلمان۔ اور تینوں پاکستانی۔ اس لیے کچھ ایسا تاثر ابھرتا ہے کہ ہم نے اپنے نئے ادب کے بڑوں میں سے تین اکابر چن لیے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ خیر سے تینوں مسلمان ہیں اور تینوں پاکستانی۔ انجمن نے اچھا کیا کہ اپنے انتخاب سے اس تاثر کو زائل کر دیا۔ راجند ر سنگھ بیدی ہندوستانی ہیں اور سکھ ہیں۔

اور پھر بڑے افسانہ نگار ہیں۔ اس میں خوشی کا پہلو ہے۔ تعجب ہمیں یہ سوچ کر ہوا کہ ارے ترقی پسند تحریک سے تو سب سے بڑھ کر کرشن چندر کا نام جڑا ہوا تھا۔ پھر وہ افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنے عہد کے سب سے بڑے افسانہ نگار مانے گئے تھے۔ انجمن نے انھیں فراموش کر کے بیدی کو سو سالہ سالگرہ کے لیے چنا تو اچھا کیا کہ مسلمانی اور پاکستانیت سے ہٹ کر ایک لکھنے والے کا انتخاب کیا۔ ممکن ہے یہ بھی سوچا ہو کہ بیدی کو اس بات کے نمبر تو ملیں گے کہ وہ سکھ ہیں اور ان کے افسانوں میں بواسطہ سکھ زندگی پنجاب کی زندگی کا سہانا نقشہ نظر آتا ہے۔

تقریب کے اختتام پر سیکریٹری صاحب ہمارے پاس آئے اور بتایا کہ ایسی بات نہیں ہے کہ ہم نے پاکستانیت کو مد نظر رکھا ہو۔ ترقی پسندی ہی ہمارے پیش نظر ہے۔ اگلی تقریب ہم عصمت چغتائی کے واسطے سے منعقد کریں گے۔ ہم ہنسے اور کہا کہ کرشن چندر کو پھر آپ نے فراموش کر دیا۔ کیا اس وجہ سے کہ وہ ہندو ہیں‘ عصمت جیسی بھی ہیں مسلمان تو ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین پر اس الزام کا ازالہ مسعود اشعر نے اس طریقہ سے کیا ہے کہ ہمیں بتایا ہے کہ فہمیدہ ریاض نے بطور خاص لاہور آ کر کرشن چندر کے سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ مگر انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس تقریب کے ساتھ واردات کیا گزری وہ ہم بتائیں گے۔

فہمیدہ ریاض ان دنوں کسی این جی او سے متعلق تھیں۔ ان کے ہاتھ اختیار بہت کچھ تھا۔ ان کی ترقی پسندانہ غیرت نے جوش مارا۔ سوچا کہ سب کی سالگرہ منائی جا رہی ہے اور کرشن چندر کا کوئی نام ہی نہیں لے رہا۔ انھوں نے ایک پروگرام بنایا کہ لاہور جا کر کرشن چندر کی شان میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ ہمیں بلاوا آیا۔ سو ہم بھی وہاں پہنچے۔ بہت خوشگوار فضا تھی۔ حاضرین قطار اندر قطار چلے آ رہے تھے۔ صدارت احمد ندیم قاسمی کی تھی۔ بس ان کی کسر تھی وہ آئیں تو جلسہ شروع ہو۔ مگر

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

پتہ چلا کہ قاسمی صاحب اب نہیں آ رہے۔ کیوں نہیں آ رہے۔ انھیں یہ پتہ چل گیا ہے کہ اس تقریب میں عابد حسین منٹو بھی شریک ہو رہے ہیں۔ تو اب ان کا نعم البدل عابد حسین منٹو تھے۔ بے چین ہو کر فہمیدہ بار بار فون کر رہی تھیں۔ آخر میں پتہ چلا کہ وہ بھی اب نہیں آ رہے۔ ارے آخر کیوں نہیں آ رہے۔ راوی نے بتایا کہ انھیں پتہ چل گیا ہے کہ اس تقریب کی صدارت تو احمد ندیم قاسمی کریں گے۔

اب فہمیدہ ریاض پریشان کہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ تب ہم نے زبان کھولی اور کہا کہ ہم یہاں احمد ندیم قاسمی کی صدارت تو دیکھنے نہیں آئے تھے۔ نہ عابد حسین منٹو کی خاطر آئے تھے۔ ہم تو کرشن چندر کے نام پر یہاں آئے تھے۔

اس سے انھیں کچھ حوصلہ ہوا اور تقریب شروع ہو گئی۔ اب یاد نہیں کہ صدارت کس نے کی اور مقالے کن لوگوں نے پڑھے۔ بہر حال سالگرہ ہو گئی۔

اصل میں کرشن چندر کو جو بے تحاشا مقبولیت ملی تھی اس کی سزا انھیں تقسیم کے بعد کے سالوں میں ملی۔ ترقی پسند بھی اب ان سے کنی کاٹ کر نکل جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔