سلطان کا فیصلہ

رئیس فاطمہ  اتوار 18 اکتوبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جب شعور نے آنکھیں کھولیں اور اپنے اطراف کتابوں کو پایا تو سب سے پہلی کتاب جس کے حروف سے آشنائی ہوئی۔ وہ تھی ’’الف لیلہٰ‘‘ اور ’’باغ و بہار‘‘ کہانی سننے کا چسکہ تو وراثت میں ملا تھا۔

کبھی دادی کی گود میں سر رکھ کر اورکبھی ان کی پنڈلیاں دبانے کے عیوض، نہ جانے کہاں کہاں کی داستانیں کہانیوں کے انداز میں خون میں رچ بس گئی تھیں، انگریزی اور فرانسیسی ادب سے آگاہی بھی والد صاحب کے بیانیہ انداز سے ہوئی جس کے لیے ہم سب ان کے بستر کے گرد جمع ہوکر کوئی نئی کہانی سننے کے منتظر ہوتے اور پھر جب حرف آشنا ہوئے تو پہلی دلچسپی داستانوں سے ہوئی۔ جو آج تک برقرار ہے۔

ان داستانوں میں جو بات میں نے قدر مشترک دیکھی۔ وہ تھی انسانوں سے محبت، حکمرانوں کا عدل و انصاف، لالچ اور غیبت سے پرہیز، ناداروں کی دل جوئی، خداترسی، والدین کی خدمت اور انھیں تکلیف نہ دینا، ان کا احساس ماننا، بدگوئی، الزام تراشی اور احسان کے بدلے ایذا پہنچانا۔ وہ تمام باتیں جو خدا اس کے رسولؐ اور انبیائے کرام کے نزدیک قابل مذمت ہیں۔ ان کوکہانی کے پیرائے میں اس طرح بیان کیا جاتا تھا کہ غیر محسوس طریقے سے وہ انسانی ذہن پر اثرانداز ہوتی تھیں اور انسان غیر شعوری طور پر ان برائیوں سے بچا رہتا تھا۔

’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کی حکمت آموز کہانیوں کا مرکزی خیال بادشاہوں کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے قلم کو خوشامد سے آلودہ کرنے کے بجائے، اپنے حصے کا کام عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔

ایک بہت پرانی کتاب کے مطالعے کے دوران ایک تاریخی واقعہ نظر سے گزرا تو جی چاہا کہ اس کا تذکرہ کروں۔ عدل و انصاف کسی حکمران کے لیے کیوں ضروری ہے اور اقتدارکی مسند کو کیوں ’’کانٹوں کا بچھونہ‘‘ کہا گیا ہے؟ یہی عدل و انصاف تھا جس کی وجہ سے ان عادل حکمرانوں کے ذکر خیر سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ جسم خاک ہوئے، لیکن نام زندہ ہے کہ انصاف کا ترازو ایک ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہے جو لمحہ بھر میں فیصلہ کردیتا ہے۔

سن 800 ہجری کے آغاز پر والی  گجرات سلطان احمد شاہ کی مسند نشینی کے آٹھ سال پورے ہو رہے تھے۔ درباریوں نے سلطان کو جشن منانے کا مشورہ دیا۔ سلطان احمد شاہ نہایت رحم دل، سخی اور عادل بادشاہ تھا۔ اس کا عدل مثالی تھا، رعایا اسی لیے ہر لمحے اپنے بادشاہ کی لمبی عمر کی دعائیں مانگتی تھی۔ وہ لہو ولعب اورعیاشیوں سے بھی کوسوں دور تھا۔

رعایا پر جی کھول کر خرچ کرتا تھا، لیکن امرا و رؤسا اور درباریوں کی عیش پرستی کے خلاف تھا، بلاضرورت وہ کوئی جشن منعقد نہیں کرواتا تھا۔ لیکن رعایا اور درباریوں کے اصرار پر اس نے محدود پیمانے پر جشن کی اجازت دی۔ شہر میں چراغاں کیا گیا، غریبوں کو خیرات دی گئی اور انھیں خوشی میں شریک کیا گیا۔ بادشاہ کا داماد ایک نہایت وجیہہ آدمی تھا اور دربارکا رکن بھی تھا۔ جشن کے دوران کسی بات پہ ناراض ہوکر ایک غریب مزدور کو قتل کردیا۔ یہ خبر جب سلطان تک پہنچی تو وہ سخت برہم ہوا اور کہا ’’قانون شریعت میں امیر اور غریب کا امتیاز نہیں ہوتا۔ میرا داماد ہونا اسے سزا سے نہیں بچا سکتا۔ اس کو گرفتار کرکے جلد ازجلد عدالت کے سپرد کرو۔‘‘ مقدمہ عدالت میں چلا اور ثابت ہوگیا کہ سلطان کا داماد قاتل ہے۔

لیکن قاضی نے مقتول کے وارثوں کو بلا کر خوں بہا پہ راضی کرلیا، کہ اب مزدور واپس تو نہیں آسکتا اور پھر وہ سلطان کا داماد ہے۔ سزا ہونے سے شہزادی بیوہ ہوجائے گی، لیکن تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ عقل مندی سے کام لو اور اسے معاف کرکے خوں بہا کی رقم لے لو۔‘‘ لہٰذا بائیس اشرفیوں کے عیوض وارثوں نے راضی نامے پہ دستخط کردیے۔ جب کاغذات تیار ہوگئے تو آخری فیصلے کے لیے کاغذات سلطان احمد شاہ کے سامنے پیش کیے گئے جن میں قاضی صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ انھوں نے گواہوں کے اور عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں تصدیق کی کہ ملزم واقعی قتل عمد کا مرتکب ہوا ہے۔ لیکن مقتول کے ورثا برضا و رغبت خوں بہا لینے پہ راضی ہیں۔لہٰذا میں نے ان کی مرضی و منشا سے اشرفیاں خوں بہا کی تجویز کی ہیں۔ حکم آخر کے لیے کاغذات حضورکے دستخط کے لیے موجود ہیں۔‘‘

سلطان نے جب روئیداد پڑھی تو فرمایا ’’یہ درست ہے کہ ورثا خوں بہا کی رقم لینے پر راضی ہوگئے ہیں لیکن یہ فیصلہ بہت کمزور ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ خوں بہا کی شرط اس لیے قبول کی گئی کہ قاتل میرا داماد ہے۔ وارثوں نے یہ سوچ کر خوں بہا لینے پہ آمادگی ظاہر کی ہوگی کہ اس فیصلے سے بادشاہ ممنون ہوگا اور انھیں مزید مراعات بھی مل سکتی ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے دور فیصلے سے شاہی خاندان کے افراد کو کھلی چھوٹ مل جائے گی، کہ جس پر چاہیں عرصۂ حیات تنگ کردیں، جسے چاہیں مار دیں اور پھر غریب و نادار لوگوں کو خوں بہا کی رقم دے کر صاف بچ جائیں۔

میں مکمل طور پر اس فیصلے کے خلاف ہوں، گوکہ اس سے میری بیٹی کو صدمہ پہنچے گا اور اسے بیوگی کا داغ سہنا پڑے گا۔ لیکن خاندان اور اولاد کی خوشی کی خاطر غریب رعایا کی جان اس طرح ارزاں کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میرے داماد نے جو اس طرح بے باکانہ ایک غریب نوجوان کا خون کردیا، اس میں ضرور یہ گھمنڈ شامل ہوگا کہ وہ سلطان کا چہیتا داماد ہے اس لیے اسے بچانے کے لیے عدالت اور قاضی بھی سرگرم ہوں گے، تاکہ بادشاہ کو خوش کرکے اپنے درجات بھی بلند کیے جائیں۔ لہٰذا میں کسی طرح اس فیصلے کی توثیق نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اگر اس خوں بہا کے فیصلے پہ عمل ہوگیا اور 22 اشرفیوں کے عیوض میرے داماد کی جان بخش دی گئی تو اس فیصلے سے دولت مندوں کو بڑی ڈھیل ملے گی۔ کیونکہ شاہی خاندان کے لیے بائیس اشرفیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، لیکن میری نظر میں انسانی جان کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے، لہٰذا میں اس فیصلے کی توثیق نہیں کرتا، اسے منسوخ کرتا ہوں اور حکم دیتا ہوں کہ قاتل کو دار پر چڑھایا جائے۔

اور یہ بھی حکم دیتا ہوں کہ پھانسی کے بعد عبرت کے لیے قاتل کی لاش کو چوبیس گھنٹوں تک شہرکے وسط میں لٹکایا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو، تاکہ پھر کسی دولت مند کو کسی غریب کا خون بہانے کی جرأت نہ ہو۔‘‘ اس فیصلے کے بعد ہر طرح سے سلطان سے سفارش کی گئی کہ وہ اپنے چہیتے داماد کی جاں بخشی فرمائیں۔ لیکن عادل سلطان نے جواب دیا کہ ’’یہیں تو میری نیت کا حساب ہے۔میں یہ داغ لے کر قبر میں نہیں جانا چاہتا کہ میرے دور میں رعایا کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔‘‘

آج ہر معاملے میں قصاص کی کارفرمائیاں جلوہ افروز ہیں۔ انصاف کا وجود عدالتوں نے ختم کردیا۔ سب کچھ آسان ہے۔ حالیہ برسوں میں کتنے واقعات سامنے آئے۔ جنھیں قتل عمد ہی کہا جائے گا، لیکن نہ ایف آئی آر درج ہوئیں نہ کسی کو سزا ہوئی۔ دن دہاڑے میڈیا پہ مونچھوں پہ تاؤ دیتے، غراتے، دھمکاتے اہل کار اپنی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں، کیونکہ ’’ظل الٰہی‘‘ کا سایہ ان کے سروں پہ سایہ فگن ہے۔ لیکن جب زمین کروٹ لیتی ہے تو سب کچھ لمحے بھر میں ختم ہوجاتا ہے، سمندر ناراض ہوتا ہے تو بستیاں اور محلات کو بہا کر لے جاتا ہے، طوفان باد و باراں دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ملیا میٹ کردیتا ہے۔

پھر نہ خائن بچتے ہیں، نہ ’’پلی بارگین‘‘ کے مجرم، تمام تر بے ایمانیوں سے لوٹی گئی دولت، محل، نوادرات، ہیرے جواہرات، قیمتی گھڑیاں، ہیرے جڑے چشمے، سب کچھ دھرا رہ جاتا ہے۔ اور باقی رہ جاتی ہے بدنامی۔ آج کسی کو بدنامی سے کوئی سروکار نہیں کہ بدنامی ہی ان کے کارناموں کی امین ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ اگر ہر ناجائز طریقے سے دولت نہ کمائی تو حکمرانی اور عدالتوں کا کیا فائدہ؟ قیامت، عذاب قبر اور نامہ اعمال سب آج کے حکمرانوں کے لیے محض خرافات ہیں۔ عدل، انصاف کس چڑیا کا نام ہے؟ انھیں نہیں پتہ۔ لیکن بصیرت والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔