مہاکلاکاروں نے سول سروس کا ایک اور ’’برہمن گروپ‘‘ بھی بنوا لیا

رحمت علی رازی  اتوار 18 اکتوبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

یہ خبر ہمارے لیے کسی مذاق سے کم نہ تھی کہ بیوروکریٹوں کا مہاکلاکار گروپ کمال فنکاری سے حکمرانوں سے ’’قابل ترین افرادی قوت‘‘ پر مشتمل سول سروس کا ایک نیا برہمن گروپ ’’نیشنل ایگزیکٹو سروس‘‘ (این ای ایس) بنوانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس گروپ کا پہلا بیچ 50 افسران پر مشتمل ہو گا اور اس کے خدوخال طے کرنے کے لیے ایک اسپیشل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو ایک ہفتے میں منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے اور سول سروس پر ممکنہ اثرات کی رپورٹ پیش کریگی۔

ہم حیران تھے کہ احسن اقبال مشاورتی مجلسوں، کانفرنسوں اور کمیٹیوں کی ایک طویل جھک جھک کے بعد سول سروس کے 12 گروپوں میں اصلاحات تو نہ لا سکے مگر ایک ’’طاقتور میرٹ‘‘ پر مبنی ایسا گروپ لانے میں ضرور کامیاب ہو گئے جسے ایک برہمن گروپ کہا جا رہا ہے مگر ڈی ایم جی جیسا برہمن گروپ تو قبل ازیں بھی موجود ہے، سیکرٹریٹ گروپ جیسا وشنوگروپ، پولیس سروس جیسا کھتری گروپ اور فارن سروس جیسا ویش گروپ بھی سول سروس کے سرتاج بنے ہوئے ہیں جن کے ہوتے سول سروس کے دیگر تمام گروپس خود کو شودر تصور کرتے ہیں، ایسے میں ایک اور ایلیٹ گروپ جو کہ ان سے بھی برتر اور طاقتور ہو اسے ’’مہادیو گروپ‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔

ہماری ذاتی اصطلاح میں ’’این ای ایس‘‘ نیشنل ایگزیکٹو سروس نہیں بلکہ وہ مہاکلاکار گروپ ہو گا جو حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے میں ’’پی ایچ ڈی‘‘ کرنیو الے افسروں پر مشتمل ہو گا اور حکمرانوں کو شیشے میں اتارنے میں اس کا کوئی لاثانی نہیں ہو گا۔ پاکستان میں سیاست زدہ بیوروکریسی کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی تاریخ بنفس خود تاریخ ِپاکستان کی ہم عمر ہے جس کی ایلیٹ کلاس کا اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایک اہم کردار رہا ہے۔

پے درپے آنیوالی سول اور فوجی حکومتوں نے حسب ِدستور افسر شاہی کو اپنے ذاتی مقاصد اور طوالت ِحکمرانی کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کو انتخابات جتوانے میں بابو کریسی کا بڑا ہاتھ رہا ہے، اس کی طاقت کا اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ مادرِ ملت اور پسرِاقبال جیسی عظیم تاریخی ہستیوں کو بھی الیکشن میں اپنے غیر معقول حریفوں کے مقابلے میں ناقابل یقین شکست سے دوچار کیا۔

حکمرانوں کا ٹریک ریکارڈ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے کہ انھوں نے جب بھی الیکشن میں حصہ لیا پنجاب کی بیوروکریسی کو اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے بھرپور استعمال کیا مگر 2013ء کے انتخابات میں کئی ایک طاقتور بیوروکریٹس نے نہ صرف ان کا ساتھ دینے سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ ان کے سیاسی مخالفوں کی طرف ذہنی میلان کا بھی اظہار کیا، اگست 2014ء کے اسلام آباد دھرنوں کے دوران بھی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے حکومتی احکامات ماننے سے صریحاً معذوری ظاہر کر دی تھی جس سے حکمرانوں کو بے بس ہو کر اپنے بچاؤ کے لیے فوج کے آگے ہاتھ جوڑنا پڑے تھے اور حکمران یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ سول سرونٹس مطلوبہ صلاحیتوں سے عاری، نااہل اور نکمے ہیں لہٰذا جب تک بیوروکریسی میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں ان کے لیے آئندہ انتخابات جیتنا تو دَرکنار، یہ پانچ سال پورے کرنا بھی مشکل ہو جائینگے۔

یہی وجہ تھی کہ اس تناظر میں وزیر اعظم کو بڑے جلے بھنے انداز میںیہاں تک کہنا پڑا کہ ’’پاکستان کی موجودہ سول سروس ایک عضو معطل بن چکی ہے جس کی وجہ سے عوام تک ان کے جائز حقوق نہیں پہنچ رہے، اور اب ضروری ہو گیا ہے کہ افسر شاہی میں خاطر خواہ تبدیلیاں لا کر اس کی اصلاح کا بندوبست کیا جائے‘‘۔ اس نیک کام کے لیے باقاعدہ ایک ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی اور وفاقی وزیر احسن اقبال کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا جنھوں نے سول سروس ریفارمز پر گاہے بہ گاہے بیشمار اجلاس بلائے جن میں انھوںنے خود بھی طرح طرح کا فکر و فلسفہ جھاڑا اور علمی و عملی ناقدین سے بھی گونا گوں آراء لیں۔

جب کہ حکومت کا مطمع نظر کچھ اور ہی تھا کیونکہ وہ انتظامی اصلاحات کی آڑ میں کچھ ایسا کھیل کھیلنا چاہتی تھی جس سے اس کے ذاتی مفادات کو تحفظ ملے اور آئندہ انتخابات میں بھی بیوروکریسی اس کی آلۂ کار بن کر اسے فیضیاب کروائے۔

ہم تو یہ گمان کر رہے تھے کہ حکومت سول سروس اصلاحات کے لیے کسی طور بھی سنجیدہ نہیں اور احسن اقبال بھی محض اپنا اور قوم کا وقت ضایع کرنے کے لیے آئے روز نئی سے نئی بیٹھکیں رکھ لیتے ہیں اور نیا سے نیا ایجنڈا تشکیل دیتے رہتے ہیں جب کہ عملی طور پر وہ کچھ کرنے سے اسلیے قاصر ہیں کہ وہ طاقتور بیوروکریسی کے سامنے بے بس ہیں مگر ہم اس وقت بہرحال حیران رہ گئے جب دو ماہ قبل‘ اگست 2015ء کو حکمرانوں نے متوقع سول سروس اصلاحات کے تحت سول بیورو کریسی کی ترقیوں کے لیے پاک فوج کا نظام اختیار کرنے کے لیے پوری طرح تیاری ظاہر کی اور ایک ایسا پلان پیش کیا جسکے تحت یہ واضح کیا گیا کہ سینیارٹی کا تصور ختم کر دیا جائے گا اور ترقیاں افسران کی تربیت اور کارکردگی کی بنیاد پر دی جائینگی‘ پلان میں یہ جزئیات بھی شامل تھیں کہ سرکاری افسران کو ترقیاں کارکردگی کی بنیاد پر ہی دی جائینگی۔

ترقیوں کے اس ٹھوس ڈھانچے میں صرف اہلیت کے حامل افسران ہی ترقیاں پائیں گے ۔ صحیح عہدے کے لیے صحیح آدمی کے انتخاب کے تصور کو بھی اختیار کیا جائے گا‘ مشترکہ تربیتی پروگرام کے بعد گروپ مختص کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا اور عقبی دروازے سے داخلہ بند کر دیا جائے گا‘ سلیکشن/ ریکروٹمنٹ کی سطح پر باقاعدہ ملازمت کا تجزیہ کیا جائے گا اور کسی شخص کے تعلیمی پس منظر کو تقرری و تعیناتی میں اہمیت دی جائے گی‘ بیورو کریٹس کو عام تربیت کے بجائے صرف اسپیشلائزڈ ٹریننگ دی جائے گی‘ جب کہ تربیت کو ملازمت کی کارکردگی سے منسلک کر دیا جائے گا۔

نچلے کیڈر کے لیے جامع تربیت فراہم کی جائے گی اور ٹریننگ اکیڈمی میں شاندار افسر کی تقرری کو یقینی بنایا جائے گا اور ٹاپ کرنے والوں کے لیے مالی فوائد اور پوسٹنگ کو یقینی بنایا جائے گا‘ اے سی آر جمع کرانے کے لیے مدت یقینی بنانے اور ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے ساتھ انٹیلی جنس رپورٹس شیئر کی جائینگی‘ سہولتوں کی فراہمی کو کارکردگی اور اہداف کے حصول سے منسلک کیا جائے گا‘ خراب کارکردگی پر سزا اور اچھی کارکردگی پر سہولتیں دی جائینگی‘پلاننگ کمیشن کے اعلیٰ حکام نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو پاک فوج کا مکمل طریقہ کار اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

سول سروسز ریفارمز کی تیاری کے ذمے داروں نے فوج کے پروموشن سسٹم کا جائزہ لینے کے لیے آرمی کی ایم ایس برانچ کا دورہ کیا اور اسکو اپنی اصلاحات کا حصہ بنانے کے لیے حتمی شکل دیدی جس کو آنیوالے ہفتوں میں وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کیا جانا تھا‘ پاک فوج کے پروموشن سسٹم کے ساتھ ساتھ ترغیبی نظام کی بھی تجویز تھی؛ شاندار بین الاقوامی طریقے کی بنیاد پر شفاف جانچ کا نظام نافذ کرنے اور تمام گروپس/ کیڈرز/ سروسز کی ترقیوں کے لیے یکساں نظام میں تربیت کی باقاعدہ جانچ کی سفارش کی گئی۔

پلاننگ کمیشن نے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے ذریعے پولیس سروس میں بھرتیوں اور انتخاب کے لیے علیحدہ ریکروٹمنٹ /سلیکشن سسٹم کو حتمی شکل دی اور خصوصی ماہرین اور عمومی ماہرین کو الگ کرنے کے لیے ہر پوزیشن کے لیے متواتر منصوبہ بندی اور ڈی سینٹرلائزیشن/ ڈیلیگیشن آف پاور بھی متعارف کروانے کا منصوبہ پیش کیا، حکومت نے مختلف گروپوں کے لیے اور نئے گروپ متعارف کرانے اور ان میں اضافہ کے لیے 2017ء سے اکٹھا امتحان متعارف کرانے کو فائنل کر لیا، پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کو نافذ کرنے کے لیے ہر سروس کے لیے پی ای آر فارم کی سفارش بھی کی گئی جب کہ ہر عہدے، وزارت اور ڈویژن کے لیے کے پی آئیز (کی‘ پرفارمنس انڈیکیٹرز) کی تجویز بھی شامل تھی۔ یہ سفارش بھی کی گئی کہ تنخواہوں کے اسٹرکچر کو سونے کی قیمت سے منسلک کر دیا جائے۔

مارکیٹ میں تنخواہوں کے تصور پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔ اس پلان کے مطابق یہ بھی طے پایا تھا کہ نیشنل ایگزیکٹو سروس کے نام سے سول سرونٹس کا ایک نیا اور علیحدہ سروس گروپ بھی تشکیل دیا جائے گا جس میں بشمول افواجِ پاکستان زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ، حاضر سروس افراد اور دیگر ہر طرح کی قابل افرادی قوت کو بھرتی کیا جائے گا۔

ہم ایک بار پھر حیرت زدہ ہیں کہ متذکرہ ’’ریفارمز چارٹر‘‘ کے دیگر مندرجات پر تو تاحال کوئی مثبت پیشرفت سامنے نہیں آ پائی تاہم نیشنل ایگزیکٹو سروس گروپ کو وجود میں لانے کے لیے حکومت پوری طرح کمربستہ نظر آئی‘ اسی سلسلہ میں گزشتہ ہفتے احسن اقبال کی زیرصدارت اجلاس منعقد ہوا جس میں نیشنل ایگزیکٹو سروس کو آئندہ چند ہفتوں میں عملی جامہ پہنانے کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا گیا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نیشنل ایگزیکٹیو سروس گروپ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے براہِ راست گریڈ 19 میں بھرتی ہو گی۔

این ای ایس میں ترقیوں کی رفتار باقی گروپوں سے کہیں زیادہ تیز ہو گی اور اس کا پہلا بیچ پچاس افسروں پر مشتمل ہو گا‘ سروس گروپ میں کم سے کم عمر کی حد 42 سال رکھی جائے گی اور اس گروپ کے لیے اسپیشل پے پیکیج متعارف کروائے جائینگے، گروپ میں شامل افسران کو 5 سال کی مدت میں گریڈ 20 اور 10سال کی سروس پر گریڈ 21 جب کہ 12 سال کی سروس پر گریڈ 22 مل جائے گا‘ افسران کی ابتدائی تنخواہ 2 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ ہو گی اور کارکردگی کی بنیاد پر ایک لاکھ 60 ہزار روپے اضافی ملیں گے‘ 20 گریڈ کی تنخواہ 6 لاکھ روپے تک ہو گی‘ 21 گریڈ کی 8 لاکھ جب کہ گریڈ 22 کی 10 لاکھ روپے تک ہو گی۔

 

نیشنل ایگزیکٹیو سروس کے خد و خال طے کرنے کے لیے گریڈ22 کے افسران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ندیم حسن آصف، سیکریٹری کابینہ راجا حسن عباس، سیکریٹری ریلوے پروین آغا اور چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ شامل ہیں۔ مہا دیو گروپ کے مشمولات پر عمیقاً غور کیا جائے تو حکمرانوں کے پس پردہ عزائم واء ہو کر سامنے آ جاتے ہیں اور نیشنل ایگزیکٹو سروس متعارف کروانے کا حقیقی ایجنڈا بھی بلاشک و شبہ عیاں ہو جاتا ہے کہ سول سروس کے موجودہ 12 گروپوں کا قبلہ درست کرنے کی بجائے ایک اور یعنی 13 واں گروپ عملی قالب میں ڈھالنے کے مطالب بجز سیاسی مقاصد کے اور کچھ نہیں ہو سکتے اور اس کے محرکات میں کسی بھی لحاظ سے انتظامی اصلاح کا کوئی پہلو مخفی یا نمایاں نظر نہیں آتا۔

آئیے ذرا اس اعلامیہ کے جزئیات کا انفرادی جائزہ لے کر دیکھتے ہیں: سب سے پہلے تو یہ کہنا کہ ’’نیشنل ایگزیکٹو سروس گروپ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے براہِ راست گریڈ 19 میں بھرتی ہو گی‘‘۔ ہمارے ناقص علم کے مطابق دنیا میں بشمول پاکستان ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کہ سول سروس کے کسی بھی گروپ کی براہِ راست بھرتی گریڈ 19 سے شروع ہوتی ہو‘ سول سروس کا نظام جن جن ممالک میں رائج ہے وہاں اس کی بنیادی ملازمت کا آغاز پے سکیل 17 سے ہی ہوتا ہے لیکن یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ وہ مقابلے کا امتحان دینے کے فوراً بعد 19 ویں گریڈ میں ڈائریکٹ ایلوکیشن (اختصاص) حاصل کر لے۔ ہمارا سول سروس اسٹرکچر برطانیہ کے افسرشاہی نظام پر قائم ہے مگر اس طرح کا لغو خیال کبھی وہاں بھی نہیں آزمایا گیا۔

گریڈ 19 میں براہِ راست بھرتیوں سے ان باصلاحیت سول سرونٹس کے دلوں پر کیا بیتے گی جو ایک طویل عرصہ تک گریڈ 17 ہی میں جامد رہتے ہیں اور کبھی بھولے سے انہیں گریڈ18 مل بھی جائے تو اس سے آگے انہیں کبھی ترقی نصیب نہیں ہوتی اور وہ ایک مضبوط اعمالنامے کے ہوتے پروموشن کے انتظار میں ہی ریٹائرمنٹ کو پہنچ جاتے ہیں یا صوابدیدی / جبری ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ گریڈ 19 سے ملازمت کا آغاز کرنیوالے کیا چائنہ، برطانیہ یا امریکا سے وارد ہونگے یا ان کی صفات فرشتوں کی سی ہونگی جو عام افسران کی استعداد کار سے زیادہ مستعد ہونگے؟

اس پر مستزاد یہ کہ ’’این ای ایس میں ترقیوں کی رفتار باقی گروپوں سے کہیں تیز ہو گی اور اس گروپ میں شامل افسران کو پانچ سال کی مدت میں گریڈ 20‘ دس سال کی سروس پر گریڈ 21 جب کہ محض بارہ سال کی ملازمت کے بعد گریڈ 22 مل جائے گا اور سروس گروپ میں کم سے کم عمر کی حد 42 سال مقرر کی جائے گی‘‘۔ اب یہاں یہ تو واضح کر دیا گیا ہے کہ کم سے کم حد عمر 42 سال ہو گی یعنی گریڈ 19 میں ڈائریکٹ بھرتی ہونے والا امیدوار 42 سال کی عمر سے اوپر اوپر ہو سکتا ہے۔

اس میں بالائی عمر کا تذکرہ نہ کر کے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی امیدوار پچاس‘ پچپن‘ ساٹھ‘ پینسٹھ‘ ستر یا پچھتر کسی بھی عمر کا ہو سکتا ہے حالانکہ عام ریٹائرمنٹ کی سرکاری حد ساٹھ سال ہے مگر ایگزیکٹو گروپ کی ریٹائرمنٹ کے لیے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا‘ بالفرض اگر این ای سی کی ملازمت کا دورانیہ 42 سے 60 سال تک ہے تو کل مدت ملازمت 18 سال بنتی ہے جب کہ 22 ویں گریڈ تک رسائی کے لیے صرف 12 سال کی گروپ سروس درکار ہے تو گویا کوئی شخص 48 سال کی عمر میں بھرتی ہو کر 60 سال کی عمر میں 22 ویں گریڈ میں پہنچ کر ریٹائر ہو سکتا ہے اور دورانِ ملازمت تمام مراعات اور ریٹائرمنٹ پر پنشن و دیگر فوائد حاصل کر سکتا ہے۔

اب ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو سخت محنت اور مقابلے کے بعد 21 سے 28 سال کی حد عمر میں امتحان دینے کا استحقاق رکھتے ہیں اور 30 سے 35 سال کی سروس کے بعد بڑی مشکل سے تین چار ترقیوں کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں یا ان سے بھی محروم رہ جاتے ہیں‘ اب بھی کئی لاوارث اعلیٰ افسر اپنی ترقیوں کے حصول کے لیے عدالتوں میں دَربدر ہیں جب کہ دوسری طرف وہ لوگ ہونگے جو ایک محکمہ سے صوابدیدی ریٹائرمنٹ لے کر 42 سال سے اوپر کسی بھی حد عمر میں نیشنل ایگزیکٹو سروس گروپ میں بھرتی ہوسکیں گے اور پچھلے ادارے کے مراعات و فوائد کے ساتھ ساتھ اس مہادیو گروپ کی مراعات و سہولیات سے بھی پوری طرح بہرہ مند ہو پائیں گے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مختلف سروس گروپوں سے من پسند افراد کو ’’این ای ایس‘‘ کا حصہ بنا کر انھیں دس بارہ سال خوب مزے کرائے جائینگے تا کہ وہ بھی حکومت کو جی بھر کے ’’مزے‘‘ کروا سکیں۔ نیشنل ایگزیکٹو سروس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ’’اس سروس گروپ کے لیے اسپیشل پے پیکیج متعارف کروائے جائینگے: افسران کی بنیادی تنخواہ 2 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ ہو گی اور کارکردگی کی بنیاد پر ایک لاکھ 60 ہزار روپے (ماہانہ) اضافی ملیں گے، گریڈ20 کی تنخواہ 6 لاکھ روپے تک ماہانہ ہو گی‘ گریڈ 21 کی 8 لاکھ روپے جب کہ گریڈ 22 کی 10 لاکھ روپے علاوہ اضافی گڈ وِل کے ہو گی‘‘۔

یہاں یہ بات کتنی تفرقہ آمیز ہے کہ ڈی ایم جی سے لے کر پوسٹل سروس تک سول سروس کے تقریباً سب گروپوں کے آخری گریڈ کی جتنی تنخواہ ہے ‘ اس کے قریب قریب نیشنل ایگزیکٹوسروس کے اولین گریڈ کی بنیادی تنخواہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ اور پھر این ای ایس کے بنیادی گریڈ پر ’’شاباشی الاؤنس‘‘ اگر ایک لاکھ 60 ہزار روپے ہو گا تو یقینا گریڈ22 پر 5 لاکھ کے لگ بھگ ہونا چاہیے‘ اس طرح این ای ایس کا ایک افسر اگر ماہانہ 15 لاکھ روپے تک وصول کر سکتا ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ اس کے ایک مہینہ کی تنخواہ عام گروپوں کے کسی عام افسر کی کل سروس کے الاؤنسز کے برابر ہو گی۔

جہاں تک دیگر مراعات‘ الاؤنسز اور پنشن کا تعلق ہے تو اس بارے میں بھی ایک بھاری عدد کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے‘ اگر گہرائی سے تجزیہ نہ بھی کیا جائے اور ایک بالعموم اعداد و شمار کا تاثر لیا جائے تو بھی یہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ نیشنل ایگزیکٹو سروس ایک ’’شارٹ سروس ایلیٹ گروپ‘‘ (مختصر دورانیے کا عالی درجہ افسر شاہی گروہ) ہے جسے ایک خاص مقصد کے تحت تخلیق کیا جا رہا ہے جس کی غرض و غایت کلی طور پر سیاسی ہے نہ کہ انتظامی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہاکلاکاروں پر مشتمل یہ طاقتور ترین برہمن گروپ بنانے میں حکمرانوں کے جو بھی ذاتی مفادات و مقاصد مضمر ہیں اس سے قطع نظر موجودہ سول سروس کے جملہ گروپوں میں نفرت و حقارت کا ایک ناقابلِ فہم ماحول جنم لے گا اور پاکستان کی بیوروکریسی جو پہلے ہی عوامی مسائل سے برّیت اختیار کر چکی ہے اور کارکردگی کے حوالے سے صفر نتائج دے رہی ہے۔

اس میں مزید فرسٹریشن پیدا ہو گی اور حکومت کے خلاف بغاوت کی ایک ایسی فضا ابھرے گی جس سے بیوروکریسی اور ڈیموکریسی کے مابین ایک کبھی نہ ختم ہونے والی نفسیاتی‘ ذہنی اور جسمانی جنگ چھڑ جائے گی اور نقصان دونوں اطراف سے پھر عوام ہی کا ہو گا۔ ہماری افسر شاہی اپنے اپنے گروپوں میں پہلے ہی گروپ بندیوں کا شکار ہے‘ کچھ دھڑے یا انتظامی فرقے حکومت کے ہاتھوں سیاست زدہ ہیں اور کچھ اندرونی سیاست کا شکار ہیں‘ بیوروکریسی کے بہت سے طبقات خود کو لاوارث گردانتے ہیں۔

بہت سے ایسے بھی ہیں جو افسرانہ کلچر میں رہ کر بھی اپنے جائزحقوق و استحقاق سے محروم ہیں اور اپنے تئیں شاہی محروم کہلاتے ہیں اور شودر افسران میں شمار ہوتے ہیں لیکن نیشنل ایگزیکٹو سروس کی آمد سے تو ڈی ایم جی‘ سیکرٹریٹ گروپ‘ پولیس سروس اور فارن سروس والے برہمن بھی خود کو دوسرے لاوارث گروپوں کی طرح شودر سروس کہنے پر مجبور ہو جائینگے خواہ ان ہی گروپس میں ہی سے حکومت اپنے پسندیدہ افسران کو این ای ایس میں لے کر آئیگی۔

احسن اقبال نے حکومتی اعلامیہ عام کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا اس تیرہویں گروپ کو بھی ایسے ہی ایک کٹھن مقابلہ جاتی امتحان سے گزرنا ہو گا یا پبلک سروس کمیشن انہیں فقط ان کی تعلیمی قابلیت‘ سابقہ سروس ریکارڈ یا ذاتی اے سی آر کی بنیاد پر منتخب کریگا۔ ہمارے خیال میں اتنے عمر رسیدہ یا تجربہ کار افراد کو سینٹرل سپریئر سروس کے عمومی امتحان سے قطعی طور پر نہیں گزارا جائے گا بلکہ ان کے لیے ایک برائے نام تحریری ٹیسٹ ضرور ہو گا جس میں پوچھے گئے سوالوں کے جوابات امیدواروں کو پہلے ہی سے معلوم ہونگے یا پھر ایک وائیوا ووسی (اورل ٹیسٹ) یا انٹرویو ہو گا جس میں شمولیت کرنیوالے کائیاں اشخاص کو بلاچوںچرا پاس کر دیا جائے گا۔

وجہ یہ ہے کہ جب ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص ادارہ تشکیل دیا جائے گا اور اس میں ملک بھر کے مختلف اداروں سے مخصوص لوگوں کو چن کر لایا جائے گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں ہر قیمت پر پاس بھی کیا جائے گا۔ یہ ایک رسمی امتحان ہو گا جو صرف اس الزام سے مبرا ہونے کے لیے لیا جائے گا کہ بیوروکریسی کے دیگر 12 گروپس کو یہ انگشت نمائی کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ انہیں تو سول سروس میں آنے کے لیے کڑے امتحان سے گزارا جاتا ہے جب کہ نیشنل ایگزیکٹو سروس کی بلاامتحان 19 ویں گریڈ میں بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ ہماری نظر میں تمام حقائق وتحقیقات اور رموز و کنائے اسی نتیجہ پر تمام ہوتے ہیں کہ یہ تیرہواں گروپ دراصل سول سروس کا گروپ نہیں بلکہ یہ حکومتی اسٹیبلشمنٹ کا ایک سیاسی ونگ ہو گا جو پاکستان کی اصل اسٹیبلشمنٹ کا مقابل و متبادل ہو گا اور اس کا کام صرف اور صرف حکومتی مفادات کا تحفظ ہو گا۔

سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ندیم حسن آصف کی سربراہی میں نیشنل ایگزیکٹو سروس کے خدوخال اور گروپ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے وزیر منصوبہ بندی کا کمیٹی قائم کرنا اس اَمر کا صریح عندیہ ہے کہ این ای ایس کی بنیاد سیاسی اکائیوں پر دھرنے کی پوری پوری تیاریاں ہو چکی ہیں۔ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کی نواز شریف سے خصوصی رغبت اور ’’غیرمعمولی صلاحیتیں‘‘ کسی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ سیکریٹری کابینہ راجا حسن عباس تو سیدھے سیدھے حکومت کے بھرم خواہ ہیں۔ سیکریٹری ریلوے محترمہ پروین آغا کے بارے میں ہمارے پاس مناسب الفاظ نہیں کہ ان کی موزوں تعریف کر سکیں لیکن جہاں تک چیئرمین ایف بی آر کی بات ہے تو ان کے لیے اتنا ہی عرض ہے کہ ایسے افراد افسرشاہی کو بہت کم نصیب ہوتے ہیں جو اداروں کا نام ’’اونچا‘‘ کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے‘ انھوں نے بڑی محنت کر کے ایف بی آر کے ساتھ جس ’’مثالی سلوک‘‘ کا جھنڈا گاڑا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

آج تاجر اور صنعتکار ان کی ’’مثالی‘‘ پالیسیوں پر سراپا احتجاج ہیں‘ وہ بینکوں میں رقم جمع کروانے سے بھی گریزاں ہیں جس کی وجہ سے بینک خود بہت پریشان ہیں‘ اگر کوئی عوام دوست اور بزنس فرینڈلی افسر ایف بی آر میں تعینات ہوتا تو آج ہمارا ملک ٹیکس دینے کے معاملے میں نمبر ون ہوتا‘ ایسے عوام دشمن اور حکمران نواز شاہی افسران جب سول سروس کے اس نام نہاد تیرہویں گروپ کے ماسٹرمائنڈ اور تھنک ٹینک ہونگے تو کواکب و عواقب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نوآموز برہمن گروپ کن خدوخال کا ہو گا۔ آثار بتاتے ہیں کہ حکمران آمدہ انتخابات میں ایک بار پھر منظم دھاندلی کرنے اور چوتھی بار وفاق کو سرکرنے کا انہونا خواب دیکھ رہے ہیں‘ یقینا اسی لیے انھوں نے مڈٹرم پلاننگ کا آغاز کر دیا ہے۔

ہم تو یہ سمجھے تھے کہ حکومت واقعی بیوروکریسی کے نکمے پن سے نالاں ہے اور وہ اس کے فرسودہ اور غیرموثر نظام کو ازسرنو مرتب کرنا چاہتی ہے اور ایک ایسا عوام دوست نظام لانا چاہتی ہے جو حقیقتاً عوام کے مسائل حل کرنے‘ اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور سیاسی اثر و رسوخ کی پرواہ کیے بغیر ملکی ترقی کے لیے جہاد کرنے پر ایمان رکھتی ہو‘ اسی لیے ہم نے مسلسل تین چار ماہ افسر شاہی میں اصلاحات متعارف کروانے کے لیے کالم پر کالم لکھ ڈالے اور باقاعدہ غور و خوض کے ساتھ ایسی ایسی اچھوتی تجاویز قلمبند کیں کہ اگر حکمران واقعی انہیں عملی جامہ پہناتے تو آج یقینا پاکستان کی بیوروکریسی میں ایک انوکھا انقلاب برپا ہو چکا ہوتا۔

اس کے ساتھ ساتھ مقابلے کے امتحانات دینے والے امیدواروں کی شکایات کا ازالہ بھی ہو چکا ہوتا اور بیوروکریٹس کا قبلہ بھی درست ہو چکا ہوتا۔ اگر واقعی ہماری تجاویز پر عمل کیا جاتا تو آج افسران میں برہمن اور شودر کی تفریق بھی ختم ہو چکی ہوتی اور سب کے جائز حقوق بھی انہیں مل رہے ہوتے‘ ہماری تجاویز بے مقصد کاموں میں الجھے حکمرانوں نے رَدی کی ٹوکری میں ڈال دیں اور ان پر عمل کرنا تو دُور کی بات‘ ان پر غور کرنا بھی سیاسی گناہ تصور کیا‘ یہی وجہ ہے کہ ہم اور ہم ایسے بیسیوں کالم نویس جو سول سروس اصلاحات پر اخباروں کے صفحات کالے کرتے رہے آج عجیب سے مخمصوں غلطاں ہیں کہ وژن 2025ء کے سہانے سپنے دکھانے اور بیوروکریسی کی روح کے علاج کے لیے بڑی بڑی مفکرانہ تقاریر جھاڑنے والے احسن اقبال نے بالآخر اصلاحات کی پٹاری کھولی بھی تو اس میں سے کون سا کوبرا نکالا: نیشنل ایگزیکٹو سروس کا‘ بہرحال یہ نیا گروپ حکمرانوں کا ساتھی ہے جو مخالفوں کو ڈنکنے اور لتاڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اصلاحات کے باب پر حکمرانوں نے ایک بدستور ہلچل کے بعد جب ایک طویل خاموشی سادھ لی تھی تو صحافتی حلقوں میں یہ تاثر تھا اور ہمارا خود کا بھی یہی قیاس تھا کہ اسٹیبلشمنٹ میں کچھ ایسے طاقتور نقاب پوش موجود ہیں جنھوں نے حکمرانوں کے اصلاحاتی ایجنڈے کی فائل کو آگ اور اصلاح کاروں کے منہ پر چپ کی مہر لگا دی ہے‘ بدیں وجہ وزیر پلاننگ نے اب کوئی اور ریفارمنگ پلان دینے سے توبہ کر لی ہے مگر ہماری سب قیاس آرائیاں محض قیاس آرائیاں ہی ثابت ہوئیں اور ایک لمبی ڈبکی کے بعد وزیراصلاحات اپنی مٹھی میں سول سروس کے تیرہویں گروپ کا نادیدہ خزانہ لے کر نمودار ہوئے‘ ابھی انھوں نے آدھی مٹھی ہی وا کی ہے اور اہل بصیرت و بصارت کو نظر آ گیا ہے کہ ان کی مٹھی میں جو کچھ بھی ہے وہ حکومت کے لیے ہیرا اور عوام کے لیے ریت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔