افغان مسئلہ کا واحد حل: مذاکرات، مذاکرات

اسلم خان  ہفتہ 17 اکتوبر 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

افغان طالبان سے مذاکرات امن کا واحد راستہ ہیں پاکستان اور افغانستان کو جغرافیائی مجبوریوں نے ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ بنا دیا ہے پر امن اور مستحکم افغانستان کا واحد ضامن پاکستان ہے افغانستان کی تازہ ترین صورت حال نے امریکی حکمت کاروں آنکھیں کھول کر رکھ دی ہیں صدر اوباما اگلے ہفتے دوبارہ وزیر اعظم نواز شریف سے افغان امن مذاکرات کے لیے تعاون کی درخواست کریں گے۔

قندوز پر قبضے اور غزنی پر حملے نے افغان جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے جس کے بعد امریکا نے افغانستان سے مکمل انخلا کا معاملہ ایک سال کے لیے موخر کر دیا ہے۔ سقوط قندوز کے سانحے نے طالبان مخالف افغان شہری آبادی کی نفسیات پر ایسے گہرے زخم لگائے ہیں جو اب کئی دہائیوں تک نہیں بھر پائیں گے۔ عدم تحفظ کا احساس ’طالبان کی واپسی‘ کا خوف اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد قندوز کے شہری دیگر علاقوں میں دربدر پھر رہے ہیں لیکن قندوز واپسی کے لیے تیار نہیں۔

طالبان کے تین روزہ قبضے کے دوران ہونے والے واقعات نے شمالی افغانستان کے شہروں میں بسنے والوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ قندوز میں طالبان ناقابل یقین سرعت اور برق رفتاری سے اپنے اہداف تک پہنچے ہیں افغان وزارت اطلاعات کے ایک افسر نے بتایا کہ قبضے کے پہلے دن سر شام طالبان دستے میری رہائش کے باہر دستک دے رہے تھے میرے بزرگ والد نے انھیں بتایا کہ میں تو کابل میں ہوں جس پر وہ خاموشی سے چلے گئے۔

امریکی امداد سے چلنے والے ایک ادارے کی خاتون سربراہ کے ساتھ کچھ یوں بیتی کہ طالبان کے شہر کے وسط میں پہنچنے کے بعد جب وہ سراسیمگی کے عالم میں فرار ہو رہی تھی تو اسے کسی نامعلوم طالبان کمانڈر کی کال آئی جو اس کا حدود اربعہ معلوم کرنا چاہ رہا تھا۔

قندوز پر قبضے کے دوران طالبان کا شہریوں سے رویہ بڑا دوستانہ رہا طالبان لڑاکے جنگ کے دوران، امن کے وقفوں میں گلی کوچوں، چوک اور چوراہوں میں شہریوں کے ساتھ گروپ فوٹو اور سِلفیاں (Selfies) بناتے رہے، ہنستے کھیلتے اور مسکراتے ہوئے جو اُن کے اعتماد کا مظہر تھا۔

امریکی شہ دماغ ملا عمر کے انتقال کی تصدیق کے بعد افغان طالبان میں اختلافات کی پن چکیاں چلا رہے تھے کہ نفسیاتی جنگ کے میدان میں انھیں بے دست و پا کر دیا جائے جب کہ افغان طالبان کے نئے امیر جواں سال ملا اختر منصور خاموشی سے میدان جنگ کو جنوب سے شمال کی طرف منتقل کر رہے تھے کہتے ہیں کہ شمالی افغانستان کے دیہات میں عیدالالضحیٰ کے خطبوں میں نوجوانوں کو مال غنیمت کے بہت جلد حصول کی خوشخبریاں سنائی گئی تھیں۔

طالبان مکمل ہوم ورک اور تیاری کے بعد چہار اطراف سے قندوز پر حملہ آور ہوئے تو چشم فلک نے عجیب منظر دیکھا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق برداروں اور ان کی عقب میں پیدل لشکر کو دیکھ کر ٹینک سوار اور بکتر بلند گاڑیوں والی امریکی تربیت یافتہ افغان فوج چشم زدن میں فرار ہو گئی اور قندوز کے گورنر ننگے پاؤں بھاگے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور مال غنیمت کے لیے طالبان لشکروں کے ہمراہ آنے والے نوجوانوں نے ہزاروں چمچماتی گاڑیوں کے شو روم لوٹے اور مال غنیمت میں گاڑیاں لے کر اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے قندوز کوئی عام شہر نہیں، وسط ایشیا ء کی دہلیز ہے۔

مرکزی دروازہ ہے اور اب کوئی کارواں، کوئی تجارتی قافلہ دریائے آمو کے اُس پار نہیں جا سکتا جب تک ملا اختر منصور اُس کو راہداری کا پروانہ جاری نہیں کریں گے۔ قندوز پر حملے سے ایک ماہ قبل طالبان غزنی کی جیل پر دھاوا بول کر اسے توڑ چکے تھے جس میں انھوں نے عام قیدیوں کے ساتھ اپنے سیکڑوں ساتھیوں کو رہا کر دیا تھا۔ قندوز پر لشکر کشی سے ملا اختر منصور نے اختلافات کی طوطا کہانیوں کا عملی جواب پیش کر دیا ہے جس کے بعد ملا عمر کے بڑے صاحبزادے ملا یعقوب اور بھائی ملا منان کے اختلافات ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں۔

امریکی 2001ء سے 2015ء تک افغان تعمیر نو کے نام پر 100 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں جو تازہ صورت حال میں بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو چکی ہے بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور جاپان کی تعمیر نو کے لیے شروع کیے جانے والے مارشل پلان سے بھی زیادہ افغان کوہساروں میں ضایع ہو چکی ہے اب طالبان روایتی پختون جنوبی افغان ولائتوں کے بجائے، شمالی صوبوں کو میدان جنگ بنا چکے ہیں۔

شمالی افغانستان میں طالبان کے اثرات نہ ہونے کے برابر رہے ہیں یہ ازبکوں، تاجکوں اور فارسی بانوں کا علاقہ ہے جہاں پر احمد شاہ مسعود، عبدالرشید دوستم اور افغانستان کے موجودہ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا اثر رسوخ رہا ہے لیکن ملا اختر منصور نے طالبان شوری میں ایک ایک ازبک اور تاجک نمایندہ شامل کر کے اسے وسیع البنیاد نمایندگی کا حامل بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

قندوز اور غزنی کے واقعات نے 80ء کی دہائی کے وسط میں ایک نیم خواندہ افغان کمانڈر بہرام خان کی باتیں یاد دلا دیں جس نے کہا تھا ’یہ جہاد‘ عام افغان کے لیے آسانیاں اور سہولیتیں لے کر آیا ہے جس کی ساری زندگی ایندھن اور پانی کی فراہمی میں گزر جاتی ہے دشوار گزار وادیوں میں تنہائی جس کے لیے تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔ خواتین آدھا دن پانی کی تلاش میں صرف کر دیتی تھیں، مرد جنگلوں میں ایندھن تلاش کرتے تھے رہی زندگی تو اس سے موت ہمیشہ سہل رہی ہے۔

افغان جہاد نے اس سماجی ڈھانچے کو اتھل پتھل دیا تھا پانی اور ایندھن کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات خیمہ بستیوں میں گھر کی دہلیز پر میسر تھیں تعلیم اور صحت عامہ تو عیاشی کے زمرے میں آتی تھیں جس کا کوئی دیہی افغان تصور بھی نہیں کر سکتے تھا، رہا جہاد تو یہ زندگی کے معمول کا حصہ تھا اور یہ منظر تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوا تھا شمالی افغانستان، سوویت یونین سے ہونے والے افغان جہاد کی ’برکات‘ سے محفوظ رہا تھا پہلی بار طالبان کے دور حکومت میں ملا عبدالرزاق کی قیادت میں طالبان لشکر مزار شریف پہنچے تھے جہاں ازبکوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے رشید دوستم ترکی فرار ہو چکے تھے اور مالک پہلوان مزار شریف پر قابض تھے۔

اُس وقت پاکستان مالک پہلوان اور طالبان کے درمیان صلح صفائی کرا کے مستحکم افغانستان کے خواب دیکھ رہا تھا یہ کالم نگار بھی ائیر فورس کے جہاز پر سینئر سفارت کار عزیز احمد خاں کی سربراہی میں جانے والے سرکاری وفد کے ہمراہ مزار شریف گیا تھا۔ ازبک، طالبان اتحاد صرف تین دن چل سکا تھا جس کے بعد 5 ہزار طالبان کو مزار شریف کے باہر دشت لیلی میں خاک و خون سے نہلا دیا گیا تھا۔

اب اسی علاقے کی وسعتوں میں طالبان اپنی قرار گاہیں اور قلعے بنا چکے ہیں، کہتے ہیں کہ غزنی کو امریکی فوج کے سریع الحرکت دستوں نے جان پر کھیل کر بچایا ہے کہ قندوز کے بعد غزنی کا سانحہ برداشت کرنے کے لیے واشنگٹن کی اشرافیہ تیار نہیں تھی۔ اوباما نے افغانستان میں امریکی افواج کے قیام میں ایک سال کی توسیع کر دی ہے لیکن اس موسم سرما میں جب بھاری سامان جنگ کی نقل و حمل دشوار ہو جائے گی افغان فوج موٹر سائیکل سوار طالبان بندوق برداروں کا مقابلہ کیسے کرے گی؟

شمالی افغانستان میں بغلان کا دارالحکومت پل خمری ہو یا ولایت تخار کا پایہ تخت تعلقان سب شہر سردیوں میں جنگ کے خوف سے لرز رہے ہیں بدخشان کے چند اضلاع پر تو طالبان پہلے ہی قابض ہو چکے ہیں۔

معروف پنجابی کہاوت :دن نوں راج فرانگی دا تے رات نوں راج ملنگی دا

جیسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ اگر کابل، قندہار، جلال آباد، مزار شریف جیسے چند شہروں کا نام افغانستان ہے تو وہاں پر ہمارے دفتر خارجہ کے بقول ایک منتخب قانونی حکومت کی علمداری ہے لیکن باقی ماندہ 90 فیصد افغانستان، اُس کے کوہسار، مرغزار دشوار گزار گھٹیاں اور وسیع و عریض صحرا بھی ناقابل تردید حقیقت ہیں جو کہ اس شہری افغان حکومت کی عملداری سے باہر ہیں۔ افغان طالبان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ 90 فیصد دیہی افغانستان پر اُن کا سکہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ امریکی پالتو داعش کی کوئی حقیقت نہیں، اس لیے طالبان سے مذاکرات امن کا واحد راستہ ہے جو اسلام آباد سے گزرتا ہے۔

افغان باقی، کوہسار باقی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔